بی بی سی پر گل مکئی کے فرضی نام
کی سوات ڈائری سے شہرت پانے والی ملالہ یوسف زئی پر بزدلانہ اور دہشت
گردانہ حملے کو ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر ابھی تک میڈیا،
حکومت اور این جی اوز کا سوگ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا ۔ قومی اور بین
الاقوامی ذرائع ابلاغ پر اس حملے کے بارے میں زور و شور کے ساتھ بحث ہو رہی
ہے اور یہ جانے بغیر کہ حملہ آور کون تھے اور کس کے اشارے پر ایسا کیا گیا
تمام لوگ میڈیا کی ہاں میں ہاں ملانا شروع ہو گئے ہیں جبکہ دہشت گردی کے
خلاف جنگ کے نام پر بارہ سال سے جاری آگ اور خون کے کھیل میں نہ جانے کتنی
ملالاﺅں کے چیتھڑے اُڑ چکے ہیں مگر وہ تو جیسے انسان نہ ہوں بلکہ ان کی
حیثیت کیڑوں مکوڑوں جتنی ہو۔ ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے بزدلانہ حملے پر
سب کو غم و غصہ ہے اور اس پر کوئی دو رائے نہیں لیکن جس انداز سے یہ معاملہ
اُچھالا جا رہا ہے اس سے یہ ہمدردی ہرگز نہیں لگتا بلکہ اس طرح اسلام اور
جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش اور تعلیم کا نام استعمال کرکے تحریک پاکستان
کا نعرہ ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ“ تبدیل کرنے کی گہری سازش
ہو رہی ہے۔
اسلام حالت جنگ میں بھی خواتین اور بوڑھوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا
حتیٰ کہ درختوں کے کاٹنے کی بھی اجازت نہیں ہے تو آخر کوئی مسلمان ایک بچی
کو کیسے قتل کر سکتا ہے جبکہ وہ کسی جنگ کے محاذ پر نہیں بلکہ اسکول سے گھر
کی طرف لوٹ رہی تھی۔ اگر ملالہ یوسف زئی کو ”ظالمان“ نے نشانہ بنایا ہے تو
سمجھ لیں کہ وہ بھی بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور پوری قوم ان کا خاتمہ
چاہتی ہے مگر یہ آپریشن صرف اُن شرپسندوں کے خلاف ہی ہونا چاہئے جو پاکستان
کی سلامتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ طالبان اور ظالمان میں بڑا فرق ہے،
حقیقی طالبان وہ ہیں جو اس وقت افغانستان پر قابض امریکا اور نیٹو افواج کے
خلاف برسرپیکار ہیں جبکہ اس کے برعکس تحریکِ ظالمان پاکستان صرف وہ کام
کرتی ہے جس میں پاکستان اور اسلام کو نقصان ہو۔ یہ نہ ہی طالبان ہو سکتے
ہیں اور نہ ہی مسلمان بلکہ یہ صرف اور صرف ایجنٹ ہیں جنہیں اسلام اور جہاد
کو بدنام کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ظالمان جس بھونڈے طریقے سے
کارروائیاں کرتے ہیں اس سے ان کا جعلی پن اور بیرون ایجنٹ ہونا صاف ظاہر
ہوتا ہے۔
یہاں ذہنوں میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ خود کو اسلام کے محافظ کہنے والے
کبھی پاکستان میں موجود فحاشی کے اڈوں اور بازارِ حسن میں انسانیت کی تذلیل
کرنے والے عناصر کیخلاف کیوں خودکش حملے نہیں کرتے۔ خود کو اسلامی شریعت کے
پابند کہنے والے ”ظالمان“ شراب خانوں اور ڈانس کلبوں میں حملے کیوں نہیں
کرتے جبکہ یہ مقامات تو ان کے نظریات اور عقائد کے بھی خلاف ہیں مگر اس کے
برعکس ان ”ظالمان“ کا نشانہ صرف مساجد، امام بارگاہیں، اولیائے کرام کے
مزار، اسکول اور سکیورٹی ادارے ہیں۔ یہ تمام باتیں تحریر کرنے کا مقصد یہ
ہے کہ قارئین اصل اور نقل طالبان میں تمیز کر سکیں اور پاکستان کو تباہ
کرنے کی سازشوں کا خود اندازہ لگا سکیں۔ درحقیقت یہ قیامت بیرونی آقاﺅں کی
برپا کی ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم ٹکڑوں میں بٹ کر دست و
گریباں ہو جائیں تاکہ ہمیں پہلے اندرونی خلفشار کے ذریعے کمزور کیا جائے
اور پھر آسانی سے شکار کیا جا سکے۔
ملالہ یوسف زئی پر حملہ صیہونی سٹوڈیو میں تیار ہونے والا ایک سلسلہ وار
ڈرامہ ہے۔ ہر بار اس ڈرامہ کی کہانی اور کردار دونوں نئے ہوتے ہیں۔ اس بار
جو ڈرامہ پیش کیا گیا اس میں کہانی اور ہدایت کار سب اسلام دشمن غیر ملکی
ہیں جبکہ ہیروئن ملالہ اور ویلن ظالمان ہیں اور کچھ سیاسی مداریوں کو بھی
حصہ دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ وار ڈرامہ کی ہر کہانی میں نیا ایکٹر ڈالا جاتا
ہے، تازہ ایڈیشن پوپ سنگر میڈونا ہے جبکہ رضاکار ایکٹر سوشل میڈیا کے عوام
اور پاکستانی میڈیا ہے جو اس ڈرامہ میں ایسے منہمک ساتھ ساتھ تالی بجاتے
چلتے ہیں جیسے بندر کا تماشہ دکھانے والے کے ساتھ گلی میں بچے چلتے ہیں۔ یہ
ڈرامہ زبردست ہٹ ہو چکا ہے اور لوگ شدت سے اس کی اگلی سلسلہ وار کہانی کے
منتظر ہیں جو یقینا خونِ مسلم سے لکھی جانے والی ہے۔ پوری دنیا میں ملالہ
کے حملے کو لے کر ایک عجیب سی دیوانگی نظر آ رہی ہے لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی
کے معاملہ پر اسی دنیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ہر ڈرون
حملے میں ملالہ کی طرح درجنوں بچے، بوڑھے اور عورتیں ماری جاتی ہیں لیکن نہ
تو میڈیا اس پر آواز اُٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کیلئے یوم دعا منائی جاتی ہے۔
اصل مدعہ تو یہ ہے کہ جب تک سماجی نہ برابری ہوتی رہے گی دنیا میں ہر طرح
کی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوگا۔
اپنی ڈائری میں ملالہ یوسف زئی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں جب باپردہ لڑکیوں
کو دیکھتی ہوں تو مجھے پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے جبکہ داڑھی والے لوگ
دیکھتی ہوں تو فرعون یاد آتا ہے پھر اسی لڑکی نے ایک ٹی وی پروگرام میں
یہاں تک کہہ ڈالا کہ بارک اوباما میرے آئیڈیل ہیں۔ اس بچی نے پہلے نہ کوئی
تحریر لکھی نہ چھپی پھر کیسے اچانک بی بی سی نے اس کی ڈائری نما تحریریں
پیش کرنا شروع کر دیں اور وہ بھی اُس وقت جب ملالہ چوتھی جماعت کی طالبہ
تھی اور عمر صرف نو برس تھی۔ ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی نو سالہ
بچی نہ ہی اتنی گہری باتیں کر سکتی ہے اور نہ ہی لکھ سکتی ہے یقینا اس کے
پیچھے ضرور کوئی ماسٹر مائنڈ موجود تھا۔ بعض ذرائع یہ بھی انکشاف کرتے ہیں
کہ بی بی سی کا مقامی نمائندہ ملالہ کی ڈائری لکھ کر گل مکئی کے نام سے
شائع کرتا تھا جو حملے کے بعد سے روپوش ہے۔ ملالہ نے اوباما کو امن کا
علمبردار اور آئیڈیل قرار دیکر خود کو خطرے میں ڈال دیا جبکہ اوباما صاحب
نے صرف اس کی مذمت پر ہی اکتفا کیا۔ ایجنسیاں جب کسی کو اپنے مقاصد کیلئے
چُن لیتی ہیں تو میڈیا کے ذریعے اس کو رفتہ رفتہ دیومالائی حیثیت کا رنگ دے
دیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے ملالہ کو طالبان کے خلاف مہم کے دوران
ایک علامت بنا کر پیش کیا گیا اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا کیونکہ امریکا،
نیٹو ممالک اور این جی اوز کو بہت سی ایسی شکلوں میں ”مرغ روسٹ“ نظر آ رہے
ہوتے ہیں اور قاتلانہ حملے پر سب سے زیادہ شور بھی انہی ممالک اور این جی
اوز کا ہوتا ہے۔
یہی ملالہ پاکستانی افواج کو بھی اپنی سوچ کے تحت تنقید کا نشانہ بناتی ہے
لیکن یہ تنقید شاید ”ظالمان“ کے نزدیک اسے ارتداد کی صف سے نکالنے کو
ناکافی ہے جبکہ پاکستان دشمنوں نے بھی اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر اس
معصوم بچی کے ذریعے پاک فوج کو بدنام کرنے میں کوئی کسر تک نہ چھوڑی۔ سوات
آپریشن کے بعد امریکا کے ایک یہودی فلم میکر کی طرف سے بنائی گئی
ڈاکومینٹری میں ملالہ کو پاک فوج کو برا بھلا کہتے دکھایا گیا۔ نیویارک
ٹائمز نے اس ڈاکومینٹری کو ملالہ پر حملے کے فوری بعد اپنی ویب سائٹ پر نشر
کر دیا ہے جو اب بھی وہاں موجود ہے۔ اس ویڈیو میں ملالہ کے والد بظاہر فوجی
آپریشن کی حمایت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ پاک
فوج نے ان کے اسکول کو تباہ کیا اور املاک چوری کرنے میں بھی ملوث ہے جبکہ
ملالہ بتا رہی ہے کہ پاک آرمی نے ان کے اسکول کو اپنے مورچے میں تبدیل کر
رکھا ہے اور اس کی ہم عمر دوست کی کاپی پر ایک فوجی نے اس کو عشقیہ اشعار
لکھ دیئے ہیں حالانکہ وہ ایک چھوٹی سی بچی ہے۔ اس ویڈیو کے آخری حصے میں
ملالہ کہہ رہی ہے کہ اسے پاکستانی فوج پر شرم آتی ہے۔ واضح رہے کہ سوات
آپریشن پاک فوج نے کیا تھا اور بے شمار قربانیوں سے یہ علاقہ واپس کیا گیا
مگر اس ویڈیو میں سارا کریڈٹ امریکی حکام کو دینے کی کوشش کی گئی اور یہ
بتایا گیا کہ سوات میں امن کی بحالی امریکی کارنامہ ہے۔
آج یہی پاک فوج ہے جو نہ صرف ملالہ کو تمام تر طبی سہولیات دے رہی ہے بلکہ
ساتھ ہی اس کے خاندان کو بھی تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے
دشمنوں کی طرف سے اب ملالہ کو بیرون ملک علاج کی پیشکش تک ہو رہی ہے تاکہ
صحتیابی کے بعد اسے استعمال کرتے ہوئے پاکستان، اس کی فوج اور انٹیلی جنس
اداروں کو بدنام کیا جا سکے۔ ملالہ جب ہوش میں آئے گی تو شاید اس کو ”ہوش“
آ جائے کہ وہ کس طرح غیروں کے ہاتھوں ایک غیر ارادی ایجنٹ بنی رہی مگر اس
کے والد کو تو سمجھ آ جانی چاہئے تھی کہ یہ معاملہ اس کی زندگی کیلئے کتنا
نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اللہ ملالہ کو صحت کاملہ دے اور اس کے بعد اسے ہدایت
بھی دے کہ آئندہ بھینسوں کی لڑائی میں گھاس نہ بنے۔ اس واقعے کے بعد مزید
استعمال ہونا بہادری نہیں بیوقوفی ہوگی۔ اب یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ
صحتیابی کے بعد کیا ملالہ کی زندگی پہلے سے زیادہ محفوظ ہوگی؟ ہرگز نہیں،
بلکہ ایک طرف تو وہ بندوق بردار ”ظالمان“ کی نظر میں رہے گی اور دوسری طرف
ایسے میڈیائی دہشت گردوں سے اس کا سامنا ہوگا جو اپنے مقاصد میں استعمال
کرنے کے بعد اسے ٹوکری میں ردی کی طرح پھینک دینگے۔ اللہ رب العزت ملالہ کو
ایسی سوچ کے ساتھ نئی زندگی عطاءکرے کہ جس سے اس کی دنیا اور آخرت دونوں
سنور جائیں تاکہ آئندہ اسے برقع اسلامی نشانی نظر آئے اور داڑھی والے فرعون
نہ نظر آئیں۔ (آمین ثم آمین) |