نہ سمجھو گے تو مِٹ جاﺅ گے اے پاکستاں والوں

پاکستان میں سیاست کا معیار ابھی اور کتنا گِرے گا اس کا انداز ہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن آزادی اظہار رائے کے نام پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ نہج کی طرف لے جا رہا ہے اور جمہوریت کے لئے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ سیاسی مخالفت میں تہذیب کا دامن چھوٹتا جا رہا ہے اور بد تہذیبی ہی نہیں بلکہ جب بات گالی گلوچ اور کردار کشی تک پہنچ جائے تو کسی بھی شریف آدمی کا سر شرم سے جھک ہی جائے گا۔اور پھر یہاں تو مسئلہ پورے پاکستان کی سیاست اور عوام کا ہے۔ ہم برسوں سے اپنے صحافیوں، مضمون نگاروں اور علمائے کرام کی تحریریں پڑھ رہے ہیں۔ مگر آج تک کوئی بھی ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ہمارے ملک میں امن کب قائم ہوگا؟ ہم کب آزادی کے ساتھ پورے ملک میں گھوم پِھر سکیں گے؟ ہم کب تک یوں دیدہ آس کی تصویر بنے انتظار کی گھڑیاں گنتے رہیں گے؟ ہم کب تک امن و امان کی خراب سے خراب تر ہوتی ہوئی صورتحال کو دیکھ دیکھ کر سر کھجاتے رہیں گے؟ ہم کب تک سیاسی قلابازیاں اور اس پارٹی سے اُس پارٹی میں گھسنے والوں کو دیکھ دیکھ کر مسکراتے رہیں گے؟ہمارے حالات اگر کسی حال سدھر نہیں رہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم خود سدھر نے کو تیار نہیں ہیں۔ ویسے بھی ہمیں اپنا گھر خود سدھارنے کی جستجو ہونی چاہیئے ، اگر خود نہیں کر سکتے تو دوسروں کی طرف کس منھ سے دیکھیں؟ ویسے بھی ہماری معیشت اس قدر ڈانواں ڈول ہے کہ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب دُم کٹے ہیں ، قوم تو یہ چاہتی ہے کہ اگر ہم دُم کٹے ہیں تو سب کو ایسا ہی ہونا چاہیئے ۔ کوئی ہمیں ہمارے مسائل حل کرنے میں مدد کرے یا نہ کرے ہمیں ہر صورت یہ سوچنا ہوگا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب کو مل کر ہی اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیئے۔اگر کوئی مجھ سے میری دلی جذبات کا اظہار کرنے کا پوچھے تو میں اپنے عوام کیلئے اس مشہور شعر کو ہی اپنا وصیلہ بنانے کو ترجیح دوں گا۔
میں تمام تارے سمیٹ کر وہ سبھی غریبوں میں بانٹ دوں
وہ جو ایک رات آسماں کا نظام دے میرے ہاتھ میں

دنیا کا ہر انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو یا کسی مذہب کا نہ ماننے والا ہو۔ دنیا کے کسی گوشے کا رہنے والا ہو اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ سچ اچھی چیز ہے اور جھوٹ بُری چیز ہے۔ اور ہمارے یہاں تو جھوٹ کا یہ سلسلہ صبح سے شام اور رات سے دن تک اتنے تیز رفتاری سے جاری رہتا ہے کہ خدا کی پناہ!ہر کوئی جھوٹ کا پلندہ لیئے ایک دوسرے پر لپکتا دکھائی دیتا ہے۔ کاش کوئی ایسا دن بھی آجائے جس دن سچ کا بول بالا ہونے لگے تو پاکستان جنت نظیر کی قسمت بھی سنور جائے۔ہم تو آج اتنے قوم، اتنے فرقے ، اور اتنے علاقوں میں بٹ گئے ہیں کہ ........اگر اسی طرح ہم منتشر رہے اور مسلکوں اور فرقہ بندی میں مشغول رہے تو کبھی ہمارے رسول اللہ ﷺ کے خلاف اہانت آمیز کارٹون شائع ہوتے رہیں گے تو کبھی فلمیں بنائی جاتی رہیں گی، کبھی ہمارے مقدس کلام اللہ کے ورق کو پھاڑ کر نالیوں میں پھینک کر بے حرمتی کی ھدیں پار کی جاتی رہیں گے اور کبھی عظیم اور جانباز رہنماﺅں کو دار پر لٹکایا جاتا رہے گا۔ اور ہم کچھ بھی کرنے نہ پائیں گے۔ دیکھئے اب بھی وقت ہے متحد ہو جایئے ، اور ان تمام شاتمین کیلئے یکجا ہوکر آواز اٹھایئے تاکہ وہ نیست و نابود ہو جائیں اور ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں جب جائیں تو سرخروئی کے ساتھ جائیں۔
تھے متحد تو وقت کی پہچان ہوگئے
جب منتشر ہوئے تو پریشان ہوگئے

کہتے ہیں کہ انصاف کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اور آج کل ہماری سپریم کورٹ بھی عوام الناس کو انصاف پہنچانے میں لگی ہوئی ہے۔ چلو اچھا ہے کوئی تو ہے جو اس غریب اور لاچار عوام کی داد رسی کر رہی ہے۔حکومت کا کام ہوتا ہے عوام کو راحت پہنچانا اور یہی کام حکومت کے استحکام کا ذریعہ بھی بنتے ہیں جس میں عوام کے تئیں عزت، محبت اور مروت ہوتی ہے اور جو حکومت کے ماحول سے اپنا سکہ قائم رکھتی ہے ۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ:
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاﺅ گے اے پاکستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

ایک زمانہ تھا کہ جب ہمارے ملک کے لوگوں کی آپسی بھائی چارے کی مثال دی جاتی تھی ۔ ہر کوئی ہماری سمجھداری اور بھائی چارگی کا قائل تھا۔ پھر اچانک پتہ نہیں ہمارے ملک کے شہروں کے امن کو کس کی بُری نظر لگ گئی ہے وہ کون لوگ ہیں جو آپسی بھائی چارگی اور ہم آہنگی کی بہہ رہی معطر ہوا میں زہر گھولنے کا کام کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کی پہچان ہونی چاہیئے تاکہ امن و امان کا مسئلہ حل سکے۔اکیسویں صدی میں ہمارا ملک ، دنیا میں اپنی الگ پہچان بنانے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ مگر یہ عناصر ملک کو آگے بڑھانے کی راہ میں رکاوٹ کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ہماری ترقی اور طاقت سے حسد ہے، وہی عناصر ملک ایسے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنا کر ہمیں کمزور کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں، تاکہ ہمارملنسار، محبت رکھنے والے چہروں کو داغدار کرنے کے در پہ ہیں۔

آج ہمارا ملک بے چینی، افرا تفری، ہنگامے، بلوے، بم بلاسٹ، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ بندی، احتجاج، امیری غریبی، اور اس قسم کی نہ جانے کتنی بیماریوں کا شکار ہے ۔ اور ان سب کا علاج کرنے کیلئے سیاسی میدان کے کھلاڑیوں میں سے کوئی بہت بہتر سیاسی ڈاکٹر کی ضرورت ہے جسے اپنے ملک سے لگاﺅ، محبت، حب الوطنی، اور وہ تمام گُر ہونا چاہیئے جو ملک کو صحیح سمت پر ڈال سکے۔

پاکستان میں جب جب انتخابات ہوتے ہیں چاہے وہ لوکل سطح کے ہوں یا پارلیمنٹ کے ہوں ، الزامات ، جوابی الزامات، کردار کشی اور فرضی کہانیاں گڑھنے کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح نتائج کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا اور آنے والی حکومت کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے کمزور کرنے کے در پہ لگ جایا جاتا ہے۔ اثر و رسوخ رکھنے والے سیاسی اکھاڑے کے کھلاڑی بے ضمیر اور فسطائی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر دور کی کوڑی لے آتا ہے جس کا تمام تر نقصان عوام الناس کو ہوتا ہے جو کہ سراسر زیادتی کے مترادف ہوتا ہے۔سیاست کو اتنا بھی آلودہ نہیں ہونا چاہیئے کہ کوئی نیک سیرت بندہ شوق رکھنے کے باوجود اس میدان میں آنے سے ڈرتا ہے۔

بہرحال ! بات گو کہ طویل ہے اور اس کا حل بھی ظاہر ہے کہ طویل المدت ہے۔ لیکن رب ذوالجلال سے یہی دعا ہے کہ ہمارے ملک اور اس میں بسنے والے تمام اکائیوں کو پھر سے امن و امان نصیب فرما دے۔ ہمیں پھر سے بھائی چارگی کا سبق یاد کرا دے۔ ہمیں پھر سے ایک قوم بن کر رہنے کے قابل بنا دے۔ (آمین)
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 343486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.