ناصرالملّت والدینمحدث ِخیراُممخلیفہ
ثانی وخلیفہ انقلاب امیرالمومنین حضرت سیدنا عمربن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ
ناصرالملت والدین....اقلیم عدالت کے شہنشاہ....ہمت وشجاعت اورعقل وفہم اور
فراست کے عظیم پیکر.... محدث خیراُمم....ناطق بالصدق والصواب.... موافق وحی
الٰہی....خلیفہ ثانی وخلیفہ انقلاب امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ
عنہ،جن کانام نامی اسم گرامی”عمر“....آپ کی کنےت”ابوحفص“ اورآپ
کالقب”فاروق“ہے۔آپ کے والدکانام”الخطاب“اور والدہ کا نام ”حنتمہ بنت ھشام
بن مغیرہ“ہے یعنی آپ کی والدہ رشتے میںابوجہل کی بہن ہیں۔
نام و نسب
آپ کا پورانام و نسب حسب ذیل ہے:
ابو حفص عمر فاروق بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداﷲ بن قرط
بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک القرشیعدی کے دوسرے بھائی مرہ
تھے، جوحضور سید عالمﷺ سے جا ملتا ہے۔
آپ واقعہ ”عام الفیل“ کے تقریباً تیرہ (13) سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا
ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس (35) سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہو کر
حرمِ ایمان میں داخل ہوئے۔
حضرت عمر....مرادِ رسول اللہﷺ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت وہ عظیم المرتبت اورعہد سازشخصیت ہے
کہ جن کے ایمان لانے کیلئے حضور نبی کریم ﷺنے اللہ تعالیٰ سے خصوصی
طورپردعا مانگی۔چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جب حضور سید عالمﷺنے نبوت کا
اعلان فرمایا تو کفارِ مکہ نے حضور سید عالم ﷺاورمسلمانوں کی سخت مخالفت کی
یہاں تک کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی چھپ کراداکرتے تھے
اورکمزورمسلمانوں پرکفارِ مکہ بہت ظلم وستم کرتے تھے ،خاص طورپروہ مسلمان
جو کفارکے غلام تھے، ان پرسخت مظالم ڈھائے جاتے تھے،ایسے مشکل ترین وقت
میںحضور نبی کریم ﷺنے اللہ تعالیٰ سے دعامانگی:
اللھم اعزالاسلام باحد الرجلین اما عمر بن ھشام واما عمر بن الخطاب
ترجمہ: ”اے اللہ عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو غلبہ
اورعظمت عطا فرما“۔ (جامع ترمذی، باب مناقب عمر)
ایمان کی یہ لازوال دولت تورب العزت نے حضرت عمر کی قسمت میں لکھ دی تھی تو
پھر یہ دولت ابوجہل کے حصے میں کیونکر آتی۔ آپ ﷺکی دعاکوبارگاہِ الٰہی میں
شرفِ قبولیت سے نوازاگیا اورچند دنوں بعداسلام کاسب سے بڑا دشمن یعنی حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیااوراسلام کاسب سے بڑاخیرخواہ اورجانثار
بن گیابلکہ روایت میں آتاہے کہ جب مسلمانوں کی تعداد 39ہوگئی تو حضرت
عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب مسلمانوں کا ”چالیسواں“فرد نہیں ہو گالیکن
قدرت کوکچھ اور ہی منظور تھاکہ جو چالیسویں کاسب سے بڑامخالف تھا، اسے ہی”
چالیسواں“ مسلمان بنا دیا۔
آپ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ
مسلمانوں کی قوت وعظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔وہ مسلمان جو پہلے اپنے
اسلام کو ظاہرکرتے ہوئے شدید خطرات محسوس کرتے تھے اب اعلانیہ خانہ کعبے
میں عبادت انجام دینے لگے۔
لقب فاروق کی وجہ تسمیہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کالقب ”فاروق“ ہے جس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ جب میں کلمہ شہادت پڑھ کر
