فضہ پروین
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
لوگوں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
اردو زبان کی نامور شاعرہ ثمینہ راجا تیس اکتوبر 2012کواسلام آباد میں
انتقال کر گئیں ۔انھیں کینسر کا عارضہ لا حق تھا ۔اسلا م آباد میں واقع
H-8کے قبرستان کی زمین نے اردو شاعری کے اس چاند اور ادب کے آسمان کو اپنی
مٹی میں چھپا لیاجس نے پاکستان میں تانیثیت کی اساس پر استوار ہونے والے
اردو ادب کو عظمت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔اردو نثر ،شاعری ،فنون لطیفہ ،براڈ
کا سٹنگ ،تعلیم و روزگار نسواں،حقوق نسواں،سماجی مسائل کے ۔انسانی حقوق اور
معاشرتی فلاح کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائی گی۔ان کی یاد میں بزم
ادب مدت تک سوگوار رہے گی ۔ثمینہ راجا کی وفات کی خبر سن کر دل دھک سے رہ
گیا ۔فرشتہ ءاجل نے ایسی عظیم شاعرہ سے قلم چھین لیا جس نے تانیثیت کے
حوالے سے اردو ادب کو ایک بلند آہنگ عطا کیا۔آنکھوںسے آنسوﺅں کی جھڑی لگ
گئی ،زبان کچھ کہنے سے قاصر ہے ،دل ڈوب رہا ہے اور زندگی کی کم مائیگی کے
احساس نے پورے وجود کو کرچی کرچی کر دیا ہے وہ ایک نیک نیت ادیبہ تھیں ۔ان
کی زندگی سعیءپیہم اور صبر و استقامت کی شاندار مثال تھی ۔ثمینہ راجا
11۔ستمبر 1961کو رحیم یار خان میںپیدا ہوئیں۔انھوں نے پنجاب یونیورسٹی ،لاہور
سے ارد وزبان و ادب میں ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی۔زمانہ طالب علمی ہی سے وہ
شعر و شاعری کی طرف مائل تھیں۔انھوں نے 1973میں شعر گوئی کا آغاز کیا اور
ان کے پندرہ شعری مجموعے شائع ہوئے جنھیں زبردست پذیرائی ملی۔ان کی شاعری
میں کلاسیکیت اور جدت کا جو حسین امتزاج ہے وہ انھیں منفرد اور ممتاز مقام
عطا کرتا ہے ۔عملی زندگی میں انھوں نے کئی اہم شعبوں میں خدمات انجام
دیں۔پاکستان ٹیلی ویژں میں انھوں نے 1995میں علم و ادب کے فروغ کے لیے بھر
پور کردارادا کیا ۔پاکستان ٹیلی ویژن کے زیر اہتمام کامیاب اردو مشاعروں کا
انعقاد ان کی فعال ،ہر دل عزیز اور موثر شخصیت کا مرہون منت تھا ۔انھوں نے
عالمی شہرت کے حامل ادیبوں اور شاعروں کے مل بیٹھنے اور علمی و ادبی
موضوعات کے لیے انھیں جو مواقع فراہم کیے ان کے اعجاز سے فروغ گلشن و صوت
ہزار کا موسم دیکھنے کی تمنا پوری ہوئی ۔ثمینہ راجا نے 1998میں نیشنل بک فاﺅنڈیشن
اسلام آباد میں کنسلٹنٹ کی حیثیت سے ذمہ داریا ں سنبھالیں ۔اس عرصے میں
ادبی مجلے ”کتاب “کی ادارت ان کے ذمے تھی ۔ ان کی رہنمائی میں مجلہ ”کتاب
“جس آب و تاب سے شائع ہوتا رہا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ان کی ادارت میں شائع
ہونے والے مجلہ ”کتاب “ کے شمارے اپنی افادیت اور ثقاہت کی بہ دولت مستقل
نوعیت اور حوالہ جاتی حیثیت رکھتے ہیں ۔انھوں نے ادبی تخلیقات میں اسلوب
اورہیئت کے تمام جمالیاتی پہلوﺅں پر توجہ دی اورتخلیقی عمل میںان کی اہمیت
کو اجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔تخلیقی اسلوب میںان کی انفرادیت کا
جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا۔ان کی تخلیقات میں روح عصر اور اجتماعیت کے
امتزاج سے جو صد رنگی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے
لیتی ہے ۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آبادمیں
ماہر مضمون کی حیثیت سے خدمات پر مامور تھیں ۔ثمینہ راجا کی اہم تصانیف مع
سال اشاعت درج ذیل ہیں :
ہویدا (1995)،شہر صبا (1997)،اور وصال (1998)اس کتاب پر انھیں 1999میں وزیر
اعظم ایوارڈ سے نوازا گیا۔خواب نائے (1998)،باغ شب (1999)،باز دید (2000)،
ہفت آسمان(2001)،پری خانہ (2002)،عدن کے راستے پر (2003)،دل
لیلیٰ(2004)،عشق آباد (2006)،ہجر نامہ (2008)ان کی شاعری کے دو کلیات اور
شاعری کاایک انتخاب بھی شائع ہوا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :
کتاب خواب (2004)،کتاب جاں (2005)،وہ شام ذرا سی گہری تھی (2005)
ثمینہ راجا نے ترجمے میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔انھوں
نے تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی کامیاب کوشش کی ۔ایک ماہر
مترجم کی حیثیت سے انھوں نے جہاں مصنف کی ذات ،اسلوب اور مقصد کو پیش نظر
رکھاہے وہاں ترجمے کو قاری کی سطح تک پہنچا کر اس کے موثر ابلاغ کو یقینی
بنایا ہے ۔انھوں نے دونوں زبانوں میں ایک کامل ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے
کی کوشش کی ہے جس کے معجز نما اثر سے قاری پر فکر ونظر کے متعدد نئے دریچے
وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ان کے تراجم سے اردو ادب کی ثروت میںاضافہ ہوا اور
موضوعاتی تنوع اور اسلوبیاتی ندرت کے کئی مظا ہر سامنے آئے ۔ان کے نثری
تراجم کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ادبی حلقوں نے ان تراجم کو ایک اہم قومی خدمت سے
تعبیر کیا ۔یہ تراجم درج ذیل ہیں :
(1)۔مشرق شناسی : یہ ایڈورڈ سعید کی کتاب ”Orientalism“کااردو ترجمہ ہے
۔ثمینہ راجہ نے ا س اہم کتاب کا اردو میں ترجمہ کر کے اردو تنقید و تحقیق
کو نئے آفاق سے آشناکیا ہے۔
(2)برطانوی ہند کا مستقبل :یہ کتاب مشہور انگریز مورخ بیورلے نکولس
(Beverley Nichols)کی شہرہ ءآفاق تصنیف Verdict Of India کا اردو ترجمہ ہے
۔
ثمینہ راجا اکثر کہا کرتی تھیں کہ دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے اہم
ادب پاروں کا اردو میں ترجمہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے َجب بھی وہ عالمی
ادب کی کسی شہ کار تخلیق سے متاثر ہوتیں تو اسے اردو زبان کے قالب میں
ڈھالنے میں کبھی تامل نہ کرتیں۔اس طرح وہ نہ صرف خود اس عظیم ادب پارے سے
حظ اٹھاتیں بل کہ اردو زبان کے عام قاری کو بھی اس روحانی مسرت میںشریک کر
لیتیں جو انھیں اس یادگار تحریر کے مطالعہ سے حاصل ہوئی ۔انھوں نے اپنے
تراجم کے ذریعے تخلیق کے لا شعوری محرکات ،جذبات و احساسات اور فکر و خیال
کو جہان تازہ تک رسائی کی راہ دکھائی ۔اگرچہ ترجمہ نگاری ان کا انفرادی ذوق
تھا مگر اس کے تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت پر دور رس اثرات مرتب ہو ں
گے ۔انھوں نے تراجم کے ذریعے جمو دکا خاتمہ کیا اور اردو زبان میں تخلیقی
عمل کو مہمیز کرنے کی کو شش کی ۔
ثمینہ راجا کی شاعری میںحریت فکر کے جذبات قاری کی سوچ پر مثبت اثرات مرتب
کرتے ہیں ۔انھوں نے ہمیشہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور حریت ضمیر سے جینے
کے لیے اسوہءشبیرؓ کو پیش نظر رکھا ۔انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کو اپنے
طرز عمل اور کردار کاآئینہ بنا دیا۔حق گوئی اور بے باکی ان کی فطرت تھی
۔حریت فکر ان کی جبلت تھی ۔جبر کا ہراانداز مسترد کرتے ہوئے انھوں نے اپنا
