ریڈیو کے لیے گاتے ہوئے مہدی حسن
نے کئی سال گزارے۔ ریڈیو ہی سے اُنہیں لائیو گانے کی مشق بہتر بنانے کا
موقع ملا اور پھر زندگی بھر اُنہوں نے محفلیں پوری دل جمعی سے گائیں۔ ریڈیو
پر گائی ہوئی غزلیں اُن کے فن کا بہترین نمونہ ہیں۔ اُن کی گائی ہوئی غزلیں
ریڈیو کے خزانے میں بیش بہا اضافہ ہیں۔ جب کبھی پاکستان میں موسیقی کی
تاریخ مرتب کی جائے گی، ریڈیو پاکستان کے لیے گائی ہوئی مہدی حسن کی غزلیں
سب سے نمایاں ہوں گی۔ اردو ادب کے آسمان پر روشن ستاروں کا درجہ رکھنے والی
سیکڑوں غزلیں مہدی حسن نے اِس کمال سے گائیں کہ پھر کِسی اور میں ہمت پیدا
نہ ہوئی کہ اُنہیں گانے کا سوچ بھی سکے۔ میر تقی میر کی غزل ”دیکھ تو دل کہ
جاں سے اٹھتا ہے“ مہدی حسن نے اِتنی عمدگی سے گائی ہے کہ کم ہی لوگ کسی غزل
کو گا پائے ہوں گے۔ ”پتہ پتہ بوٹا بوٹا“ بھی میر تقی میر کی ایسی غزل ہے
جسے پاک و ہند میں بہتوں نے گایا مگر مہدی حسن کی سی بلندی کو نہ پہنچ سکا۔
”دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے“ نے بھرپور مقبولیت حاصل کی اور مہدی حسن
کو لوگ پہچاننے لگے۔ فیض احمد فیض کی غزل ”گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار
چلے“ گانے کے بعد مہدی حسن کے فن کی عظمت کو سبھی تسلیم کرنے لگے۔
مہدی حسن کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے ریڈیو کے لیے خاصی مُشکل
کلاسیکل دُھنوں پر بھی غزلیں گائیں۔ اساتذہ کی بہت سی غزلیں صرف مہدی حسن
نے گائیں، پھر کِسی نے اُنہیں گانے کی کوشش نہیں کی۔ ریڈیو کے ابتدائی دور
کی بہت سی غزلوں کی دُھنوں میں کلاسیکل انگ نمایاں ہے۔ بعض دُھنیں خاصی خشک
اور دُُشوار ہیں۔ اُس دور کے بہت سے گلوکار بھی اِن دُھنوں کو بھاری پتھر
قرار دیتے ہوئے صرف چُوم کر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ ”سبزہ ہے، آبجو ہے“، ”تازہ
ہوا بہار کی“، ”لے چلا جان مِری روٹھ کے جانا تیرا“، ”دل میں پوشیدہ تپ عشق
بتاں رکھتے ہیں“ اور ایسی ہی بہت سی دوسری دُھنیں بھی ہیں جو کسی اور کے بس
کی بات نہیں تھیں۔ مہدی حسن نے فن کے اظہار میں کبھی تساہل اور تن آسانی سے
کام نہیں لیا۔ وہ مشکل پسند طبیعت کے مالک تھے۔ جن تجربات سے لوگ گھبراتے
تھے وہ اُنہوں نے خوب کئے اور کامیاب رہے۔
مہدی حسن کے لیے بڑے پیمانے پر کچھ کر دکھانے کا موقع حاصل کرنا ہی مشکل
کام نہ تھا بلکہ اپنی آواز کو بہتر بنانا بھی لازم تھا۔ ابتداءمیں آواز
پتلی تھی۔ فن کے معاملے میں تو کوئی کسر بزرگوں نے نہیں چھوڑی تھی مگر آواز
کے معاملے میں مہدی حسن کو اپنی کمزوری کا احساس بہت جلد ہوگیا تھا۔ وہ
کلاسیکل گانے والے فنکار تھے۔ ٹھمری بھی عمدگی گاتے تھے اور خیال بھی۔ کچھ
مدت خالص کلاسیکل گانے کے بعد اُن کے دِل میں یہ خیال جا گزیں ہوا کہ
گائیکی ایسی ہونی چاہیے کہ سُننے والے کو بھی چین ملے اور گانے والے کو بھی
لطف اور قرار آئے!