مشرف بہ اسلام ہوا تو میرے اسلام قبول کرنے کی خوشی میں اس وقت جتنے بھی
مسلمان ”دارِارقم“ میں موجود تھے، سب نے اتنی زور سے ”نعرئہ تکبیر“(اللہ
اکبر) بلند کیا کہ اس کی آواز مکہ مکرمہ کے تمام لوگوں تک پہنچی ہوگی۔
پھر میں نے عرض کی کہ یا رسول اﷲﷺ!کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا:
”کیوں نہیں، بے شک ہم حق پر ہیں“۔
پھر میں نے عرض کیا: ”پھر یہ اسلام اور عبادت کی پوشیدگی کیوں ہے ؟“۔
اس کے بعد ہم سب مسلمان دارارقم سے دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف کے آگے آگے
حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے میں چل
رہاتھا۔جب کفارِ مکہ نے مجھے اورحضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں
کے کارواں کے ساتھ دیکھا تو ان کو بے حد ملال ہوا اور ان کی طاقت اوررعب کو
زبردست دھچکا لگا۔
اسی روز حضور سید عالمﷺنے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ”فاروق“ کا عظیم
لقب عطاءفرمایا،کیوں کہ فاروق کا معنیٰ ہے:” حق و باطل اورنیکی وبدی کے
درمیان فرق ظاہر کرنے والا“۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے
پر اسلام اور کفر اور حق و باطل کے درمیان فرق واضح طور پر نمایاں ہوگیا
اورآپ کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کی حالت دفعتاًبدل گئی اورانھوں نے
اپنا اسلام کاعلی الاعلان ظاہرکیا جس پر کفار نے شروع میں بڑی شدت اورگرمی
دکھائی مگر مسلمان اپنے ارادوں اورعزم میں ثابت قدم رہے، یہاں تک کہ
مسلمانوں کی نمازخانہ کعبہ میں باجماعت ہونے لگی۔
سیرت و کردار....نمونہ اخلاق
حضو ر سید عالم ﷺ کی بعثت ِ مبارک کا حقیقی مقصد دنیا کو عمدہ اور پسندیدہ
اخلاق اور پاکیزہ سیرت وکردارکی تعلیم و تربیت دینا تھی ، چونکہ صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کو براہ راست اس سر چشمہ ہدایت اور سراپا اسوئہ حسنہ سے
سیراب اورفیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا، اس لئے اس مقدس جماعت کا ہرفرد ہی
اسلامی اخلا ق و آداب کا مجسم نمونہ تھا، لیکن حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کو
با رگاہِ مصطفوی ﷺ میں جو قرب اورمقام حاصل تھا، اس کے لحاظ سے وہ جملہ
محاسن و محامد اور او صافِ جلیلہ اورخصوصاًعدل وشجاعت کی مجسم تصویر تھے ۔
آپ کے آئینہ سیر ت اورنمونہ اخلاق میں اخلاص، تقویٰ، ایثار و قربانی، خوفِ
خدا، زہدو قناعت، حفظِ اللسان، حق گوئی اور راست گوئی ، تواضع اور سادگی کا
عکس سب سے ممتاز اور نمایاں نظر آ تا ہے ۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق
رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان اور رعب و دبدبہ کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ
محض آپ کے نام سے ہی قیصر و کسریٰ ایسی عظیم الشان سلطنت کے ایوانِ حکومت و
اقتدار میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا اور دوسری طرف تواضع اور عجزو انکساری کا
یہ عالم ہے کہ کاندھے پر مشکیزہ رکھ کر بیوہ عورتوں کیلئے آپ پانی بھرتے
ہیں .... مجاہدین اسلام کے اہل و عیال کی نگہبانی کرتے ہیں اور ان کا بازار
سے سوداسلف خرید کر لادیتے ہیں ....اور پھر اسی حالت میں تھک ہارکر مسجد
نبوی ﷺ کے کسی گوشہ میں فرشِ خاک پر لیٹ کر آرام فرماتے ہیں۔
ایک دن آپ صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے کہ ایک شخص نے کہا کہ
