شہزادہ کونین امام حسین ؑ

کسی شہنشاہ سے تخت وتاج یاسیاستدان کا اقتدارچھیننا ،چہروں کی تبدیلی یامفادات کیلئے کشت وخون کو انقلاب کہنا درست نہیں ،انقلاب انسان کی سوچ اورانسان کے بنائے نظام کی تبدیلی کانام ہے،لہٰذادین فطرت اسلام اورسراپارحمت حضرت محمدکے سواکوئی ا س انقلاب کے معنی اورمعیار پرپورانہیں اترتا ۔اسلام کے ظہور اورسرورکونین کے نورسے اندھیرا روشنی میں بدل گیا،جہالت کے بادل چھٹ گئے ،مغلوب غالب آگئے جبکہ آقااورغلام کافرق مٹ گیا ۔اسلام معاشرے کوتقسیم نہیں کرتابلکہ انسانوں کے درمیان تقویٰ کی بنیاد پر تفریق اورتعظیم کادرس دیتا ہے ورنہ اسلام کی آمدسے قبل جابراورمجبورمیں فرق نہیں کیا جاتاتھا۔حضرت محمد کابتایاراستہ بلاشبہ کٹھن ہے مگراس کے سوادوسراکوئی راستہ نہیں جو اصلاح، فلاح اورکامیابی کی طرف جاتا ہو ۔جولوگ بھی اس راہ حق پرچلے وہ سرفرازہوئے اوراپنے پیچھے اچھی یادوں اورباتوں کاقیمتی اثاثہ اورتاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑگئے ۔جوبھی سچے دل سے اس راہ حق پرچلتا ہے لوگ اس کی راہوں میں اپنی پلکوںکوبچھادیتے ہیں ۔ باباجی حضرت ابو انیس صوفی محمدبرکت علی ؒ لودھیانوی کاآج دنیا بھرمیں جونام اوراعلیٰ مقام ہے وہ بجاطورپراس کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے دین اسلام کیلئے انتھک کام کیا ہے اورجوبھی اللہ تعالیٰ کے دین کی آبیاری اورسر بلندی کیلئے ''امتحانات'' سے گزرتا ہے تواسے اس کامیابی کاثمرضرورملتا ہے ۔ باباجی حضرت ابو انیس صوفی محمدبرکت علی ؒ لودھیانوی نے بھی شبانہ روز محنت اورمحبت سے دنیا بھرمیں پھیلے اپنے عقیدت مندوں کے نیم مردہ اورشرمندہ قلوب کو ذکرالٰہی اوردرو د وسلام کی ضرب سے زندہ اورہرقسم کے زنگ سے پاک کردیا ۔ آپ ؒسے براہ راست ملنے کاشرف توراقم کونصیب نہیں ہوا مگرآپ ؒ کے مزارپرکئی بارحاضری کی سعادت ضرورملی تاہم آپ ؒکے عقیدت مندوںکوٹلی نواب واہنڈوسے چودھری عظمت علی اورساہوواری شالیمار لاہور سے محمد یٰسین شفیق خان مرحوم اوران کے بھائی محمدامین خان کی وساطت سے مجھے کافی روح پرورمعلومات ملی ہیں جس سے میں آپ ؒ کامزیدگرویدہ ہوگیا ہوں۔پچھلے دنوں چودھری عظمت علی کے ڈیرے پرایک ایمان افروزمحفل ذکر میں آپ ؒ کی تصنیف''تذکرہ حسین شہزادہ کونین ؑ''کے چنداوراق کامطالعہ کرنے کی سعادت ملی ۔آپ ؒ کی تحریرکے اسلوب میں ایک خاص تاثیرہے جس سے کتاب کا قاری اس واقعہ کاایک جیتا جاگتا کرداربن جاتا ہے۔اس کتا ب کاوہ باب جومحفل میں پڑھتے ہوئے مجھ سمیت دوسرے شرکاءپھوٹ پھوٹ کرروئے میں اس کاکچھ حصہ آپ کے ذوق مطالعہ کی نذرکررہا ہوں ۔

