آئی جی پنجاب کا انکار

یہ سچ ہے جنگ دو فوجوں کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ دونوں طرف کے جرنیل اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں فوج کوہدایات اورحکم دیتے ہیں اوریوں جنگ میں ان کی کامیابی یا شکست کافیصلہ ہوتا ہے ۔اس طرح کسی بھی ٹیم کی کامیابی کادارومدار ٹیم ممبران سے زیادہ ٹیم کے کپتان پرہوتا ہے۔اگرکپتان میں قائدانہ صلاحیتیں نہیں ہوں گی اورٹیم کامورال گرجائے گاتوشکست اس کامقدربن جائے گی ۔ایک باصلاحیت کپتان اپنی مرضی ومنشاءکے مطابق اپنے ٹیم ممبرزمنتخب کرتا ہے کیونکہ کس ممبرسے کیا اورکہاں کام لیا جائے گااس بات کافیصلہ کپتان سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔عمران خان کے دورمیں پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ کافاتح کیوں بناتھا اسلئے نہیں کہ عمران خان سپرمین ہیں یاکسی ایک پلیئر کی تھروآﺅٹ کارکردگی بہت اچھی رہی تھی بلکہ اسلئے کہ عمران خان نے اپنے ٹیم ممبرزکااپنی مرضی سے انتخاب کیا تھااوران کے ہوتے ہوئے کسی چیئرمین،کوچ یامنیجر کومداخلت کی اجازت نہیں تھی اورعمران خان نے ورلڈ کپ کے دوران اپنے ٹیم ممبرزیعنی باﺅلرز اوربلے بازوں کودرست وقت اوردرست نمبرپراستعمال کرتے ہوئے پاکستان کوکامیابی سے ہمکنار اورپاکستانیوں کومسرت وشادمانی سے سرشار کردیا تھا۔عمران خان کے بعد قومی کرکٹ ٹیم ایک بار پھر اندرونی سیاست کی نذرہوگئی ہے ۔

پنجاب پولیس کے کپتان حاجی حبیب الرحمن ایک پیشہ ورپولیس آفیسراورپولیس فورس کی نیک نامی کیلئے کوشاں ہیں۔پولیس پرعوام کے اعتماد کی بحالی کیلئے حاجی حبیب الرحمن کی دوررس اصلاحات کایقینا مثبت نتیجہ نکلے گا ۔ڈسپلن کی پاسداری کے معاملے میں ان کاٹریک ریکارڈزبردست ہے ۔جہاں تک مجھے یادپڑتا ہے حاجی حبیب الرحمن تھروآﺅٹ اپنے پروفیشنل کیئریرمیں کبھی کسی متنازعہ معاملے میں ملوث نہیں رہے اورانہیں خوشامدیاپسندناپسندکی بنیادپرنہیں بلکہ ان کی قابلیت اوراہلیت کی بنیادپرآئی جی پنجاب بنایاگیاہے۔میاں شہبازشریف کے انتہائی متحرک اورباریک بین منتظم ہونے میں کوئی دورائے نہیں،حاجی حبیب الرحمن بحیثیت آئی جی پنجاب میاں شہبازشریف کاحسن انتخاب ہیں۔انہیں خصوصی طورپرپنجاب میں امن وامان کی صورتحال میں نمایاں بہتری اورتھانہ کلچر میں انقلابی تبدیلی کیلئے یہ اہم منصب دیا گیا ہے ۔ماضی میں ان سے بلوچستان میں بھی کام لیا گیا ہے، انہیں جوبھی ذمہ داری ملی انہوں نے خوش اسلوبی سے نبھائی ۔گذشتہ دنوں حاجی حبیب الرحمن نے اپنے سٹاف آفیسر فیاض سنبل کوبلوچستان بجھوانے سے انکار کردیا جس کاانہیں پوراپوراحق اوراختیارتھا مگرمقتدرقوتوں کی طرف سے ان کایہ اختیاراورانکار تسلیم نہیں کیا گیا ۔مجھے فیاض سنبل کے معاملے میں آئی جی پنجاب کایہ جراتمندانہ انکاربہت پسند آیا کیونکہ جوانکار نہیں کرسکتے ان کے اقرارکی کوئی حیثیت اوراہمیت نہیں ہوتی ۔عہدحاضر میں انکارصرف وہ کرتا جس کااندراورباہرصاف ہو،جس کی دوسروں کے پاس کوئی کمزوری نہ ہو،جواپنے اجلے لباس کی طرح اندر سے بھی کلین ہواوراسے اپنے کردارپرپختہ یقین ہو۔ بلاشبہ فوج اورپولیس دونوں منظم ادارے ہیں ۔فوج سے سرحدوں جبکہ پولیس سے شہروں اورشہریوں کی حفاظت کاکام لیا جاتاہے اوردونوں اداروں کے اہلکاراپنا اپنا فرض اداکرتے ہوئے جام شہادت بھی نوش کرتے ہیں مگرپولیس کے شہیدوںکووہ پذیرائی نہیں ملتی جس کے وہ مستحق ہیں،پولیس شہیدوں کوکیوں نشان حیدر کی طرح کوئی اعلیٰ سرکاری اعزازنہیںدیاجاتا ۔امن وامان کے سلسلہ میں پولیس کی خدمات اورڈیوٹی کے سخت اوقات کے ساتھ ساتھ اس ادارے میں پھیلی بدعنوانی اورقانون شکنی سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم میرے نزدیک پولیس کی مجموعی کارکردگی اورآئی جی پنجاب کی کمٹمنٹ قابل قدر ہے۔جس طرح پولیس کے انتظامی امورمیں ارباب اقتدارکی مرضی اوردھونس چلتی ہے اس طرح فوج کے معاملات میں مداخلت کاتصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔سکیورٹی فورسز کے ڈسپلن کوبرقراررکھنے کیلئے سیاسی مداخلت بندہونی چاہئے ورنہ اداروں کی پیشہ ورانہ کارکردگی مزید متاثرہوگی ۔ پولیس اہلکار یہ سمجھتے ہیںکہ جوملزم کسی سیاستدان کی سفارش پرچھوڑناہے کیوں نہ وہ رشوت لے کرچھوڑدیا جائے۔

فیاض سنبل کے بلوچستان ٹرانسفر ہونے پرحاجی حبیب الرحمن نے ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب سہیل خان کواپنا چیف آف سٹاف مقررکردیا ہے،اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایس ایس پی محمدعلی نیکوکارہ کوسٹاف آفیسر ون،ڈی ایس پی عمران کرامت بخاری کوسٹاف آفیسرٹواورایس ایس پی شہزادسلطان کوسٹاف آفیسر تھری مقررکیا ہے ،یہ تینوں سٹاف آفیسر آئی پنجاب کے چیف آف سٹاف ڈی آئی جی سہیل خان کوجوابدہ ہوں گے۔اس کامطلب آئی جی پنجاب کے نزدیک فیاض سنبل بہت کارآمدآفیسر تھے ورنہ فیاض سنبل کے جانے پرچارسٹاف آفیسر مقررنہ کرناپڑتے ۔پنجاب کے پولیس آفیسرز کابلوچستان ٹرانسفر کرنے سے الٹاوہاں پنجاب کیخلاف تعصب اورمنافرت کی آگ بھڑکنے کاخطرہ ہے کیونکہ بدقسمتی سے بلوچستان میں یہ منفی اوربے بنیاد تاثرپایا جاتا ہے کہ پنجاب کے لوگ ان پرحکمرانی کرتے ہیں ۔ بہترہوگا بلوچستان کیلئے بلوچ قوم کے اپنے آفیسرتیار کئے جائیں اوران کیلئے پنجاب میں قانونی تعلیم وتربیت اورپیشہ ورانہ ٹریننگ کااہتما م کیا جائے یادوسری صورت میں پنجاب سے منجھے ہوئے پولیس آفیسر بلوچستان میںجائیں اوروہاں بلوچ آفیسرزکوٹریننگ دے کرواپس آجائیں کیونکہ پنجاب کے پولیس آفیسر بلوچ عوام کے قبائلی رسوم ورواج اوران کی شاندارروایات سے نابلد ہیں اوروہ وہاں بلوچ عوام کی توقعات پرپورا نہیں اترسکتے۔بلوچستان جانیوالے پولیس آفیسر بلوچ عوام کی حفاظت کریں گے توان کی حفاظت کون کرے گا۔اپنے عزیزواقارب سے ہزاروں میل دوراس ڈپریشن کے ماحول میںکوئی آفیسر کس طرح اپنے فرائض منصبی انجام دے سکتا ہے اور جہاں انہیں دوست اوردشمن کی شناخت تک نہ ہو ۔

دوسرے اداروں کی طرح آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن کی اپنے ادارے کے معاملات اورماتحت آفیسرز کی پوسٹنگ یاٹرانسفر کے بارے میں رائے اہمیت کی حامل اورغورکی متقاضی ہے۔ارباب اقتدارسے کہوں گااگرآپ کوپنجاب پولیس سے اپنی مرضی کا رزلٹ چاہئے توپھراس کے کپتان کواپنے ٹیم ممبرزکے انتخاب کااختیار دیں۔جس ڈسٹرکٹ کاڈی پی اووہاں کی ''بگ گن''کے دباﺅپرلگایاجائے گاتو اس ڈی پی اوکی وفاداریاں آئی جی پنجاب یااپنے ادارے کی بجائے اس بگ گن کے ساتھ ہونافطری امرہے۔ سیاستدان ایک طرف ایس ایچ اوزکی ٹرانسفرپوسٹنگ کیلئے اپنا اثرورسوخ اوردوسری طرف ان ایس ایچ اوزکو استعمال کرتے ہیں۔اگرپولیس سیاستدانوں،وڈیروں اورسرداروں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے انکارکردیں توپولیس کاوقاراورعوام کاپولیس پراعتمادبحال ہوسکتا ہے،تاہم کالی بھیڑوں کے باوجود پولیس فورس میں کیپٹن (ر)امین وینس،مظہرفاروق خان، عمرورک ، چودھری عاطف حیات، چودھری ذوالفقاراحمد ، شعیب خرم جانباز،چودھری محمد عباس خاں ، ڈاکٹرمستنصرعطاءباجوہ،عاطف معراج اورمدثرخان، کی صورت میں انتھک،پرجوش اورفرض شناس پولیس آفیسرزکی کمی نہیں ہے۔پولیس کے بارے میں روزانہ اچھی اوربری خبریں سننے کوملتی ہیں مگرپنجاب کے انتھک آئی جی حاجی حبیب الرحمن اوران کے ایڈووکیٹ کیپٹن (ر)امین وینس کے کام کا منفردسٹائل دیکھ کرمیری پولیس کے بارے میں سوچ مثبت ہوجاتی ہے ۔جوپولیس آفیسر عوام کی خدمت اورمجرمانہ سرگرمیوں کاسدباب کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں وہ کیپٹن (ر)امین وینس کی اصلاحات کوضرورسٹڈی کریں۔کیپٹن (ر)امین وینس اورمظہرفاروق خان بلاشبہ پنجاب پولیس کابیش قیمت اثاثہ اوراپنے ادارے کی نیک نامی کاسبب ہیں ۔کسی فردیاادارے کومختلف خانوں میں تقسیم کرکے ان کی مجموعی کارکردگی کودیکھتے ہوئے اس کے بارے مستندرائے قائم کی جاسکتی ہے۔اگرپنجاب پولیس اورسندھ پولیس کے درمیان موازنہ کیا جائے توامن وامان کے حوالے سے پنجاب پولیس کی اصلاحات اورخدمات تسلی بخش ہیں ورنہ شہرقائدؒ اورکوئٹہ کی حالت زاردیکھ کردل دہل جاتاہے ۔ اگرآئی جی پنجاب کی رائے یاسفارش پران کے ماتحت آفیسر کاتبادلہ منسوخ نہیں کیاجاتا توان کے ٹیم ممبرزکامورال گرنا فطری امر ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں مسجدکمیٹیوں سمیت کوئی ادارہ کرپشن کی نجاست سے پاک نہیں ہے ۔صرف کالی ورد ی والے نہیں دوسری وردیوں میں بھی کالی بھیڑیں چھپی ہوئی ہیں ۔ مگر''بدسے بدنام برا ''کے مصداق ہمارے ہاں پولیس فورس پرزیادہ انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں ۔پولیس آفیسرزاوراہلکاروں کو میڈیا سمیت معاشرے کے مختلف طبقات کی طرف سے شدید تنقیدکاسامنا کرناپڑتا ہے ۔اگر پولیس اہلکارکسی شہری سے رشوت لیتے ہیںتوان کیخلاف کئی اداروں میں درخواست دائر کردی جاتی ہے جہاں زیادہ ترالزامات سچ ثابت ہوجاتے ہیں جبکہ سرمایہ دار سیاستدان کروڑوں اوراربوںروپے ڈکار جاتے ہیں مگرآج تک کسی عدالت میں کسی سیاستدان کیخلاف کرپشن ثابت نہیں ہوئی ۔سیاستدان مختلف ٹاک شوزمیں ایک دوسرے کی بدعنوانی کی دہائی دیتے ہیں مگرنیب نے خاموشی اورچشم پوشی کی چادرتان رکھی ہے۔پولیس اہلکارکی کرپشن کی خبریں اخبارات کی شہ سرخی بن جاتی ہیں جبکہ اہلکاروں کی شہادت کی خبراندرونی صفحات پرسنگل کالم چھپتی ہے۔پولیس والے ہمارے اپنے اورپولیس فورس ہمارااپناادارہ ہے ہم اپنی شدیدنفرت کی طاقت سے اس ادارے کوبہتر نہیں بناسکتے اس کیلئے پولیس اورعوام کے درمیان رابطے کافقدان دورکرنے کی ضرورت ہے اوراس کیلئے ایس ایچ اوزکوشروعات کرناہوگی کیونکہ عام آدمی کاان سے براہ راست اوربار بار واسطہ پڑتا ہے ۔تھانوں کوشہریوں کی بجائے خطرناک مجرموں اورشرپسندوں کیلئے خوف کی علامت بنایا جائے۔جوحکمران ،سیاستدان آفیسریااہلکارعوام سے موثررابطہ رکھتا ہے وہ زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوتا۔سیاسی کارکنوں کی ذاتی پسندناپسندکے سبب امن کمیٹیاں مطلوبہ رزلٹ دینے میں ناکام رہیں لہٰذاامن کمیٹیو ں میں زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے بزرگ،تجربہ کار،دوراندیش اورمعاملہ فہم افرادکونمائندگی دی جائے جورضاکارانہ بنیادوں پرخدمات انجام دیں اورجوبذات خودکسی قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں ۔آئی جی پنجاب اس بات کویقینی بنائیں کہ کسی بھی اہم پولیس آپریشن کے دوران ضرورت کے مطابق پولیس کی ذاتی ایمبولینس گاڑیاں چھاپہ مارٹیم کے ساتھ روانہ کی جائیں ۔زخمیوں کوفوری طبی امدادکیلئے نزدیک ترین ہسپتال پہنچایا اورکسی ہلا کت کی صورت میںمیت کواحترام کے ساتھ سٹریچر پررکھ کرایمبولینس گاڑی میں ڈیڈ ہاﺅس میں شفٹ کیا جائے۔کئی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی ملزم یامجرم کی میت دونوں ہاتھوں اوردونوں ٹانگوں سے اٹھاکر پولیس گاڑی کی پچھلی سائیڈمیں سیٹوں کے درمیان کسی جانور کی طرح پھینک دی جاتی ہے جوغیراسلامی اورغیرانسانی فعل ہے،اس کافوری اورمستقل سدباب کیا جائے ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139613 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.