اے امیر المومنین ! یہ کام کسی غلام سے لے لیا ہوتا، آپ کیوں اتنی محنت
ومشقت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھ سے بڑھ کر اور کون غلام ہوسکتا ہے، جو
شخص مسلمانوں کا والی(حاکم/گورنر) ہے وہ در حقیقت ان کا غلام بھی
ہے۔(سیرالصحابہ/ کنزالعما ل )
علم و فضل
اسلام کی آمد سے قبل عرب میں لکھنے اور پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا ، جب
حضور اکرم نور مجسم ﷺ مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ(17) آدمی ایسے
تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی
زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔چنانچہ امیر المومنین سید نا حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کے فرامین، آپ کے خطوط، آپ کے خطبات اور توقیعات اب تک
سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جن سے آپ کی قوتِ تحریر، بر
جستگئی کلام اور زورِ تحریر و تقریر کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قوتِ تحریر کا
اندازہ اس خط سے ہو سکتا ہے، جو آپ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ
(بصرہ کے گورنر) کے نام لکھا تھا، اس کے چند کلمات کا ترجمہ یہ ہے ۔
”اما بعد !(اے ابو موسیٰ!) عمل کی مضبوطی یہ ہے کہ آج کا کام، کل پر نہ
اٹھا کر رکھیں، اگر ایسا کرو گے تو تمھارے پاس بہت سارے کام اکھٹے جمع
ہوجائیں گے اور تم پریشان ہو جاﺅ گے پہلے کس کام کو کریں اور کس کام کو
چھوڑدیں، اس طرح کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔
اسی طرح آپ کی ”فصاحت و بلاغت“ کا یہ عا لم تھا کہ آپ کے بہت سے مقولے عربی
”ضرب المثل“ بن گئے، جو آج بھی ” عربی ادب“ کی جان ہیں۔ اسی طرح آپ کو ”علم
الانساب“ میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا۔(سیرت خلفاءراشدین: صفحہ 148)
حضرت عمر....ناطق بالصدق والصواب
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فطرتاً بہت ہی ذہین، فطین، طباع اور صائب
الرائے تھے۔ اصابتِ رائے کی اس سے زیادہ بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ
کی بہت سی آرائ”اسلامی احکام“ بن گئیںاور آپ کی آراءکے مطابق وحی الٰہی اور
کلام الٰہی نازل ہوا ۔مثلاً اذان کا طریقہ.... غزوئہ بدر میں جانا....
غزوئہ بدر کے قیدیوں کا معاملہ .... شراب اور جوئے کی حرمت....ازواج مطہرات
کیلئے پردہ.... متعہ کا حرام ہونا .... مقام ابراہیم کو مصلّٰی(جائے نماز)
بنانا.... اور رمضان المبارک کی راتوں میں کھانا، پینا اور عمل تزویج
(مباشرت)کا حلال ہونا ،ان سب امور کا حکم آپ کی آراءکی روشنی میں نازل کیا
گیا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے بے شمارخصوصیات سے نوازا
تھا۔حضورنبی کریم ﷺاہم معاملات میں آپ سے مشاورت فرماتے تھے اوراکثر اوقات
آپ کی رائے درست اورقابل عمل ہوتی تھی۔بعض اوقات توآ پ کی رائے ایسی صائب
اورعین اسلام ہوتی کہ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںحکم نازل فرما
دیتا۔
ذیل میں ان کی چندآراءاوراحکام الٰہیہ کو زینت قرطاس کیا جاتا ہے۔
O ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خیال ظاہرکیا کہ ہمیں”مقام
ابراہیم “پرنمازپڑھنی چاہےے، کیونکہ یہ ایک مقدس ترین پتھرہے جس پرکھڑے
ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزندارجمند حضرت اسماعیل علیہ
السلام کے ساتھ مل کراللہ تعالیٰ کے گھرکی تعمیر کی تھی اس پر معمارکعبہ
(حضرت ابراہیم علیہ السلام )کے پیروں کا نقش موجود ہے تو جب ہم طواف کرتے
ہیں ، اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں، اس کا احترام کرتے ہیں،لہٰذا
ہمیں اس پتھر کا بھی احترام کرنا چاہیے۔آپ کے اس خیال کے مطابق وحی الٰہی
نازل ہوئی اور مقامِ ابراہیم پر نماز اداکرنے کا حکم دیا گیا۔
ارشادبار ی تعالیٰ ہے:
وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ اِبرَاھِیمَ مُصّلًّی۔
ترجمہ: ” اور تمام مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بناﺅ“۔ (سورة البقرہ: 125)
O ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضورنبی کریم ﷺسے عرض کیا کہ
آپ کے پاس ازواجِ مطہرات (امہات المومنین) بیٹھی ہوتی ہیں اورہم لوگ آپ کی
خدمت میں آتے ہیں، طرح طرح کے لوگ بھی آتے جاتے ہیں، لہٰذا ہماری ماﺅں کو
اگر پردے کا حکم دے دیا جائے تو بہت ہی اچھا ہو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کی اس رائے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اورازواج مطہرات
اور تمام اہل ایمان عورتوں کوپردے کو حکم دیاگےا۔قرآن پاک میں ارشاد
خداوندی ہے:
واذا سا لتموھن متاعاً فاسئلوھن من وراءحجاب۔
ترجمہ: ”اور جب تم عورتوں سے کچھ مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو“۔
(سور ة الاحزاب:53)
O ایک مرتبہ امہات المومنین نے حضور سید عالم ﷺکی خدمت میں کچھ مطالبات پیش
کئے جس سے آپ ﷺکوناخوش گواری محسوس ہوئی۔جب اس بات کا حضرت عمرفاروق رضی
اللہ عنہ کوعلم ہوا توآپ نے حضور اکر م ﷺ کی ازواج مطہرات اور خصوصاً حضرت
حفصہ رضی اللہ عنہاکو سمجھایااورفرمایاکہ تم اللہ کے محترم نبی کوتکلیف مت
دو، ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے بہترعورتیں اپنے نبی کو عطا فرمادے گا۔ اس موقع
پراللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کی بات کو اپنے حکم میں اس طرح ارشاد فرمایا:
ان طلقکن ان یبدلہ ازوجا خیرا منکن۔
ترجمہ: ” اگر نبی تم کو طلاق دے دیں تو ان کو اللہ تعالیٰ دوسری بہتربیویاں
عطا فرماسکتا ہے۔(سورة التحریم:۵)
ان تمام شواہد وحقائق سے یہ امر ظاہر ہوگیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
کی زبان وحی خداوندی کی ترجمان تھی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زبان
مبارک پر جب بھی کوئی کلمہ آیا، وہ عینِ حق و صواب تھا اور اُن کی فکر اور
رائے وحی الٰہی کے موافق اور کلامِ خداوندی کے مطابق تھی۔
حضرت عمر کے فضائل و مناقب
امیر المومنین سید نا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت اور شان
ومنقبت میں بہت سی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔سننے والوں نے سنا، دیکھنے
والوں نے دیکھا،پڑھنے والوں نے پڑھا اور لکھنے والوں نے لکھا کہ میرے آقا و
مولا حضور سید عالم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ:
( لوکان بعدی نبی لکان عمرا بن الخطاب )
ترجمہ: ”اگر بالفرض(میں خاتم النبیین نہ ہوتا اور) میرے بعد کوئی نبی ہوتا
تو وہ حضرت عمر بن خطاب ہی ہوتے“۔(جامع ترمذی، مسند امام احمد، مشکوٰة)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے
فرمایا کہ.... ”پچھلی امتوں میں محدث(جس پر الہام کیا جائے) ہوتے تھے، اگر