مافی الضمیر ڈنکے کی چوٹ بیا ن کیا ۔وہ کسی مصلحت کی قائل نہ تھیں ،الفاظ
کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے نزدیک منافقت کی دلیل تھا ۔عصری آگہی
سے لبریز ان کی شاعری ہر دور میں دلوں کو ایک ولولہءتازہ عطا کرتی رہے گی
۔ان کی شاعری میں ایک واضح پیغام ہے جو جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر
دیتا ہے ۔فصیل جبر کو تیشہءحرف سے منہدم کرنا ہمیشہ ان کا مطمح نظررہا:
کرو تلاش کوئی نور کی نشانی اب
نہیں قبول اندھیروں کی حکمرانی اب
کرپٹ قوموں کی صف میں یہ نام لگ گیا ہے
یہ داغ ہم پہ بہ صد اہتمام لگ گیا ہے
ثمینہ راجہ نے اپنی شاعری کو ایک ایسے عمدہ تخلیقی عمل کی صورت میں
صفحہءقرطاس پر منتقل کیا جس کے خوش گوار اثرات سے قاری کو ذہنی سکون ملتا
ہے ۔وہ اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو پوری دیانت سے اشعار کے قالب
میں ڈھالتی ہیں ۔وہ پاکستانی خواتین کی بھلائی اور وقار کے خواب دیکھتی
تھیں ۔اگر ایک خواب کی تعبیر نہ ملتی توو ہ کبھی مایوسی اور اضمحلال کا
شکار نہ ہوتیں بلکہ نئے عزم کے ساتھ ایک اور خواب کے سہارے زندگی کا سفر طے
کرنے کی تلقین کرتی دکھائی دیتی ہیں :
دوسرا خواب
کس کی آواز سے ہوتا ہے پریشاں مرا خواب
دیتا رہتا ہے یہ دل کس کی صداﺅں کا جواب
نیند کی شاخ پہ کھل اٹھتا ہے اک اور گلاب
دیکھنے لگتی ہوں اک خواب میں اک دوسرا خواب
ثمینہ راجا نے اردو شاعری میں تانیثیت کے حوالے سے جس بے تکلفی سے اپنے
جذبات کااظہار کیا ہے وہ ان کے منفرد اسلوب کی دلیل ہے ۔موضوعات کا تنوع
،زبان و بیان کی دلکشی ،جاذبیت اور اثر آفرینی اور مسحور کن لہجہ ان کو
ممتاز مقام عطا کرتا ہے ۔ان کی شاعری جمالیاتی سوز و سرور کو تقویت دیتی ہے
یہ سب کچھ ان کی جمالیاتی حس کا ثمر ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی شاعری
میں جمالیاتی سوز و سرور کے سوتے ان کے حسین لہجے اور دلکش اسلوب سے پھوٹتے
ہیں ۔ان کی شاعری میں سوز دروں کی جو مسحور کن کیفیت ہے وہ قاری کو حیرت
زدہ کر دیتی ہے ۔ان کی شاعری زندگی کی ترجمانی اس انداز سے کرتی ہے کہ قاری
کو تمام کیفیات اپنے نہاں خانہءدل میں موجزن محسوس ہوتی ہیں ۔اپنی نوعیت کے
اعتبار سے ان کی شاعری متعدد پوشیدہ حقائق کی گرہ کشائی کرتی ہے ۔اپنے
اسلوب کی سحر کاری سے وہ زندگی کے وہ تمام حقائق جو عام قاری کی نظروں سے
بالعموم اوجھل رہتے ہیں انھیں منصہ ءشہود پر لاتی ہیں ۔اس طرح یہ شاعری
انسانی اقدار کو ایک ایسی کلیت کے روپ میں سامنے لاتی ہے جو زندگی کی حقیقی
معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہے ۔یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے
کہ ثمینہ راجا کی شاعری کا قصر عالی شان اردو کی کلاسیکی شاعری کی اساس پر
استوار ہے ۔اس عالم آب و گل کے جملہ مظاہر اور حیات و کائنات کے تمام مسائل
کے بارے میں ان کا انداز فکر قابل توجہ ہے :
میں تمھارے عکس کی آواز میں بس آئینہ ہی بنی رہی
کبھی تم نہ سامنے آ سکے ،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی
جا چکا وہ کسی تعبیر کے پیچھے کب کا
میں اب تک ہوں اسی خواب کی حیرانی میں
کسی خواب کا کہ شکست خواب کا ذائقہ
مری پور پور میں ہے سراب کا ذائقہ
کسی کربلا سے گزر کے شہر تک آئے ہیں
کہاں یاد ہے ہمیں نان و آب کا ذائقہ
یہ بے وفائی نہیں ،وقت کا ستم ہے کہ تو
