دنیامیں مصائب اور تکالیف سے
واسطہ ہر انسان کو پڑتاہے ۔ یہ مصائب اور تکالیف انسانی کندھوں پر کبھی
توقدرت کی طرف سے آزمائش اور امتحان بن کراترتے ہیں اورکبھی بے لگام ظالم
کی طرف سے مفادات کے تحفظ اور ہوس کی تکمیل کی خاطر گرائے جاتے ہیں۔یہ
انسانی فطرت ہے کہ جب بھی وہ اس طرح کی آزمائشوں میں جکڑتا ہے توان سے
رہائی کی خاطر ادھر ادھر ہاتھ پاﺅ ں مارتاہے اورنا امیدی کا سامنا
کرتاہے،تھک ہار کرارض وسماءکے مالک کو پکارتاہے اوراسے رو رو کرخود پر بیتے
اندوہ ناک مظالم کی المناک داستان سناتاہے ،وہ ذات نہ صرف اس کے رِستے
زخموں پر مرہم رکھتی ہے بلکہ ان زخموں پر نمک پاشی کرنے والوں کو بھی چن چن
کر نیست ونابود کردیتی ہے ۔یوں باالآخر انسان ان صبر آزما مصائب وآلام اور
طالع آزماتکالیف اور مشقتیں سہنے کے بعدراحت ،فرحت اورمسرت کے حسین لمحات
سے لطف اندوز ہوجاتاہے ،کیوںکہ ارشاد باری باالکل برحق اورسچ ہے کہ ”ہرتنگی
کے بعد آسانی ہوتی ہے“ ۔
جمہوریت کے گزشتہ ”تاریخی “چارسالوں میں”محب وطن“ حکمرانوں نے پیسنٹھ سالہ
ملکی تاریخ میں خوبصورت اور دیرپاکارنامے تو کجا سرانجام دیے ،الٹادل خراش
اور المنا ک حادثات اور واقعات کو جنم دیا ۔مفاد پرست حکمرانوں کے ان
”کامیاب“ چار سالوں میں جو حالات ملک پاکستان میں برپاہوئے وہ ناقابل بیان
ہیں ۔اس ”کامیا ب “دور جمہوریت میں ایک طرف کرپشن چھپانے کی غلیظ حرکات کی
خاطر عدل وانصاف ،مساوات اور رواداری کا فقدان بڑا تو دوسری طرف نا ختم
ہونے والے پے درپے داخلی وخارجی مسائل کا جمگھٹااٹھا ۔ایک طرف معصوم شہریوں
کے قاتلوں اورقوم کے حقیقی مجرموں کو پروانہ آزادی تھماکر تھپکی دے کررخصت
کیا گیا تو دوسری طرف وطن کے معصوم اور بے قصورشہریوں کو ”بہادردوست “کے
خوف اور ڈر سے من گھڑت الزامات کے قلادے پہنا کراغیار کے ہاتھوں فروخت کیا
گیا۔ایک طر ف شعائر اسلامی کی توہین کے ذریعہ امت مسلمہ کے دلوں کو زخمی
کرنے والے ”مسیحاﺅں“ کوذہنی اورصغر سنی جیسی فرضی تاویلات کے ذریعہ مظلومیت
کا لبادہ پہناکر عزت افزائی سے رخصت کیاگیا تو دوسری طرف درویش صفت محب
اسلام اورمعزز لو گوں کوبااثر امریکہ نواز شخصیات کے حکم پر جھوٹی گواہی کے
سہارے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا ۔
خالد جدون نامی درویش صفت امام مسجد کے ساتھ جو برتاﺅ منتخب جمہوری
نمایندوں کے حکم پرہو ا وہ انتہائی تضحیک آمیز تھا،اس سے نہ صرف منصِف
اداروں کی کارکردگی پر تنقید کی گئی بلکہ اسلام اور اہل اسلام کا بھی تمسخر
اڑایا گیا۔اس نازک کیس میں اصل ملعونہ ملزمہ کو بچانے کی خاطرجومذموم کھیل
کھیلاگیاوہ پوری دنیا کے سامنے رسوائی کا باعث بنا ۔زبردستی جھوٹی گواہی کے
ذریعہ جیبیں بھرنے والے وقتی طور پر اگرچہ اپنے مقاصدمیں کامیا ب ہوئے مگر
فی الواقع نقصان اور خسران کے حق دار ٹھہرے۔اس واقعہ سے جہاں اسلام مخالف
طاقتوں ،اتحاد بین المذاہب کا راگ الاپنے والے ماڈرن بناوٹی مسلمانوںاور
انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی تنظیموں کے چہروںسے نقاب اترے وہیں اسلامی
لباس میں ملبوس ان امریکہ نواز، نمک خور چاپلوسو ں کے چہروں سے بھی غبار
اترا اور ان کا دھندلا منافقانہ چہرہ قوم کے سامنے ظاہرہوا ،جو خود کو
مسلمان کہتے ہیں اور عاشق رسول ہونے کے بلند وبانگ نعرے لگاتے ہیں مگر
اسلام اورپیغمبر ا سلام کی توہین کرنے والوں کی نہ صرف پشت پناہی کرتے
ہیںبلکہ مکمل تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔توہین قران کی ملزمہ رمشاءمسیح کی
رہائی میںجہاں مقتدر اداروں کے بااثر افراد نے سرتوڑ کوششیں کیں وہیں خود
کو آزادی اظہار رائے سے ملقب کرنے والے دجالی میڈیااور اس سے منسلک دولت کی
پجاریوںنے بھی خاطر خواہ کردار ادا کیا۔پو لیس اور تفتیشی افسران کی ملی
بھگت سے رمشاءمسیح کی رہائی اور بے گناہ مولوی خالد جدون کی گرفتاری اپنے
پیچھے کئی سوالات کا پلندہ چھوڑگئی ۔
ایک طرف عدالت پر انگلیاں اٹھنے لگیں تو دوسری طرف امن وامان قائم کرنے
والے قوم کے محافظوں کے بچے کھچے اعتمادکو بھی گھن لگنے لگا ۔اس نازک کیس
میں جہاں اور کئی اداروں نے غفلت کا مظاہرہ دکھایا وہیں عدلیہ نے بھی
غیرذمہ داری اور عجلت دکھائی ،جس سے عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے
کہ آخر دس دس سالوں سے عدالتوں کے دھکے کھانے والے غریب اور مظلوم لوگوں
پربنے بے بنیاد کیسزکو ہرمرتبہ اگلی پیشی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتاہے، مگر
توہین قران اور ناموس رسالت کے اس طرح کے نازک کیسوں کا فیصلہ دو ہفتوں ہی
میں کیوںسنادیا جاتاہے؟ ۔ جاگیر دار اور صاحب اثر لوگوں کی چاپلوسی اور
غلامی سے انکا ر پراورذاتی عنادکی خاطرمظلوم عوام کو بند کوٹھڑیوں میں
سالہا سال اذیتوں سے دوچار کیا جاتاہے مگر دین اسلام پرحملہ آور ہونے والے
ان سورماﺅں کو تحفظ دے کرفورا پروانہ ءآزادی کیوں تھمادیا جاتاہے ؟۔قوم کے
خزانے کو بے دردی سے لوٹ کر تجوریا ں بھرنے والوں پر اگر مقدمات بنتے بھی
ہیںتو چارسال تک داﺅ پیچ کی نظر ہوجاتے ہیں،مگرعام آدمی اگر قرض کی ادائیگی
بروقت نہ کرسکے تو اس کے گھر تک کو فوراکیوں نیلام کردیا جاتاہے؟۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں قوم کی امیدوں کا آخری سہار ا آزاداور
بااختیارعدلیہ ہے جس نے نہ صرف ملکی سلامتی اورامن وامان کی بالادستی کی
خاطر جرات اوربہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قربانیاں دیں،بلکہ وحشی درندوں
اورجنگلی بھیڑیوں کو لگام دینے کی خاطر ان کی دشمنی مول لی اورطرح طرح کی
مشقتیںبرداشت کیں ۔آج بھی ملک اور اس کے باسی ان مسیحاﺅں کی سہارے کھڑے
ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کی مظلوم عوام ہو یا دردر پھرنے والے
لاپتہ افراد کے مغموم لواحقین،کراچی میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے
معصوم شہری ہوں یا مہنگائی سے تنگ ملک بھر کی عوام ،سب اپنے اپنے دکھ
اوردرد سنانے عدالت ہی جاتے ہیں۔لیکن ان محاسن اورخوبیوں کے باوجود آج بھی
کمزور اورمظلوم عوام ان اداروں کے ارد گرد چھپے ضمیرفروش اژدھوں اور آستین
کے سانپوں سے ڈسی جارہی ہے۔
خالد جدون جیسے مظلوم بے قصور محب وطن افر اد مظالم اور مصائب سہنے کے بعد
اگرچہ قانون ِ خداوندی کہ ”ہرتنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے “کی رو سے نجات
پاہی لیتے ہیں مگر سینکڑوں غریب ،ان ظالموں اور اژدھوں کے مظالم اور مفاد
پرستی کا شکار ہوتے رہتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بااثرسیاسی شخصیات کے
رعب اوردبدبے اورمحض چند ٹکوں کی خاطر جھوٹی گواہی دینے والے ان ظالموں اور
اژدھوںکا کڑا حساب کیاجائے ،تاکہ مظلوم عوا م کی دادرسی ہوسکے اور آیندہ
خالد جدون جیسے بے گناہ لوگوں پر ہونے والے المناک واقعات کی روک تھام
ہوسکے اور شعائر اسلام کی توہین کرنے والے ملعونوں کی مذموم حرکات کو روکا
جا سکے ۔ |