1950 کے عشرے میں اُستاد بڑے غلام علی خاں کے چھوٹے بھائی اور محمد رفیع و
غلام علی کے اُستاد یعنی اُستاد برکت علی خاں اور علی بخش ظہور غزل گائیکی
کے حوالے سے نمایاں مقام پر تھے۔ بیگم اختر بھی غزل بہت عمدگی سے گاتی تھیں۔
فریدہ خانم نے بھی صلاحیتوں کا اظہار شروع کردیا تھا۔ ایسے میں غزل سرائی
کو اپنے فن کی مرکزی جولاں گاہ بنانے کا فیصلہ مہدی حسن کے لیے چیلنج سے کم
نہ تھا۔ بہت جلد اُنہیں اندازہ ہوگیا کہ غزل کے لیے جو آواز درکار ہے وہ
اُن کے پاس نہیں۔ مہدی حسن نے بتایا تھا کہ اُن کی آواز کیریئر کی
ابتداءمیں بہت پتلی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بچہ گا رہا ہو! پھر
اُنہوں نے بزرگوں کے مشورے سے آواز کو بھاری کرنے کی مشق کی۔ کھرج کا معیار
بلند کرنے پر خاص توجہ دی۔ جب آواز کی ”بیس“ بڑھ گئی تو غزل گانا اُن کے
لیے زیادہ آسان اور دل کش ہوتا چلا گیا۔
1950 کے عشرے میں ریڈیو کے علاوہ فلم بہت بڑا میڈیم تھا۔ جو بھرپور شہرت
اور کامیابی کی تمنا رکھتے تھے وہ فلمی دنیا کا رخ ضرور کرتے تھے۔ فلموں
میں کام کرنے یا گانے پر ملک گیر شہرت ملتی تھی۔ فلم انڈسٹری کراچی میں بھی
تھی مگر لاہور مرکز تھا۔ کراچی میں بننے والی فلمیں صرف سندھ سرکٹ میں
ریلیز ہوتی تھیں۔ لاہور میں تیار ہونے والی فلمیں پورے ملک میں جگہ بناتی
تھیں اور لوگ اُن کا انتظار کیا کرتے تھے۔ مہدی حسن کو بھی احباب نے مشورہ
دیا کہ فلموں میں قسمت آزمائیں کیونکہ فلموں کے ذریعے اُن کی آواز دور دور
تک پہنچے گی۔
مہدی حسن ابتداءمیں پرائیویٹ محافل میں طلعت محمود اور کندن لعل سہگل کے
فلمی گانے لوگوں کو سُناتے تھے۔ لاہور میں پروڈیوسر ڈائریکٹر رفیق انور کے
بھانجے کی شادی کے موقع پر مہدی حسن نے چند فلمی گیت گائے تو رفیق انور نے
اُن کی صلاحیتوں کو پہچان لیا۔ انہوں نے مہدی حسن کو اپنی فلم ”شکار“ کے
لیے سائن کیا۔ یہ فلم کراچی میں بن رہی تھی۔ اِس میں مہدی حسن نے دو غزلیں
گائیں۔ ”میرے خیال و خواب کی دنیا لئے ہوئے“ مہدی حسن کا پہلا ریکارڈیڈ
فلمی گانا ہے۔ اِسی فلم میں اُنہوں نے ”نظر مِلتے ہی دِل کی بات کا چرچا نہ
ہو جائے“ بھی گایا۔ شاعر قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم تھے۔
”شکار“ 1956 میں ریلیز ہوئی۔ مگر اِس سے قبل ”کنواری بیوہ“ ریلیز ہوئی جس
میں مہدی حسن نے تین گیت (”تم ملے، زندگی مسکرانے لگی“، ”کوئی صورت نہیں اے
دل“ اور ”آنکھوں میں چلے آؤ“) گائے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مہدی حسن نے
”کنواری بیوہ“ میں عنایت حسین بھٹی کے ساتھ ایک کورس میں بھی حصہ لیا تھا۔
یہ مہدی حسن کی پہلی اور احمد رشدی کی دوسری فلم تھی۔ 1956 میں مہدی حسن نے
