قوم آ ج کل اضطراب میں مبتلا ہے
ایک طرف ہر روز کے آئے بحران اس کو ذہنی و نفسیاتی مریض بناتے جار ہے ہیں
تو دوسری طرف ”ڈینگی امتحان“ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل پاکستان پر آ یا ہے
اور اس سے ہر روز کئی ایک افراد متاثر ہو رہے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں
پہنچ چکی ہے حالانکہ پاکستانی عوام تو ابھی تک ان آ ٹے چینی ،کرپشن ،بجلی،
بیروزگاری، ظلم و ستم ،بے راہ راوی ،اخلاقی بگاڑ سے ہی قسمت آزما تھی اور
وہ اسی کوشش میں بھی کامیاب نہیں ہو رہی تھی کہ اللہ تعا لیٰ نے ان پر ایک
اور امتحا ن سیلاب کی مانند بھیج کر ان کی مشکلات کو تھوڑا سا زیادہ کر دیا
تھا اس سیلاب نے بھی پچھلے سیلاب کی طرح لاکھوں لوگو ں کو متاثر کیا اور
ہزاروں مکانوں کے مکینوں کو دوسروں کے گھر کا سوالی کردیا جو کبھی خود
دوسروں کی خدمت کر تے ہو ئے خوشی محسوس کر تے تھے آ ج خود ضرورت مند ہیں جو
اپنے گھروں میں اپنے بیوی و بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے آ
ج وہ اپنے بیو ی و بچوں کے لئے ہاتھ پھیلا رہے ہیں اور ان کے ووٹ حاصل کر
نے والے ان کی خدمت کی بجائے ان کی بے بسی ،بے کسی پر اپنی سیاست چمکا رہے
ہیں اور ان کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے پھر سے اپنے ”ووٹ“ پکے کر نے میں لگے
ہو ئے ہیں جب کہ حقیقی مدد کر نے والے بہت ہی کم افراد و ادارے دکھائی دے
رہے ہیں جو بنا کسی تشہری مہم کے اپنا کا م کر تے جارہے ہیں سور ی ! بات ہو
رہی تھی بحرانوں کی امتحانوں کی اور خدا تعالیٰ کی رحمت کی جس نے امتحان تو
دیا اور اس کے ساتھ ساتھ عقل و فہم بھی دیا تاکہ اپنے اوپر آ ئے ہو ئے
بحرانوں سے سرخرو ہو کر نکل سکیں مگر یہاں تو کام ہی الٹاہے یہا ں ڈینگی
وائرس کا حملہ ہو ا جس کی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا رہا
ہے کہ یہ وائرس کچھ عرصے قبل امریکہ کے شہر میکسیکو میں نمودار ہو اتھا اور
اس نے کافی خطرناک صورتحال اختیار کر لی تھی لوگو ں کو دوسری بیماریوں کی
بجائے اس بیماری نے زیادہ نقصان پہنچایا کیو نکہ اس مچھر کے کاٹنے سے
انسانی خونی خلیے شدید متاثر ہو تے ہیں جس سے انسان بہت کمزور و لاغر ہو
جاتا ہے تو وہاں بھی ایساہی ہوا تو وہاں کے لوگوں نے مریضوں کو ”ڈینگو
ڈینگو“ کہنا شروع کر دیا کہ احتیاط سے چلو مطلب کہیں گر نہ جانا پھر یہ
وائرس انڈونیشیا سری لنکا، انڈیا اور باقی کافی دوسرے ممالک میں کامیاب
حملے کر چکاہے اور کئی ہزار جانیں بھی اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور
اگر پاکستان کی بات کر یں تو یہ پتہ چلتاہے کہ یہ وائرس پاکستان میں ساوئتھ
کوریا سے منتقل ہواہے تمام صوبوں و شہرو ں میں پہنچ چکا ہے اور پاکستانی
عوام کو کافی تکلیف دے رہا ہے ایک اور بات ذہن میں رکھنے والی ہے کہ اس
مچھر کی زندگی صر ف 10سے 14دن کی ہے اور نر مچھر کسی انسان کو نہیں کاٹتا
بلکہ مادہ ہی انسانوں کو اپنا شکار بناتی ہے اور اپنی نسل کو بڑھو تری دینے
کے لئے ہر روز 9000انڈے تین وقت میں دیتی ہے۔ یہ تو تھی مچھر کی کہا نی اور
پاکستانی عوام کی زبانی اب اگر اپنے میڈیا کے کردار پر نظر ڈورائیں تو اس
نے خود پاکستانی قوم کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیاہے اور اس دکھوں کی ماری
قوم کو اضطراب و پریشانی میں اضا فہ کر دیاہے کیو نکہ ہر روز اخبارات نے اس
خبر کو ہی ”سر خی“ بنایا ہوتاہے کہ آ ج اتنے لوگ فوت ہو ئے ہیں آ ج اتنے
لوگ مر گئے ہیں اور ٹی وی چینلز ز نے بھی اسے ہیڈ لائینز بنایا ہوا ہے اس
