نامور ادیب ،دانش ور ،صحافی ،نقاد
،شاعر اور ماہر لسانیات پروفیسراطہر ناسک دائمی مفارقت دے گئے۔وہ گزشتہ
پانچ برس سے خون کے سرطان کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ان کا خون ہر ہفتے تبدیل
کرنا پڑتا تھا ۔11نومبر 2012کو میو ہسپتال لاہور میں اس نابغہءروزگار فاضل
نے اس دنیائے فانی میں آخری سانس لی اور پوری دنیا میں اپنے لاکھوں مداحوں
کو سوگوار چھوڑ کر اپنی الگ دنیا کی جانب رخت سفر باندھ لیا ۔وہ روجھان ضلع
راجن پور کے ایک کالج میں تدریس اردو پرمامور تھے ۔انھوں نے 1986میں تدریسی
کام کا آغاز کیا اور جلد ہی اپنی خداد صلاحیتوں سے اپنا منفرد مقام بنا لیا
۔وہ 17۔اکتوبر 1959کو ملتان کے نواحی علاقے امیر آباد میں پیدا ہوئے ۔ان کا
تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی سادات خاندان سے تھا ۔ان کے خاندان کو زہد و
تقویٰ اور نیکی کی وجہ سے پورے علاقے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا
جاتا تھا ۔ان کی وفات پر ادبی حلقوںنے اپنے جذبات حزیں کااظہار کیا ۔ان کے
عزیزوں ،مداحوں اور ادیبوں کی بہت بڑی تعداد نے ان کی نماز جنازہ میں جلال
برنی مسجد ملتان میں شرکت کی ۔انھیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں آنسوﺅں
،آہوں اور سسکیوں کا نذرانہ پیش کیا گیااور ا س کے بعد ملتان کی زمین نے
ارد و ادب کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ
مسلمہ ہے کہ موت سے کس کو رستگاری ہے لیکن بعض احباب ایسے بھی ہوتے ہیں
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں جب وہ آنکھوں سے مستقل طور پر اوجھل ہو جاتے
ہیںتودل پر قیامت گزر جاتی ہے اور ان کی فرقت کے زخم جو صدمے دے جاتے ہیں
ان کے احساس سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔میری محفل کے کیسے کیسے آفتاب و
ماہتاب غروب ہو گئے اور فیضان نظر کا نو ربکھیرتے روشن چراغ اجل کے ہاتھوں
بجھ گئے ۔ایسامحسوس ہوتا ہے کہ موت کی مسموم ہواﺅں نے میرے سب چراغوں کہ
دیکھ لیا ہے اور اب میں جان لیوا تنہائی کے عالم میں شہرآرزو کی ویرانی پر
اشک بہانے اور لٹی محفلوں کی نوحہ خوانی کے لیے زندگی کے دن پورے کرنے پر
مجبورہوں ۔
ایک اک کر کے ستاروںکی طرح ڈوب گئے ہائے کیالوگ مرے حلقہءاحباب میں تھے
اپنی بزم وفا سے جانے والوں کو میں بھی آواز دے رہا ہوں کہ میر انتظار کرو
میں بھی آنے والا ہوں ۔تمہاری یادوں کے زخم کبھی بھر نہیں سکتے ۔اطہر ناسک
جیسے لوگ بلاشبہ نایاب ہوتے ہیں۔اہل زمانہ کو ان کی قدر کرنی چاہیے ۔ایسے
لوگ اب کہاں ملیں گے؟
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
اطہر ناسک کا نام سید محمداطہر رضا تھا وہ اپنے قلمی نام اطہر ناسک سے علمی
و ادبی حلقوں میں معروف تھے ۔وہ عالمی کلاسیک ،اردو ادب ،فارسی ادب ،عربی
ادب،پنجابی ادب ،سرائکی ادب ،پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے ادب اور
انگریزی ادب پر کامل دسترس رکھتے تھے ۔زمانہ طالب علمی ہی سے ان کی شاعری
کی دھوم مچ گئی ۔وہ گورنمنٹ کالج جھنگ میں بیں الکلیاتی مشاعروںمیں شرکت کے
لیے آئے اور یہاں کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنی دھاک بٹھا دی ۔ جھنگ کے جن
نامور ادیبوں نے اطہر ناسک کی شاعری کو بہ نظر تحسین دیکھا ان میں محمد شیر
افضل جعفری ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،سجاد بخاری ،ظر سعید ،امیر اختر بھٹی ،رام
ریاض ،بیدل پانی پتی ،معین تابش ،حکمت ادیب ، نور احمد ثاقب ،سمیع اللہ
قریشی اور دیوان الیاس نصیب کا نام قابل ذکر ہے ۔ ان کی شاعری قلب اور روح
کی گہرائیوں میںاتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین ہے ۔ادب اور صحافت کے
شعبوں میں انھوں نے بڑے زوروں سے اپنے فعال اور مثبت کردار کو منوایا۔اطہر
ناسک نے شعبہ صحافت میں جو گراں قدر خد مات انجام دیں وہ صحافت کی تاریخ
میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔انھوں نے روزنامہ نوائے وقت ملتان ،روزنامہ
سنگ میل ،روزنامہ عدل ،روزنامہ نوائے ملتان ،روزنامہ آفتاب لاہور ،ملتان ،روزنامہ
رہبر بہاول پور اور پندرہ روزہ بجنگ آمد میں اپنے اشہب قلم کی جو لانیاں
دکھائیں ۔وہ دیانت داری سے یہ سمجھتے تھے کہ حریت ضمیر سے جینے کے لیے
اسوہءشبیرؓ کے سوا کوئی اور راستہ ہی نہیں ۔اطہر ناسک حریت فکر کے مجاہد
تھے ۔جبر کا ہر انداز مسترد کرکے انھوں نے حریت فکر و عمل کی شمع فروزاں
رکھی ۔وہ ایک فراخ دل انسان تھے ۔ہر قسم کی عصبیت سے وہ دور رہتے ۔قومی یک
جہتی اور ملی وقار انھیں دل وجاں سے عزیزتھا ۔
ہجوم غم میں بھی دل کو سنبھال کر عزم اور ولولے کے ساتھ اپنی انا اور خود
داری کا بھرم رکھنے والے اس جری ،فعال ،محنتی ،فرض شناس ،محب وطن اور مستعد
تخلیق کار کے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا ۔ان کے خاندان کو خون کے سرطان
کی جان لیوا بیماری نے اپنی گرفت میں لے لیا ۔ان کے تین بھائیوں کو یہ
عارضہ لاحق ہو گیا ۔یہ سب دئیے ایک ایک کر کے بجھ گئے ۔اطہر ناسک نے سر
گرداب کئی بار پکارا مگر ساحل عافیت پر بیٹھے لوگ تو سماعت سے یکسر محروم
تھے ۔ان جان لیوا صدموں نے اطہر ناسک کو زندہ در گور کر دیا اور وہ اندر ہی
اندر سلگتا رہا۔جس طرح نخل تناور کو دیمک لگ جائے تو وہ دھڑام سے زمیں پر
آگرتا ہے اسی طرح جب کسی انسان کے دل میں غم گھر کر لے تو یہ اس کی جان لے
کر ہی نکلتا ہے ۔بہ قول امجد اسلا م امجد :
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
اطہر ناسک اپنے تین نوجوان بھائیوں کی الم ناک وفات کے صدمے سے سنبھل نہ
سکا اور اسے بھی خون کے سرطان کا عارضہ لاحق ہو گیا۔اس کے بعد اس توانا
شاعر کوآلام روزگار نے اپنے نرغے میں لے لیا ۔اس کی شاعری میں اس اس کے
قلبی احساسات اور جذباتی شکست و ریخت کی کیفیات گہری معنویت کی حامل ہیں :
یہی بہت ہے کہ احباب پوچھ لیتے ہیں
میرے اجڑنے کے اسباب پوچھ لیتے ہیں
میں پوچھ لیتا ہوں یاروں سے رت جگوں کا سبب
مگر وہ مجھ سے میرے خواب پوچھ لیتے ہیں
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بے حسی کا عفریت چاروں جانب منڈلا رہا ہے
۔یہ ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہے حقیقت ہے کہ اس استحصالی معاشرے میں ایک
تخلیق کار کا کوئی پرسان حال نہیں ۔رام ریاض کو جب 1977میں مارشل لا کے
احکامات کے تحت جبری طور پر سرکاری ملازمت سے برطرف کیا گیا تو یہ حساس
شاعر فالج کا شکار ہو گیا اور بستر پر اس طرح گرا کہ پھر اس کا جناز ہ ہی
اٹھا۔آمریت کے اس عہد ستم میں رام ریاض نے اپنی زندگی بچانے کی سر توڑ کوشش
کی مگر اس کی فریاد صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔رام ریاض نے لکھا ہے :
میں نے سر گرداب کئی بار پکارا
ساحل سے مگر لوگ بڑی دیر میں بولے
اطہر ناسک نے بھی سر گرداب مدد کے لیے بہت آہ و فغاں کی مگر اس بے حس
معاشرے میں بے بس و لاچار ادیب کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ہرکوئی اپنی فضا
میں مستانہ وار گھومتا پھرتا ہے ۔اس شہر نا پرساں میں ایک زیرک تخلیق کار
کی چشم تر پر کسی نے توجہ نہ دی ۔اپنی عمر بھر کی کما ئی اور تمام جمع
پونجی اس حساس ادیب نے ا پنے علاج پر صرف کر دی ۔اس کی کوئی امید بر نہ آئی
اور نہ ہی اصلاح احول کی کوئی صور ت دکھائی دی ۔ علاج معالجے پر اس خوددار
شاعر نے اپنے تمام وسائل استعما ل کیے اور پھر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ
سوائے دعاﺅں پر انحصار کے کچھ باقی نہ بچا۔اس صور ت حال نے اطہر ناسک کو
مضمحل ،مایوس اور نا امید کر دیا۔ طہرناسک کا یہ شعر ہر اہل دل کے لیے
خونچکاں سوال ہے :
اے ساکنان کوئے ملامت مدد کرو
قلاش ہو گیا ہوں میں دامن کو جھاڑ کے
اردو زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں اطہر ناسک نے جو مسا عی کیں ان کا
ایک عالم معتر ف ہے ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان ادب تھے ۔ہر
ملنے والے سے اخلاق اور اخلاص پر مبنی رویہ ان کا شیوہ تھا۔حلقہءیاراں میں
وہ نرم دل تھے اور وطن اور اہل وطن کے ساتھ ان کے قلبی لگاﺅ اور والہانہ
محبت ان کا سب سے بڑا اعزازو امتیاز ہے ۔معاشرے کے پس ماندہ ،مظلوم ،مجبور
اور بے بس و لاچار لوگوں کے مسائل پر انھوں نے کھل کر لکھا۔انسانیت کے وقار
اور سر بلندی کے لیے انھوں مقدور بھر جدو جہد کی ۔تیشہ ءحرف سے فصیل جبر کو
منہدم کرنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔بے لوث محبت اور بے باک صداقت ان کی
فطرت تھی ۔ان کی شاعری قاری پر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی چلی
جاتی ہے ۔
اب آگئے ہیں تو اس دشت کے فقیروں سے
رموز منبر و محراب پوچھ لیتے ہیں
کسی کوجاکے بتاتے ہیں حال دل ناسک
کسی سے ہجر کے آداب پوچھ لیتے ہیں
اپنی زندگی کے آخری پانچ برس اطہر ناسک نے بڑی بے بسی کے عالم میں گزارے
۔کینسر کی جان لیوا بیماری کا بڑی استقامت سے مقابلہ کیا لیکن آخر کب تک وہ
ہوائے جورو ستم میں رخ وفا کوفروزاں رکھ سکتا تھا ۔ اس کی سب تدبیریں الٹی
ہو گئیں اور دوا نے کچھ بھی کام نہ کیا ۔آخر چشم کے مر جھا جانے کا سانحہ
ہو کے رہا ۔ایسے زیرک ،فعال ،مستعد اور جری تخلیق کار کا اس حالت میں زینہ
ءہستی سے اتر جانا اور قلزم خوں پار کرجاناہمارے لیے لمحہءفکریہ ہے اطہر
ناسک کو زندگی کے آخری ایام میں اپنی بے بسی کا شدت سے احساس تھا ۔ اس کے
معالج بھی اس کی صحت یابی کے بارے میں زیادہ پر امید نہ تھے اس کی شاعری
میں اس حسرت و یاس کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے ۔
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
پھر اس کے بعد مجھے حر ف حرف ہو نا ہے
تمھارے ہاتھ میں دیوان کچھ دنوں کا ہوں
کسی بھی دن اسے سر سے اتار پھینکوں گا
میں خو دپہ بوجھ میری جان کچھ دنوں کا ہوں
زمیں زادے مری عمر کا حساب نہ کر
اٹھاکے دیکھ لے میزان کچھ دنوں کا ہوں
مجھے یہ دکھ کہ حشرات شب تمھارے لیے
میں خور و نوش کا سامان کچھ دنوں کا ہوں
کہ چند راتوں سے ششدر ہوں چند راتوں کا
کہ کچھ دنوں سے میں حیران کچھ دنوں کا ہوں
گزر ہی جائیں گے ناسک یہ دن بغیر گنے
میں اپنے وقت کی پہچان کچھ دنوں کا ہوں
اطہر ناسک اب ہمارے درمیان نہیں رہا ۔اس کی عطر بیز یادیں نہاں خانہ ءدل
میں ہمیشہ مو جود رہیں گی ۔دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے والے اس لافانی
تخلیق کار کا نام لوح جہاں پر تا ابد ثبت رہے گا ۔اس کی عظیم اور مستحکم
شخصیت کے نقوش ہر عہد میں رہروان محبت کے لیے بانگ درا ثابت ہوں گے ۔اس نے
اپنے خون دل سے گلشن ادب کو سیراب کیا۔اس کادبنگ لہجہ اور خلوص بھری آواز
سفاک ظلمتوں میں ستارہ ءسحر کی نقیب تھی ۔اس نے منافقت ،خود غرضی اور
استحصال کے مہیب ،بھیا نک اور تاریک ماحول میںبھی اپنے جگر کے خون سے حوصلے
اور امید کی شمع فروزاں رکھی ۔اپنی عزت نفس ،انا اور خود داری کا بھرم قائم
رکھا اور کبھی حر ف شکایت لب پر نہ لایا۔وہ ایک مرنجاں مرنج انسان تھا ۔اس
کے احباب کثیر تعداد میں تھے لیکن کسی کے ساتھ عداوت کے بارے میں نہیں سنا
گیا ۔در کسریٰ پر صدا کرنا اس کے مسلک کے خلاف تھا ۔اسے یہ بات اچھی طرح
معلوم تھی کہ یہ بوسیدہ کھنڈر کسی کو کچھ عطا نہیں کر سکتے ۔اس کی مثال ایک
ایسی ابد آشنا تحریر کی ہے جسے طوفان حوادث کبھی مٹا نہیں سکتے ۔وقت کی یہ
تحریر لازوال اور دائمی نو عیت کی ہے۔اطہر ناسک بلا شبہ ایک عظیم تخلیق کار
تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم انسان بھی تھا جس نے انسانیت کی عظمت کو
ہمیشہ ملحوظ رکھا ۔اس کا جذبہ ءانسانیت نوازی اپنی مثال آ پ تھا ۔ تاریخ ہر
دور میں اس عظیم انسان کے نام کی تعظیم کرے گی ۔اطہر ناسک کے ساتھ میرا
تعلق دو عشروں پر محیط تھا ۔پاکستان کے ممتاز ادبی مجلات میں جب اس کی بلند
پایہ تخلیقات شائع ہوتیں تو ان کی تخلیقی فعالیت کے بارے میں جان کر دلی
مسرت ہوتی ۔اطہر ناسک کی وفات سے ارد وادب کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے
۔جدید اردو ادب ،تنقید اور تحققیق کے شعبوںمیں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد
رکھا جائے گا ۔
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں |