بسم اﷲالرحمن الرحیم
حافظ حدیث امام الائمہ
(2ذو لقعدہ ،یوم وفات پر خصوصی تحریر)
امام ابن خذیمہ کاشمار صف اول کے محدثین میں ہوتاہے،ان کاپورانام محمدبن
اسحاق ابن خذیمہ تھا،ان کی کنیت ابوبکر تھی لیکن یہ ”امام ابن خذیمہ “کے
نام سے زیادہ مشہور ہوئے،انہوں نے زیادہ تر امام شافعی ؒکے شاگردوں سے علم
حاصل کیااس لیے فقہ شافعی سے ان کا تعلق بہت مضبوط رہا۔صفر223ھ میں
پیداہوئے اورنیشاپورجیساعلمی طورپر سرسبزوشاداب علاقہ ان کی جائے پیدائش
ہے۔علم کاحصول اور علمی استنادکی حقیقت اسفارعلمیہ میں پوشیدہ ہوتی
ہے۔چنانچہ حصول علم حدیث کے لیے امام ابن خذیمہ نے اپنے آبائی علاقہ
نیشاپور سے کم و بیش اس وقت کی کل اسلامی دنیاکاسفرکیا۔جن جن علاقوں میں آپ
تشریف لے گئے ان میں عراق،شام،مصراور حجازخاص طورپر شامل ہیں۔آپ نے اسحق بن
راہویہ اور محمد بن حمید جیسے نابغہ روزگارہستیوں سے کسب حدیث کیاان کے
علاوہ مرو میں علی بن حجر،مصرمیں یونس بن عبدیل اورواسط میں محمدبن حرب
جیسے محدثین سمیت وقت کے تمام بڑے بڑے علمائے حدیث سے سماع حدیث نبویﷺ
کیا۔اسی طرح ایک زمانے تک آپ حدیث کادرس دیتے رہے اور ایک بہت بڑی تعداد نے
آپ سے حدیث کو روایت کیاجن میں بعض بڑے بڑے محدثین کے نام بھی ملتے
ہیں۔امام الائمہ امام ابن خذیمہ صرف متن حدیث کے ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت
سے دینی علوم کے ماہر تھے اور رائج الوقت متعدد علوم و فنون پر ان کو دسترس
حاصل تھی،خاص طورپر فقہ،استنباط احکام،اسماءالرجال اوراسناد وروایات پر
انہیں بے پناہ دسترس حاصل تھی۔ان کے اکثرہم عصرعلمائے دین ان کے حافظے پر
انحصارواعتمادکیاکرتے تھے۔خود ابن خذیمہ فرماتے تھے مجھ پر اﷲ تعالٰی
کاخصوصی کرم ہے کہ احادیث میرے حافظے میں محفوظ رہتی ہیں۔حافظ ابوعلی
نیشاپوری فرماتے ہیں ابن خذیمہ کو احادیث اسی طرح یاد تھیں جس طرح حفاظ کو
قرآن کی سورتیں یادہوتی ہیں۔
”سنن التحدیث“امام ابن خذیمہ کا تالیف کردہ مجموعہ احادیث نبویہ ﷺہے جسے
”صحیح ابن خزیمہ“بھی کہاجاتاہے۔”سنن “حدیث کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں
احادیث نبویﷺ کو فقہ کی ترتیب سے جمع کیاگیاہو اور کتاب کی تبویب میں پہلے
طہارت کے مسائل ہوں پھرعبادات کے اور پھر معاملات کے۔اس کتاب میں امام
موصوف نے بڑی عرق ریزی سے احادیث کو جمع کیاہے،ان کی اسناد کا بڑی تفصیل سے
ذکر کیاہے،احادیث کے متن کوبڑی عمدگی کے ساتھ ترتیب وار درج کیاہے،متن سے
جوجواحکام جس جس طرح سے ان کااستنباط ہو سکتاہے ان طریقوں کو بھی درج کر کے
تو وہ احکام مرتب کیے ہیں،احکام و قوانین کے نکالنے میں ائمہ فقہ کے درمیان
جو اختلافات تھے امام موصوف نے ان کا بھی بڑی تفصیل سے ذکر کیاہے اورپھر کن
کن بنیادوں پر کس کس امام نے اس حدیث کو قبول کیایانہیں کیااس کا بھی اس
کتاب میں ذکر کیاہے۔امام ابن خزیمہ کے اس اتنے بڑے کارنانے پر ابوالفضل
صالح نے تبصرہ کرتے ہوئے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاہے کہ” اﷲ
تعالی میری امت میں ہر صدی کے اندر ایک مجددبھیجے گا“پس ابوالفضل صالح
فرماتے ہیں کہ پہلی صدی میں حضرت عمربن عبدالعزیز،دوسری صدی میں امام
محمدبن ادریس شافعی اور تیسری صدی کے مجدد امام محمدبن اسحاق ابن خزیمہ
ہیں۔کچھ علمانے لکھاہے کہ ”صحیح ابن خزیمہ “کاکچھ حصہ امتدادزمانہ کی
نذرہوگیاہے اور یہ کتاب بعدمیں آنے والوں تک مکمل حالت میں نہیں پہنچی۔لیکن
پھربھی ماضی قریب میںاس کتاب کے بعض اجزاکو جمع کر کے اس کی تکمیل کی کوشش
کی گئی ہے اورڈاکٹرمحمدمصطفی اعظمی نے اس کتاب کی تدوین نو کی ہے اور تین
جلدوں میں مکتب الاسلامی بیروت سے اس کتاب کو شائع کیاگیاہے۔
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ جب کبھی مجھے کچھ تحریرکرناہوتاتھاتو پہلے
میں استخارہ کرتاتھا تب اس کی روشنی میں کچھ فیصلہ کیاکرتاتھا۔ایک اور موقع
پر ایک شاگردنے سوال کیاکہ آپ اتناعلم کیسے سمیٹ لیتے ہیںتو اس کاجواب دیتے
ہوئے انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کاارشاد مبارک ہے کہ ”زم زم کاپانی جس نیت سے
پیاجائے وہ پوری ہوتی ہے“توامام موصوف نے فرمایاکہ میں نے زم زم کاپانی علم
نافع کی نیت سے پیاتھا۔اسی طرح ایک بار ایک طالب علم نے آپ سے حفظ علوم کے
بارے میں دریافت کیاتوآپ نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی اور اسے جواب
دیا مجھے نہیں یادکہ میں نے کچھ بھی کبھی لکھاہواور وہ مجھے بھول
گیاہو۔امام صاحب اکثر کہاکرتے تھے انسان کاقول نبی کے قول کے برابر نہیں ہو
سکتااور انہوں نے اپنے شاگردوں سے یہ وعدہ لیاہواتھاکہ جب کبھی بھی میرے
کسی قول کے مقابلے تم تک نبیﷺکی کوئی حدیث پہنچ جائے تو میرے قول کو چھوڑ
دینا۔آپ سے منسوب کتب کی کل تعداد ایک سو چالس سے متجاوزہے ۔آپ نے 88سال
عمر پائی،بدھ کے دن بیمارہوئے اورمختصرعلالت کے بعد 2ذوالقعدہ 311ھ ہفتہ کے
دن بعد نمازعشاءاپنے خالق حقیقی سے جاملے۔آپ کونیشاپورمیں آپ کے گھر کے
احاطے میں ہی ایک کونے میں دفنادیاگیابعد میں وہیں آپ کا مقبرہ تعمیر
کیاگیا۔ابوسعیدعمروبن محمدنے بتایاکہ وہ امام کی وفات کے وقت ان کے پاس
موجود تھے جب ان کی زبان پر کلمہ شہادت جاری تھاااورانکی شہادت والی انگلی
متحرک تھی۔اﷲ تعالٰی انہی غریق رحمت کرے ،آمین۔ |