ویسے تو ہمارے کالمسٹ لوگ ہر
تاریخی دن کے حوالے سے کالم لکھتے رہتے ہیں کوئی اس دن کی اہمیت بیان کرتا
ہے تو کوئی اس کی مخالفت پر لکھتا ہے ۔ مگر آج میں جس شخصیت پر لکھا رہا
ہوں وہ قیام پاکستان کی صف اول کی شخصیت ہے ۔ جس انتھک محنت و کوشش سے یہ
پاکستان معرض وجود میں آیا ۔میں آج اپنا قلم اس شخص کے نام کررہا ہوں جو
ہمارے دلوں پر راج کررہا ہے ۔ کبھی سیاست کے پختہ اصولوں سے تو کبھی شعر
وشاعری کے ذریعے۔
جی میں علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا ذکر کررہا ہوں۔ آپ 9 نومبر 1877 کو پیدا
ہوئے۔ ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلی تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ
کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے یہاں آپ کو پرفیسر
آرنلڈ جیسے فاضل شفیق استاد مل گئے جنہوں نے اپنے شاگرد کی رہنمائی میں
کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ 1905 میں علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لیے انگلستان
چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے
فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے
جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
شروع شروع میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے
فرائض سرانجام دیئے لیکن آپ نے وکالت کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے
ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز
میں حصہ لیا۔ 1922 میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔ سیاست کے میدان میں
1926 میں آپ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔ آپ آزادی وطن کے
علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے۔ مسلم لیگ میں
شامل ہوگئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے آپ کا الہ آباد کا
مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا
تصور پیش کیا۔1931 میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی
نمائندگی کی۔
حکیم الامت،مصورپاکستان ،تصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے یوم ولادت پران
کے کارناموں،خدمات اور عظمتوں کا مکمل احاطہ کرناشاید مجھ جیسے کم علم آدمی
کے بس میںنہیں ہے۔ آپ کے عظیم کارناموں سے تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں۔ آپ
کے ذکر کے بغیر نہ تو پاکستان مکمل ہوتا ہے اور نہ تاریخ۔ پاکستان ہی
نہیںبلکہ ایران،ترکی،ہندوستان،وسط ایشیا ،الغرض عرب وعجم سارا علامہ کا
ممنون احسان ہے کہ انھوں نے شاعری کومحض تذکرہ محبوب اور حسن وعشق سے نکال
کر ایک مقصد بخشا۔مسلمانان برصغیر کے اندر ایک نئی روح پھونکی۔ خودی کادرس
دے کراغیار کی غلامی سے نکلنے کا سبق سکھایا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال حساس
دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے
مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا
جاتا ہے اور مسلمانان عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان
کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور
اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی کتابوں کے انگریزی ، جرمنی ،
فرانسیسی، چینی ، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے
بیرون ملک کے لوگ بھی متعارف ہیں۔ بلا مبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر
مانے جاتے ہیں۔
آپ نے 21اپریل 1938کووفات پائی ۔ آپ کا مزار بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقع
ہے۔ آپ کے وفات پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے تعزیتی
بیان میں کہا ”مجھے سر محمد اقبال کی وفات کی خبر سن کر سخت رنج ہوا۔ وہ
عالمی شہرت کے ایک نہایت ممتاز شاعر تھے۔ ان کی شہرت اور انکے کام ہمیشہ
زندہ رہیں گے۔ملک اور مسلمانوں کی انہوں نے اتنی زیادہ خدمات انجام دی ہیں
کہ انکے ریکارڈ کا مقابلہ عظیم ترین ہندوستانی کے ریکارڈ سے کیا جا سکتا
ہے۔ ابھی حال ہی تک وہ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر تھے جبکہ غیرمتوقع
علالت نے انہیں استعفیٰ پر مجبور کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی
اور پروگرام کے حامی تھے۔ میرے لئے وہ ایک رہنما بھی تھے، دوست بھی اور
فلسفی بھی۔ تاریک ترین لمحوں میں جن سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا۔ وہ چٹان کی
طرح قائم رہے اور ایک لمحے کیلئے بھی متزلزل نہیں ہوئے اور اسی کا نتیجہ
تھا کہ صرف تین دن قبل انہوں نے اس کامل اتحاد کا ذکر سنا ہو گا جو کلکتہ
میں پنجاب کے مسلم قائدین کے مابین ہو گیا اور آج میں فخر و مباہات کے ساتھ
کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانان پنجاب مکمل طور پر مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور اسکے
جھنڈے تلے آ چکے ہیں جو یقیناً سر محمد اقبال کیلئے عظیم ترین اطمینان کا
واقعہ تھا۔ اس مفارقت میں میری نہایت مخلصانہ اور گہری ہمدردیاں انکے
خاندان کے ساتھ ہیں۔ اس نازک وقت میں ہندوستان کو اور خصوصاً مسلمانوں کو
ایک عظیم نقصان پہنچا ہے۔“
علامہ اقبال نے جوپاکستان کا تصور پیش کیا اور جس کی بنیاد قائداعظم نے
رکھی اگر ہم آج اس پاکستان کو دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ کہاں گیا
وہ مسلمانی جذبہ جس کے سامنے غیر مسلم جھکتے تھے اور آج غیر مسلموں کے
سامنے ہم جھک رہے ہیں ۔ کل تک غیر مسلموں پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی اور
آج ہم مسلمان حکومتیں بنا کر بھی غیر مسلموں کی فرمانبرداری کررہے ہیں۔ |