”مس 56“ میں دو گیت ”یہ چاندنی یہ سائے“ اور ”محبت کرلے جی بھرلے“ گائے تھے۔
فلمی دنیا میں آمد مہدی حسن کے لیے زیادہ شاندار نہ تھی۔ اُن کے ابتدائی
فلمی گیت لوگوں کے ذہن پر نقش نہ ہوسکے۔ کچھ یہ بات بھی تھی کہ مہدی حسن کے
حصے میں آنے والے گانے عوام کے لیے زیادہ قابل قبول نہ تھے۔ نذیر بیگم کے
ساتھ گایا ہوا ”یہ چاندنی، یہ سائے“ البتہ کچھ اِس نوعیت کا تھا کہ لوگوں
کو تھوڑا پسند آیا۔
فلمی گلوکاری کے میدان میں مقابلہ بہت سخت تھا۔ انڈسٹری نئی تھی۔ فلمیں کم
بنائی جاتی تھیں۔ بھارتی فلموں کی درآمد کا سلسلہ بھی جاری تھا جس کے باعث
پاکستانی فلموں کے لیے باکس آفس پر کامیابی بڑا چیلنج ہوا کرتی تھی۔ عنایت
حسین بھٹی، سلیم رضا اور منیر حسین کامیاب گلوکار تھے جو عوامی مزاج کے
مطابق گاتے تھے اور اِن سے گوانے والے بھی مقبولیت کے تقاضوں کو سمجھتے تھے۔
اِن منجھے ہوئے گلوکاروں کے ہوتے ہوئے کامیاب ہونا کوئی بچوں کا کھیل نہ
تھا۔ 1956 سے 1961 کے دوران مہدی حسن نے صرف 9 فلمی گیت گائے۔ 1958 سے 1961
کے دوران اُنہیں صرف ایک فلم ”غریب“ ملی۔ 1962 میں ریلیز ہونے والی فلم
”سُسرال“ کے لیے مہدی حسن نے منیر نیازی کا لکھا ہوا ”جس نے مِرے دِل کو
درد دیا“ جو خاصا کامیاب رہا۔ اِسی سال انہوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے
ساتھ ”قیدی“ کے لیے ”ایک دیوانے نے اِس دِل کا کہا مان لیا“ گایا جو لوگوں
نے پسند کیا۔ 1962 میں مہدی حسن نے 5 فلموں میں 5 گیت ہی گائے۔ اِن میں
”انقلاب“ بھی شامل تھی جو مسعود رانا کی پہلی فلم تھی۔
1963 میں مہدی حسن کو صرف ایک فلم ”ہمیں بھی جینے دو“ ملی جس میں گایا ہوا
”الٰہی آنسو بھری زندگی کِسی کو نہ دے“ ان کا پہلا سُپر ہٹ گیت تھا۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلمی دُنیا میں نام کمانے کے لیے مہدی حسن کو
کِس قدر محنت کرنی پڑی ہوگی۔ احمد رشدی اور مسعود رانا آواز کی کوالٹی کے
اعتبار سے فلم میکرز کی اولین ترجیح تھے کیونکہ فلم بین اُن کی آسان اور
رواں گائیکی کو بہت پسند کرتے تھے۔ خاص طور پر احمد رشدی کی آواز خالص فلمی
تھی۔ ان کی موجودگی کو مہدی حسن کے لیے زیادہ فلمیں حاصل کرنا بہت مشکل کام
تھا۔ اِس مرحلے پر اُنہوں نے ہمت نہ ہاری اور پورے تحمل کے ساتھ محنت کرتے
رہے۔
1964 میں ریلیز ہونے والی فلم ”فرنگی“ میں مہدی حسن کی گائی ہوئی فیض احمد
فیض کی غزل ”گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے“ شامل کی گئی۔ فلم اور غزل
دونوں کے مقدر میں سُپر ہٹ ہونا لکھا تھا۔ اِس کے بعد مہدی حسن کو مُڑ کر
دیکھنا نہیں پڑا۔ 1960 کے عشرے کے باقی سال مہدی حسن کے لیے فن اور کامیابی
دونوں حوالوں سے یادگار رہے۔ اُنہوں نے شاندار گیت گائے اور شہرت نے اُن کے
قدم چُومے۔
مہدی نے 1964 میں 6 فلموں کے لیے 6، 1965 میں 6 فلموں کے لیے 7، 1966 میں
15 فلموں کے لیے 19، 1967 میں 11 فلموں کے لیے 12، 1968 میں 21 فلموں کے
لیے 24، 1969 میں 23 فلموں میں 29، 1970 میں 18 فلموں میں 20، 1971 میں 20
فلموں کے لیے 24، 1972 میں 30 فلموں کے لیے 39، 1973 میں 22 فلموں کے لیے
29، 1974 میں 37 فلموں کے لیے 60، 1975 میں 44 فلموں کے لیے 71، 1976 میں
35 فلموں کے لیے 60، 1977 میں 32 فلموں کے لیے 55، 1978 میں 28 فلموں کے
لیے 35، 1979 میں 18 فلموں کے لیے 29 اور 1980 میں 12 فلموں کے لیے 22 گانے
گائے۔ 1974 سے 1977 تک (یعنی 4 سال) انہوں نے ہر سال 50 سے زائد گانے گائے۔
1966 سے مہدی حسن کے کیریئر نے اُڑان بھرنا شروع کیا۔ 1970 تک وہ بھرپور
کیریئر کے لیے مکمل طور پر تیار ہوچکے تھے۔ 1966 سے 1980 تک کا زمانہ مہدی
حسن کے فلمی کیریئر کا سب سے بار آور دور ہے جس میں انہوں نے 531 گیت گائے۔
مہدی حسن نے 45 سالہ فلمی کیریئر میں 441 فلموں کے لیے 626 گیت گائے۔
اُنہوں نے 366 اردو فلموں کے لیے 541 اور 74 پنجابی فلموں کے لیے 82 گیت
گائے۔ 2000 میں ریلیز ہونے والی ”چن پتر“ مہدی حسن کی آخری فلم تھی۔
مہدی حسن نے 50 سے زائد ایسے فلمی گیت بھی گائے جن کی فلمیں ریلیز نہ
ہوسکیں۔ اِن میں سے بہت سے گیت ریلیز ہوئے اور لوگوں نے خوب سراہا۔
مہدی حسن نے تمام چھوٹے بڑے اداکاروں کے لیے فلمی گیت ریکارڈ کرائے مگر اُن
کی آواز محمد علی مرحوم پر خوب جچتی تھی۔ نور جہاں کے ساتھ اُن کی آواز خوب
کھلتی تھی۔ انہوں نے میڈم کے ساتھ گیت گائے۔ ایم اشرف سے اُن کا تال میل
اچھا رہا اور اُن کی موسیقی میں 100 سے زائد گیت گائے۔ نثار بزمی نے بھی
مہدی حسن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر خوب توجہ دی اور خاصے معیاری
گیت گوائے۔ اُنہوں نے اصغر علی محمد حسین، حسن لطیف للک، رشید عطرے، خواجہ
خورشید انور، صفدر حسین، نذیر علی، کمال احمد، خلیل احمد، دیبو بھٹاچاریہ،
لعل محمد اقبال، طافو، ماسٹر رفیق، ماسٹر عنایت حسین، ناشاد، اے حمید، روبن
گھوش، شمیم نازلی، بابا جی اے چشتی، وزیر افضل اور دوسرے بہت سے موسیقاروں
کے ساتھ کام کیا۔
مہدی حسن کا کیریئر ہر اعتبار سے قابل رشک ہے۔ شہرت نے زندگی بھر ان کا
ساتھ دیا۔ بے مثال توقیر سے بھی وہ ہمکنار ہوئے۔ اُن کا احترام کرنے والوں
میں حکمران بھی تھے اور عام آدمی بھی۔ ہر سطح پر اُن کی بے مثال پذیرائی کی
گئی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اُنہیں شہنشاہِ غزل کا خطاب دیا اور اُنہوں نے
اِس خطاب کا حق ادا کردیا۔
(جاری ہے) |