حیاءفطرت سلیم سے ناموافق افعال
اور رویہ سے دلی شرم اور ہچکچاہٹ کا نام ہے ۔یہ ایک ایسی خوبی اور قوت ہے
کہ جس کا کوئی شخص جتنا زیادہ حامل ہو گا وہ اسی قدر معروفات سے متصف اور
منکرات سے پاک دامن ہو گا۔حیاءکا جذبہ اخلاقی نظام تعلیم و تربیت کی اساس
کی حیثیت رکھتا ہے ۔تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسانی سیرت و
کردار تشکیل کی جائے اور یہ تعمیر و تشکیل اسی فطری جذبہ کی حفاظت اور صحیح
خطوط پر اس کی نشو ونما سے مشروط ہے ۔جب تک کسی فرد میں حیا موجود ہے ،تعلیم
کے ذریعے اس کی اصلاح ممکن ہے لیکن جہاں حیاءکا وجود باقی نہ رہے ، آدمی
خود اپنی نظروں میں بھی گرجاتا ہے ۔اگر یہ صورت یہاں تک پہنچ جائے کہ کون
اسے جانتا ہے اور کون نہیں جانتا تو پھر کوئی انسانی طاقت اس کی حفاظت نہیں
کر سکتی ۔اسی بنا پر عالم اسلام کے مشہور مفکرین حیاءکے جذبہ کو تعلیم کی
اساس قرار دیتے ہیں۔
حیاءکی فضیلت و اہمیت کے بارے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :الحیاءشعبة من
الایمان۔”حیاءایمان کا حصہ ہے ۔“
حیاءمنبع خیر ہے ۔آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں :الحیاءلا یا تی الا
الخیر۔”حیاءبھلائی کے سوا کچھ نہیں لاتا ۔“اسی لئے حیاءکو اسلامی تعلیمات
میں سب سے بڑی اخلاقی قدر کا درجہ حاصل ہے۔ صفت حیاءکے تین درجات ہیں
۔(1)اللہ سے حیاءکہ اللہ کے او امر و نواہی کی پابندی کی جائے ۔ (2)بندوں
سے حیاءکہ حقوق العباد کا پورا پورا خیال رکھا جائے ۔(3)اپنے آپ سے حیاءکہ
حقوق النفس کو ادا کیا جائے ۔
وصف حیاءاپنے ان جملہ درجات کے سات کائنات میں انبیاءعلیہم السلام کے سوا
جس ذات کا جزو لا ینفک تھا اس کی پہچان بن گیا ،رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنا
رفیق قرار دیا ۔انہیں ذوالہجرتین کا لقب بھی ملا ۔ وہ ہر جمعہ کو ایک غلام
بھی آزاد کرتے تھے ۔آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے ۔کاتب وحی ہونے کا
شرف بھی حاصل ہے ۔انہیں جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے ۔اسلام لانے میں ان کا
چوتھا نمبر ہے ۔قرآن پاک کے پہلے حافظ ہیں ۔جن کے دست مبارک کو رسول اکرم ﷺ
نے اپنا ہاتھ اور آپ ﷺ کے ہاتھ کو اللہ نے اپنا ہاتھ قرار دیا ۔ملک التجار
(تاجروں کے بادشاہ) کہلائے ۔اور بے لوث ایثار و قربانی کی بدولت غنی کے
مشہور لقب سے موسوم ہیں ۔بیعت رضوان کا سبب بنے ۔ذوالنورین کی فضیلت سے
متصف ہیں ۔جو کہ دنیا کے کسی فرد کو بھی حاصل نہ ہو سکی۔ وہ ہیں تیسرے
خلیفہ راشد امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۔
نام و نسب:آپ کا نام ”عثمان “کنیت ابو عمر اور لقب ذوالنورین ہے ۔آپکا
سلسلہ نسب اس طرح ہے ۔عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد ش، بن عبد
مناف ۔یعنی پانچویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسب رسول اللہ ﷺ کے شجرہ نسب سے مل
جاتا ہے ۔آپ کی نانی ام حکیم جو حضرت عبد المطلب کی بیٹی تھیں وہ حضور ﷺ کے
والد گرامی حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں
۔اس رشتہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی والدہ حضور سید عالم ﷺ کی
پھوپھی کی بیٹی تھیں ۔آپ کی پیدائش عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ
السلام کے بعد پہلے شخص ہیں ۔جنہوں نے راہ اسلام میں اپنی بیوی کے ساتھ
ہجرت فرمائی۔
جنگ تبوک کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا جبکہ مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑا ہوا
تھا اور عام مسلمان بہت زیادہ تنگی میں تھے ۔یہانتک کہ درخت کی پتے کھا کر
لوگ گذارہ کرتے تھے ۔اسی لئے اس جنگ کے لشکر کو جیش عُسرہ کہا جاتا ہے یعنی
