غزوہ بدرمیں مشرکین مکہ
کومسلمانوں کے ہاتھوں سخت نقصان پہنچاتھاان کے بڑے بڑے سردارمارے گئے تھے
اورپورے عرب میں ان کی رسوائی ہوئی تھی۔اس طرح ذلت آمیزشکست کازخم یوں
توہرشخص کے دل میں تھالیکن جن لوگوں کے باپ ،بیٹے ،بھائی،بھتیجے،خویش
اوراقارب بدرمیں مارے گئے تھے ان کورہ رہ کرجوش آتاتھاجذبہ انتقام سے ہرشخص
کاسینہ لبریزتھاہجرت کاتیسراسال تھا۔ مکے کے کافرجنگ بدرکی شکست کابدلہ
لینے کے لئے پورے ایک سال سے تیاریوں میں تھے۔ مشرکین مکہ نے چندے اکٹھے
کیے اورسارامال جوابوسفیان بن حرب شام سے لایاتھامسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے
کے لئے وقف کردیالڑائی کا سامان اکٹھاکیاتین ہزارکابھاری لشکرترتیب
دیاگیالشکرکے ساتھ تین ہزاراونٹ اوردوسوگھوڑے تھے ۔اس لشکرکاسپہ
سالارابوسفیان تھا۔ آپﷺکے چچاحضرت عباسؓ مکے میں تھے جوں ہی
کفارکالشکرمدینے پرحملہ کرنے کے لئے روانہ ہواحضرت عباسؓ نے ایک قاصدکے
ذریعے آپﷺکواطلاع دی۔مکے کے قریش ابوسفیان کی بیوی ہندہ کی سرکردگی میں
عورتوں کوبھی ساتھ لے آئے تھے کہ وہ میدان ِجنگ میں مردوں کوغیرت دلاتی
رہیں کافروں کے لشکرنے اُحدکے مقام پرجومدینہ منورہ سے شمال کی طرف تین میل
پرایک پہاڑہے ڈیرہ ڈال دیاانہوں نے آتے ہی ہرے بھرے کھیت اجاڑدیے
اورچراگاہیں اپنے قبضے میں کرلیں۔ آپﷺنے مشورہ کرنے کے لئے ایک اجلاس طلب
کیاآپﷺکی رائے تھی کہ مدینہ منورہ کے اندررہ کرہی مقابلہ کیاجائے لیکن کچھ
نوجوان مسلمانوں نے شہرسے باہرنکل کرمیدان میں جنگ کرنے کامشورہ دیا۔رسول
اللہﷺنے صحابہ کرام علہیم الرضوان کامشورہ قبول فرمالیا آپﷺایک
ہزارکالشکرلیکر3ہجری شوال المکرم کے مہینہ جمعة المبارک کے دن نمازعصرکے
بعدمدینہ سے روانہ ہوئے تھوڑی دورگئے تھے کہ منافقوں کے سردارعبداللہ بن
اُبیّ نے حسبِ معمول اس موقع پرغداری کی اپنے تین سوساتھیوں کے ساتھ مدینہ
واپس ہوگیا۔کیونکہ یہ شخص حضورﷺکے آنے سے پہلے مدینے کابادشاہ بننے کے خواب
دیکھ رہاتھا۔لیکن اسلام کی وجہ سے اسکی ساری امیدوں پرپانی پھرگیا۔اس وجہ
سے یہ ہمیشہ منافقت کرتارہتاتھااس موقع پربھی اس نے یہ حرکت کی ۔اب مسلمان
لشکرکی تعدادصرف سات سو700رہ گئی ۔ہرطرف سے خطرہ ہی خطرہ تھادشمن کی طاقت
بہت زیادہ تھی لیکن مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔آقاﷺآگے بڑھے
اوراُحدپہاڑکی گھاٹی کے قریب اترنے کاحکم دیا۔آپﷺنے لشکراسلام کومختلف حصوں
میں تقسیم کیااوراُحدپہاڑکو پیچھے رکھ کر صفیں درست کیں۔لشکراسلام کی پشت
کی طرف ایک درّہ تھاجہاں سے دشمن کے حملے کاخطرہ تھا۔آپﷺنے حضرت عبداللہ بن
جبیرؓ کی کمان میں پچاس 50تیراندازوں کواس درّہ پرمقرر فرمایا
اورتاکیدفرمائی کہ کچھ بھی ہوجائے اس درّے کونہ چھوڑنا۔اُحدکی جنگ میں بھی
کافروں نے پہل کی کافروں کے لشکرکے علم بردارطلحہ نے آگے بڑھ کرمسلمانوں
کوللکارااسکے جواب میں سیدناعلی المرتضٰی ؓ میدان میں اترے اوراسے زمین
پرگراکرقتل کردیااسکے بعداسکابیٹانکلاجسے حضرت حمزہؓ نے قتل کردیااسی طرح
مشرکین باری باری جھنڈااٹھاتے اورمارے جاتے رہے ۔حضرت حمزہؓ ،حضرت علی ؓ
اورحضرت ابودجانہ انصاریؓ دونوں ہاتھوں میں تلوارلیے دشمن کی لاشوں کے
ڈھیرلگاتے رہے ۔کافروں نے پہل کی مسلمانوں کاجواب اس قدرسخت تھاکہ
کافرمیدان جنگ سے بھاگ نکلے وہ مسلمان تیراندازجنہیں آقاﷺنے تاکیدفرمائی
تھی کہ کسی حال میں بھی درہ نہ چھوڑیں اس خیال سے کہ اب فتح ہوچکی ہے
توانہوں نے اپنی جگہ چھوڑی دی ۔ان کے سردارنے کتناہی ان کوروکامگروہ یہ
سمجھ کرکہ لڑائی ختم ہوچکی ہے درّے سے ہٹ گئے اورمال غنیمت سمیٹنے لگے ۔
درّے پراب صرف دس آدمی رہ گئے تھے۔ادھرخالدبن ولیدجوابھی مسلمان نہیں ہوئے
تھے دوسوآدمیوں کادستہ لیکردرّہ کی طرف سے گزرے درّ ہ کوخالی دیکھ کرلوٹ
آئے اورحضرت عبداللہ بن جبیرؓ کوساتھیوں سمیت شہیدکرکے لشکرِاسلام پراچانک
حملہ کردیا۔جنگ کانقشہ ہی پلٹ گیا۔کافرفتح مندنظرآنے لگے ۔حضرت مُصعب بن
عمیرؓ کی شکل آپﷺسے ملتی جلتی تھی وہ آپﷺکوبچانے کی کوشش میں شہیدہوگئے
کافروں نے یہ افواہ پھیلادی کہ (معاذاللہ )محمدﷺ!شہیدہوگئے ہیں اس سے
مسلمانوں کے ہوش اڑگئے ۔مسلمانوں کالشکربکھرگیا۔حضرت ابوبکرؓ،حضرت
علیؓ،حضرت سعدبن ابی وقاصؓ،حضرت زبیرؓ ،حضرت طلحہ ؓ اورحضرت ابودجانہؓ آپﷺکے
گردجمع ہوگئے۔ کفارنے پتھرپھینکے تیربرسائے آپﷺکی پیشانی اوربازوزخمی ہوگئے
اورآپﷺکے دودانت مبارک بھی شہیدہوگئے تھے۔ بعض صحابہ کرام علہیم الرضوان نے
آپﷺسے عرض کی کہ یارسول اللہﷺان مشرکین کے لئے بددعافرمائیں ۔ آپﷺنے
فرمایا"میں لعنت کرنے کے لئے نبی نہیں بنایاگیامجھے تواللہ پاک کی طرف
بلانے والااورسراپارحمت بنایاگیاہے ۔اے اللہ!میری قوم کوہدایت فرماکیونکہ
وہ مجھے نہیں جانتی "۔حضرت عائشہؓ ،حضرت اُمِّ سُلیمؓ،حضرت اُمِّ عمارہؓ
انصاری اوردیگرمسلمان خواتین پانی بھرکرلاتیں اورزخمیوں کوپلاتی تھیں۔حضرت
ابودجانہ ؓ اورحضرت طلحہ ؓ ڈھال بن کرحضورﷺکے سامنے کھڑے تھے جوتیرآتاان
صحابہ کرام علہیم الرضوان کے جسم مبارک میں پیوست ہوجاتا۔حضرت سعدؓ بن ابی
وقاص سرکارِدوعالم نورِ مجسمﷺکے پہلومیں کھڑے ہوکردشمنوں پرتیرچلاتے رہے ۔حضورﷺخوداپنے
ہاتھوں سے انہیں تیردے رہے تھے اورفرماتے جاتے "سعدتجھ پرمیرے ماں باپ
قربان اورتیرچلاﺅ"حضرت فاطمة الزہرانے آپﷺکے زخموں کودھویا۔حضرت علی
المرتضیؓ اس وقت ڈھال میں پانی بھربھرکرلاتے تھے۔اس جنگ میں ستر70صحابہ
کرام علہیم الرضوان شہیدہوئے تھے۔جن میں آپﷺکے پیارے چچاسیدالشہداءحضرت
حمزہؓ بن عبدالمطلب بھی شامل تھے ۔چونکہ آپؓ نے جنگ بدرمیں چن چن
کراکثرصنادیدقریش کوتہ تیغ کیاتھااس لئے تمام مشرکین قریش سب سے زیادہ آپؓ
کے خون کے پیاسے تھے چنانچہ جبیربن مطعم نے ایک غلام کوجس کانام وحشی
تھااپنے چچاطعیمہ بن عدی کے انتقام کے لئے خاص طورسے تیارکیاتھااور اس صلہ
میں اسے آزادی کالالچ دلایاتھاغرض وہ جنگ احدکے موقع پرایک چٹان کے پیچھے
گھات میں بیٹھاہواحضرت حمزہؓ کاانتظارکررہا تھااتفاقاًوہ ایک دفعہ قریب سے
گزرے تواس نے اچانک اس زورسے اپناحربہ پھینک کرماراکہ آپؓ شہیدہوئے۔آپؓ کی
شہادت پرکفارکی عورتوں نے خوشی ومسرت کے ترانے گائے۔کافروں نے آپؓ کے کان ،ناک
اوردیگراعضاءکاٹ لیے یہاں تک کہ شکم چاک کرکے جگرنکالااورابوسفیان کی بیوی
ہندہ نے اُسے چباڈالا۔لڑائی کے اختتام پرآپﷺاورصحابہ کرام ؓ دوسرے
شہیدصحابہ کرام علہیم الرضوان کی لاشیں تلاش فرماکران کی تجہیزوتکفین
کاانتظام فرمارہے تھے کہ حضرت حمزہ ؓ کواس حالت میں دیکھاتونہایت صدمہ
ہوااورایک چادرسے ان کوڈھانپ دیاآپﷺنے پوچھاکہ کیااس نے کچھ کھایابھی ہے
صحابہ کرام علہیم الرضوان نے عرض کی نہیں آپﷺنے فرمایا!اے اللہ حمزہؓ کے
کسی جزوکوجہنم میں داخل ہونے نہ دینا۔اتنے میں سیدالشہداءحضرت حمزہؓ کی
حقیقی بہن حضرت صفیہ تشریف لائیں تاکہ اپنے بھائی کی حالت کودیکھیں آقاﷺنے
اس خیال سے کہ آخروہ عورت ہیں اورایسے ظلم کوبرداشت نہ کرسکیں گی اورتحمل
مشکل ہوگاان کے صاحبزادے حضرت زبیرؓ سے فرمایااپنی والدہ کودیکھنے سے منع
کروانہوں نے والدہ سے عرض کی کہ آقاﷺنے دیکھنے سے منع فرمادیاانہوں نے
کہامیں نے یہ سناہے کہ میرے بھائی کے کان اورناک کاٹ دیے گئے ہیں ہم اس
پرراضی ہیں میں اللہ پاک سے ثواب کی نیت رکھتی ہوں اوران شاءاللہ صبرکروں
گی حضرت زبیرؓ نے جاکرآقاﷺسے ذکرکیاتوآپﷺنے جواب سن کراجازت فرمادی ۔ایک
روایت میں ہے کہ غزوہ احدمیں جہاں نعشیں رکھی تھیں وہاں ایک عورت تیزی سے
آرہی تھی آپﷺنے فرمایااس عورت کوروکو حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے پہچان
لیاکہ میری والدہ ہیں میں جلدی سے روکنے کے لئے بڑھامگرانہوں نے مجھے ایک
گھونسامارااورکہاپیچھے ہٹ میں نے کہاکہ آقاﷺنے منع فرمایاہے توفوراًکھڑی
ہوگئیں اسکے بعدانہوں نے دوکپڑے نکالے اورفرمایامیں اسے اپنے بھائی کے کفن
کے لئے لائی تھی۔حضرت حمزہؓ کوکفن پہننانے لگے کہ برابرمیں ایک انصاری
صحابیؓ کی میت پڑی تھی جن کانام حضرت سہیلؓ تھااورکفارنے ان کاحال بھی حضرت
حمزہؓ جیساکررکھاتھاہمیں اس بات سے شرم آئی کہ حضرت حمزہؓ کودوکپڑوں کاکفن
پہنایاجائے لیکن ساتھ انصاری کے پاس ایک بھی نہ ہوہم نے دونوں کے لئے ایک
ایک کپڑاتجویزکیامگرایک کپڑابڑااورایک چھوٹاتھاہم نے قرعہ نکالنے کافیصلہ
کیاتاکہ جوکپڑاجس کے حصے میں آئے اسے کفن پہنادیاجائے قرعہ میں
چھوٹاکپڑاحضرت حمزہؓ کے حصے میں آیاجوان کے قدکے مطابق
چھوٹاتھااگرسرڈھانپاجاتاتوپاﺅں کھل جاتے اورپاﺅں کی طرف کیاجاتاتوسرکیطرف
سے کھل جاتاآقاﷺنے ارشادفرمایاسرکوکپڑے سے ڈھانپ دواورپاﺅں پرپتے وغیرہ ڈال
دواس طرح ایک ایک کپڑے میں دونوں کودفن کیاگیا۔
ایک شہیدصحابی ؓ کی بیوی گھرسے آپﷺکے بارے میں معلوم کرنے نکلی لوگوں نے
اسکوبتایاکہ اسکابھائی شہیدہوگیاہے اس نے کہاکہ رسول اللہﷺتوسلامت ہیں ؟پھراسے
اسکے بیٹے کی شہادت کی خبردی گئی تواس نے پھروہی سوال کیاکہ رسول اللہﷺتوخیریت
سے ہیں ؟پھر اسے اسکے شوہرکی موت کی خبرسنائی دی گئی توبھی اس نے رسول اللہﷺکے
متعلق دریافت کیالوگوں نے کہاآقاﷺاللہ پاک کے فضل وکرم سے خیریت سے ہیں اس
نے کہامجھے دکھاﺅجب دورسے آپﷺکاچہرہ دیکھ لیاتوبے اختیارکہہ اٹھی "آقاﷺکے
ہوتے ہوئے ہرایک مصیبت برداشت ہوسکتی ہے"
اللہ پاک ہم سب آقاﷺکے اسوہ حسنہ پرچلنے اوراسکے مطابق زندگی گزارنے کی
توفیق عطافرمائے ۔ہمارے تمام وہ گناہ جوہم نے اعلانیہ یاچُھپ کرکیے سب
کومعاف فرمائے ۔بروزقیامت اپنے محبوبﷺکی شفاعت نصیب فرمائے۔مسلمان کوآپس
میں اتفاق واتحادنصیب فرمائے ۔ملک پاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے ۔آقاﷺکے
غلاموں کوہرجہان میں کامیابی عطافرمائے اوردشمنانِ اسلام کونیست
ونابودفرمائے اورملکِ پاکستان میں نظام مصطفیﷺبرپاکرنے والاحکمران
عطافرمائے ۔آمین |