سو جاﺅ مکینو کہ فصیلوں پر ہر
سمت
ہم ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں
شائد یہ شعر میں نے درست نہ لکھا ہو مگر مقصد واضح ہے۔ شعر میں نے کوئٹہ
انفنٹری سکول کے ایک فائیر پاور مظاہرے کے ابتداءمیں سُنا تھا شعر بہت ہی
بامعنی اور موقع کی مناسبت سے تھا۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی بہادر
مسلح افواج کے جوان اس شعر کی روح کے مطابق آج بھی وطن عزیز کی فصیل پر
کھڑے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں مگر مکینوں کو میڈیا اور
سیاستدان ذھنی لحاظ سے مفلوج اور محکوم بنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
فصیلوں پر افواج پاکستان کے با جرات جوان اور فصیلوں کے اندر عدلیہ کے سولہ
سپاہی پر سر پیکار ہیں جبکہ پچاس سے زیادہ ٹیلیویژن چینل اور دس بارہ اینکر
اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے در پے ہیں۔
ان چینلوں اور اینکروں کے لئے سیا ستدان، بھانت بھانت کے دانشور اور مفکر
ایسا ایسا چارہ فراہم کر رہے ہیں کہ اینکروں کو جگالی لینے کی فرصت نہیں
ہوتی۔ ایک ہی دانشور یا سیاستدان دو دو تین تین چینلوں پر اپنی عقل و دانش
کے موتی بکھیر رہا ہوتا ہے جس کا ہدف فوج، آئی ایس آئی اور عدلیہ ہوتی ہے۔
ساری دنیا کہ رہی ہے کہ ملک میں کرپشن،ہنگامی، برائی اور بے حیائی نے جتنی
ترقی موجودہ دورجمہوریت میں کی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی مگر میڈیا
مسلسل کوشش میں رہا ہے کہ نئے ایشوز کھڑے کر کے عوام کی توجہ اصل ایشوز سے
ہٹائی جائے۔ بہت سے اینکروں کے لب و لہجے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس کے وظیفہ
خوار ہیں اور ان کا مقصدر اور مشن کیا ہے۔ جناب کامران خان صاحب کی مثال آپ
کے سامنے ہے۔ موصوف کو علمائے حق کی باتیں یاد نہیں یا پھر انہیں اُسکا علم
ہی نہیں مگر مولانا آزاد کی پشین گوئیاں ڈھونڈ لانے اور پاکستان ٹوٹنے کا
عندیہ دے کر اپنی ذہنی کیفیت کا مظاہرہ کر دیا، اس طرح کی باتیں تو مرحوم
خان عبدلوالی خان بھی کیا کرتے تھے مگر ان خان صاحب کو شائد جناب عبدلولی
خان کی تحریروں تک رسائی حاصل نہیں ہوئی۔ ان کا ایک ٹارگٹ عدلیہ اور دوسرا
آئی ایس آئی بھی ہے۔ موصوف نے پچھلے ہفتے اپنے انداز میں ایک واویلہ
پروگرام کیا اور ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے ارسلان چوہدری سے گیارہ سوال
پوچھے جسکا مقصد اس مقدمے کو فریش کرنا اور کسی نہ کسی بہانے جناب محترم
چیف جسٹس کا نام لینا اور آئی ایس آئی کو ملوث کرنا تھا۔ ان جناب سے کوئی
یہ پوچھے کہ بھائی آپ صحافی ہو یا جج یا پھر پولیس؟ آپ کو دوآدمیوں کے
درمیان لین دین پر سوال پوچھنے کا کیا حق ہے ؟اس کا صاف مطلب ہے کہ آپ ایک
فریق سے سوال پوچھ کر دوسرے کی پذیرائی کر رہے ہو یا پھر اس کے نمک کا حق
ادا کر رہے ہو۔ فرض کریں اگر ارسلان نے ملک ریاض سے بتیس کروڑ لئے ہیں تو
ملک ریاض نے حکومت، جنگلات اور مقامی آبادی سے تیس ارب چھینے بھی تو ہیں۔
ان نام نہاد خان صاحب کوچاہیے کہ وہ پنڈی کے نواح میں جا کر بحریہ ٹاون اور
ڈی ایچ اے کے محصور بستیوں کے مکینوں سے ملے اور ان کا حالت زار دیکھ کر
ملک ریاض سے بھی پندرہ سوال پوچھے۔اینکرحصرات اکثر سوال کرتے ہیں کہ پانچ
چھ سالوں کے اندر اندر ارسلان کروڑ پتی کیسے ہوگیا۔یہی اینکر ملک ریاض سے
کیوں نہیں پوچھتے کہ بھائی آپ دس بارہ سالوں میں کھرب پتی کیسے ہو گئے۔
ایسے ہی سوال شہباز شریف اور چوہدری شجاعت اور پرویز الہی سے بھی پوچھے
جانے چاہیے کہ پنجاب کی زمینوں پر قبصہ کیوں ہوا اور آپ نے سرکاری اور
جنگلات کی اراضی پر ڈی ایچ اے اور ملک ریاض کو کیوں قابض ہونے دیا؟
خود اس اینکر سے بھی بہت سے سوال کئے جا سکتے ہیں کہ وہ ہر سال چھٹیاں
منانے کہاں جاتے ہیں اور ا ور ان کے اخراجات کون برداشت کرتا ہے اور جو
الزامات بحریہ ٹاون کی جانب سے آپ پر لگائے گئے تھے آپ نے انکا جواب کیوں
نہ دیا اور حامد میر اور ابصار عالم کی طرح بحریہ ٹاون کے خلاف عدالت میں
کیوں نہ گئے؟
خان نے ارسلان چوہدری کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا جب ارسلان نے میڈیا
والوں کو بتایا کہ میں فیصل رضا عابدی کو نہیں جانتا کہ یہ کون ہے۔ خان نے
کہا کہ یہ اچنبے کی بات ہے عابدی کو کون نہیں جانتا وہ ہر ٹی وی چینل کے
پرائم ٹائم میں آ کر چیف جسٹس اور ارسلان کے خلاف بولتا ہے اور چیلنج کرتا
ہے کہ اسے عدالت میں طلب کیا جائے۔ خان کی مایوسی دیدنی تھی۔ ”ہزاروں
خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے“۔ شائد حکومت اور خان سمیت بہت سے
اینکروں کی یہ خواہش پوری نہ ہو۔ کیا فیصل رضا عابدی کو پرائم ٹائم میںدعوت
دے کر اور عدلیہ کو برا بھلا کہلوا کر اینکر حضرات اچھا کام کر رہے ہیں اور
ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ کیا یہی صحافیانہ اخلاقیات اور اقدار ہیں جو اینکر
اور چینل فیصل رضا عابدی ، فواد چوہدری، مبشر لقمان کے بیانات اور کلمات
نشر کرتے ہیں انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیئے اور دل کی آواز سننی
چاہئے۔ مبشر لقمان کے لئے یہ سزا کافی نہ تھی کہ عدلیہ نے اس کے خلاف مقدمہ
سننے سے انکار کر دیا۔ باقی دو کا بھی یہی حال ہے کہ یہ لوگ اس قابل ہی
نہیں کہ ان کے متعلق بات کی جائے۔ خان کو چاہیئے کہ وہ ایک سروے کنڈکٹ
کروائیں اور عام لوگوں سے اپنے، فواد چوہدری اور فیصل رضا عابدی کے متعلق
پوچھیں کہ عام آدمی کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟
ٹی وی اینکروں کا ایک پسندیدہ ٹاپک پاکستان کا ٹوٹنا ہے (ایسے اینکروں اور
میزبانوں کے منہ میں خاک)۔ میں نے اپنے مضمون میں چند مثالیں رقم کرنی تھیں
مگر بابر اعوان نے ان ہی مثالوں سے اپنے کالم کی ابتداءکی جو 30اگست کے
نوائے وقت میں شائع ہو چکا ہے۔ اگر جمشید دستی، شوکت بسرا، فواد چوہدری اور
فیصل رضا عابدی کا پاکستان ٹوٹ رہا ہے تو اسے ٹوٹنے دو چونکہ ان کا پاکستان
ان کا مفاد، ذہنی خلفشار اور سیاسی انتشار ہے۔ یہ لوگ خود ٹوٹ کر بکھر
جائینگے مگر وطن عزیز پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا۔ جو سیاستدان، صحافی اور
دانشور پاکستان ٹوٹنے کا عندیہ دے رہے ہیں وہ اپنے آقاﺅں کی زبان بول رہے
ہیں اور ان کی خواہشات کا پرچار کر رہے ہیں۔ میں خان اور ان کے ہم خیال و
ہم زبان اینکروں اور صحافیوں سے درخواست کروں گا کہ وہ امریکی صحافیوں کی
لکھی ہوئی پراپیگنڈہ کتابوں کا پرچار کرنے کے بجائے جناب محمد اسد کی کتاب”
روڈ ٹو مکہ “ پڑھیں جس میں لکھا ہے کہ جناب محمد اسد کو حضرت علامہ اقبال
نے کہا کہ سیاست بند کرو اور پاکستان کےلئے کام کرو۔ جناب محمد اسد لکھتے
ہیں کہ یہ تب کی بات ہے جب پاکستان کے متعلق چند لوگ باتیں کرتے تھے اور
دیگر اسے افسانہ سمجھتے تھے۔ جناب اسد نے علامہ کوجواب دیا کہ پاکستان تو
محض ایک افسانہ ہے جبکہ علامہ نے زور دے کر کہا نہیں یہ اٹل حقیقت ہے۔
ممتاز مفتی کی دو کتابیں علی پور کا ایلی اور الکھ نگری بھی اسی طرف اشارہ
کرتی ہیں کہ پاکستان کا وجود پذیر ہونا ایک سچائی اور روحانی حقیقت ہے۔جو
لوگ پاکستان کے ٹوٹنے کی باتیں کرتے ہیں وہ سچائی روحانیت اور حقیقت سے
واقف نہیں۔ کامران خان اور حامد میر سے گزارش ہے کہ وہ امن کی آشا کے گیت
ضرور گائیں مگر ارتھ شاستر کا مطالعہ بھی کر لیں۔ جس قوم کا مذہب اور سیاست
چانکیہ نیتی کے اصولوں پر مبنی ہے اس کے ساتھ امن کی آشا کی آس لگانا خود
فریبی کے سوا کچھ نہیں ۔ آپ بنگلہ دیش کی مثال سامنے رکھ لیں تو آپ کی
آنکھیں کھل جائیں گی۔ میرا چھوٹا بھائی دو سال پہلے بنگلہ دیش گیا اور وہاں
سے مختلف اشیا کی قیمتیں لکھ کر لایا۔ بنگلہ دیش کی مارکیٹوں میں بھارتی
اشیاءکی بھرمار ہے جو پاکستان کی نسبت بہت ہی مہنگی ہیں۔ بھائی نے بنگالی
تاجروں، مزدوروں اور محنت کشوں سے پوچھا کہ جو چیزیں آپ بھارت سے مہنگی اور
گھٹیا کوالٹی کی خریدتے ہو وہی چیزیں پاکستان میں سستی اور اعلی کوالٹی میں
دستیاب ہیں۔ آپ پاکستان سے کیوں نہیں خریدتے؟ تاجروں نے بتایا کہ بنگلہ دیش
اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی ضروریات کی چیزیں صرف بھارت سے خریدے ۔ ورنہ
ہمارے پسندیدہ ملک پاکستان اور چین ہیں۔امن کی آشا کے مبلغین اور موجودہ
حکمران بشمول میاں برادران جس طرح بھارت کی طرف کھنچے چلے جار ہے ہیں اس کا
ایک مزہ چھ سو روپے درجن بھارتی کیلوں کی صورت میں قوم چکھ چکی ہے۔ آنے
والے چند سالوں میں جب کشمیر اور شمالی علاقوں کے پانیوں پر بھارت مکمل
کنٹرول حاصل کر لے گا تو پاکستان کے عوام جیالہ پن اور متوالہ پن بھول
جائیں گے۔ عوام مہنگا ئی اور غربت کے بوجھ کے باوجود جیالہ اور متوالی جنون
اپنے دماغوں پر طارے کئے جس مدہوشی کا شکار ہیں بہت جلد ان کا نشہ ہرن ہونے
والا ہے۔ جہانگیر بدر کے اس بیان میں بڑا وزن ہے کہ عوام ایسی ہی جمہوریت
چاہتے ہیں اور ہمیں پسند کرتے ہیں۔ بے شک اگر عوام یہ سب پسند نہ کرتے تو
ڈیزل116روپے نہ ہوتا۔ ایک ٹیلیویژن رپورٹر پندی کے کسی پٹرول پمپ پر عوامی
رائے جاننے کی کوشش کر رہا تھا تو ہر شخص اس مہنگائی پر افسردہ تھا اور
ساتھ ہی بے بس بھی دکھائی دیتا تھا۔ ہر ایک نے کہا کہ ہم کیاکریں حکومت
ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے ۔ اگر ڈیزل 216روپے فی لٹر بھی ہو گیا تو ہم
گزارہ کر لینگے۔ کیا کریں مجبور جو ہوئے۔
عمران خان فرماتے ہیں کہ وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ موصوف کی شائد پتہ
نہیں کہ تماش بین مقدر نہیں بدل سکتے۔ آج عمران خان اور میاں برادران سمیت
جماعت اسلامی اور دیگر جن میں مولانا فضل الرحمن شامل ہیں، عوام کو یہ
احساس دلانے میں ناکام ہیں کہ جیالے اور متوالے بن کر وہ اپنی عزت اور
آزادی کا سودا کر رہے ہیں ۔ عمران خان کرکٹ کے اچھے کھلاڑی رہے ہیں اور وہ
اپنی سیا ست بھی کرکٹی انداز میں چلا رہے ہیں۔ ان کا سونامی نواز شریف کے
گرد گھوم رہا ہے جس کا نقصان نواز شریف کو تو ضرور ہوگا مگر فائدہ عمران
خان کو بھی نہیں ہوگا۔ سیاست میں انتظار نہیں ہوتا۔ جو سیاستدان انتظار
کرتا ہے وہ ذاتی مفاد حاصل کر لیتا ہے مگر عوام کو سازش کی بھینٹ چڑھا دیتا
ہے۔ مولانا فضل الرحمن، ایم کیو ایم، اے این پی ، ن اور ق سمیت سبھی سیاسی
پنڈت مفاد سے جڑے ہوئے ہیں اور عوام سے منہ موڑے ہوئے ہیں اور میڈیا نے بھی
اپنی اپنی پسند کے بت تراشے ہوئے ہیں اور انہیں خدا ثابت کرنے کی جستجو میں
ہیں۔
محترم عبدالقادر گیلانی نے اپنے والد کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر کامیابی کے بعد
اسمبلی میں حلف اٹھایا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پہلا پتھر عدلیہ پر
پھینکا۔ گیلانی نے کہا اگر موسیٰ گیلانی کا باپ جج ہوتا تو وہ اس حال میں
نہ ہوتے جس سے وہ دو چار ہیں ۔ لگتا ہے کہ کامران خان ایسے موقع کی تلاش
میں ہوتے ہیں۔ اپنے اگلے ہی پروگرام میں موصوف نے عبدالقادر گیلانی کا یہ
انٹرویو خصوصی طور پر دکھایا اور اسے نیچرل ری ایکشن قرار دیا۔ جب سے
عبدالقادر گیلانی نے عدلیہ پر تنقیدی جملے کسے ہیں کامران خان اپنے کسی نہ
کسی پروگرام میں یہ جملے سنانے کی گنجائش نکال ہی لیتے ہیں۔ کامران خان اور
دوسرے اینکر کو صحافیانہ اقدار و اخلاقیات کے پیش نظر احتیاط سے کام لینا
چاہئے۔ آج وہ جن آقاﺅں کی خدمت کی بجا آوری میں فوج، آئی ایس آئی، عدلیہ
اور عوام کے خلاف نبرد آزما ہیںکل کلاں اگر عوام کی طرف سے نیچرل ری ایکشن
شروع ہو گیا تو اعلی حکمرانوں سے رابطے، بڑے ہوٹلوں کی ضیافتیں ،سیاسی
پنڈتوں کی مہربانیاں اور مفادات کے بتوں کی پوجا کسی کام نہ آئی گی۔ میڈیا
جس انداز سے اہم قومی اداروں کی تضحیک اور عوام کی تذلیل کر رہا ہے اسے آج
نہیں تو کل اسکا جواب دینا ہی ہوگا۔
کامران خان اور ان کے ہم خیال اینکر بھول رہے ہیں کہ شائد عوام ان کی لگی
لپٹی باتوں، طنزیہ اور ذلت آمیز رویے اور تضحیک آمیز الفاظ سمجھنے سے قاصر
ہیں۔ یہ سب ان اینکروں کی بھول ہے اور انہیں پتہ نہیںکہ عوام ری ایکشن اصل
سونامی ہوگا جس میںان خود ساختہ سکالرز سمیت خود عمران خان کا سفینہ بھی
ڈوب سکتا ہے۔ اس لیے وطن کی مٹی سے محبت اور اس کے اداروں کی قدر کرنا ہر
پیشے کے فرد کے لیے لازم ہے۔ تنقید ہی سے تعمیر منسوب ہے مگر تنقید میں
ذاتی پسند و نا پسند کی بجاے ملکی اور قومی مفادات کو مد نظر رکھا جائے۔ |