تنگدستی کا لشکر ۔ترمذی شریف میں حضرت عبد الرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر تھا
۔جبکہ آپ جیش عُسرہ کی مدد کے لئے لوگوں کو جوش دلا رہے تھے ۔حضرت عثمان
غنی رضی اللہ عنہ آپ کے پر جوش لفظ سن کر کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول
اللہ!(ﷺ)میں سواونٹ پالان اور سامان کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی راہ میں پیش
کروں گا۔اس کے بعد پھر حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو
سامان لشکر کے بارے میں ترغیب دی اور امداد کے لئے متوجہ فرمایا ۔تو پھر
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں دو
سو اونٹ مع سازو سامان اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نذر کروں گا۔ اس کے بعد
پھر رسول کریم ﷺ نے سامان جنگ درستگی اور فراہمی کی طرف مسلمانوں کو رغبت
دلائی۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول
اللہ ! میں تین سو اونٹ پالان اور سامان کے ساتھ خدا ئے تعالیٰ کی راہ میں
حاضر کروں گا ۔حدیث کے راوی حضرت عبد الرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں ۔میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ منبر سے اتر تے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے
ما علیٰ عثمان ما عمل بعد ھٰذہ ۔ما علیٰ عثمان ما عمل بعد ھٰذہ۔”یعنی ایک
ہی جملہ کو حضور سید عالم ﷺ نے دو بار فرمایا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اب
عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو اس کے بعد کریں گے ۔“
مراد یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یہ عمل خیر ایسا اعلیٰ اور
اتنا مقبول ہے کہ اب اور نوافل نہ کریں جب بھی یہ ان کے مدارج علیا کے لئے
کافی ہے اور اس مقبولیت کے بعد اب انہیں کوئی اندیشہ ضرر نہیں ہے ۔(مشکوٰة
شریف 561)
غزوہ تبوک کے موقع پر آپ نے جس ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا اس سے خوش ہو
کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”آج کے بعد عثمان جو کام بھی کریں گے ، وہ ان کو
نقصان نہ دے گا۔“
صفات حسنہ اور وجاہت وخوبصورتی کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قریش
کی ہر شاخ میں اس حد تک محبوبیت اور ہر دلعزیزی حاصل تھی کہ عورتیں گھروں
میں اپنے بچوں کو لوریاں دیتے ہوئے کہا کرتیں :” رب کعبہ کی قسم ! میں تجھ
سے ایسی محبت کرتی ہوں ،جیسی قریش عثمان سے ۔“اسی وجہ سے حضور ﷺ نے قریش
مکہ سے مذاکرات کے لئے حضرت عثمان کو روانہ فرمایا۔
ترمذی شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ نے مقام حدیبیہ میں بیعت رضوان کا حکم فرمایا اس وقت حضرت عثمان غنی
رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے ۔لوگوں نے
حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔جب سب لوگ بیعت کر چکے تورسول مقبول ﷺ نے عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کیطرف سے خود بیعت فرمائی ۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کا مبارک
ہاتھ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لئے ان ہاتھوں سے بہتر ہے جنہوں نے
اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے بیعت کی۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری علیہ الرحمة اشعة اللمعات میں اس حدیث
کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ سرکار اقدس ﷺ نے اپنے دست مبارک کو حضر ت عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا ۔یہ وہ فضلیت ہے جو حضرت عثمان غنی رضی
اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے ۔یعنی اس فضیلت سے ان کے سوا اور کوئی دوسرا صحابی
کبھی مشرف نہیں ہوا۔یہی وجہ تھی کہ جب آنحضرت ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ
رضی اللہ عنہا کا عقد نکاح آپ رضی اللہ عنہ سے کیا تو آپ نے فرمایا:احسن
زوجین راٰھما انسان رقیة و زوجھا عثمان۔”بہترین جوڑا جسے انسان نے دیکھا ہے
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور ان کے خاوند حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔“
آنحضرت ﷺ کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت کا نتیجہ تھا کہ حضرت رقیہ
رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ نے اپنی دوسری لخت جگر حضرت ام کلثوم رضی
اللہ عنہا کا نکاح بھی آپ سے کر دیااور جب حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا
بھی انتقال ہو گیا ،آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کرتے ہوئے
فرمایا:”اگر ہماری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو ہم آپ کو بیاہ دیتے۔“
جملہ فضائل وخصائص کے باوجود جس طرح کہ صداقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ اور عدالت حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا امتیاز ہے ،اسی طرح حیاءحضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے خاص ہو گیا ۔حضرت رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان رضی
اللہ عنہ کی صفت حیاءکے بارے فرمایا:عثمان احیٰ امتی و اکرمھا۔”میری امت
میں سب سے زیادہ حیا دار اور بزرگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔“
حضرت زید رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:”عثمان میرے
پاس سے گزرے تو مجھ سے ایک فرشتے نے کہا کہ مجھے ان سے شرم آتی ہے کیونکہ
قوم ان کو قتل کر دے گی تو آپ نے فرمایا کہ جس طرح حضرت عثمان خدا اور اس
کے رسول سے حیاءکرتے ہیں ،فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں ۔“
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اللہ تعالیٰ سے حیاءکا یہ عالم تھا کہ آپ کبھی
لہو و لعب میں مشغول نہیں ہوئے ۔نہ کبھی گانے بجانے میں شریک ہوئے اور نہ
کبھی آپ نے برائی کی تمنا کی ۔لوگوں سے حیاءکا یہ حال تھا کہ زمانہ جاہلیت
یا عہد اسلام میں کبھی بھی زنا ، چوری اور شراب نوشی کے مرتکب نہ ہوئے ۔“
آپ کم سخن اور کم گوتھے ۔شہادت کے وقت جب محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہما
نے آپ کی داڑھی پکڑی تو اس وقت آپ نے محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہما کے
باپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یار غار نبی ﷺ کا حیاءکرتے ہوئے ان کے
بیٹے کو فرمایا:”اگر تیرا باپ تجھے یہ حرکت کرتا دیکھ لیتے تو کیا فرماتے؟“
اسی طرح ایک موقع پر آنحضرت ﷺ چند صحابہ کے ہمراہ ایک مقام پر کھڑے تھے
۔جہاں گھٹنوں تک پانی تھا ۔جب عثمان رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو آپ پاجامے
کے پائنچے اٹھائے بغیر آپ کے پاس چلے گئے ۔یعنی شرم و حیا کی وجہ سے آپ نے
سب کے سامنے گھٹنوں تک پائنچے اٹھانا بھی گوارانہ کیا ۔ حضرت عثمان رضی
اللہ عنہ نہ صرف گھر سے باہر جلوت میں سراپا حیا تھے ۔بلکہ خلوت میں بھی
شرم و حیا کا پیکر تھے ۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے سامنے جب حضرت عثمان
رضی اللہ عنہ کی حیا کا ذکر آیا،تو انہوں نے فرمایا:”اگر کبھی حضرت عثمان
رضی اللہ عنہ نہانا چاہتے تو دروازہ کو بند کر کے کپڑے اتارنے میں اس قدر
شرماتے کہ پشت بھی سیدھی نہ کر سکتے تھے ۔“ایک روایت میں ہے : ”جب غسل کرتے
تو تہبند نہ اٹھاتے حالانکہ آپ بند کمرے میں ہوتے اور شدت حیا کی وجہ سے
اپنی کمر کو اچھی طرح نہ اٹھاتے ۔“نانہ ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی
کی باندی تھی ۔ اس کا بیان ہے کہ ”حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے غسل کی فراغت
کے بعد جب میں ان کے کپڑے لے کر حاضر ہوتی تو مجھ سے فرماتے میرے جسم کی
طرف مت دیکھنا! یہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے ۔“ ایک روایت میں ہے کہ حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ تنہائی اور بند کمرے میں بھی برہنہ نہیں ہوتے تھے ۔“
جہاں تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی آنحضرت ﷺ سے حیاءکرنے کا تعلق ہے تو اس
کا خود آنحضرت ﷺ کو بھی اعتراف تھا اور احساس بھی ۔ ابن عساکر کی روایت ہے
کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’‘رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنے کے بعد
میں نے کبھی اپنا سیدھا ہاتھ اپنی شرمگاہ کو نہیں لگایا۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :”رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں اپنی
پنڈلیاں کھولے بیٹھے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حاضری کی
اجازت چاہی ،حضور ﷺ نے انہیں بلالیا اور اسی طرح لیٹے رہے ۔پھر حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ،حضور ﷺ نے ان کو بھی بلالیا اور اسی طرح
لیٹے رہے ۔پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ،تو حضور ﷺ اٹھ کر
بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست فرمالیا ۔ پھر جب لوگ چلے گئے تو میں (حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا) نے عرض کیا کہ ابو بکر آئے تو حضورﷺ نے جنبش نہ کی
۔اسی طرح لیٹے رہے پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ آئے حضورﷺ تب بھی لیٹے رہے اور
پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو حضورﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست
کر لیا ۔(تو اس کا کیا سبب ہے؟) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’میں اس شخص سے کیوں
نہ حیا کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔“ ایک اور روایت میں ہے :”کیا
میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔اس ذات کی قسم!
جس کے قبضے میں میری جان ہے فرشتے جس طرح اللہ اور اس کے رسول سے حیا کرتے
ہیں ،اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ سے حیا کرتے ہیں۔اگر وہ اندر آجاتے تو تم
میرے قریب ہوتیں تو وہ بات نہ کرتے اور اپنا سر اٹھاتے ۔حتیٰ کہ باہر چلے
جاتے ۔“
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نبی اکرم ﷺ سے حیا ہی تھا ، جس نے آپ کو فتنہ
کے وقت بھی بلوائیوں (سبائیوں) سے جنگ کرنے اور لڑنے سے باز رکھا ۔حضرت
زبیر رضی اللہ عنہ ،طلحہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ
سے ان بلوائیوں سے لڑنے کی اجازت چاہی مگر آپ نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا
کہ :”میں شہر نبی میں اپنی خاطر ایک بھی مسلمان کا خون بہانا نہیں چاہتا
۔میرا سب سے بڑا مددگار وہ ہے جو اپنے ہاتھ اور اسلحہ کو روکے رکھے۔“
یہ شرم و حیاءکے پیکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے فتنوں کے ڈر
سے قربت رسول ﷺ کو چھوڑ نا گوارا نہ کیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے
اپنے محبوب نبی ﷺ کے شہر کو مسلمانوں کے خون سے رنگین ہونے سے بچا لیا اور
اپنی عمر کے 82سال میں سے 12سال فریضہ خلافت نبھانے کے بعد 18ذی الحجہ
35ہجری کو جام شہادت نوش فرمایا اور حیاءسخاوت ،ایثار، صبر، حلم کی اعلیٰ
روایات قائم کر گئے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ صحابہ رضی اللہ عنہم پر عمل
کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔آمین |