قائداعظمؒ محمد علی جناح کا آخری سفر۔۔

قریب ہی مہا جرین کی سینکڑوں جھگیاں تھیں وہ ا پنے روز مررہ کے کا موں میں مصروف تھے انھیں معلوم نہ تھا کہ ان کا قائد جس نے انھیں ایک وطن لے کر دیا ان کے درمیان مو جود ہے اور ایک ایسی پرانی ایمبولینس میں بے یا رو مدد گا ر پڑا ہے جس کا پٹرول بھی ختم ہو گیا ہے کا ریں ہا رن بجا تی گزر رہی تھیں ٹرک اور بسیں اپنی منزل کی جانب روا ں دواں تھیں میری ساری زندگی میں کو ئی اور گھنٹہ اتنا طویل اور درد نا ک نہیں آیا تب خداخدا کر کے ایمبو لینس آئی کتنی عجیب با ت تھی کہ دو گھنٹے میں ہم کو ئٹہ سے کرا چی پہنچے اور دوگھنٹے ہمیں ما ڑی پو ر سے گورنر جنرل ہا ؤس پہنچنے میں لگے قا ئد کے ڈاکٹر نے دبی آواز میں فر ما یا ، فضا ئی سفر ان کی حالت کے لیے کیا کم ہی خراب تھی کہ ایمبو لینس کا انتہا ئی تکلیف دہ وا قعہ پیش آگیا ،، گو رنر ہا ﺅس پہنچ کر قا ئد گہری نیند سو گئے میرا بھائی گہری نیند سو رہا تھا میرے ذہن میں گویا وجدان تصور ابھرااور میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ پر سکون نیند بجھنے والی شمع کی لو کی آخری چمک ہے دو گھنٹوں کی پر سکون نیند کے بعد بھا ئی نے آنکھیں کھو لیں اشارے سے قریب آنے کو کہا آخری مرتبہ کو شش کر کے زیر لب مجھ سے مخا طب ہو ئے ؛ فا طی خدا حا فظ ،، کلمہ شہا دت کے بعد ان کا سر آہستگی سے دا ئیں جا نب ڈھلک گیا اور آنکھیں بند ہو گیں چند منٹ میں ڈا کٹر جمع ہو گئے میں گم سم کھڑی سب کچھ دیکھ رہی ہوں انھو ں نے بھا ئی کو سر سے پیر تک سفید چا در سے ڈھک دیا میں اس کا مطلب سمجھ گئی تھی کہ موت انھیں اس زندگی کی طرف لے گئی تھی جو لا فا نی ہے ،ابدی ہے ڈا کٹر الہیٰ بخش بو جھل قدموں سے میر ی جا نب بڑ ھے اور میرے کا ند ھے پر سر رکھ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رود یئے ان آنسوؤں نے مجھے ساری با ت سمجھا دی ،، میرا بھائی کے عنوان سے محتر مہ فا طمہ جنا ح کی یہ تحریر قا ئد کی زندگی کے آخری لمحات کی حقیقت بیان کر رہی ہے کہ اس عظیم مملکت کے با نی کی ایمبو لینس کراچی کی سڑک پر خر اب حالت میں کھڑی ہے اور کسی کو نہیں معلو م کہ اس میں کون سی ز ندگی سا نس لے رہی ہے قا ئد اعظم کی بے کسی اور ما در ملت کی بے بسی ایک سازش نظر آتی ہے یہ ان لو گوں کی ساز ش ہے جو قا ئد کو اپنے گھنا ونے عزائم میں راستے کی دیوار سمجھتے تھے ۔ قائد کا فرما ن تھا کہ ’ زندگی کے ہر شعبے میں کیر یکٹر کی بلند ی ضروری چیز ہے آپ میں احساس خودی کردار اعلیٰ کے ساتھ ساتھ یہ صنف بھی ہو نا چاہیے کہ آپ دنیا میں کسی کے ہا تھ بک نہ جا ئیں ‘ قا ئد اعظمؒ خود اس قول کا جیتا جا گتا نمو نہ تھے مگر افسوس کہ قا ئد کے قریبی سا تھیوں میں ایسے لا لچی اور خو دغرض لوگ مو جود تھے جوپا کستان کو اپنے ذاتی مقاصد کے مطا بق چلا نے کی کو ششوں میں مصروف تھے یہ اس عظیم آدمی کی داستان حیات کا انجام ہے جس نے کبھی اپنی راہ کھو ٹی نہیں ہو نے دی وہ آدمی جو عمر بھر اپنے مقاصد سے جڑا رہا جس نے اپنے طے کر دہ ہدف کو حا صل بھی کیا اور ا س پر کبھی کسی زعم کا شکا ر بھی نہ ہو ا قدرت جب کسی کا انتخا ب کر لیتی ہے تو وہ دوسروں جیسا نہیں رہتا قا ئد اعظمؒ کی پوری زندگی بھی عام لو گوں سے مختلف تھی ۔

اس کند ن جیسی شخصیت نے 25 دسمبر1876ءنیو تھم روڈ کراچی کے ایک گھر میں آنکھ کھو لی 6 بر س کی عمر میں مدرسہ اور پھر سندھ مد رستہ اسلا م اسکو ل میں دا خل ہو ئے جس کے دروازے پر لکھا تھا کہ ’ علم حا صل کر نے کے لیے آﺅ اور خدمت کے لیے جاﺅ“ زما نہ طا لب علمی میں ان کے جو ہر کھلنا شروع ہوئے دسویں جما عت امتیا زی نمبروں سے پا س کی جس کے بعد ٓپ کی شادی مٹھی با ئی سے ہو گئی والد کا روبا رمیں شریک کر نا چا ہتے تھے لیکن بیٹے کے مزید تعلیمی شوق کی خاطر انگلستا ن بھیجنے پر را ضی ہو گئے لند ن پہنچ کر لنکن انِ میں داخلہ لیا جس کے صدر دروازے پر عظیم ترین قا نو ن سازوں کے نا م درج تھے جن میں سر فہر ست محمد ﷺ کا نام مبا رک تھا۔لندن میںبڑی محنت سے قلیل مدت میں تعلیم حا صل کی قائد اعظم ؒ1896ءکولندن سے قانو ن کی اعلیٰ ڈگری لے کر واپس ہندوستان آئے اس دوران ا ٓپ کی شفیق والدہ اور بیوی کا انتقال ہو چکا تھا والد کی طویل علا لت کے با عث علاج پرپیسہ پا نی کی طرح بہایا دوسری جا نب کا روبا رپر بھی تو جہ نہ دے سکے جس کے با عث کا روبا ر بھی تبا ہ ہو گیاگویا کر اچی آتے ہی قا ئد اعظم ؒ نے تین سا ل انتہا ئی تنگ دستی اور عسرت میں گزارے مگر اپنے کام کو انتہا ئی تندہی، محنت اورجراتءسے کرتے رہے 1900ءمیں پر یذڈینسی مجسٹریٹ کے انتخابا ت میںبڑ ے بڑے کا میا ب وکیلوں کے مقابلے میں آپ کا میا ب ہو ئے ہر بڑے آدمی کی کچھ خو بیا ں ایسی ہو تی ہیں جو اسے دوسروں سے ممتا ز کر تی ہیں قائداعظمؒ میں ایسی بہت سی خو بیاں تھیں آپ کی خوش لبا سی ضرب المثل بن چکی تھی آپ کی نشست وبر خاست اورگفتار دیکھ کر ایک امر یکی ڈرامہ نو یس کو کہنا پڑا کہ ”صد افسوس دنیا ئے اسٹیج نے ایک عظیم آرٹسٹ کو کھو دیا ِ ‘ قائد اعظم ؒوقت کی پا بندی کا بڑا خیا ل رکھتے تھے جس طرح وہ اپنی رائے کا اظہار نہا یت بے باکی ا ور جرات سے کرتے تھے اسی طرح دوسروں سے بھی اس کی امید رکھتے تھے جب کو ئی فیصلہ ہو جا تا تو اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے تھے قائد اعظمؒ نے اپنی زندگی میں رتن با ئی کو شامل کر نے کا فیصلہ کئی مخالفتوں کے با وجود کیا 19 اپریل 1908ءکو رتن با ئی نے اسلا م قبول کیا اور دونوں کی شادی ہو گئی ۔

قا ئد اعظمؒ کی ذاتی زندگی سے الگ آپ اپنی قوم کی محبت اور ان کی فلاح کے جذبہ سے بھی سر شار تھے دادا بھا ئی نورو جی کی تر بیت نے قا ئد اعظم ؒکے دل میں وطن کی محبت کا جذبہ بھر دیا تھا یہا ں سے ایک نئے سفر نئی منزل اورولولے کا آغا زہوتا ہے قائد اعظمؒ کی قیا دت میںمسلما نوںکا کا روان آزادی حصول پا کستا ن کی جا نب رواں دواں ہوا 1940ءمیں قرار داد پا کستا ن کامیاب ہو ئی اور صر ف سا ت سال کے قلیل عرصے میں پا کستا ن معر ض وجود میں آگیا اسے معجزہ کہ لیں یا اس مرد مجا ہد کی شب روز کی انتھک محنت کا نتیجہ دنیا کے نقشے پر ایک بڑی اسلامی ریا ست بن کر ابھرا قا ئدؑ نے اپنی زندگی کی آخری دھا ئی علیحدہ وطن کی خا طر انگر یزوں اور ہند وﺅں سے لڑتے گزار دی ڈا کٹر انھیں پہلے ہی کہ چکے تھے کہ اتنا زیا دہ کا م صحت کے لیے ٹھیک نہیں شب ور وز کی محنت نے انکی بیماری کو بڑھا دیاوزن جو 112 پو نڈتھا تیزی سے گرنے لگا سا نس پھو لنے اور کھانسی میں مسلسل اضا فہ ہو گیا 6جولا ئی1948 ءکو ما در ملت بھا ئی کو بغرض آرام کو ئٹہ لے گیں لیکن قا ئد کی صحت مسلسل خراب ہو تی گئی یکم ستمبر کوانھیں برین ہیمرج کا حملہ ہو ا ڈاکٹر الہیٰ بخش نے مشورہ دیا کہ انھیں کراچی لے جا نا چا ہیے کو ئٹہ کی بلندی ان کے لیے ٹھیک نہیںتو انھیں کراچی لے آیا گیا۔

ما در ملت 11 ستمبر 1948ءکا دن یا د کرتے ہو ئے ہوئے فر ما تی ہیںکہ ،ُجب میں کر اچی میں اس مزار کو خشت بہ خشت بلند ہو تے دیکھتی ہوںجو میرے بھائی کی با قیات کے سا یہ فگن ہو رہا ہے تو اس دن کی اذیت نا ک یا دیں غول درغول وارد ہو نے لگتی ہیں جب میں اپنے بھائی سے ہمیشہ کے لیے محروم اور میری قو م یتیم ہو گئی میں منا سب سمجھتی ہوں کہ ان کی قبر پر جا ﺅں فا تحہ پڑ ھوں عقید ت کے پھول چڑھا وں محبت کے آنسو نچھا ور کروں ،،آ ج جب ہم تمام پا کستانی اپنے با با ئے قوم کی بر سی منا رہے ہیں تو ہما رے اپنے دامن میں ایسا کیا کا ر نا مہ ہے جو ہم اس عظیم لیڈر کو پیش کر سکیں جو خواب لے کر انھوں نے پا کستان کی بنیاد رکھی تھی کیاہم تمام پاکستانیوں نے اسے تعبیر دی ہے ؟ اس بارے میں پورے خلوص سے ضرور سو چئے۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148249 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.