بچھڑ گیا تو ترا انتظار ہی نہ رہا
ثمینہ راجا نے اپنے تخلیقی عمل کو اپنے بصیرت افروز تجربات ،عمیق مطالعہ
،مشاہدات ،سچے جذبات و احساسات اور مثبت انداز فکر سے اس مہارت سے مزین کیا
ہے ان کے تخلیقی تجربات آفاقیت کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں ۔انھوں نے جو
کچھ لکھا تپاک جاں سے لکھا ۔وہ جانتی تھیں کہ یہ سب کچھ زندگی کے تلخ حقائق
کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔وہ انسانیت کے مسائل کو پوری شدت سے
محسوس کرتی ہیں اور دکھی انسانیت کے غم میں ڈوب کر جو کچھ لکھتی ہیں وہ قا
ری کے دل پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے ۔ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد
قاری کو یہ محسوس ہوتاہے جن جذبات اور احساسات کااظہار اس کلام میں موجود
ہے ان سب سے اس کا بھی واسطہ پڑ چکا ہے ۔
تو مبتلائے غم ہجر دل سنبھال ابھی
کہ راستے میں ہے اک موسم وصال ابھی
ہم نے یہ سوچ کر اب تک تری خواہش نہیں کی
در گزر اہل جہاں نے یہی لغزش نہیں کی
کار دنیا میں کچھ اے دل نہیں بہتر تو بھی
کوچہءعشق میں چن لایا ہے کنکر تو بھی
جڑا ہے سچ سے کہیں یا گما ں سے الجھا ہے
زمیں پہ ہے کہ یہ غم آسماں سے الجھا ہے
چراغ عشق تو جانے کہا ں رکھا ہوا ہے
سر محراب جاں بس اک گماں رکھا ہوا ہے
تری نظریں ،تری آواز ،تیری مسکراہٹ
سفر میں کیسا کیسا سائباں رکھا ہوا ہے
زندگی کی برق رفتاریوں نے نوع انسانی کو انتشار اور پر ا گندگی کی بھینٹ
چڑھا دیا ہے ۔ہوس زر اور جلب منفعت نے زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید ضعف
پہنچایا ہے ۔ثمینہ راجا نے اپنی تخلیقی تحریروں سے وہ سب چاک رفو کرنے کی
سعی کی ہے جو زندگی کے سفر میں انسانیت کے دامن پر لگے ۔ہوس نے نوع انساں
کو ٹکڑے ٹکڑ ے کر دیا ہے ۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے ثمینہ راجا نے یہ
کوشش کی ہے کہ بے لوث محبت ،خلوص اور درد مندی کے جذبات کو پروان چڑھایا
جائے ۔معاشرتی اور سماجی زندگی کے انتشار میں بھی وہ دل برداشتہ نہیں ہوتیں
بل کہ وہ معاشرتی اتحاد کے خواب دیکھتی ہیں ۔ان کے اسلوب میں مضمون آفرینی
کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے ۔وطن ،اہل وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ قلبی
وابستگی اور والہانہ محبت ان کی شخصیت کا اہم ترین وصف تھا ۔انھوں نے مادی
وسائل ،جاہ و منصب اور شہرت کی کبھی تمنا نہ کی ۔ان کی زندگی عجز و انکسار
اور صبر و استقامت کی عمدہ مثا ل تھی ۔اللہ کریم کی رحمت پر انھیں کامل
اعتماد تھا۔وہ مذہب کے ساتھ قلبی وابستگی رکھتی تھیں ۔ان کی حمدیہ اور
نعتیہ شاعری پڑھ کر قاری پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے وہ ایک راسخ
ا لعقید ہ مسلمان خاتون تھیں ۔ان کی شاعری میں مذہب کی ارفع اقدار کا بیان
ان کے قلبی و روحانی جذب کا آئینہ دار ہے :
دعا یا رب لب خاموش کو ایسا کمال دے
جو گفتگو کے سارے ہی لہجے اجال دے
سوز درون قلب کو اتنا جمال دے
جو مجھ کو ایک شمع کے قالب میں ڈھال دے
وہ خواب مرحمت ہو کہ آنکھیں چمک اٹھیں
وہ سر خوشی عطا ہو کہ کہ دنیا مثال دے
تیرے ہی آستاں پہ جھکی ہو جبین دل
اپنے ہی در کے واسطے خوئے سوال دے
حضور ختم المرسلینﷺکی ذات اقدس کے ساتھ ثمینہ راجا نے جس عقیدت کا اظہار
کیاہے وہ ان کے ایمان کامل کی دلیل ہے ۔ثمینہ راجا کی شاعری میں متعدد
مقامات پر توحید و رسالت کے ساتھ قلبی لگاﺅ کا اظہار ملتا ہے ۔اس موضوع پر
ان کی شاعری جذبات ،احساسات ،ادراک اور وجدان کے مسحور کن اظہار کے دلکش
نمونے پیش کرتی ہے ۔ان کے دل میں مذہب کے ساتھ قلبی وابستگی کی جو ایمان
افروز کیفیت موجزن ہے وہ قاری کے لیے پیام نو بہار ثابت ہوتی ہے :
متصل تو نہیں ہوتی ہے عطا مجھ پر بھی
باب حیرت کبھی ہو جاتا ہے وا مجھ پر بھی
میرے آقاﷺکے وسیلے سے ملا ،جو بھی ملا
عقدہءدل جو نہ کھلتا تھا ،کھلامجھ پر بھی
معتکف غار حرائے غم ہستی میں جو ہوں
شاید اترے گا کوئی حرف وفا مجھ پر بھی
روز محشر جو شفاعت کے لیے آئیں گے آپ ﷺ
سب پہ رحمت کی نظر ڈالیں گے، کیا مجھ پر بھی ؟
ثمینہ راجا نے ہمیشہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنی شاعری میں اولیت
دی ۔وہ عدل و انصاف اور مساوات کی بنا پر زندگی بسر کرنے کی آرزو مند تھیں
۔اگر معاشرے میں عدل و انصاف اور حق و صداقت کی بالا دستی کو یقینی بنایا
جائے تو معاشرے میںامن و سکون کا دور دورہ ہو جائے گا ۔افراد کی زندگی مسرت
سے لبریز ہوگی ان کی دنیا میں راحتیں لوٹ آئیں گی ۔وہ چاہتی تھیں کہ خواتین
کو معاشرتی زندگی میں وہ عزت و تکریم دی جائے جس کی وہ جائز طور پر مستحق
ہیں ۔خواتین کے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز ناانصافیوں پر بہت دکھ
محسوس کرتیں وہ اس بات کی حامی تھیں کہ خواتین کے حقوق کے لیے خواتین کو
خود جدو جہد کاآغاز کرنا ہو گا ۔ان کی تخلیقات میںخواتین کے مسائل کے بارے
میں حقیقت پسندانہ اظہار کیا گیا ہے ۔زندگی کا سفر ہر انسان کو طے کرناہے
۔اس سفر میں رخش عمر پیہم رو میں ہے ۔نہ تو اس کا ہاتھ باگ پرہے اور نہ ہی
اس کا پا رکاب میں ہے ۔زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے مگر اس
زندگی کی دشواریوں کے باعث انسان کا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے ۔ثمینہ
راجا کی زندگی خواتین کے لیے فیض رساں تھی۔انھوں نے اپنی انا اور خود داری
کا بھرم زندگی بھر بر قرار رکھا۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی یہ خواہش بھی تھی کہ
جس طرح بھی ممکن ہو انسانیت کی خدمت کو شعار بنایا جائے وہ ذاتی مفاد کو پس
پشت ڈال کر دکھی انسانیت کے مسائل پر توجہ دینے کو اپنا نصب العین سمجھتی
تھیں۔وہ پیمانہءعمر بھر گئیں ۔اپنی زندگی کے سفر کے بارے میں انھوں نے لکھا
ہے ۔
سفر
میں سیاہ رات کے سفر پر ہوں
ایک قندیل یاد جاناں کی
ہاتھ میں ہے مگر ہوا ہے تیز
میں تو اک بات کے سفر پر ہوں
جو کسی کنج لب سے پھوٹی تھی
اور میری تمام عمر کو ایک
دشت پر خار میں دھکیل گئی
ساری صبحیں اسی کے نام ہوئیں
ساری فتحیں اسی کے نام ہوئیں
میں فقط مات کے سفر پر ہوں
میں تو اک بات کے سفر پر ہوں
ثمینہ راجا نے اپنی زندگی کا سفر طے کر لیااور عدم کی بے کراں وادیوں کی
جانب رخت سفر باندھ لیا۔وہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی یاد یں
ہمیشہ زندہ رہیں گی ۔اردوادب کی تاریخ میں ان کا نام اور عظیم تخلیقی کام
آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت سے ارد وادب کا
دامن گل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا ۔جب تک دنیا باقی ہے ان کی یاداور کام
باقی رہے گا ۔
پھیلی ہیں فضاﺅں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی |