کلین سویپ

 ”کلین سویپ “کرکٹ سیریز میں استعمال ہونے والی ٹرم ہے جسے عمران خان آج کل کچھ ایسے انداز میں استعمال کر رہے ہیں کہ ”تحریک ِانصاف آنے والے الیکشن میں کلین سویپ کرے گی“۔اب تحریک ِ انصاف کلین سویپ کرتی ہے یا نہیں اِس کا فیصلہ تو آنے والے الیکشن میں ہو گا لیکن تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کی طرف سے اِس طرح کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ آخری ووٹ کی گنتی تک کچھ کہا نہیں جا سکتا، اِس میں کوئی شک نہیں کہ گیلپ کے سروے کے مطابق عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف پاکستانی عوام میں مقبول ترین پارٹی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے جلسوں میں جوق در جوق آنے والے لوگ کیا عمران خان کی پارٹی کو ووٹ دیں گے بھی؟شاید اِس سوال کا جواب ہمیں آنے والے الیکشن کے بعد ہی معلوم ہو سکے۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان پر ابھی تک کسی قسم کی کرپشن کا کوئی داغ نہیں لگا مگر مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے کچھ رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ عمران خان شوکت خانم ہسپتال کا پیسہ حرپ کر رہے ہیں ۔الزامات لوگ لگاتے رہتے ہیں لیکن ثبوت کسی کے پاس نہیں ہے جبکہ ثبوت کے بغیر الزام لگانا میرے خیال میں شایدغلط ہے-

آپ اِس سے اتفاق کریں یا نہ کریں ۔پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو بخوبی علم ہے کہ نوجوان نسل اِس وقت عمران خان کے ساتھ ہے جو کہ ملک کی کُل آبادی کا 34فیصد ہیں اور 34فیصد میں سے تقریباََ 24فیصد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔اِس نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن نے نوجوانوں کے لیے مختلف پیکجز متعارف کرائے ہیں جیسے لیپ ٹاپ کی تقسیم،ییلو کیپ ٹیکسی سکیم اور سالانہ سپورٹس فیسٹیول کا انعقاد وغیرہ۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ پیکجز نوجوانوں کی فلاح کے لیے ایک اچھا قدم تھا لیکن اگر اِس طرح کے پیکجز دینے کا مقصد دیکھا جائے تو وہ صرف آنے والے الیکشن میں ووٹ بینک کرنا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن بھی عوام کے لیے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے ،مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ فلاحی کام صرف پنجاب میں ہی ہو رہے ہیں حالانکہ سندھ،کے پی کے،پلوچستان اور گلگت بلتستان بھی پاکستان میں آتے ہیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن اچھے پروجیکٹ شروع کر رہی ہے مگر یہ پروجیکٹ بغیر کسی صوبائی تقسیم کے پاکستان کے مختلف صوبوں میں ہونے چاہئیں۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان صرف شریف برادران کے خلاف بولتا ہے زرداری کے خلاف کیوں نہیں بولتا ۔دیکھیں عمران اور شریف برادران کی تکرارسن 96سے ہے جب عمران خان شوکت خانم ہسپتال بنا رہا تھا اور چندے کے لیے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی پر اشتہار چلانے کے لیے نواز شریف سے کہا کیونکہ اُس وقت نواز شریف کی حکومت تھی تو نواز شریف نے اشتہار چلانے سے صاف انکار کر دیا تھا،عمران خان اور شریف برادران کے درمیان تکرار کی دیگر کافی وجوہات ہیں ۔

رہی بات عمران خان کی توزیادہ پاکستانی عوام کی رائے ہے کہ نیا شخص ہے اُسے اقتدار میں آنے کا ایک موقع ملنا چاہیے کیونکہ گزشتہ بیس سالوں سے مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے کے لیے ایک دوسرے کی باریاں لگائی ہوئی ہیں ویسے بھی عمران ایک نیا ذائقہ (Taste)ہے اِس لیے ہو سکتا ہے کہ عوام کے لیے بہتر ثابت ہو اور پیسہ اکٹھا کرنے کا لالچی نہ ہو ،کیونکہ یہ تجربہ تو اُس کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی ہو گا کہ عوام کے لیے اُس کا ردِعمل کیسا ہے لیکن یہ کہنا ہرگز جائز نہیں کہ عمران خان کو اقتدار میں آنے کا ایک موقع نہ دیا جائے اور یوں باریاں لگانے والے ایک دوسرے کی باریاں لگاتے رہیں اور پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیں۔

پاکستان تحریک ِانصاف میں کچھ ایسے لوگ شامل ہو گئے ہیں جِن کے ماضی صاف دکھائی نہیں دے رہے جس کی بنا پر شاید عمران خان کو سیاسی مار کھانی پڑے۔پی ٹی آئی کا اگلے الیکشن میں کلین سویپ کرنا شایدنا ممکن ہو گا لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہی پارٹی ایک دفعہ واضع اکثریت سے جیت کر اقتدارمیں آئے گی۔
Muhammad Furqan
About the Author: Muhammad Furqan Read More Articles by Muhammad Furqan: 8 Articles with 6691 views Iam Chief Editor @
www.RawalpindiTimes.com
and Columnist.
.. View More