پاکستان میں "صادق و امین
“گوئبلز گروپ شروع سے ہی اسٹیبلیشمنٹ اور اِس کے تراشیدہ جموروں پر مشتمل
رہا ہے۔ اس گروپ میں شامل شعبدہ بازوں کی طلسم گری پہلے بھی کم نہ تھی مگر
اس نے اپنے فن کو نوے کی دہائی میں بامِ عروج تک جا پہنچایا۔ اس نے جھوٹ کا
وہ اندھ کار مچایا کہ سچ جُھوٹ کی تمیز بہت مشکل ہو گئی ۔ من کے پجاری اور
نفس کے حواری پاکستانی گوئبلز نے آج قوم کی یہ حالت کر دی ہے کہ کسی پر
الزامات لگنے کے ساتھ ہی اسے مجرم مان کر سنگباری شروع ہو جاتی ہے۔ ہر
افواہ کو ایمان کی حد تک سچ ما ن لیا جاتا ہے اور اسےعظیم کارِ ثواب سمجھ
کر خوب پھیلایا جاتا ہے۔ بعد میں وہ افواہ بھلے جُھوٹ ثا بت ہو جائے مگر وہ
پہلے ہی اذہان میں پتھر کی لکیر بن چکی ہوتی ہے، جس نے پھر ہمیشہ مستقبل
میں ریفرنس کے طور پر استعمال ہوناہوتا ہے۔ اِس وقت پاکستانی معاشرے میں
صرف اپنی پسند کے سچ کو ماننے پر مبنی ہماری سیاسی ثقافت صرف دشمنی اور
الزام تراشی کا نام ہے۔
پاکستانی گوئبلز گروپ نے قوم کوایک ذہنی کیفیت، جسے willingness to believe
کہا جا تا ہے، میں مبتلا کردیا ہے۔ اِس کیفیت میں آدمی نا پسندیدہ کے خلاف
اور پسندیدہ کے حق میں ہر بات مان لینے پر فوراً آمادہ ہوتا ہے۔
1988 ء میں اسٹیبلیشمنٹ کے خرّانٹ سوانگیےاور اس وقت کے صدر غلام اسحاق
خان،ادھوری خواہشوں کی مکمل داستان اورآرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ،
پاکھنڈی تیس مارخاں اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل اورہمیشہ عوام
کے ووٹوں پر بھروسہ نہ کرنے والی ملک کی 9 سیاسی پارٹیاں پاکستان پیپلز
پارٹی کا راستہ روک رہیں تھیں مگر عوام نے اپنا فیصلہ صادر کر دیا۔
جب محترمہ بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں تو آصف علی زرداری کی سیاسی
زندگی باضابطہ طور پر شروع ہوگئی۔ محترمہ کا پہلا دو شروع ہوتے ہی ان پر
پاکستانی گوئبلز نےلاتعداد من گھڑت کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ ان پر
مسٹر ٹین پرسنٹ (٪10) کا خطاب چپکا کر اس کی بھرپور تشہیر کی گئی۔ محترمہ
بے نظیر بھٹو کے را ستے میں روڑے اٹکائے گئے ۔ جگہ جگہ مشکلات پیدا کی
گئیں۔ ان کو سیکورٹی رِسک قرار دے کربھرپورجھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ دَھن
کی موسلا دھار بارش میں تحریک عدمِ اعتماد کا ڈول ڈالا گیا مگر بات نہ بنی۔
اِس کے بعد بے نظیر بھٹوکی حکومت کو صرف 20 ماہ بعد اس وقت کے صدرِ پاکستان
غلام اسحاق خان نے آرمی چیف اسلم بیگ کے ساتھ مل کر کرپشن کے جھوٹے الزامات
لگا کر آٹھویں ترمیم کےتحت ختم کردیا اور آصف علی زرداری کو، ایک برطانوی
تاجر مرتضٰی بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر آٹھ لاکھ ڈالرلینے کی سازش کا
الزام لگا کر،حراست میں لے لیا گیا۔
1990ء میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد ہونے والے انتخابات میں آصف علی
زرداری رکنِ قومی اسمبلی بنے۔ اس عرصہ میں وہ جیل میں ہی رہے۔ لیکن اُسی
غلام اسحاق خان کو جس نے اُنھیں کرپشن کے لاتعداد الزامات لگا کر جیل بھیجا
تھا، کوئی ایک بھی الزام ثابت کئے بغیر تین سال بعد 1993ء میں اپنا تھوکا
سرِعِام چاٹ کرآصف علی زرداری کو رہا کر کے نگراں وزیرِ اعظم میر بلخ شیر
مزاری کی کابینہ میں وزیر بنا کر حلف لینا پڑا۔
پھرمحترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور آپ میں رکنِ قومی اسمبلی اور وزیرِ
ماحولیات و سرمایہ کاری رہے۔ وہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک سینٹ کے رکن
بھی رہے۔ اِس دور میں بھی آصف علی زرداری پر الزامات لگانا افتراپردازوں
کامحبوب مشغلہ رہا۔ پیپلز پارٹی کے محسن کش اور بعد میں نشانِ عبرت بن جانے
والے صدر فاروق احمد خان لغاری نے 4 نومبر 1996ء کو بدامنی، بد عنوانی اور
ماورائے عدالت قتل کے جھوٹےالزمات لگا کرمحترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو
برطرف کرنے کے ساتھ ہی آصف علی زرداری کو بغیر مقدمہ گرفتار کر لیا ۔ حکومت
توڑنے کے دوسرے دن یعنی 5 نومبر 1996ء کو فاروق لغاری کی حکومت نے آصف
