اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران
خان صاب طویل عرصے سے پاکستانی قوم کا سیاسی شعور بیدار کرنے اور لوگوں کو
موجودہ نظام سے مکمل بغاوت پر آمادہ کرنے کی بھرپور سعی میں مصروف ہیں ۔
تاہم لگتا ہے اُنھیں اپنے مشیر بدلنے کی ضرورت ہے۔
بے شک مثبت تنقید جمہوری معاشرے کی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے
اور سیاسی شعور و آگہی میں اضافے کا باعث بنتی ہے مگر جب یہ توازن اور
ترتیب کی حدود سے نکل جائے تواُلٹا تعمیر کی بجائے تخریب کا باعث بنتی ہے۔
خان صاحب ہر شحص نہ تو سیاسی ورکر ہے اور لاکھوں ووٹر ایسے بھی ہیں جو کسی
بھی سیاسی وابستگی سے بالاتر صرف وقت حالات اور موقع پر اپنے ووٹ کا فیصلہ
کرتے ہیں ایسے بہت سے ووٹر تنقید برائے تنقید اور تنقید کے روائتی داوُ پیچ
اور ہتھکنڈوں سے عاجز آکر تبدیلی کے نعروں سے متاثر ہو کر آپ کی طرف اس
اُمید سے دیکھتے ہیں کہ آپ نے سیاست کو اقتدار کی بجائے عوام کی خدمت کے
لئے شروع کیا ہے۔
آپ کے مشیران اور ایڈوائزر آپ کو نجاتِ دہندہ کے طور پر پیش کرتے ہیںاور آپ
کے لئے وزیرِ اعظم سے کم سیاسی عہدہ اُنہیں قبول نہیں۔ خان صاحب سیاست میں
توازن قائم رکھنا بے حد ضروری ہے۔ پاکستانی سیاست میں کامیابی کی کچھ
حقیقتیں آپ جان گئے ہیں مزید جان جائیں گے جیسے آپ فرماتے ہیں کہ فرشتے
کہاں سے لاؤں اور جس تیزی سے آپ نے دوسری جماعتوں کے کارکنوں اور عہدیداروں
کے لئے پارٹی کے دروازے کھولے ہیں وہ حیرت کے ساتھ ساتھ آپ کی دو راندیشی
کا ثبوت ہے ۔مگر یاد رکھئے آپ نے بندے نہیں توڑنے بلکہ کرپشن بت توڑنے ہیں
سسٹم کو بہتری کیطرف لانا ہے۔
الفاظ کے انتحاب اور تنقید کے پُر پیچ نشیب و فراز پر خاص احتیاط سے کام
لینا ضروری ہے ۔ اقتدار سے آشنائی و رسائی کی باتیں قبل ازوقت ہیں آپ کو
پہلے مناسب نمائندگی حاصل کرنی ہے نعروں اور جلسوں کی بنیاد پر اقتدار نہیں
ملا کرتے۔ جس طرح گندگی کی ایک چھینٹ دودھ کی پوری کڑاہی کو گندا کر سکتی
ہے اسی طرح ذرا سی بے احتیاطی آپ کو کہاں سے کہاں پہنچاسکتی ہے لوگوں کی
نظروں میں مشکوک کرسکتی ہے ابھی تو آپ کو اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر ہونے کا
ٹھپہ بھی اُتارنا ہے ۔
ایک طرف آپ کے حمائتی کالموں میں آپ کا ذکرایسے نجاتِ د ہندہ کے طور پر کیا
جاتا ہے کہ تمام مسائیل کا حلجس کے اقتدار سے مشروط ہے۔چناچہ عام آدمی کے
دل میں اپنے لئے اتنا مقام پیدا کرنا ضروری ہے کہ ووٹ کاسٹ کرتے وقت وہ
تبدیلی کو ووٹ دے ۔سنہری مستقبل سے پہلے خود کو باقی تمام آپشنز سے ابھی
بہترثابت کرنا ہے۔ لوگ آپ سے انتہائی شائستہ اور مہذب طرزِ تخاطب توقع کرتے
ہیں۔
جس طرح ( آپ کی نظر میں پہلے خوشامدی اور اقتدار کے لئے جوتے صاف کرنے والا)
شیخ رشید اس قابل بن گیا ہے کہ آپکے عوام سے خطا ب کرتے وقت آپ کو بوسے دے
اور تبدیلی کے نعروں میں شیخ رشید کی آواز آپ کے شانہ بشانہ گونجے تو باقی
کیا بچتا ہے؟ ذاتی پسند ناپسند کا وقت نہیں ناں ہی اب یہ بدنصیب ملک اس کا
مہتمل ہے۔
میاں صاحبان کے لئے ڈینگی برادران کا لفظ کیا آپ جیسے اعلی تعلیم یافتہ شخص
کو زیب دیتا ہے؟ اپنی تنقید کو مثبت رُخ دیں منفی نہیں آپ کو اپنے مستقبل
کے تجز ئیے کی بجائے حال پر نظر رکھنی چاہئے۔خصوصی طور پرکسی ایک کو ہدفِ
تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے پوری سیاسی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ
لے کر سارے صوبوں کے عام آدمی کے پچھلے 5سالہ معاملات روز مرہ زندگی کا
جائزہ لیں سارے صوبوں کی امن و امان کی حالت اور عام زندگی کا مشاہدہ آپکے
لئے کافی سوُد مند ہوگا۔پنجاب کا دیگر صوبوں سے روز مرہ کرپشن کا موازنہ
بھی کریں کہیں بے جا بے محل تنقید اُلٹا آپ کے لئے آسانی کی بجائے دُشواری
نہ پیدا کر دے۔اُمیدیں اقتدار کی اور انداز اپوزیشن کا ا ختیار نہ کریں ۔
عام آدمی آپ کو دیگر سیاستدانوں تناظر سے مختلف دیکھنا چاہتا ہے۔
خان صاحب ماضی سب کے ساتھ جڑا ہوا ہے آپ جن پر بے تحاشا تنقید کرتے ہیں اگر
اُن کی شاخوں سے ٹوٹے پنچھی پاک صاف ہوجاتے ہیں تو آپ کو لیڈران کے لئے بھی
و ضعداری کا مظاہرہ کرنا چاہے۔کہیں میاں نواز شریف پر بے جا تنقید و تمسخر
آپ کے ووٹ بنک پر سوالیہ نشان نہ لگا دے او رصدر زرداری کے ساتھ کسی خاموش
ڈیل کی سنی سنائی افواہوں کو خود اپنے رویئے سے سچا ثابت کرنے کی کو شش نہ
کریں جلسہ کراچی کا ہو یا لاہور کا کوئٹہ کا ہو یا پشاور کا میاں صاحب باری
مُک کئی کا راگ الاپنے کی بجائے لوگوں کا سیاسی شعور بیدار کریں ۔ لوگ اچھے
بُرے صحیح غلط کا فیصلہ کر سکتے ہیں میڈیا عوامی سوچ کو خاصا حقیقت پسند
بنا چُکا ہے۔
اہم یہ ہے کہ آپ نے ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریات کی بنیاد پر
لینے ہیں۔وفاقی حکومت ہو یا پنجاب حکومت ہو یا ہرحکومتِ وقت میں شامل ہونے
والی علاقائی جماعتیں سب کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے۔ عوامی سوچ خاصی
باشعور ہو چُکی ہے۔
فیصلہ عوام نے کرنا ہے اگر خوش قسمتی سے سلیکشن کی بجائے اصل الیکشن ہو گئے
تو ایک قومی ہیرو کا سونامی ایساہونا چاہئے جو ساری غلط سیاسی روائتوں کو
بہاکر لے جائے اور مثبت تعمیری رویوں کو فروغ دیں ۔ اللہ قادرِمطلق ہے جو
عزت جس کے نصیب میں ہو وہ مل کر رہتی ہے ۔ آپ سیاسیات کے طالبعلم رہ چکے
ہیں رائے عامہ کو ہموار اور ہمنوا بہترین طریقے سے سیاسی اُصولوں کے مُطابق
کریں قومی لیڈر کی سی سُوچ اپنائیں۔
یاد رکھیں! ہم عوام کو اپنا مُلک بچانا ہے۔ جوکہ تمام قومی اداروں کی تباہی
کے بعد زخموں سے چُور سول وار کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ہاتھ سے نکلتے پاکستان
کو کسی عمران خان یا نواز شریف کے سیاسی کردار سے مطلب نہیں ہمیں صرف مُلک
بچانے سے مطلب ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون مُلک بچا سکتا ہے ۔ بلکہ تقاضا یہ
ہے کہ سب نے مل کر اپنا وطن اپنی سرزمین بچانی ہے۔اور یہ ملک کسی جاگیر
نہیں نہ کوئی اکیلا بیڑا اُٹھانے کا اعلان کرسکتاہے لہذا جہاں جہاں ملکی
مفاد میں ضروری ہوگا عمران خان سمیت سب کو ذاتی حملوں سے بالاتر ہوکر
کُشادگی دکھانا ہوگی ۔ یہ سیاست عبادت بنے گی تو عوامی خدمت ہوگی ۔ اللہ
ہمارے پاک وطن کو اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین |