بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)
کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل نے بلوچستان کے مسئلے
کو حل کرنے کیلئے چند تجاویز دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے معاملے
پر اسمبلیوں میں آواز اٹھائی جائے۔بلوچستان کے ساتھ آمریت اور جمہوریت
دونوں ادوار میں ظلم کیا گیا۔ بلوچستان کے حالات خراب کرنیوالوں کوسزا نہیں
دی گئی جس کے باعث حالات مزید خراب ہوئے۔ مشرقی پاکستان کے لوگ ہم سے زیادہ
وفادار تھے ان کے ساتھ روا سلوک کے باعث انہوں نے علیحدگی اختیار کی۔
بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں اور ہر گھر سے ایک نوجوان
کو اٹھایاگیا ہے۔ اختر مینگل نے کہا کہ سیاسی معاملات کا حل لاپتہ افراد کے
مسئلے کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ لاپتہ افراد کیس میں ملوث ذمہ داروں کا پتہ
لگایا جائے۔ اسلام آباد کی فضاؤں سے دور بین لگا کر بلوچستان کے حالات کا
صحیح طور پر اندازہ نہیں کیا جا سکتا اس کیلئے وہاں جا کر لاپتہ افراد او
ردیگر مسائل کو دیکھنا ہو گا کہ صوبہ آگ میں جل رہا ہے اور وہاں کے لوگوں
کا کوئی پرسان حال نہیں۔سپریم کورٹ نے بھی اپنے ریمارکس میں بلوچستان سے
ڈیتھ سکواڈ ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ جواب میں حکومت اور انٹیلی جنس اداروں
نے لاپتا بلوچ افراد کی حراست الزام سے انکار کرتے ہوئے بتایاہے کہ
ایجنسیوں میں ڈیتھ اسکواڈ نہیں ہیں۔ چیف سیکریٹری نے وفاق اور انٹیلی جنس
کا مشترکا جواب پیش کیا، اس کے مطابق بلوچستان میں فوجی آپریشن ہورہاہے نہ
ہی ایجنسیوں کے پاس کوئی لاپتا فرد ہے، کسی ایجنسی میں ڈیتھ اسکواڈ نہیں ہے۔
بلوچستان کے حالات دن بدن بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔ دہشت گرد ایک سوچے سمجھے
منصوبے کے تحت حکومت کے افسروں اور اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کررہے ہیں تاکہ
وہاں کی مقامی، صوبائی اور وفاقی انتظامیہ کو اتنا کمزور کردیا جائے کہ وہ
ان کے مذموم عزائم کے سامنے بے بس ہوجائے۔ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے
سرکاری افسروں اور اہلکاروں کا تعلق دوسرے صوبوں کے علاوہ بلوچستان سے بھی
تھا۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ شرپسندہر اس شخص کو موت کے گھاٹ
اتاردینا چاہتے ہیں جو حکومت کی رٹ کے لئے کام کررہا ہوخواہ وہ بلوچی ہو یا
پنجابی، سندھی ہو یا پٹھان۔ وہ بدامنی ، قیاس اور انتشار پھیلانے کے لئے
مقامی لوگوں میں صوبائیت، قومیت، مذہب اور رنگ نسل کے جذبات کا خوب پرچار
تو کرتے ہیں مگر یہ محض اپنے مقاصد کے حصول اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کا
ایک بہانہ ہوتا ہے۔ مگر قتل و غارت ، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کرتے ہوئے
وہ عوام، عوامی حقوق یہ سب بھول جاتے ہیں اور جو کوئی بھی ان کی گولیوں کی
بوچھاڑ میں آجائے اس کا سینہ چھلنی کردیتے ہیں۔جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ
کوئی حقوق کی جنگ نہیں بلکہ غیرملکی ایماءپرصوبے کے حالات کو بگاڑنے کی ایک
کوشش ہے۔ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے زیادہ تر سرکاری
اہلکاروں کا تعلق عوام کی فلاح و بہبود سے تھا۔ کوئی شعبہ تعلیم سے تعلق
رکھتا تھا تو کوئی وہاں کے لوگوں میں انصاف بانٹ رہا تھا۔ کوئی دوسرے صوبے
سے آکر وہاں کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا فریضہ انجام دے رہا تھا تو کوئی
انہیں طبی سہولیات فراہم کرنے پر مامور تھا۔ٹارگٹ کلنگ کے تازہ ترین واقعہ
میں جاں بحق ہونے والے افسر محسن نقوی کا تعلق جیولوجیکل ڈیپارٹمنٹ سے تھا
۔ نامعلوم افراد نے انہیںاس وقت نشانہ بنایا جب وہ گھر سے اپنے آفس روانہ
ہورہے تھے۔
ان حالات میں اگر وہاں کوئی ادارہ خدمات انجام دے رہا ہے تو وہ ایف سی ہے
جسے صوبائی حکومت نے صوبے میں امن عامہ کی بحالی کے لئے سول انتظامیہ کی
مدد کے لئے طلب کیا۔ مگریہاں غیرملکی ایجنسیوں کی موجودگی اور ریشہ دوانیوں
کے بدولت ایسے حالات بگڑے کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ نواب اکبربگٹی کے
قتل کے بعد تو ان ایجنسیوں کو مزید گل کھیلانے کا موقع ملا۔ ظاہر ہے کہ
نواب اکبربگٹی کا قتل تاریخ کی ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کا ارتکاب کرکے
فوجی ڈکٹیٹر نے صوبے میں نفرت کی آگ بھڑکا دی۔ نواب اکبر بگٹی کا صوبے کی
سیاست میں بہت اہم کردار تھا یہی وجہ تھی کہ ان کی موت سے وہاں کے عام آدمی
کے ذہن پر بھی اثرپڑا ۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل سے غیرملکی ایجنسیوں نے خوب
فائدہ اٹھایا اور بہت سے علیحدگی پسند تنظیموں کی آبیاری شروع کردی اور
عالمی سطح پر اس کی بدامنی کا پرچار شروع کردیا۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت
صوبے میں مختلف ممالک کی نو کے قریب ایجنسیاں صوبے کے حالات پر اثرانداز
ہونے کے لئے جتی ہوئی ہیں۔ انہی ایجنسیوں کے لوگ وہاں ٹارگٹ کلنگ، لوگوں
اغواء کرنے اور انہیں غائب کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر افسوس اس کا ذمہ دار
اپنے اداروں پر تھوپا جارہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بلوچ سردار خفیہ
ایجنسیوں پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ لوگوں کو غائب کرنے اور ان کی ٹارگٹ
کلنگ میں مصروف ہیں تو دوسری جانب سرکاری ادارے ان الزامات کو ماننے کو
تیار نہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ان پر ہونے والے حملے، سرکاری اہلکاروں اور
عوام کا قتل عام کرنے والوں کو کیسے نمٹا جائے۔ ظاہر ہے انہیں کچھ نہ کچھ
کارروائی کرنا پڑتی ہے جسے آپریشن قراردے کر پراپیگنڈہ قراردینے کی کوشش کی
جاتی ہے۔
بلوچستان کے حالات جس ڈگر پر جا چکے ہیں ضرورت حکومت اور باغی سرداروں کے
درمیان مذاکرات کی ہے۔ مگر مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک
دوسرے کے موقف کو سنا جائے اوراس دوران ایک دوسرے پر اعتماد کی پالیسی
اپنائی جائے کیونکہ غیرملکی عناصر ہرگز نہیں چاہتے کہ صوبے میں امن و امان
قائم ہوسکے لہٰذا وہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کو سبوتاژ کرنے میں اپنی تمام
تر توانائیاں صرف کردیں گے۔ |