سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری

سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری( المعروف خواجہ غریب نوازؒ)

ابتدائیہ میں ہی معافی نامہ داخل کئے دیتا ہوں تاکہ بزرگ ہستیوں کے حوالے سے اگر لکھنے میں یا معلوماتریسرچ میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو در گذر سے کام لینے پر ہی اکتفا کیا جائے۔ کیونکہ بندہ بشر ہے اور غلطی کا سر چشمہ بھی، اس لئے تحریر کو نہایت صاف شفاف ، نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ پرکھنے کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر کر رہا ہوں تاکہ فیوض و برکات کا یہ سلسلہ قائم و دائم رہے۔آیئے اب موضوع کی طرف رُخ کرتے ہیں:
سلطان الہند حضرت معین الدین سنجری اجمیری رحمة اللہ علیہ المعروف خواجہ غریب نواز کے عرس فیسٹیول اب اجمیر شریف ، راجستھان ، انڈیا میں گذر چکا ہے،یہ سالانہ عرس کا انعقاد ہر سال اپنے پورے وقار کے ساتھ منایا جاتاہے جس میں دنیا بھر سے ان کے چاہتے والے عرس کی تقریبات میں شرکت کی کوشش کرتے ہیں ، مگر ان کے لئے بھی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے دربار میں وہی لوگ جایاکرتے ہیں جن کا بلاوا آتا ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ جن کو معین الدین سنجری اجمیری ، اجمیر بلاتے ہیں وہی اس فیوض سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ (واللہ اعلم باالصواب)

اوپر دیئے گئے سطر سے تو بات کلی طور پر واضح ہے کہ مضمون کس شخصیت کے بارے میں ہے ۔ یہ تحریر تو ایسی شخصیت کے بارے میں ہے جس کے دربار میں اکبر، شاہجہاں، عالمگیر جیسے مدبر بادشاہ اور گدڑی پوش درویش سب ایک ہی صف میں کھڑے رہتے ہیں۔ ان کے دَر پر کوئی پہرہ دار نہیں ، ہر چھوٹے بڑے کیلئے یہ دَر ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ان کے دَر سے سب ہی کو بھیک ملا کرتی ہے آنکھوں میں نمی کے آتے ہی ان کا دل پسیجا اور اپنے ہر سائل کو نواز دیا، کہتے ہیں کہ کوئی بھی سائل ان کے دَر سے خالی ہاتھ نہیں جاتا۔
مدد کو رحمتِ پروردگار آتی ہے
پکارتا ہے اگر کوئی یا غریب نواز

ولادت با سعادت: خواجہ خواجگان حضرت معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری ؒ 530سن ہجری میں سنجر نامی موضع، خراسان میں پیدا ہوئے۔ موضع سنجر قندہار سے چوبیس گھنٹے کے سفر پر پورب کی جانب واقع ہے ۔ یہ گاﺅں اس دارِ فانی کے نقشے پر اب بھی موجود ہے۔ اس کو سجستان کے نام سے بھی جاناجاتاہے، آپ کے والدِ بزرگوار کااسمِ گرامی حضرت غیاث الدین حسن ہے اور یہ آٹھویں پشت میں عارف حق موسیٰ کاظم علیہ الرحمة کے پوتے ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔والدہ ماجدہ کا نام بی بی اُم الوراع ہے جبکہ بی بی ماہ نور کے نام سے بھی ان کی شہرت جانی مانی ہے۔ آپ چند واسطوں سے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی شمار کی جاتیں تھیں،یوں حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سید ہیں۔

آپ کی والدہ ماجدہ کا ایک بیان کا ذکرکتابوں میں ملتاہے ، وہ کہتی ہیں کہ جب میرا نورِ نظر لختِ جگر میرے شکم میں آیاتو میرا سارے کا سارا گھرخیرو برکت سے معمور ہو گیا۔اور ہمارے دشمن بھی ہم سے شفقت و محبت جتانے لگے۔ اکثر و بیشترمجھے بہترین خواب آتے اور جس وقت سے میرے اللہ نے آپ کے جسم اطہر میں جان ڈالی تو اس وقت سے یہ معمول ہو گیا تھاکہ رات کہ پچھلے پہر سے صبح صادق تک میرے شکم سے تسبیح کی آواز آتی تھی اور میں اس مبارک آواز میں گم ہو جایاکرتی تھی جب آپ کی ولادت با سعادت ہوئی تو میرا گھر نور سے مجسم بھر گیا۔

تعلیم: بنیادی تعلیم کا سلسلہ گھر سے ہی شروع ہوا۔ آپ کے والدماجد حضرت غیاث الدین حسن بڑے جیّد عالم گذرے ہیں۔ خواجہ صاحب نے صرف 09 سال کی عمر میں ہی قرآنِ کریم حفظ کر لیاپھر سنجر کے ایک مکتب میں ان کا داخلہ ہوا۔ یہاں سے آپ نے ابتدائی تفسیر، فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کی اور بہت مختصر عرصے میں ہی آپ نے تمام علوم میں ایسی مہارت حاصل کرلی کہ جس کا فیوض آج بھی یادِ رفتگاں ہے۔

والد بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ گیا: خواجہ غریب نواز ؒ بچپن ہی میں اپنے والد کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ جب کہ آپ کی عمرپندرہ سال بھی نہ ہوئی تھی۔ والدماجدکاوصال شعبان المکرم 544 ہجری میں ہوا۔ والدنے ترکے میں ایک باغ اور ایک چکی چھوڑی تھی۔ظاہرہے کہ اس کے بعد آپ نے باغبانی کو ہی کو ذریعہ معاش بنایا۔ آپ سارا کام خود کیاکرتے تھے، درختوں کوپانی دیتے، زمین کی ہمواری کاکام بھی خود ہی کرتے تھے، پودوں کی دیکھ بھال سے لیکر پھلوں کی فروختگی کا سارا کام بھی آپ نے اپنے ہی ذمہ رکھاتھا۔ ایک دن اپنے باغ کو پانی دے رہے تھے کہ اچانک ابراہیم قندوزی نامی ایک بزرگ جو مجذوب بھی تھے باغ میں داخل ہوئے اور نظروں ہی نظروں میں خواجہ صاحب کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔ خواجہ صاحب اپنے بچپن ہی سے صوفیوں اور درویشوں سے بے پناہ لگاﺅ رکھتے تھے اس لئے نہایت ہی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا اور انگور کا ایک خوشہ توڑ کر حضرت ابراہیم قندوزی کے حضور پیش کیا۔ مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی تو سمجھ ہی رہے تھے کہ حسن کو ایک رہنما کی تلاش ہے اس لئے آپ نے پھل کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس کو چبا کر حضرت خواجہ صاحب کو عنایت فرما دیا۔ اب کیا تھا کھاتے ہی دل کی دنیا میں تبدیلی آگئی جو ان کو حق تک پہنچا دے یوں آپ احوال باطن کی طرف متوجہ ہوئے اور مسلک صوفیہ کی جانب ان کا رجحان پیدا ہو گیا۔ یوں خواجہ صاحب نے سارا مال و اسباب راہِ خدا میں دے دیا اور خدا پر توکل کرکے تنِ تنہا تلاش حق کیلئے نکل پڑے ۔

تلاشِ حق کی جستجو: آپ ؒ سب سے پہلے خراسان تشریف لے گئے ۔ اس کے بعد ثمر قند و بخارا پہنچے جو ان دنوں اسلامی علوم و فنون کے مرکز سمجھے جاتے تھے۔ 544 ہجری سے 550 ہجری تک وہاں علوم ظاہری و مذہبی علوم کی تحصیل فرمائی ۔عراق جاتے ہوئے قصبہ ہارون سے گزر ہوا جو ضلع نیشا پور میں واقع ہے۔ یہاں پیر خواجہ عثمان سے ملاقات خندہ پیشانی کے ساتھ ہوئی اور ان کے مریدوں کے حلقے میں داخل ہوگئے۔تعلیم و تربیت کی غرض سے کئی سالوں تک اپنے مرشد کے ہمراہ سیر و سیاحت کرتے رہے۔ اسی دوران آپ کی ملاقات مشاہیر مشائخ اور علماءحضرات سے ہوتی رہی ان بزرگوں میں چیدہ چیدہ نام یہ ہیں شیخ عبد القادر جیلانی، شیخ نجم الدین کبریٰ، عبد القادر سہروردی، شیخ عبد الواحد غزنوی ، شیخ نجیب الدین جیسی مشہور و معروف شخصیات شامل تھیں۔ (احسن المیر صفحہ 134)

براستہ افغانستان ملتان ہوتے ہوئے جب حضرت خواجہ سلطان الہند لاہور پہنچے تو کئی مہینے تک حضرت سیدنا شیخ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کے مزارِ اقدس پر مراقبے میں صرف بھی کیا۔آپ کا حجرہ اعتکاف آج تک احاطہ مزار حضرت داتا گنج بخش ؒ کے اندر موجود ہے۔یہاں سے برکات اور فیوضِ باطنی اکھٹاکیا اوربوقتِ رخصت یہ شعرپڑھا جو واقعتاً عالمگیر شہرت کا باعث بنا اور آج بھی درگاہ داتا صاحب کے پیشانی پریہ تاریخی شعر کندہ ہیں:
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را رہنما

حرمین شریفین اور مدینہ منورہ کا سفر: بغداد (عراق) سے آپ حرمین شریفین تشریف لے گئے۔ یہ سفر 551 ہجری میں آپ نے طے کیا۔حضرت خواجہ اجمیر مناسکِ حج ادا کرنے کے بعد مدینہ طیبہ کی زیارت کو حاضر ہوئے اور عرصہ تک مدینہ قبا میں مشغولِ عبادت رہے۔ ان ہی ایّام میں ایک دن آپ کو دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے بشارت ہوئی: ” اے معین الدین ! تو میرے دین کا معین ہے، میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطاکی۔ وہاں کُفر و شرک کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے۔ تو اجمیر جا، تیرے وجود کی برکت سے باطل کا اندھیرا جلد ہی چھٹ جائے گا۔ اور عالم میں اسلام کی رونق پھیل جائے گی۔آپ ؒ اس بشارت سے بہت مسرور ہوئے۔ مگر ساتھ ہی حیران بھی تھے کہ اجمیر کہاں واقع ہے؟ اسی فکر میں تھے کہ ان کی آنکھ لگ گئی اور سرورِ کونین، فخرِ موجودات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب میں اپنی زیارت سے مشرف فرما کر پلک جھپکتے اجمیر کا تمام شہر اور قلعہ و کوہستان دکھلا دیا۔ پھر آپ کو ایک جنتی اَنار دے کر رخصت فرمایا۔

اپنے پیر و مرشد کے ساتھ حرم شریف کی حاضری: خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں: میں چند روز پیر و مرشد کی خدمت میں رہا۔ پیر حضرت نے اس دعاگو کو ساتھ لیکر حرم شریف کا سفر کیا۔ ایک شہر میں پہنچ کر دیکھا یہاں ایک جماعت درویشوں کی ہے جو عشقِ الہٰی میں سر شار عالم سکر و حیرت میں از خود رفتہ تھی۔ چند دن ان کی صحبت میں گزارا مگر وہ حضرات عالمِ صحو میں نہ آئے۔(انیس الارواح) پھر مکہ معظمہ کی راہ لی ۔ خانہ کعبہ پہنچ کر زیارت و طواف سے مشرف ہوئے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ میرے پیر و مرشد نے یہاں بھی میرا ہاتھ پکڑا اور حق تعالیٰ سبحانہ‘ کے سپرد کیا۔ بعدِ ازاں گنبدِ خضرا کے شہر مدینہ منورہ تشریف لائے اور حرم نبوی میں حاضری سے سرشار ہوئے ۔ پیر و مرشد نے کہا‘ سلام کر! میں نے سلام عرض کیا۔ آواز آئی وعلیکم السلام یا قطب المشائخ برو بحر۔یہاں سے نبی کی حیات کا مسئلہ کلی طور پر حل ہوگیاکہ اگر نبی مرکر معاذ اللہ مٹی میں مل گئے ہوتے جیساکہ باطل فرقوں کا عقیدہ رہا ہے تو جواب نا ممکن تھا۔ حدیث شریف میں ہے:ان اللّٰہ حرام علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاءفنبی اللّٰہ حیی یرزق۔ (بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین پر انبیاءکے جسموں کو حرام کر دیا ہے کہ وہ کھائے ، تو اللہ کا نبی زندہ ہے اورانہیں رزق دیا جاتا ہے)

آمدِ سیستان: حضرت خواجہ غریب نواز ؒ اس سفر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں ایک وقت عثمان ہارونی کے ساتھ سیستان کے سفر میں تھاکہ یہاں صومعہ (گرجاگھر) میں ایک بزرگ تھے ان بزرگ کا نام صدر الدین محمد سیستان تھا۔ بہت مشغول بزرگ مانے جاتے تھے۔ چند دن ان کے پاس قیام ہوا جو شخص ان کے صومعہ میں آتا محروم نہ جاتا۔ عالمِ غیب سے کوئی چیز لاکر دیتے اور کہتے اس درویش کو ایمان کی سلامتی کی دعا سے یاد کرو کیونکہ اگرگور میں ایمان سلامت لے گیا تو بڑا کام کیا۔ یہ بزرگ جب گورِ ہئیت کا تذکرہ سنتے تو مثلِ بید کے کانپنے لگ جاتے تھے ان کی آنکھوں سے خون کے آنسو پانی کے چشمے کی طرح جاری رہتے۔ تقریباً سات دن تک روتے رہتے اور اپنی آنکھیں ہوا میں کھول کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ ہمیں ان کے رونے سے رونا آجا تا تھا اور کہتے یہ کیسا بزرگ ہے۔ جب وہ اس کام سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف منہ کرکے کہتے تھے : اے عزیزان! مجھے مرگ درپیش ہے جس کا ملک الموت حریف ہو اور قیامت جیسا دن پیشِ نظر ہو اس کو سونے اور خوش دلی سے کیا کام اور کیسے کسی کام میں مشغول ہونا اچھا لگے گا۔ (دلیل العارفین)

ہندوستان میں خواجہ غریب نواز کی تشریف آوری: سبزوار سے روانہ ہوئے تو آپ غزنی پہنچے۔ سلطان المشائخ عبد الواحد سے شرفِ ملاقات فرمائی۔ آپ کے ساتھ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت خواجہ فضر الدین گردیزی اور حضرت محمد یادگار بھی تھے۔ جب یہ نورانی قافلہ ہندوستان کی سرحدی علاقے پنجاب میں داخل ہوا ۔ جس وقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ ہندوستان میں داخل ہوئے تو اس وقت سلطان شہاب الدین محمد غوری اور اس کی فوج پرتھوی راج سے شکست کھانے کے بعد غزنی کی طرف بھاگ رہے تھے۔ لوگوں نے خواجہ صاحب کو منع بھی کیاکہ مسلمان بادشاہ کو شکست ہو گئی ہے اس لئے اس وقت آپ کا یہاں سے گذرنا مناسب نہیں ہے لیکن ان حضرات نے جواب دیاکہ تم تلوار کے بھروسے پرگئے تھے اور ہم اللہ تبارک و تعالیٰ عز و جل کے بھروسے پر جا رہے ہیں۔ وہاں سے روانہ ہوکر پٹیالہ کے راستے آپ دہلی تشریف لائے ۔ آپ نے راجہ کھانڈے راﺅ کے محل کے سامنے تھوڑے فاصلے پر رشد و ہدایت کا کام شروع کیا۔ آپ کا اندازِ تبلیغ اتنا دلنشین اور پُرکشش تھا کہ آپ کے پاس آنے والوں میں اکثر لوگ آپ کے دستِ حق پر ایمان لے آتے۔ اسلام کا فروغ دہلی میں اس قدر پھیلا کہ کھانڈے راﺅ نے حکم جاری کیا کہ ان فقیروں کو دہلی سے فورا نکال دیا جائے مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے جو کوئی بھی اس کام کیلئے وہاں جاتا خواجہ صاحب کی حسنِ اخلاق، اعلیٰ کردار سے متاثر ہوکر قبولِ اسلام کرلیتا۔ کھانڈے راﺅ نے اسی دوران ایک بدمعاش کو لالچ دیکر تیار کیاکہ وہ معتقد بن کر جائے اور انہیں قتل کر دے۔چنانچہ وہ شخص عقیدت مند بن کر آپ کے پاس حاضر ہوا لیکن آپ پر اس کی آمد کا حال منکشف ہوگیا اور آپ نے فرمایا: اس عقیدت مندی کا کیا فائدہ تو جس کام کے لئے آیاہے وہ کیوں نہیں کرتا۔ یہ سن کر تو جیسے اس کے بدن میں لرزہ طاری ہوگیا اور خنجر زمین پر آگرا ،اور وہ شخص بھی آپ سے وابستہ ہوکر مسلمان ہوگیا۔ جب خواجہ صاحب کو یقینِ کامل ہو گیا کہ دہلی میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے تو انہوں نے اپنے چالیس جانثاروں کے ساتھ اجمیر شریف کا رختِ سفر باندھا اور روانہ ہو گئے۔ اس سفر کے دوران بھی سینکڑوں آدمی آپ کے دستِ حق پر ایمان لائے۔

کرامات: اجمیر شریف پہنچ کر آپ ؒ نے ایک درخت کے نیچے آرام کی غرض سے قیام فرمایا، درخت کافی سایہ دار تھا، ابھی آپ سستانے کیلئے بیٹھے ہی تھے کہ چند ساربانوں نے آکر منع کیا اور کہا یہاں راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، بہت سی جگہیں ہیں اونٹ کہیں بھی بیٹھائے جا سکتے ہیں لیکن ساربانوں میں تشدد کا عنصر نمایاں ہو گیا۔ خواجہ صاحب یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئے کہ لو بابا! ہم یہاں سے اٹھ جاتے ہیں تمہارے اونٹ ہی بیٹھے رہیں۔ وہاں سے اٹھ کر آپ اپنے مریدوں کے ساتھ انا ساگر کے قریب پہاڑی پر ٹھہر گئے دوسرے دن ساربانوں نے لاکھ کوشش کی مگر اونٹ وہاں سے کھڑے نہ ہو ئے ایسا محسوس ہوتا تھاکہ جیسے زمین نے انہیں جکڑ لیا ہو۔ ساربان سخت پریشان ہوئے اور اسی پریشانی کے عالم میں راجہ کے دربار میں حاضر ہوئے ۔ جب راجہ نے ان کی زبانی یہ عجیب و غریب واقعہ سنا تو حیرت میں پڑگیا ۔ ناچار اس نے حکم دیا جاﺅ اس فقیر سے معافی مانگو جس کی بد دعاءکا یہ نتیجہ ہے۔ ساربانوں نے جاکر عاجزی و انکساری سے معافی مانگی۔ آپ نے کمال مہربانی سے فرمایا جاﺅ خدا کی مہربانی سے تمہارے اونٹ کھڑے ہو جائیں گے۔ ساربانوں نے واپس آکر دیکھا تو سب اونٹ کھڑے تھے۔ ان کی خوشی اور تعجب کی انتہا نہ رہی۔ اس واقعے سے آپ اندازہ لگائیں کہ اولیاءکرام کتنے با اختیار ہوتے ہیں اور ولی کو جب اتنا اختیار ہے تو پھر نبی کو کتنا اختیار ہوگا۔ لہٰذا جو کہے کہ جن کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ کسی چیز کے مالک و مختار نہیں، وہ گمراہ لوگ ہیں۔

ایک اور کرامت کا ذکر ایسے ہے کہ حاکمِ وقت نے ایک بے قصور شخص کو پھانسی دی اس آدمی کی ماں روتی ہوئی خواجہ صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیاکہ میرا بیٹا بے قصور تھا مجھ پر کرم فرمائیں۔ آپ عصا لیکر اس کے ساتھ روانہ ہو ئے۔ مقتول کے پاس پہنچ کر عصا سے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اگر تو بے قصور قتل کیا گیا ہے تو خدا کے حکم سے زندہ ہو جا اور دار سے نیچے اتر آ۔ مقتول یہ سنتے ہی زندہ ہو گیا اور سولی سے اتر کر آپ کے قدموں پر سر رکھا اور اپنی ماں کے ساتھ اپنے گھر کی راہ لی۔(واللہ اعلم باالصواب)

کلمات الصادقین میں لکھا ہے کہ ایک دن خواجہ صاحب کا گزر کفار کے ایک بُت کدے کی طرف سے ہوا۔ اس وقت سات یا آٹھ کافر بُت پرستی میں مصروف تھے۔ آپ کا جمال دیکھتے ہی بے بس ہو گئے اور قدموں میں آکر گرگئے فوراً توبہ کی اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ آپ نے ان میں سے ایک کا نام حمید الدین رکھا۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیخ حمید الدین دہلوی ان سات حضرات میں سے ایک ہیں جنہوں نے شہرت پائی۔

ایک اور مشہور کرامت رام دیو کا قبولِ اسلام ہے، جب خواجہ صاحب اجمیر میں انا ساگر کے قریب مقیم ہوئے وہ انا ساگر جس کے گرد و پیش میں ہزاروں کی تعداد میں بُت خانے تھے جن پر روزآنہ سینکڑوں من تیل اور پھول صرف ہوتے، ہر وقت پرستاروں کا ہجوم لگا رہتا تھا۔ اہلِ شہر کی کثیر تعدادہر وقت مندروں میں پوجا کیلئے حاضر رہتے تھے ، ایک دن پجاریوں کے سردار رام دیو (دوسری کتابوں میں اس کا نام شادی دیو لکھا ہے) ایک جماعت کثیر کے ساتھ حضرت کی بارگاہ میں آیا تاکہ اس مرد درویش کو یہاں سے نکال دیا جائے لیکن حضرت خواجہ صاحب کے جمال پر نظر پڑتے ہی لوگوں کے جسموں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ وہ تمام لوگ بید کی طرح کانپنے لگے۔ حضرت کی نگاہِ کرم کی تاثیر نے رام دیو کے دل کی کیفیت ہی بدل کر رکھ دی، وہ بصدِ خلوص و عقیدت آگے بڑھا اور دستِ حق پر اسلام قبول کر لیا۔

سلسلہ چشتیہ: اس سلسلے کا نامِ نامی کی نسبت چشت سے بنتا ہے ۔ ہرات کے قریب ایک گاﺅں ہے وہاں پر اس سلسلے کے بانی خواجہ ابو اسحاق شامی اپنے مرشد خواجہ دینوری کے حکم پر آکر آباد ہوئے۔ شجرہ کے حوالے سے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ ابو اسحاق مششاد علو دینوری، امین الدین ابی ہبیرہ البصری، سدید الدین حذیفتہ المرعشی، ابراہیم ادھم بلخی، ابو الفیض فضیل بن عیاض، ابو الفضل عبد الواحد بن زید، حسن البصری، علی بن ابی طالب، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ خواجہ معین الدین چشتی سنجری (المعروف خواجہ غریب نواز) اس سلسلے کو چھٹی صدی ہجری بمطابق بارہویں صدی عیسوی میں یہاں لائے اوراس طرح اجمیر میں چشتی صوفیا ءکا مرکز قائم کیاگیا۔ یہاں سے یہ سلسلہ ہندوستان کے اکناف میں پھیلنا شروع ہوا۔ اس سلسلے کے بانی تک حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری مندرجہ ذیل روحانی پیشواﺅں سے پہنچتے ہیں۔ معین الدین حسن، عثمان ہارونی، حاجی شریف زندانی، مودود چشتی، ابی یوسف ابی محمد، ابن احمد، ابی احمد بن فرسفہ، ابو اسحاق شامی۔ پرانے چشتی صوفیائے ہند شیخ شہاب الدین سہروردی کی کتاب ” عوارف المعارف“ کو سب سے اہم تصنیف سمجھتے ہیں۔اس سلسلے کا بنیاد تصور ” وحدت الوجود “ تھا۔

وصال: خواجہ غریب نواز نے اپنے وصال سے پہلے کئی وصیتیں فرمائیں۔ جو خلافت کے اہل لوگ تھے انہیں خلافت سے بھی نوازا اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو اجمیر شریف بلا بھیجا۔ تقریر کا سلسلہ جاری تھا اسی دوران خواجہ قطب الدین کی خلافتر کا فرمان لکھاگیا۔ قطب صاحب حاضرِ خدمت تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ نے اپنا کلاہ مبارک ان کے سر پر رکھا اور اپنے ہاتھ سے عمامہ باندھا۔ خرقہ اقدس پہنایا، عصائے مبارک ہاتھ میں دیا۔ مصلیٰ کلام پاک، نعلین مبارک مرحمت فرما کر ارشاد فرمایا۔ یہ نعمتیں میرے بزرگوں سے سلسلہ بہ سلسلہ فقیر تک پہنچی ہیں۔ اب میرا آخری وقت آ پہنچا ہے یہ امانتیں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ پھر انہیں رخصت کیا۔ 05 رجب المرجب (اور کہیں 04 رجب المرجب بھی درج ہے) بمطابق 21 مئی 929 عیسویں کی درمیانی شب حسبِ معمول خواجہ صاحب نماز کے بعد اپنے حجرے میں گئے اور اندر سے دروازہ بند کر لیا ۔ مریدین و خدام اور سندِ کتب کے مطابق رات بھر درود یوار سے ذکر کی آوازیں آتی رہیں۔ صبح ہونے سے پہلے یہ آواز آنا بند ہوگئی۔ آخر کار خدام نے دستکیں دیں اس پر بھی کوئی جواب نہ آیا تو لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی۔ سورج نکلنے پر دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے ۔ دیکھاکہ آپ واصل بحق ہو چکے ہیں، آپ نے۷۹ سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے رحلت فرمائی۔ اور آپ کی نورانی پیشانی پر سبز اور روشن حروف میں لکھا ہوا ہے۔ ہذا حبیب اللّٰہ مات فی حب اللّٰہ (یہ اللہ کے حبیب تھے۔ اللہ کی محبت میں وفات پائی) اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونo

آپ ؒ کے انتقال کی خبر پورے شہر میں بجلی کی سی تیزی سے دوڑ گئی اور جنازہ پر ہزاروں افراد جمع ہو گئے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے خواجہ فخر الدین نے نماز جنازہ پڑھائی، جس حجرہ میں آپ کا انتقال ہوا وہیں آپ کو دفن کیاگیا۔ جب سے لیکر آج تک اور شاید قیامت تک آپ کا آستانہ ہندوستان کا روحانی مرکز ہے، اور رہے گا۔

پسماندگان: منقول ہے کہ شہنشاہِ ہند سیدنا معین الدین خواجہ غریب نواز ؒ نے دو نکاح فرمائے تھے۔ پہلی زوجہ سے دو صاحبزادے تھے جن میں حضرت خواجہ فخر الدین ابو الخیر، حضرت خواجہ حسام الدین ابو صالح اور ایک صاحبزادی بی بی حافظہ جمال ہیں۔ جبکہ دوسری زوجہ سے صرف ایک صاحبزادے حضرت خواجہ ضیاءالدین ابو سعید ہیں۔آپ کی تمام اولادیں علم و عرفان اور ولایت کے اعلیٰ درجات پر فائز تھے، آج بھی ان کے مزارات سے فیوض و برکات کے چشمے جاری و ساری ہیں۔
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 339760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.