محرم الحرام میں امن وامان کے تقاضے

محرام الحرام کے مقدس مہینے کا آغاز ہوچکا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں امن و امان یقینی بنانے کے لئے بظاہر الرٹ دکھائی دیتے ہیں لیکن ماہ مقدس کے چوتھے روز کراچی میں ہونے والے بم دھماکے نے ان کی پھرتیوں کا پول کھول کے رکھ دیا ہے۔ اس حملے کی نوعیت سے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس ماہِ مقدس میں پاکستان کے دشمن اب شیعہ سنی فسادات کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ براہِ راست خود کش حملوں کے ذریعے بڑی تباہی و بربادی پھیلانے کے عزائم رکھتے ہیں۔

محرم الحرام دنیائے اسلام میں انتہائی مقدس مہینہ تصور کیا جاتا ہے جس میںحضرت امام حسین اور ان کے رفقاءکا رنے حق کی خاطر اپنی جان دے کر دنیا کے سامنے ایک ایسی مثال قائم کردی جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ محرم الحرام میں شہداءکربلاکی یاد بڑے عقیدت اور احترام سے منائی جاتی ہے۔لیکن اس دن چند عناصر مسلم دنیا کی یکجہتی کونقصان پہنچانے کے لئے سرگرم ہوجاتے ہیں بلکہ محرم الحرام آنے سے پیشتر ہی وہ شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے ناپاک منصوبوں اورسازشوںمرتب کرنا شروع کردیتے ہیںاور ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے مسلمان بھائی آپس ہی میں دست و گریبان ہوجائیں۔

اسلام امن پسند مذہب ہے۔ دہشت گردی‘ انتہا پسندی کی اس میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک من حیث القوم مسلمان‘ انصاف‘ تحمل وبرداشت اور علم سے محبت کے فلسفے پر عمل پیرا رہے وہ دنیا پر حکمرانی کرتے رہے اور جب انہوں نے ان اصولوں پر روگرادنی کی اور باہم دست گریبان ہوئے فرقہ واریت کی لعنت سے دوچارہو گئے۔ ہم اشتعال انگیز تقریریںکرتے ہیں‘ فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔ بات بات پر لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ذاتی انا اور انتقامی جذبہ ہمارے اندر سرایت کر چکا ہے۔ ہم ایک دوسرے کر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم ایسے گمبھیر مسائل میں کچھ اس طرح الجھ کر رہ گئے ہیں کہ ہمارے پاس غورو حوض کےلئے وقت ہی نہیں کہ ہم ان مسائل سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں؟ یہ سوچیں کہ ہم دنیا میں کیوں زیر عتاب ہیں؟ یقینا اس میں جہاں ہماری دیگر بداعمالیاں شامل ہیں۔ وہاں ہماری صفوں میں عود آنے والی فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ گزشتہ چند سال کے دوران پاکستان کے اندر فرقہ واریت‘ تخریب کاری اور دہشت گردی کے اتنے بڑے بڑے واقعات ہوئے جن سے جہاں پوری قوم سوگوار ہوئی وہاں امن و امان کے حوالے سے بیرونی دنیا میں وطن عزیز کی ساکھ خراب ہوئی۔مساجد، اولیاءاللہ کے مزارات اورمذہبی اجتماعات میں دھماکوں اور خود کش حملوں میں سینکڑوں بے گناہ افراد شہید ہوچکے ہیں۔

اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے خیالات پروان چڑھائیں جس سے ہمارے اندر مذہبی رواداری ، محبت اور ایثار کے جذبے بیدار ہوں۔ دنیا کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ترقی پسند اعتدال پسند اور امن و بھائی چارے کا دین ہے اگر ہم قول و عمل اور کردار سے یہ عملی ثبوت دیں تو ہماری مساجد ہماری امام بارگاہیں‘ ہمارے مدارس ایک دوسرے پر تنقید کی بجائے علم‘ محبت اور تحمل و برداشت کی تربیت گاہیں بن جائیں۔اگر ہم اپنے رویوں میں اعتدال پیدا کر لیں، انتہا پسندی سے اجتناب کریں، جدید علوم سے بہرہ ور ہو جائیں اور اسلام کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی عملی زندگیوں پر نافذ کرلیں تو ہم دہشت گردی کا الزام لگانے والوں کو ان کا اصل مقام یاد دلا سکتے ہیں۔ یہ علما کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی اعتدال پسندی اورتحمل و برداشت کی حقیقت حال ان حلقوں پر واضح کریں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ پاکستان کو دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی نے بے حد نقصان پہنچایا ہے جس کے قلع قمع کے بغیر یہاں امن وسلامتی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ ہمیں دنیا کے اندر بہتر مفاہمت ہم آہنگی اور اسلامی اقدار کو فروغ دینا ہے۔ دنیا کے سامنے اسلام کے عظیم مذہب کے تشخص کو اجاگر کرنا ہے۔

اس تناظر میں محرام الحرام کا نازک مہینہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم ہوشمندی اور صبروتحمل کے جذبات کا عملی مظاہرہ کریں۔ ہمیں ایسے شرپسندوں کی سازشوں کو بھانپنا ہوگاجو ہمارے جذبات کو ابھار کر ایسی آگ لگانا چاہتے ہیںجس سے اسلام اور پاکستان کے امیج کو زک پہنچے۔ہمیں دشمن کی ان مکروہ سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت پیداکرنا ہوگی۔ ہمیں فرقہ واریت کے عفریت سے نکلنا ہوگا، صوبائیت کے چنگل سے آزاد ہونا ہوگا، قوم پرستی کے آسیب سے جان چھڑانا ہوگی۔ یہ امراض ہمارے خود پیدا کردہ ہیں جن سے جان سے نجات کے لئے بھی ہمیں خود ہی سعی کرنا ہوگی۔ اگر ہم اپنی ذات، انفرادی مفادات، سیاسی وفروعی وابستگیوں سے بالا ترہوکر اسلام اور پاکستان کی فلاح و بہبود کا خیال کریں تو ہم اندورنی و بیرونی سطح پر دشمن کی تمام ریشہ دوانیوں کو خاک میں ملا سکیں گے۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 34863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.