زرداری کا نام مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں درج کر دیا۔ اِ س بار وہ جیل میں
آٹھ سال قید رہے۔
آصف علی زرداری جب بھی گرفتارہوئے۔ مخالف حکومتوں نے اِن کے جاننے والے
بینکاروں، تاجروں، بیوروکریٹس، خاندان اور ذاتی عملے کو گرفتار کر کے بے
انتہا تشدد کا نشانہ بنایا اور Perjured بیانات لینے کے لئے انھیں مالی و
ذاتی فوائد اور بصورت دیگر تباہی کے واضح پیغامات بھی دیئے گئے۔
1990ء سے لے کر 2004ء تک غلام اسحاق خان، نواز شریف اور فاروق لغاری نے بے
نظیر اور آصف زرداری پرکرپشن کے 35 ریفرینسز فائل کئے ۔ اِس کے بعد پرویز
مشرف کی حکومت نے بھی اندرون و بیرونِ ملک ان الزامات، ریفرینسز اور مقدمات
کو آگے بڑھایا۔ مگر بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے ہمیشہ اپنا موْقف
برقراررکھا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات خالصتاً سیاسی تھے۔ آڈیٹر جنرل
آف پاکستان کی رپورٹس بے نظیر بھٹو کے دعوے کی تصدیق کرتی ہیں کہ اُن پر
اور اُن کے شوہر کے خلاف کرپشن کے مقدمات دائر کرنے کے لیے ملکی خزانے سے
خطیر رقم خرچ کی گئی۔ اکیلے غلام اسحاق خان نے نوے کی دہائی کے شروع میں
قانونی مشیروں کو 28 ملین روپےادا کیے۔ اس کے بعد دوسرے حکمرانوں نے بھی
سرکاری وکیلوں اور مقدمات پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کردیئے (اب تو
بات یقیناً اربوں تک جا پہنچی ہوگی) لیکن آج تک کوئی اِلزام محترمہ بے نظیر
بھٹو اور آصف علی زرداری پر ثابت نہیں ہو سکا۔
جیل میں بھی آصف زرداری کی فعال شخصیت مرکزِ توجہ بنی رہی۔ انہوں نے قیدیوں
کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کام کئے، جن میں کھانے اور کپڑوں کی تقسیم کے
علاوہ نادار قیدیوں کی ضمانت کے لیے رقم کا بندوبست جیسے فلاحی امور شامل
ہیں۔ زرداری جب جیل میں تھے توججز، پولیس اور جیل حُکام نے اُن طاقتور
لوگوں سے بہت فائدے اُٹھائے۔ جن کی خواہش تھی کہ زرداری جیل میں رہیں۔
انھیں جیل میں رکھنےا ور تشدد کا نشانہ بنانے پر انعامات اور پروموشنز
مِلتے تھے۔
بعد ازاں صدر آصف علی زرداری کوعدالت نے نومبر 2004ء کو آخری مقدمے میں بھی
ضمانت پر رہا کر دیا۔ قید کے دوران وہ مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا رہے۔
اِس لیے رہا ہونے کے بعد علاج کے لئے بیرونِ ملک چلے گئے۔27 دسمبر2007ءکو
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس
آئے اور شہید بی بی کے جنازے پر"پاکستان کھپے"کا نعرہْ مستانہ بلند کرکے بی
بی کے سوگ میں جلتے سندھ سمیت پوری قوم کو تسلی دی۔ اور محترمہ بینظیربھٹو
کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیر مین کا
عہدہ سنبھالا۔ 2008ء کے الیکشنز میں آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز
پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور اتحادیوں کے ساتھ مل
کر ملک بھر میں جمہوری حکومت قائم کی ۔ 6 ستمبر 2008ء کو پاکستان
پیپلزپارٹی نے با ضابطہ طور پرانہیں صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا اور
یوں آپ دو تہائی اکثریت سے زائد ووٹ لےکر صدرپاکستان منتخب ہو گئے۔
سب اہم پوزیشنز بشمول وزیرِاعظم، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینٹ حاصل
کرنے اورصدر ِپاکستان کا عہدہ سنبھالنے اور سیاہ رُو بدنیتوں کی سازشوں
کوناکام بناتے ہوئےاب تک تمام پوزیشنز برقرار رکھ کر آصف علی زرداری نے
"صادق و امین" گوئبلز گروپ کی عقل مسلسل چرخی میں میں گھما کر انھیں نقشِ
حیرت بنا دِیا ہے۔
ماضی میں عوامی حکومتیں گِرانے، ایک مُنہ میں ہزار باتیں کہنے اور اپنی ہر
بات کو حرفِ آخر سمجھنے والے"صادق و امین گروپ" کے گوئبلز پچھلے ساڑھے چار
سال سے ہر تین مہینے بعد پورے یقین کے ساتھ صدر ِپاکستان کے جانے کی نئی
تاریخیں دیتے رہے۔ مگر ہر دی جانے والی تاریخ کے بعد زرداری حکومت کواور
مضبوط دیکھ کر مبالغہ شعار گوئبلز فرشتوں کی طبیعت اُتھل پُتھل ہو جاتی
رہی۔ اب بھی صادق و امین گوئبلز، رعونت کی خمیدہ کلغی اورالم ناک نوحوں کے
ساتھ "اگر، مگر، چونکہ چنانچہ" کی حواس باختگی جاری رکھے ہوئےہے۔ "دیکھتے
ہیں کیا گزرتی ہے قطرے پہ گہر ہونے تک"۔
(جاری ہے) |