دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ
کے بہانے بیرونی طاقتیں ایک عرصہ سے اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کا
شیرازہ بکھیرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ بظاہر اس جنگ میں پاکستان کے کردار کو
انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے مگر پس پردہ اسے ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کرکے
ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی گہری سازش ہو رہی ہے۔ خیبرپختونخواہ میں خودکش
حملے، بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکیں، سندھ میں ٹارگٹ کلنگ، گلگت
بلتستان میں شیعہ سنی فسادات اور پنجاب کے خلاف نفرت پھیلانا اس سازش کا
حصہ ہیں جبکہ اسی سازشی منصوبے کے تحت پاک فوج اور آئی ایس آئی کو بھی
تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ دشمن جانتا ہے کہ وہ ان دونوں طاقت ور
اداروں کو دیوار کے ساتھ لگا کر ہی اپنے عزائم میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ کسی
بھی ادارے کی کارکردگی پر جائز تنقید ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر کچھ
عناصر ایسے بھی ہیں جو نااُمیدی پھیلانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ یہاں تک کہ
بعض سیاستدان بھی دانستہ اور غیر دانستہ طور پر فوج اور آئی ایس آئی کے
خلاف بیانات دے کر اس عالمی سازش کا حصہ بن رہے ہیں۔ کراچی میں فوج کی طلبی
بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کیونکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیلئے
عوامی حمایت کے حصول میں زبردست ناکامی کے بعد اب دشمن ہر قیمت پر ہماری
فوج کو کراچی میں اُلجھانا چاہتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ کراچی کا معاملہ ایک عجیب اور پُراسرار صورت اختیار
کرتا جا رہا ہے۔ ایسے میں بعض سیاسی جماعتیں، تاجر اور عام شہری کراچی کو
فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ ٹارگٹ کلرز، لینڈ مافیا،
اسلحہ مافیا اور بھتہ خوروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے کیونکہ حکومت
رینجر اور پولیس کے ذریعے حالات پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔80
ءاور 90 ءکی دہائیوں میں کراچی کے بگڑے حالات کو سنبھالنے کیلئے فوج کو
یہاں مداخلت کرنا پڑی تھی مگر آج کے حالات یکسر مختلف ہیں اور ایسے میں فوج
کو کراچی میں دھکیلنا یقینا ملک توڑنے کے مترادف ہے۔ ایم کیو ایم اور اے
این پی اس شہر کے حالات کی ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتی ہیں جبکہ وفاقی
وزیر داخلہ تیسری قوت کے ملوث ہونے کا اشارہ دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے
کہ کراچی کا مسئلہ صرف ایم کیو ایم اور اے این پی نہیں ہے بلکہ اس میں
بیرونی ہاتھ بھی شامل ہے جبکہ حالات کی خرابی میں دیگر چھوٹی جماعتیں،
جرائم پیشہ عناصر اور انتہا پسند گروپ بھی ملوث ہیں۔کراچی میں قتل و غارت
گری، اغواءبرائے تاوان اور بھتہ خوری کو اس لئے بھی پھلنے پھولنے دیا جا
رہا ہے تاکہ اس شہر کے لوگ فوج سے درخواست کریں کہ وہ کراچی میں امن و عامہ
کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے مداخلت کرے، جو یقینا پاکستان کیخلاف ایک گہری
سازش ہے۔
کراچی ایک صنعتی شہر ہے جو ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا
ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر یہ شہر ملک دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح
کھٹکتا ہے۔ آج کراچی کے جو حالات بنائے جا رہے ہیں اس میں کراچی کو اس حال
تک لے آنا کہ مشرقی پاکستان کی طرح بالآخر فوج کو تابوت میں آخری کیل
ٹھونکنے کیلئے بلانا پڑے یا فوج کے بادل نخواستہ آنے کے حالات پیدا کر دیئے
جائیں، یہ سب ترتیبی عوامل نظر آتے ہیں۔ اس سازش کو اُن عالمی طاقتوں کی
پشت پناہی حاصل ہے جن کے علاقائی مقاصد اس خطے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ سندھ
ملک سے علیحدہ ہوتا ہے تو بلوچستان کیسے ساتھ رہ سکے گا جس کی علیحدگی کی
ہنڈیا کے نیچے پہلے سے ہی آنچ سلگ رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک
کہہ چکے ہیں کہ کراچی میں اسلحہ اسرائیل سے آ رہا ہے جبکہ ٹارگٹ کلرز ایک