سے عوام کو ذہنی اضطراب میں مبتلا کر نے کے لئے ”سب سے پہلے “خبر اور ”ہر
جگہ ہیں ہم“ کا بھرپور ثبوت دیاجا رہا ہے غرض میڈیا نے تو پوری طرح عوام کو
اس امتحان کو آ فت یا طاعون بتانا شروع کردیا ہے اور اپناکام پوری دل جوئی
سے کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کر نے میں لگا ہواہے جب کہ عوامی حلقوں نے ان
باتوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس بات کا ثبوت پوچھتے ہیں کہ
”میڈیا“ ہر خبر کا منفی پہلو ہی سامنے لاکر اپنے لئے ذاتی فائدہ کیوں حاصل
کر نا شروع کر دیتا ہے میڈیا کیوں صرف آ دھا خالی گلاس کا ڈھنڈوا پیٹتا
شروع کر دیتا ہے آ دھے بھرے گلاس کا کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا جا تا کیوں
صرف چند ایک فوت ہو نے والوں کے بارے میں بریکنگ نیوز بنا بنا کر دکھایا جا
تاہے اور اخبارات میں سرخیوں میں یہ ڈال کر لگایا جاتاہے پورے” میک اپ“ سے
خبروں کو”مصالحے دار“ بنایا جا تاہے اور میڈیا کیوں صرف ”سب سے پہلے ہم“ کے
پہلو کو استعمال کر تے ہو ئے بنا تصدیق کے خبریں نشر کرواتا رہتا ہے اور
حکومت کو بدنام کر تا رہتا ہے اور اس کے اچھے کاموں کو بھی اپنی خبروں میں
چھپا لیتا ہے ؟یا پھر میڈیا یہ بتا دے کہ پاکستان میں باقی امراض سے مریض
مرنا بند ہو چکے ہیں جب سے یہ ڈینگی وائر س نے حملہ کیا ہے؟ جب کہ ماہرین
طب چیخ چیخ کر بتا چکے ہیں کہ یہ بیماری طاعون نہیں بلکہ ہر سال 50کروڑ
لوگوں کو اس مرض سے لڑنا پڑتاہے اور بمشکل 1%کو اس سے موت ہو تی ہے اگر
میڈیا یہی کردار ادا کر ے گا تو عوامی حلقے یہ بھی سوال اپنی جگہ حق بجانب
رکھتے ہیں کہ جو ایک دو مریض کسی ہسپتال میں وفات پاتے ہیں وہاں ہی علاج کی
سہولیا ت نامناسب ہو تی ہیں ؟ جب کہ انہی ہسپتالوں میں ہزاروں مریض شفا یاب
ہو کر اپنے اپنے گھروں کو کیسے جا چکے ہیں؟؟ کیا ان مرحومین کے علاج میں ہی
کمی وکوتا ہی کی جاتی ہے جب کہ یہ بھی اٹل حقیقت اور ان مٹ سچ ہے کہ مریضوں
کی دن رات خدمت کرتے کرتے کئی ہسپتالوں کے میڈیکل سٹاف (ڈاکٹرز و نرسیں)
خود بھی اس بیماری کا شکارہو چکے ہیں اور کئی تو اپنی جان بھی ان مریضوں پر
لٹا چکے ہیں جس کی مثال وہ نرس ہے جس نے پچھلے سال پنی بیماری کے باوجود حب
و طنی اور مریضوں کی خد مت میں اپنی جان بھی نچھاور کر دی تو پھر کیوں ان
کے ساتھ ان کے خلاف اور حکومت کے خلاف ہم لکھتے جا رہے ہیں نشر کر تے جا
رہے ہیں جب کہ بطور میڈیا پرسن اور میڈیا گروپس ہمارا فریضہ تصویر کے دونوں
رخ سامنے لاناہے ہم منفی پہلو کو تو خوب کیش کرتے جارہے ہیں اور عوام کو
ذہنی مریض اور پریشانی میں بھیجتے جارہے ہیں مگر مثبت پہلوﺅوں کو سامنے
لانے میں مسلسل کترا رہے ہیں ہم مریضوں کے ایڈمٹ ہو نے اور موت کی تعداد تو
تواتر سے بتاتے جارہے ہیں مگر صحت یاب ہو نے والوں کی تعداد ہم بتانا نہیں
چاہ رہے حالانکہ اب تو پاکستانی ماہرین طب نے بھی بجا طور پر حقیقت سے پردہ
اٹھایاہے کہ اہل پاکستان پر جتنا بھی حملہ ہواکئی ہزار اس کا شکاربھی ہوئے
مگر صرف 1% لوگ بھی فوت نہیں ہو ئے پھر اب ہم سب پر بھاری ذمہ داری آ تی ہے
کہ عوام کو گمراہ کر نے کی بجائے تصویر کے دونوں پہلوسامنے لائیں میڈیا کو
بھی اپنا حقیقی کردار ادا کر نے کے لئے اپنے اندر” تبدیلی“ پیدا کر نا ہو
گی اور ”سب سے پہلے خبر“ کے منفی لوگو کو بدل کر حقائق کو سامنا لانا
چاہیئے اور لوگوں میں زندگی کی امنگ پیدا کر نی چاہیئے بجائے اس کے کہ ہم
اپنی عوام میں اہل پاکستان میں ناامیدی کو جنم دیں |