انمول شخصیت ------ بے لوث خدمت

اس بے ثبات دنیا میں نہ جانے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو بے مقصد زندگی گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن اسی بے ثبات دنیا میں چند ایسی انمول ہستیاں بھی ہوتی ہیں جو کہ ایسی ایسی بے مثال خدمات سرانجام دیتی ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کا نام امر ہو جاتا ہے ایسی ہی انمول شخصیات میں ایک نام شہید حکیم محمد سعید کا بھی ہے حکیم صاحب کا نام ان تمام لوگوں کےلئے مشعل راہ ہے جو مسائل کی زیادتی اور وسائل کی کمی کا رونا رورو کر ترقی معکوس کی جانب سفر کررہے ہیں صحت تعلیم اور طب ایسے شعبہ جات ہیں جن میں حکیم صاحب نے بے پناہ کام سرانجام دیئے بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کے بعد محدود وسائل کے ساتھ حکیم صاحب نے جو پہلا کام کیا وہ ہمدرد وقف پاکستان کا قیام تھا اور آج کشمیر سے لے کر کراچی تک اور لاہور سے لے کر چمن تک ہمدرد دواخانہ کی سربلند دوائیں بیماروں کو شفاءعطا کررہی ہیں ملک کے طول و عرض میں بے شمار ہمدرد کے دواخانے موجود ہیں جو کہ خالص طبی بنیادوں پر لوگوں کو شفاءیابی فراہم کررہے ہیں یہ بات یقینا کم ہی لوگوں کے علم میں ہو گی کہ شہید حکیم محمد سعید اپنی انتھک محنت اور کاوشوں کی وجہ سے احترام کی اس منزل تک پہنچے کہ ان کے یوم پیدائش 9جنوری کے دن کو پاکستان میں بچوں کا قومی دن قرار دیا گیا بچوں کے لئے ان کی خدمات یقینا اس قدر قابل تحسین ہیں کہ یہ اقدام بجا ہے لیکن بچوں کے قومی دن قرار دیئے جانے کے بعد اس دن کو بچوں کے حوالے سے منائے جانے کے کوئی خاص اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے یہ نونہالوں اور محسن نونہال دونوں کے لئے صحیح طرز عمل نہیں ہے حکیم صاحب کا روزانہ کا معمول یہ تھا کہ نماز فجر ادا کرنے کے بعد مطب تشریف لاتے اور نماز ظہر تک اپنی خدمات سے لوگوں کو مستفید کرتے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ کو شفاءکامل عطا کیا تھا اپنی شہادت والے روز وہ روزے سے تھے اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مطب تشریف لے جارہے تھے کہ پہلے سے گات لگائے ہوئے دشمنوں نے ایک عظیم زندگی گزارنے والے کو ایک عظیم شہادت جیسے رتبے پر فائز کردیا۔

بچوں کے لئے حکیم صاحب نے بڑی تعداد میں اسے سفرنامے تحریر کئے ہیں جو انتہائی سادہ اور آسان طرز تحریر کا نمونہ ہیں ان کے سفر نامے بچوں کے لئے بیش بہا قیمتی خزانے کی مانند ہیں دوران سفرنامہ وہ بڑی سے بڑی عمدہ نصیحت اس قدر آسان زبان میں کرجاتے کہ بچے اس بات کا اثر بہت آسانی سے قبول کرلیتے ہیں شہر علم مدینیة الحکمت جیسے تعلیمی ادارے کو قائم کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ایک تن تنہا شخص اس قدر حیرت انگیز کارنامہ کس طرح سرانجام دے سکتا ہے لیکن حکیم صاحب نے ریگستان کو گلستان بنادیا آج ملک کے طول و عرض سے طالبان علم یہاںطبِ یونانی سے لے کر ایم بی بی ایس تک کی انتہائی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

انتہائی سادہ مزاج کے مالک تھے ان کا کھانا پینا پہننا اوڑھنا تک بہت سادہ ہوا کرتا تھا دوپہر کے کھانے کو وہ غیر ضروری سمجھتے تھے صبح کا سادہ ناشتہ اور رات کا جلدی کھانا ان کا معمول تھا اور اسی بات کی تلقین وہ حکمرانوں کو بھی کیا کرتے تھے حکمران طبقہ کے لئے وہ ایک رول ماڈل ہیں دوران گورنری تنخواہ کے طور پر ایک روپیہ وصول نہیں کیا حکیم صاحب ایک صاحب عمل آدمی تھے زبانی دعوﺅں اور نعروں کے بجائے عملی نمونہ پیش کرتے تھے علم اور تعلیم سے شغف کا یہ عالم تھا کہ اپنے عہدہ گورنری کے دوران اعلیٰ تعلیم کے مواقع ہر خاص و عام کے لئے سہل کردیئے پانچ جامعات کو چارٹر عطا کئے جن میں سے ایک صرف لڑکیوں کی جامعہ بھی شامل تھی ان کے ایک قول ”وقت اللہ کی امانت ہے اس کا صحیح استعمال عبادت ہے“ پر عمل کرکے پوری قوم وقت کا صحیح استعمال کرکے اپنے اپنے دائرہ عمل میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جو معاشرہ اپنے ہیروز کی باتوں کو یاد رکھتا ہے اور ان کے احسانوں کو شمار کرتا ہے وہ کبھی تنزلی کا شکار نہیں ہوتا بس ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم حکیم محمد سعید شہید جیسے انمول انسانوں کو اپنا رول ماڈل مانتے ہوئے اپنی نئی نسل کو ان کے خیالات و افکار سے آگہی دیں اور ملک وقوم کےلئے ان کی دی گئی خدمات کو بھی یاد رکھیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے تمام حکمرانوں کو عقل سلیم دے کہ وہ اقتدار کے دائرے سے نکل کر زبانی کلامی دعوﺅں اور نعروں کی سیاست سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے نیچے سے کرسی کھینچنے کے عمل سے باز رہیں اور اللہ ہمیں حکیم محمد سعید شہید جیسے رول ماڈل انسانوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں مسائل کی زیادتی اور وسائل کی کمی کا رونا رونے کے بجائے ملک و قوم کی ترقی اور بھلائی کے لئے وقت کو اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے دیئے گئے وقت میں کوئی ایسا کام کرجائیں کہ بعد میں آنے والی نسلیں ان کو بھی اپنا رول ماڈل تسلیم کریں۔
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44716 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.