افریقی ملک سے آ رہے ہیں تو پھر بتاتے کیوں نہیں کہ اس شہر کے حالات کون
خراب کر رہا ہے ؟ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آخر یہ اسلحہ لانے والے اور چلانے
والے کون ہیں اور ان کی پشت پناہی کونسی قوتیں کر رہی ہیں۔ تمام لوگ حیران
ہیں کہ وہ کونسی تیسری قوت ہے جو اتنی طاقتور ہے کہ جس کے سامنے پاکستان کے
عوام، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں تک بے بس نظر آتی ہیں۔
کراچی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو سچ نہیں بتایا جاتا۔ ایک سازش کے تحت
اس شہر میں ایسے دہشت گرد گھسا دیئے گئے ہیں جو مہاجروں، پٹھانوں، سندھیوں
اور بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں۔ اگر پٹھان، سندھی یا بلوچی مارا جاتا
ہے تو تاثر یہ ملے گا کہ ایم کیو ایم نے مارا ہے جبکہ اُردو بولنے والا
مارا جاتا ہے تو پھر اس کا الزام پٹھانوں یا سندھیوں پر لگتا ہے۔ جن علاقوں
میں مہاجر، پٹھان، سندھی اور بلوچی اکٹھے رہتے ہیں وہاں ان کا آپس میں کوئی
جھگڑا نہیں تو پھر یہ مارنے والے کون ہیں۔بلاشبہ اس شہر کے حالات کی خرابی
میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے مگر کراچی کے معاملات کو سمجھنے کیلئے فقط
عصرِ حاضر کے واقعات کو مشاہدہ کی کسوٹی پر پرکھنا انتہائی ناانصافی ہوگی
بلکہ اس گتھی کو سلجھانے کیلئے کراچی کے تینوں اسٹیک ہولڈرز پی پی پی، ایم
کیو ایم اور اے این پی کی تاریخ کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ کراچی میں خون
خرابے کی ذمہ دار یقینا یہ تینوں حریف جماعتیں بھی ہیں۔موجودہ صورتحال کو
کنٹرول کرنا مشکل نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ تینوں اسٹیک ہولڈرز ہیں جو اس
صورتحال کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں اور جب پانی سر سے گزر جاتا
ہے تو پھر سیاست دان اور ذرائع ابلاغ فوج بُلانے کا راگ الاپنا شروع کر
دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سول انتظامیہ، سیاست دان اور سول سوسائٹی اُ س وقت
تک کیوں چین کی بانسری بجاتی رہتی ہے جب تک مسائل بے قابو نہیں ہو جاتے اور
اگر خدانخواستہ فوج بھی حالات کو کنٹرول نہ کر سکی تو پھر کس قدر خوفناک
نتیجہ نکلے گا۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور قتل و غارت کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے
کہ سرمایہ بڑی تعداد میں ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، نیپال، سری لنکا اور
بنگلہ دیش منتقل ہو رہا ہے جبکہ حکومت اس سارے خونی کھیل میں تماشائی بنی
ہوئی ہے۔ اس سارے خون خرابے کی ذمہ دار بھی یہی تینوں حریف سیاسی جماعتیں
ہیں جو الیکشن سے قبل زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ چاہتی ہیں جبکہ کراچی
میں تحریک انصاف کا کردار نئے فساد کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ اے این پی اس
تشویش میں مبتلا ہے کہ تحریک انصاف کے موثرسیاسی کردار کے باعث پشتون ووٹ
تقسیم ہو سکتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن سے انکار یہ ظاہر کرتا ہے کہ
فوج نام نہاد امریکی جنگ سے علیحدگی چاہتی ہے لہٰذا اب اسے کراچی میں
دھکیلنا انتہائی خطرناک ہوگا کیونکہ بیرون طاقتیں پاک آرمی کو فاٹا،
بلوچستان اور کراچی میں پھنسانا چاہتی ہیں۔ درحقیقت امریکا اس کوشش میں ہے
کہ پاک فوج کو زیادہ سے زیادہ علاقوں تک پھیلاکر عوام کے دلوں میں اس
کیخلاف نفرت پیدا کی جائے۔ اگر فوج کراچی میں اُلجھ گئی تو نہ صرف اس کا
بہت نقصان ہوگا بلکہ ملکی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو جائیں گی۔ کراچی کے
مسئلے کا حل فوج بلانے میں نہیں بلکہ اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ فوج کی
حمایت سے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماءکی جماعت تشکیل دی جائے
جو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں اور عوام میں شعور بیدار کریں۔
تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو چاہئے کہ مسئلہ حل ہونے تک وہ خود بھی
کراچی میں ہی موجود رہیںاور اداروں کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ کوئی ہمارا
دشمن میلی آنکھ سے وطنِ عزیز کو دیکھنے کی جرات نہ کر سکے۔ |