”تحریک ختم الالیکشن“

پوری دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص اس وقت مختلف النوع تحریکوں کی زد میں ہے۔ پاکستان میں کچھ سیاسی جماعتیں بھی اپنے ساتھ لفظ ”تحریک“ کا لاحقہ یا سابقہ رکھتی ہیں، سیاسی جماعتوں میں سب سے مقبول تحریک ’تحریک انصاف‘ ہے جو اس وقت بلا مبالغہ تیسری سیاسی قوت کے طور پر ابھر چکی ہے لیکن ملک سے محبت کرنے والے اور موجودہ حکومت سے نالاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد یہ سمجھتی ہے کہ کہیں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف آپس میں گتھم گتھا ہوکر دوبارہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی راہ ہموار نہ کردیں، اس خوف کو بھی مسلم لیگ نون ایک تحریک کی صورت میں اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے، چنانچہ سنجیدہ طبقہ اس معاملہ میں واقعی پریشان ہے کہ کہیں اگلے پانچ سال کے لئے بھی یہی سیٹ اپ نہ بن جائے۔ ہر جماعت اپنے سیاسی مفادات کے تحت کسی نہ کسی تحریک کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے تاکہ وہ آئندہ الیکشن میں زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹ سکے۔ ملک کے طول و عرض میں یہ افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ شائد الیکشن کے وقت سے پہلے کوئی ایسا انتظام کیا جائے کہ پہلے احتساب اور پھر الیکشن کا نعرہ لگا کر الیکشن کو لمبے عرصے کے لئے موخر کردیا جائے کیونکہ قوم لوٹ مار سے واقعتا تنگ بھی ہے اور پریشان بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی پس پردہ قوتیں بھی آجکل سرگرم ہیں جو اپنا آپ ظاہر نہیں کر سکتیں لیکن ان کی بڑی شدید خواہش ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر نہ ہوں یا اگر ہوں بھی تو ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے اور ایک بار پھر اتحادیوں کی کمزور حکومت بنے تاکہ ان طاقتوں کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

میں ذاتی طور پر قومی ہیرو اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بہت بڑا مداح ہوں۔ جب بھی اسلام آباد جاﺅں ان سے اکثر ملاقات بھی ہوجاتی ہے اور فون پر گپ شپ بھی۔ انہوں نے چند دن پہلے ایک اور تحریک کی بنیاد رکھی جس کا نام ”تحریک تحفظ پاکستان“ ہے، اس کا مخفف TTP بنتا ہے جو تحریک طالبان پاکستان والے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں، یہ یقینا ایک اتفاق ہے، حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق، اس کے بارے میں سردست کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ تحریک تحفظ پاکستان کے بعد آجکل ایک اور تحریک کا غلغلہ سوشل میڈیا فیس بک وغیرہ پر اٹھا ہوا ہے جس کا نام رکھا گیا ہے ”تحریک محسنان پاکستان“....! اس تحریک کا بانی کون ہے اس کے بارے میں تو اکثر لوگوں کو علم نہیں لیکن فیس بک پر اس تحریک کی جانب سے جو پوسٹ کی جاتی ہے اس میں سب سے اوپر جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، اس کے نیچے جنرل (ر) حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل اور اس کے بھی نیچے جنرل (ر) حمید گل صاحب کی تصاویر ہوتی ہیں جبکہ ”منجانب“ والے خانے میں شاہد اقبال (سیکرٹری جنرل)کا نام جبکہ کنوینیر صاحب کی صرف تصویر دی جاتی ہے ان کا نام نہیں لکھا جاتا۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد جو میں سمجھ سکا ہوں، وہ رائے عامہ ہموار کرنا ہے کہ موجودہ سیاسی نظام ہمارے ملک کے لئے زہر قاتل ہے، میں یہاں صرف ایک پوسٹ کا متن لکھ رہا ہوں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو ”کیا آپ نے سوچا!! کہ موجودہ نظام انتخابات کے تحت آپ کی ووٹ آپ کی نسلوں کو کیا دے گی؟ مایوسی....! اپنے شعور کو بیدار کریں،موجودہ نظام کے تحت اگلے 100الیکشن سے بھی انقلاب نہیں آسکتا۔اٹھو، نظام بدلو!“

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ انتخابی نظام نے واقعتا ہمارے حالات کو بد سے بدتر کیا ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ نظام اصل میں ہمارے لئے ہے ہی نہیں اور اس میں بھی کسی شک و شبھے کی کوئی گنجائش نہیں کہ موجودہ انتخابی نظام سے فوری طور پر کسی ”خیر“ کی کوئی توقع نہیں لیکن کیا ایک بات جو سمجھنے والی ہے کہ اس تحریک کی مدد سے جو لوگ دوسرے لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روک رہے ہیں وہ کیا متبادل لائحہ عمل دے رہے ہیں۔ اگر ایک منٹ کے لئے فرض کرلیا کہ اس تحریک سے متاثر ہوکر بہت سارے لوگ ووٹ ڈالنے نہیں جاتے تو کیا اس سے انتخابات کی صحت پر کسی قسم کا کوئی فرق پڑے گا کیونکہ ہمارے انتخابی قوانین میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ کسی حلقے میں ایک خاص تناسب سے ووٹ نہ ڈالے جانے کی صورت میں دوبارہ الیکشن کروایا جائے گا، ایسی صورت حال میں جبکہ حلقے کی اکثریت بھی ووٹ کاسٹ نہ کرے تو الیکشن کمیشن سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کی کامیابی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگا۔ ایک اور بات یہ کہ سوشل میڈیا پر کی جانی والی کسی پوسٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ اپنا ووٹ نہ ڈالنے کے علاوہ دوسروں کو بھی بزور روکا جائے، جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ اگر حلقے کے پچاس فیصد سے زائد افراد بھی اس تحریک کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیتے تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ ایک بہت بڑا سوال جو میرے ذہن میں اٹھ رہا ہے کہ جب بھی الیکشن کا وقت آتا ہے کسی نہ کسی حوالے سے لوگوں کو ایسی ہی باتیں کرکے ووٹنگ سے دور رکھنے کی کوششیں کیوں کی جاتی ہیں؟ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جنرل (ر) حمید گل کی تصاویر سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ پیغام دائیں بازو کے عوام کے لئے ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس تحریک کے ذریعے کچھ پس پردہ قوتیں مذہب سے لگاﺅ رکھنے والے لوگوں کو انتخابی عمل سے دور کرنے کی کوشش کررہی ہوں تاکہ اس کی بنیاد پر مستقبل میں مزید کسی تحریک کی گنجائش پیدا کی جاسکے، لیکن کیا پاکستان کے حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ اس میں مزید تقسیم پیدا کی جائے، وہ ملک جو بین الاقوامی سازشوں کا گڑھ بن چکا ہو، جہاں بیرونی ایجنٹ اور اندرونی غدار نام اور شناختی کارڈ دیکھ کر معصوم لوگوں کو قتل کررہے ہوں، جہاں لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے کی گھناونی سازشیں ہورہی ہوں ، جہاں اعلیٰ عدلیہ کی عزت کو داغدار کرنے کے لئے دن رات محنت کی جارہی ہو ، شرابی اور زانی اخبار نویس نئے اخبارات (جن میں سے ایک اخبار کا اجراءہی شائد چیف جسٹس کے خلاف تحریک چلانے کے لئے کیا گیا ہے)میں بڑے عہدے لے کر چیف جسٹس کے خلاف بہانوں بہانوں سے زہر افشانیاں کررہے ہوں اور جہاں نہ کسی کی جان محفوظ، نہ کسی کا مال اور نہ عزت، وہاں کیا ایک بار پھر یہ قوم ایسی کسی آزمائش سے سرخرو ہوکر نکل سکتی ہے؟ اگر یہ نظام برا ہے، بلکہ بہت برا بھی ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ اچھائیاں بہرحال ہیں،کم از کم ان اچھائیوں سے تو اس قوم کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کریں۔ دو ہی صورتیں ہیں کہ اس نظام کی اچھائیوں سے فائدہ حاصل کیا جائے یا اگر اس نظام اور الیکشن میں ووٹنگ کے خلاف تحریک چلانی ہی ہے تو ایسی جاندار ہو کہ کسی بھی حلقے میں ایک بھی ووٹ نہ ڈالا جاسکے، ایک بھی شخص پولنگ سٹیشنوں تک نہ پہنچ سکے، اگر ایسا ہوا تو انقلاب ہوگا اور اگر چند فیصد لوگوں کو روک کر اور ان لوگوں کو جن کا تعلق دائیں بازو سے ہو، بائیں بازو کو فائدہ پہنچانا ہے تو یہ میری نظر میں یہ ”تحریک ختم الالیکشن“ ایک ایسی سازش ہوگی جس کی وجہ سے یقینا پورے پاکستان کا نقصان ہوگا کیونکہ اسی صورت میں موجودہ حکمران ٹولہ مزید پانچ سال کے لئے پھر ہمارے سینوں پر مونگ دلنے کے لئے موجود ہوگا، ذرا سوچ لیجئے، غور کرلیجئے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206919 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.