مقتدائے اوتاداشراف الاقطاب
ابوالنور حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی قدس سرہ العزیزکی ولادت با
سعادت536ھ بمطابق1141ءمیں نیشاپور کے قریب علاقہ خراسان ہرون میںہوئی۔آپ
خاندان سادات سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کاخاندان معزز اور صاحب علم تھا۔والد
بزرگوار بہت بڑے عالم تھے۔آپ نے حفظ قرآن،حدیث،فقہ،تفسیر اور دیگر علوم میں
مہارت حاصل کی۔جامع کمالات شیخ طریقت حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ
الرحمہ سے بیعت کی۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے زندگی کا بہت
بڑا حصہ تکمیل ولایت اور مشاہدہ ومطالعہ کائنات الٰہی کے لئے سفر میں گذارا
اور اپنے محبوب خلیفہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کو
بھی بیس سال شریک سفر رکھا۔ حضرت خواجہ کے اجمیر روانہ ہونے کے بعد سلطان
شمس الدین التمش کے عہد حکومت میں حضرت خواجہ ہارونی دہلی بھی تشریف
لائے،جہاں حضرت غریب نواز نے قدم بوسی کی سعادت حاصل کی اور خدمت مرشد کا
موقع بہم پہونچا۔ شمس الدین التمش جسے اولیاءاللہ سے بڑی عقیدت تھی،حضرت
خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کی شایان شان تعظیم وتکریم بجا لایا۔ آپ نے
حضرت خواجہ غریب نواز کو حکم دیا کہ التمش کی تہذیب نفس اور تربیت اخلاق
کیلئے ایک کتاب لکھو چنانچہ سیدناغریب نوازعلیہ الرحمہ نے مرشد بر حق کے
حکم کی تکمیل میں ”گنج اسرار“ تصنیف فرمائی۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمة والرضوان کے ملفوظات خواجہ غریب نواز
علیہ الرحمہ والرضوان نے”انیس الارواح“ میں جمع کئے ہیں۔یہ ملفوظات قرآن
وسنت کے مطابق اسلامی تعلیمات کا مظہر ہیں۔ تصوف ومعرفت اور عشق حقیقی کی
دقیقہ سنجیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان ملفوظات سے حضرت خواجہ کی تعلیمات کے بعض
حصے نذر قارئین کئے جاتے ہیں جو تزکیہ باطن کیلئے ضروری اور پر پیچ راہ
سلوک، و معرفت کے لئے رہنما ہیں۔
٭فرمایا سمر قند میں شیخ عبدالواحد سمر قندی سے میں نے سنا ایمان میں کچھ
مزہ نہیں تا وقتیکہ شب وروز قیام نہ کیا جائے، پس جو شخص یہ کام کرتا ہے وہ
ایمان کا لطف پاتا ہے۔
٭ عالموں کا حسد اچھا نہیں خصوصا ًمسلمان کے لئے۔ بعض علماءنے فرمایا حسد
دل سے نکال دینا چاہئے جب حسد کو دل سے نکال دیں گے تو جنت میں جائیں گے۔
٭مومن وہ شخص ہے جو تین چیزوں کو دوست رکھے اول موت ،دوم درویشی، سوم
فاتحہ۔ جوان تینوں چیزوں کو دوست رکھتا ہے فرشتے اسے دوست رکھتے ہیں اور اس
کا بدل جنت ہے۔
٭اللہ تعالیٰ اس مومن سے خوش ہوتا ہے جو کسی مومن کی ضرورت کو پورا کرے ،اس
کا مقام بہشت ہے جو شخص مومن کی عزت وتوقیر کرتا ہے اس کی جگہ بہشت میں
ہوتی ہے اور خداوند تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔
٭نماز اور شریعت کے فرائض کا منکر کافر ہے۔
٭صدقہ دینا ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے۔
٭مومن کو گالی دینا اپنی ماں بہن سے زنا کرنا ہے ایسے شخص کی دعا سو دن تک
قبول نہیں ہوتی اگر کوئی اور ادووظائف میں مشغول ہو اور کوئی حاجت مند
آجائے تو لازم ہے کہ وہ اور ادوظائف کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو اور
اپنے مقدور کے مطابق اس کی حاجت پوری کرے۔
٭افضل ترین زہد موت کو یاد کرنا ہے۔
٭خدائے تعالیٰ کے ایسے دوست ہیں کہ وہ دنیا میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے
غافل ہوجائیں تو ان کی ہستی مٹ جائے۔
حضرت کے چار مشہور خلفاءہوئے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ،حضرت خواجہ نجم
الدین صغریٰ ،حضرت خواجہ سعدی اورحضرت خواجہ محمد ترک۔
آپ نے دعا کی تھی کہ آپ کا مدفن مکہ مکرمہ میں ہواور اس کا نشان ہمیشہ باقی
رہے تاکہ فاتحہ کا ثواب ملتا رہے، عمر کے آخری ایام میں مکہ مکرمہ میں
اقامت گزیںہوگئے اور وہیں ۵ شوال617ھ بمطابق1220ءکو اس مرشد کامل نے دار
فانی سے کوچ کیا اور دعا کی قبولیت اس طرح ظاہر ہوئی کہ حرم کی مقدس سر
زمین میں”جنت المعلی“کے قریب آپ کا جسد مبارک سپرد خاک کیا گیا۔
(ماخوذ:سلطان الہندخواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ،از:ڈاکٹرمولانا محمد عاصم
اعظمی،ص73تا78) |