اس امت میں کوئی محدث ہوگا تو وہ حضرت عمر بن الخطاب ہیں“۔
(صحیح مسلم، مسند امام احمد ، مشکوٰة المصابیح)
حضرت عمر اورحق کاساتھ
حضرت عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد
فرمایا کہ: ”اﷲ تعالیٰ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی زبان اور قلب پر حق کو
جاری فرما دیا ہے“ ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ”حضرت عمر جس جگہ بھی ہوتے
ہیں، حق ان کے ساتھ ہوتا ہے“۔(سنن ترمذی،مشکوٰة المصابیح)
اس حدیث مبارکہ کے دومطلب ہیں۔ ایک مطلب تویہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ ہمیشہ حق و صواب اور سچ ہی بولتے ہیں، ان کے قلب اور زبان پر باطل
اور جھوٹ کبھی جاری نہیں ہوتا۔اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ زبان سے صرف وہی بولتے ہیں جو کچھ ان کے دل میں ہو تا ہے یعنی ان
کا ظاہروباطن صدق وسچائی سے معمورہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا سب سے عظیم اور ممتاز ترین وصف
”عدل و انصاف“کا قیام تھا۔ آپ کے عہد خلافت میں شاہ و گدا، امیر و فقیر،
شریف و رزیل، چھوٹا و بڑا، عزیز و بیگانہ، شہری و دیہاتی الغرض کہ سب کیلئے
ایک ہی قانون تھا۔ فاروقی عدل و انصاف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود
نہ تھابلکہ آپ کاایوانِ عدل مسلمانوںسمےت یہودیوں، عیسائی اوردیگرمذاہب کے
لوگوں کے لئے بھی یکساں مقام اور مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔
حضرت جابر بن عبداﷲرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:” میں نے حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو رعایا کے حق میں بہتر اور مہربان نہیں
دیکھااور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو کتاب اﷲ(قرآن پاک)
کا عالم، دین کا فقیہہ، حدوداﷲ کا نافذ کرنے والا اور رعب و دبدبہ والا
نہیں دیکھا ہے۔
(اسد الغابہ: جلد 4 صفحہ 60)
خلافت ِعمراورشاندار فتوحات
خلیفہ اول امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سڑسٹھ (67) برس
کی عمر میں22 جمادی الثانی 13ہجری، دوشنبہ(پیر)کے د ن وصال فرمایا تو حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے۔خلیفہ اول کے عہد میں جھوٹے
مدعیانِ نبوت ، مرتدین ِعرب اور منکرین زکوٰة کا (جہاد کے ذریعے) خاتمہ ہو
کر ملکی فتوحات کا آغاز ہو چکا تھا، اسی طرح فتح عراق اور شام کا آغازہی
ہوا تھا کہ خلیفہ اوّل کا وصال ہوگیااور جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
مسند نشین خلافت ہوئے تو سب سے پہلے عراق کی مہم کی طرف توجہ فرمائی اور
عراق کو بھی فتح کرلیا۔ اس کے بعد”شام“ کی طرف متوجہ ہوئے تو ممالکِ شام
میں سے دمشق، اُردن، آزر بائیجان، حمص، یر موک، مدائن، قادسیہ، بیت المقدس
(فلسطین) وغیرہ بھی نہایت آسانی کے ساتھ فتح ہوگئے۔ ان عظیم الشان فتوحات
کے بعد آپ نے مصر کی طرف نگاہ ڈالی تو فتوحاتِ مصر میں ” فتح اسکندریہ“ کے
بعد تمام مصر پر اسلام کا پرچم اور سکہ بیٹھ گیا اور لا تعداد کفاربہ رضا و
رغبت حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
مسلمانوں نے اپنے جوش و خروش، عزم و ولولہ، ثبات اور استقامت کے باعث حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دس سالہ عہد خلافت میں روم و ایران کی عظیم
الشان حکومتوں کو فتح کیا، لیکن تاریخِ عالم ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے
کہ چند صحرانشینوں نے اس قدر قلیل مدت میں ایسا عظیم الشان انقلاب پیدا
کردیا ہو۔
مثالی نظامِ خلافت و حکومت امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی
خلافت جمہوری طرزِ حکومت سے مشابہ تھی یعنی تمام ملکی و ملی اور قومی مسائل
”مجلسِ شوریٰ“ میں پیش ہو کر طے ہوتے تھے، اس مجلس شوریٰ میں مہاجرین و
انصار کے منتخب ارکان اور اکابر اہل الرائے شریک ہوتے تھے اور بحث و مباحثہ
کے بعد اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے تمام امور کا فیصلہ کرتے تھے۔اس ”مجلس
شوریٰ“ کے چند ممتاز اور مشہور اور مشہور ارکان یہ ہیں: حضرت عثمان غنی،
حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن
کعب اور حضرت زید بن ثابت وغیرہم رضی اللہ عنہم۔
”سیرالصحابہ“ کے مولف نے”فتوح البلدان بلاذری“ کے حوالے سے لکھا ہے
کہ....مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلسِ عام بھی تھی، جس میں مہاجرین و انصار
کے علاوہ تمام”سردارانِ قبائل“ شریک ہوتے تھے، یہ مجلس نہایت اہم ترین امور
کے پیش آجانے پر طلب کی جاتی تھی ،ورنہ روز مرہ کے کاروبار میں مجلسِ شوریٰ
کا فیصلہ کافی ہوتا تھا۔مجلس شوریٰ کے انعقاد کا عام طریقہ یہ تھا کہ منادی
”الصلاة جامعة“ کا اعلان کرتا تھا۔ لوگ مسجد میں جمع ہوجاتے تھے اورحضرت
عمر رضی اللہ عنہ دورکعت نماز پڑھ کرمسئلہ بحث طلب کے متعلق ایک مفصل خطبہ
دیتے تھے، اس کے بعد ہر ایک کی رائے دریافت کرتے تھے۔ (سیرالصحابہ :جلد
1ص129 بحوالہ تاریخ طبری)
جمہوری حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کو اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنی
رائے کے اعلانیہ اظہار کا موقع دیا جائے، حاکم کے اختیارات محدود ہوں اور
اس کے طریقِ عمل پر ہر شخص کو نکتہ چینی اور خوشہ چینی کا حق حاصل ہو....
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حکومت و خلافت ان تمام امور کی جامع تھی،
ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا تھا اور خلیفہ وقت کے
اختیارات کے متعلق خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے متعدد مواقع پر
وضاحت اورتصریح کردی تھی کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے۔نمونہ کے
طور پر ایک تقریری جھلک ملاحظہ کیجئے، آپ نے فرمایا کہ:
ترجمہ: ”مجھ کو تمھارے مال میں اسی طرح کا حق حاصل ہے، جس طرح یتیم کے مال
میں اس کے والی (وارث)کو حق حاصل ہوتا ہے، اگر میں دولت مند ہوںگا تو (بیت
المال سے) کچھ بھی نہیں لوں گا اور اگر میں حاجت مند ہوں گا تو پھر بھی
اندازہ سے ہی کھانے کیلئے لوں گا۔۔۔اے صاحبانِ ملک و ملت! میرے اوپر تمھارے
متعدد حقوق عائدہیں، جن کا تم کو مجھ سے مواخذہ (جواب طلبی) کرنے کا حق
حاصل ہے....ایک یہ کہ ملک کا خراج اور مالِ غنیمت غلط اور بے جا طورپر صرف
نہ ہونے پائے۔ایک یہ کہ تمھارے وظائف و روزینے بڑھاﺅں۔ ایک یہ کہ تمھاری
سرحدوں کو محفوظ رکھوں اور یہ کہ تم کو (داخلی اور خارجی )تمام خطرات سے
محفوظ رکھوں“۔(سیرالصحابہ، بحوالہ کتاب الخراج)
چنانچہ امیرالمﺅمنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے نظامِ
خلافت و سلطنت میں رعایا کی خوش حالی اور مکمل خبر گیری، امن و امان کا
مثالی قیام، مراکز معاشیات و اقتصادیات کا نظام، عدل و انصاف کا بے مثال
قیام اور بیت المال کا بہترین انتظام و انتصرام فرمایا....الغرض کہ آپ
حکومت کے تمام شعبوں کو اس قدر بہترین نظم و ضبط کے ساتھ قائم فرما یا کہ
قیامت تک آنے والی تمام نسلیں بلکہ ہر زمانے کی جدید اور ترقی یافتہ
حکومتیں بھی فاروق اعظم کے” نظامِ ِسلطنت“ کومینارئہ نور، مشعل راہ اور
آئیڈیل نظام سمجھ کر اس سے رشد و ہدایت کی روشنی حاصل کرتی رہی ہیں اور
کرتی رہیں گی۔
شہادت و مدفن
حضرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کوحضورنبی غیب داںﷺکی زبان مبارک سے یہ
علم ہو چکا تھا کہ آپ کو شہادت کی موت نصیب ہوگی۔ صحیح بخاری میں حدیث
مبارک ہے کہ ایک روزحضور سید عالمﷺجبل اُحدپر تشریف فرماتھے اورآپ کے ساتھ
حضرت ابوبکرصدیق اورحضرت عمرفاروق اورحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم بھی
موجودتھے ۔جوں ہی آپ ﷺنے جبل احدپرقدم رکھا تو پہاڑنے (خوشی سے جھومنا
اور)ہلنا شروع کردیا۔ نبی کریمﷺنے اپنے قدم مبارک سے پہاڑکوٹھوکرلگائی اور
فرمایا:
( اُثبُت اُحُد فَمَا عَلَیکَ اِلَّا نَبِیّ وَصِدِّیق وَشَھِیدَانِ۔ )
ترجمہ: ”اے احدپہاڑٹھہرجا اس وقت تجھ پرایک نبی، ایک صدیق اور دوشہید کھڑے
ہیں“۔ (صحیح بخاری،جلد1،صفحہ521)
مخبرصادق حضورنبی کریمﷺکے اس فرمان عالی شان کے بعدحضرت عمر فارق رضی اﷲ
عنہ کو یہ یقین کامل تھاکہ انھیں شہادت کی سعادت حاصل ہوگی۔صحیح بخاری میں
ہے کہ حضرت عمر فارق رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی کہ:
( اَللّٰھُمَّ ارزُقنِی شَھَادَةً فِی سَبِیلِکَ وَاجعَل مَوتِی فِی
بَلَدِرَسُولِکَ۔)
ترجمہ: ”اے اﷲ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے پیارے حبیب حضرت
محمد مصطفی ﷺ کے شہر پاک (مدینہ منورہ) میں مجھے موت نصیب فرما“۔(صحیح
بخاری)
چنانچہ خلوصِ قلب کے ساتھ مانگی ہوئی آ پ کی دعایوں قبول ہوئی کہ حضرت
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مجوسی غلام ابو لولوہ فیروزنے آپ سے شکایت
کی کہ اس کے آقا یعنی حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہروزانہ اس سے چار درہم وصول
کرتے ہیں، آپ اس میں کچھ کمی کرادیں، اس کی شکایت بے جا تھی ۔اس لئے آپ نے
فرمایا کہ تم لوہار اور بڑھئی کا کام خوب اچھی طرح جانتے ہو اور تم نقاشی
بھی بہت عمدہ کرتے ہو، لہٰذا چار درہم یومیہ تمھارے اوپر زیادہ نہیں ہیں
اور تم اپنے مالک کے ساتھ حسنِ سلوک کرو“۔
یہ جواب سن کر وہ غصے سے تلملاتا ہوا واپس چلاگیا اور اس نے آپ کے قتل کا
پختہ ارادہ کرلیا۔ چنانچہ ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہجب نمازِ فجر
کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے اور اپنے طریقے کے مطابق آپ نے
صفیں سیدھی کروائیں تو ابولولو فیروز آپ کے بالکل قریب صف میںآکرکھڑاہوگیا
اور پھر اچانک اُس نے آپ کے کندھے اور پہلو پر زہر آلود خنجر سے دو وار کئے
،جس سے آپ فوراًگر پڑے۔ اور اس غلام نے گرفتار ہونے پر فورا ًخود کشی کرلی۔
چنانچہ ناصر الملت والدین، خلیفہ ثانی و خلیفہ ا نقلاب امیر المومنین حضرت
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ دس سال ، چھ ماہ اور چار دن شاندار اور مثالی
امور خلاف انجام دے کر یکم محرم الحرام 24 ہجری کو وصال فرماگئے اور عرش سے
بھی افضل جگہ یعنی روضہ نبوی ﷺ میں ابدی نیند سونے کے لئے آنحضرت ﷺ اورحضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مبارک پہلو میں مدفون ہونے کی سعادت پاگئے۔ |