ہم سب نے کھلی آنکھوں کے ساتھ
عمران خان کی آنکھوں میں سجے خواب پورے ہوتے دیکھے۔اس کا ارمان تھا کہ کرکٹ
کے میدانوں میں ’گھر کے شیر‘انڈیا کو انڈیا میں، بابائے کرکٹ انگلینڈ کو
انگلینڈ کو،اس زمانے کی کالی آندھی ویسٹ انڈیزکو ویسٹ انڈیز میں چت
کرے۔قریب قریب ایسا ہی ہوا۔کینسر ہسپتال واقعی ایک دیوانے کا خواب لگتا
تھا،مگر اس کی دیوانگی نے یہ معجزہ بھی کر دکھایا۔اپنے آبائی علاقے
میانوالی میں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی کا قیام،یہ کام بھی صرف وہی
کر سکتا تھا،1992 میں اس کی قیادت میں پاکستان نے اس وقت ورلڈکپ جیتا جب
کوئی بھی پاکستان کے لیے شرط لگانے کے لیے تیار نہ تھا۔
اب سیاست میں بھی وہ ایسی ہی کرشماتی کامیابیوں کا منتظر ہے،مگر یہ میدان
ذرا وکھری ٹائپ کا ہے۔ہماری سیاست میں دیہی ووٹرز کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔
وہاں کامیابی کے لیے منشور ،پاکبازی اور ذاتی کردار کی بجائے برادری ازم کا
بڑا عمل دخل ہے۔وہاں ان کو ووٹ ملتے ہیں جو ان لوگوں کو تھانے اور کچہری سے
بچا سکے چاہے ان کا جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کا
حمایت یافتہ امیدوار ان کی جائز اور ناجائز ہر معاملے میں مدد کرے۔کیا
عمران خان کے امیدوار اپنے ووٹرز کی یہ معصوم خواہشات پوری کر سکیں گے؟
شاید نہیں، کیونکہ عمران دوسروں سے الگ قسم کے امیدوار چاہتے ہیں،تبدیلی
لانے والے، انقلاب لانے والے۔ایسے امیدوار مل تو سکتے ہیں مگر وہ جیت نہیں
سکیں گے۔ کامیاب ہونے کے لیے ان کو بہت سے اصولوں سے دستبردار ہونا پڑے
گا۔وہاں کامیابی کے لیے بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے، یعنی پورا نظام۔ کیا
ایسا ممکن ہے؟ |