بلوچستان۔ اب یا پھر کبھی نہیں

بد امنی، بے چینی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، سر کٹی لاشیں، کمیشن، ہمالیائی حدوں کو چھوتی کرپشن، ارکان صوبائی اسمبلی پر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات، بر اطرز حکمرانی، فنڈز کی خردبرد، بلوچ سرداروں کی نجی جیلیں، مارو اور پھینک دو کی پالیسی، ترقیاتی کام ندارد، بعض ریاستی اداروں کی من مانیاں، بین الاقوامی اور کثیرالقومی کمپنیوں کی معدنی ذخائر پر ٹپکتی رال، گوادر بندر گاہ کا مکمل فعال نہ ہونا، وفاقی حکومت کی عدم توجہی، بلوچ پشتون باہمی مخاصمت، ہزارہ قتل عام، لا پتہ افراد کی روز بروز بڑھتی تعداد، یہ ہے ہمارا جلتا، سلگتا، سسکتا اور حالت نزع کو پہنچا بلوچستان۔ پاک سرزمین کے اس سونے کی چڑیا جیسے خطے کی مظلومیت کی داستان اتنی طویل ہے کہ" سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لیے"۔قدرت کی رعنائیوں سے مالا مال اور اپنوں کی بے اعتنائی کا شکاراس خطے کی بے چارگی اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ مزیدکچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔یہ سطور تو صرف حکمران طبقات کے ضمیر کو بیدار کرنے کی ایک کاوش ہے وگرنہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا۔اہل قلم، صاحبان بصیرت اور درد مند دل رکھنے والوں کی نوحہ گری کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ اب تک نہیں نکلا اسی لئے اب اطراف وکنار سے ایسی ناپسندیدہ آوازیں اٹھنے لگی ہیںجن کو سننے کے یہ کان روادار نہیں۔ ایسی باتیں کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کیا ہم ایک نئے بنگلہ دیش کے متحمل ہو سکتے ہیں؟

بجا کہ سب سے زیادہ رقبے والے اس صوبے میںماضی میں ہونے والے فوجی آپریشنوں،اور فرنٹئر کور، لیویز اور وفاقی اداروں کی زیادتیوں کی داستان بہت طویل ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس صوبے کے وسائل سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہر دور میں خوب استفادہ کیا ہے مگر بلوچ عوام کی حالت گلوبلائزیشن کے اس دور میں بھی اسی طرح قابل رحم ہے جس طرح صدیوں پہلے کے لوگوں کی ہوا کرتی تھی۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے جو نیم دلانہ کوششیں مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہیں ان کی ناکامی کی بنیادی وجہ وہ ناقص پالیسیاں تھیں جو ہمیشہ اس طرح کے معاملات کو سلجھانے کے لئے اختیار کی جاتی رہی ہیں۔ بد قسمتی سے اب تک یہی تصور کیا جاتا رہا ہے کہ سرکش بلوچ سرداروں اور غیر ملکی طاقتوں کے ایماءپر کام کرنے والے ایک مخصوص طبقے کے ذہن میں موجود خناس کا علاج طاقت کے استعمال سے ہی ممکن ہے مگر جارحیت کی اس پالیسی کا نتیجہ ہر دور میں نہ صرف منفی نکلابلکہ ظلم و تعدی کا شاہکار ان اقدامات نے عام بلوچ نوجوانوں کے اذہان میں بھی بغاوت کا بیج بو دیا جس کی وجہ سے اب حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں خود حکومتی ارکان پارلیمنٹ چیخ چیخ کر وزیر اعظم سے فریاد کررہے ہیں کہ بلوچستان کے حالات کو اب بھی نہ سنبھالا گیا تو خاکم بدہن ملکی سا لمیت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ارکان اسمبلی اور سینیٹ ممبران کا واویلا بجا مگر دیکھنا یہ ہے کہ جس حکومت سے اصلاح احوال کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کیا وہ یہ بھاری پتھر اٹھانے کے لئے سنجیدہ ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔اس حکومت کے ساڑھے چار سالہ دور کاسطحی جائزہ لیا جائے تو ان تیس مارخانوں کی سلمانی زنبیل میں کوئی ایک بھی ایسا کام نظر نہیں آتاجس سے براہ راست عوام کو فائدہ پہنچا ہو اور جس کی بنیاد پر وہ آئندہ عام انتخابات میں ووٹ مانگ سکیں۔بہت باریک بینی سے بھی اگر جائزہ لیا جائے تو آغاز حقوق بلوچستان کے رسمی اعلان کے سوا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ ویسے بھی اتحادیوں کی کمزور بیساکھیوں کے سہارے قائم حکومت سے ایسے کسی اقدام کی توقع عبث ہے اور جس نے اہم مسائل کو حل نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اسی لئے سپریم کورٹ کو مجبوراازخود کارروائی کر کے ہر معاملے کا نوٹس لینا پڑ رہا ہے۔ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے عہدیداروں کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو یہ کہنا پڑا ہے" جب ریاست ناکام ہو جائے تو عدلیہ کو فعال ہونا پڑتا ہے"۔

مسئلہ بلوچستان کا واحد اور قطعی حل گفت و شنید ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر کوئی ادارہ، فرد یا گروہ یہ سوچتا ہے کہ بغاوت کا لاوا جو اس وقت بلوچستان کے طول و عرض میں پک چکا ہے اور پھٹنے کے قریب ہے ، اس کا علاج طاقت کے استعمال میں ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو رہا ہے کیونکہ بے گناہ لوگوں پر ظلم کرنے کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا۔یہ بات خوشگوار حیرت اور طمانیت قلب کا باعث ہے کہ طاقت کا استعمال نہ کرنے کی بات اب کی بار اس ادارے میں سننے کو ملی جس کے مرکز کی طرف بلوچستان کے حالات خراب کرنے کے حوالے سے لوگوں کی انگلیاں سب سے زیادہ اٹھتی ہیں۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد (NDU)میں بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے منعقد ہونے والی دو روزہ قومی ورکشاپ میں شرکت دلچسپی کا باعث تھی ۔ بلوچستان بھر سے آئے ہوئے مقررین کی دھواں دھار تقریریں ان کانوں کے لئے شاید نئی تھیں جو ناپسندیدہ آوازوںسے آشنا نہیں تھے۔ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کا طالب علم ہونے کے ناطے کلاس کے سی آر ولید ترکئی نے ورکشاپ میں شرکت کے لئے ایس ایم ایس تو ایک دن قبل کر دیا تھا مگر اپنے گھر ملتان ہونے کے باعث پہلے دن کی کارروائی سے محروم رہا البتہ دوسرے دن اختتامی نشست سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملاکہ یہ دو روزہ ورکشاپ کا نقطہ عروج تھا جس میں چیئرمین سینٹ نیر حسین بخاری، مشاہد حسین ، محمود خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو، نواب ایاز جوگیزئی، یونیورسٹی کے صدر لیفٹیننٹ جنرل آغا عمر فاروق کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کے کچھ سابق اور موجودہ ارکان بھی تشریف فرما تھے۔ سوال جواب کا سیشن جاری تھا اور سوالات کی بوچھاڑ کے باوجود سینیٹر مشاہد حسین کا چہرہ تمتما رہا تھا اور وہ حاضرین کے ہر سوال کاتفصیلی جواب بہت خندہ پیشانی سے دے رہے تھے۔ مشاہد حسین شرکاکو بتا رہے تھے کہ ان کی زیر صدارت کام کرنے والی سینٹ کی کمیٹی نے جو سفارشات 2005 میں پیش کی تھیں ان پر عمل کیا جاتا تو بلوچستان کے حالات اس وقت کافی بہتر ہوتے۔ ورکشاپ کے اختتام پر شرکاءجب خوش گپیوں میں مصروف تھے تو میں محمود خان اچکزئی کے پہلو میں کھڑا بلوچستان سے متعلق کچھ سوال پوچھنا چاہا رہا تھا اچانک ایک جنرل صاحب ان کے پاس آئے اور خان صاحب سے کہا سرآپ بتائیں بلوچستان کے مسئلے کا حل کیا ہے ہم ہر حوالے سے آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ حیران کن منظر تھا جب جنرل صاحب کے جواب میں محمود اچکزئی کے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھی اور جنرل صاحب کے کندھے پر سجے بیجز پر جا رک گئی۔ جنرل صاحب کے ہونٹوں پر ایک پر اسرار سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بے ساختہ ان کے زبان سے یہ جملے نکلے سر ایسی کوئی بات نہیں آپ مسائل کا حل بتائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ منظر بہت سی ایسی باتوں سے پردہ اٹھا گیا جو عام طور پر نہیں کہی جا سکتیںاور بلوچستان کے سرداروں، نوابوں اور وڈیروں کی اس سوچ کا عکاس بھی تھا جو عشروں پر پھیلی بلوچوں کی محرومیوں کے ذمہ داروں کا تعین کرتی ہے۔

موجودہ حکومت کے نامہ سیاہ میں دو چار آئینی ترمیموں کے سوا شایدہی کوئی ایسا کار خیر ہو جس کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچا ہو۔ بلوچستان کے وزیر اعلی اپنے میکہ میں رہنے کی بجائے سیاسی سسرالی شہر اسلام آباد میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیںاس لئے وہ اپنے صوبے کے مسائل کو حل کرنے بالخصوص بدامنی پر قابو پانے سے قاصرہیں۔ دہشت گرداور فرقہ پرست گروہ آئے روز ماﺅں کی گودیں ویران اور سہاگنوں کے سہاگ اجاڑ رہے ہیں مگر حکومتی کیمپ ہمیشہ کی طرح روایتی بیانات اور کمیٹیوں کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ورکشاپ میں بھی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے روایتی باتیں کرنے پر اکتفا کیا اور مسئلہ بلوچستان کے تناظر میںوہیں باتیں دہرائیں جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ آج تک نہیں نکلا۔ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے اس موقع پر واضح کیا کہ فوج بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں کر رہی اور نہ ہی مزید فوجی چھاﺅنیوں کے قیام کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے بھی وزیر اعظم کی طرح اس مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیا۔ ادھروزیر داخلہ رحمان ملک مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان میں جاری گڑبڑ بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہے کیونکہ 14 گروپ ایسے ہیں جن کو باہر سے اسلحہ اور امداد مل رہی ہے۔ بلوچستان کو دوبارہ امن وآشتی کا گہوارہ بنانے اور ناراض بلوچوں کی زخمی انا پر مرہم لگانے کے لئے چند جوہری اقدامات فوری طور پر کرنا ہوں گے بصورت دیگر چودھری شجاعت حسین کے اس انتباہ کو نوشتہ دیوار سمجھ کر پڑھ لینا چاہئے"بلوچستان کا مسئلہ بہت سنگین ہے اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو نتائج سب کو بھگتنا ہوں گے"۔اس مسئلے کے حل کے لئے شجاعت، مشاہد کمیٹی کی 92 صفحات پر مشتمل رپورٹ، جس کا ہر لفظ بلوچستان کی پسماندگی اور وہاں کے باسیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نوحہ ہے،میں درج کی گئی سفارشات پر سنجیدگی سے عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح سابق رکن اسمبلی بلوچستان محترمہ فرح عظیم شاہ کے اس چشم کشا مقالے میں پیش کردہ تجاویز بھی توجہ کی مستحق ہیںجو انہوں نے ورکشاپ میں پیش کیا۔اپنی تجاویز سے پہلے ایک شعر جو مشرقی پاکستان جیسے انجام کی طرف بڑھتے بلوچستان کی دگرگوں صورتحال پر صادق آتا ہے
تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم

(۱)جب بھی کراچی میں امن وامان کی صورتحال سنگین ہوتی ہے تو صدر آصف علی زرداری تمام مصروفیات ترک کر کے اپنے سندھ کارڈ کو بچانے کے لئے کراچی جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے مسئلے کو سلجھانے کے لئے وہ کچھ عرصہ ایوان صدر کے قلعہ نما بنکر سے نکل کر کوئٹہ جا کر بیٹھیںاور تمام بلوچ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ اور صوبائی انتظامیہ کو حالات کی بہتری کا ہدف دیں اور روزانہ کی بنیاد پر ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور اس وقت تک اسلام آباد واپسی کا خیال ترک کر دیں جب تک امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہ ہو جائے۔
(۲) بلوچستان میں جاری غیر ملکی مداخلت اب کوئی راز نہیں رہی۔ امریکی اڈے اور سی آئی اے تو وہاں طویل عرصہ سے موجود ہیںمگر اب روسی، بھارتی، ایرانی، اسرائیلی، افغانستانی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے سرگرم عمل ہونے کا ذکر زبان زد عام ہے۔ اگر یہ درست ہے تو سفارتی ذرائع سے ان ملکوں کی مداخلت ختم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جا رہی؟ کیا اسے بھی پیپلز پارٹی کی نام نہاد مفاہمتی پالیسی کا شاہکار سمجھا جائے؟
(۳) خفیہ ایجنسیاں مقامی آبادی کو اس وقت ساتھ ملا کرتخریبی کارروائیاں کرتی ہیں جب ان لوگوں کے ساتھ اپنے ہی ملک میں بیگانوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہو۔ اسی لئے بلوچوں کی پسماندگی اور محرومیوں کا ازالہ کئے بغیر بیرونی مداخلت کا سدباب ممکن نہیں ہے۔
(۴) بلوچ نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے اعلی تعلیمی سہولتیں فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ ملک کی تمام جامعات میں جدید علوم کے شعبوں میں بلوچ نوجوانوں کے لئے خصوصی کوٹہ مقرر کرنے کے علاوہ آسان میرٹ پر ان کا داخلہ یقینی بنایا جائے۔
(۵) دہشت گرد اور فرقہ پرست تنظیمیں جن کی جڑیں ملک کے اندر ہیں، نے پچھلے تین عشروں سے مذہب کے نام پر ملک میں کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ ان کی سرکوبی کے لئے فوری اقدامات نہ کئے گئے توفرقہ وارانہ قتل وغارت کا یہ سلسلہ ملک کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو گا۔
(۶) مسئلہ بلوچستان کو حل کرنے کے لئے قائد اعظم اور خان آف قلات میر احمد یار خان کے درمیان ہونے والے معاہدہ "الحاق پاکستان" کو خشت اول کے طور پر مد نظر رکھنا بہت ضروی ہے ۔ فرح عظیم شاہ کے مطابق بلوچستان کے مسئلے کی جڑیں اس معاہدے کی خلاف ورزی میں پوشیدہ ہیںجس کی پاسداری نہ کر کے بلوچوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا۔
Ghulam Mehdi
About the Author: Ghulam Mehdi Read More Articles by Ghulam Mehdi: 11 Articles with 8283 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.