باباجی حضرت ابو انیس صوفی محمدبرکت علی ؒ لودھیانوی لکھتے ہیں ،قومیں پیداہوتی ہیں،مٹ جاتی ہیں ۔بستیاں آبادہوتی ہیں ،اجڑجاتی ہیں۔تہذیبیں نکھرتی ہیں ،دھندلاجاتی ہیں ۔شخصیات پیداہوتی ہیں ،مرجاتی ہیں ۔داستانیں مرتب ہوتی ہیں ،محوہوجاتی ہیں ۔یہ عمل ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اورمسلسل جاری رہے گا۔لیکن ایک داستان الم ہے ،جوتاریخ کے صفحات میں آج بھی اسی طرح روشن اورتابندہ ہے جس طرح آج سے تیرہ سوسال پہلے تھی ۔امتدادِزمانہ کی گردش اورانقلابات روزگارکی ہزاروں گردشیں اس داستان الم کونہ مٹاسکیں اورنہ رہتی دنیا تک مٹاسکیں گی ۔کیونکہ اس داستان عظیمہ کولکھنے والی مقدس شخصیت نے اسے اپنے خون جگر سے لکھا اوردشت کرب وبلا کے دمکتے ہوئے ذروں نے اس تحریر کواپنے سینوں میں محفوظ کرلیا ۔تاریخ عالم کے صفحات اس داستان عظیمہ کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔اگرکسی میں حوصلہ ہے تواس آفتاب کے سامنے اپنا دیاجلاکرتودکھائے ۔حضرت بی بی فاطمہ ؓ کے جگرگوشے نے اپنے ناناکے مقدس دین کے احیاءکیلئے قربانی کاجوبینظیر معیارقائم کیا ،کوئی اس کی مثال توڈھونڈ لائے ۔قتیل جادہ حق وصداقت نے کمال صبرواستقامت سے ان آزمائشوں کوطے کیا جواللہ رب العزت ّ نے اپنے ابدی پیغام میں متعین کیں اوربیان فرمائیں۔اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے،''اللہ تعالیٰ تمہیں آزمائشوں میں ڈالے گا۔وہ حالت خوف وہراس ،بھوک اورپیاس ،نقصان جان ومال اورہلاکت اولاد واقارب میں مبتلا کرکے تمہارے صبرواستقامت کوآزمائے گا۔پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے ان لوگوں کیلئے جن کے ثبات واستقامت کایہ حال ہے کہ جب مصائب میں مبتلا ہوجاتے ہیں تواپنے تمام معاملات ''اناللہ واناالیہ راجعون''پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سپردکردیتے ہیں''۔

اب میدان کربلاکی سمت آئیے اورقرآن مجید کے آئینہ میں اس بہت بڑے سانحہ کامنظرملاحظہ کیجئے ۔خوف وہراس کایہ عالم ہے کہ حد نگاہ پھیلے ریگزاروں میں خاندان رسالت کایہ مختصر مگر مقدس قافلہ درندہ صفت سفاک انسانوں میں گھراہوا ہے ۔سورج کی گرم شعاعیں پڑتی ہیں توزمین کے ذرات شرارے بن جاتے ہیں ۔دشمن کے نیزوں اوربھالوں کی چمک سے آنکھیں چندھیائی جاتی ہیں ۔بے نیام تلواریں اس مقدس قافلہ پرکوندی پڑتی ہیں ۔ہرنگاہ سفاک ،ہرآنکھ گستاخ اوربیباک دکھائی دیتی ہے ۔شرکے اس طوفان بدتمیزی میں کسی ایک زبان سے بھی خیر اورمروت کی آوازسنائی نہیں پڑتی ۔شریرلشکر کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے رات کے اندھیرے اوربھی خوفناک بن جاتے ہیں ۔سلامتی کے تمام دربند ہیں لیکن کچھ پاک سر ہیںجوایسے ماحول میں بھی جھکے ہوئے اللہ پاک کی حمد وثناءبیان کررہے ہیں ۔

بھوک اورپیاس کایہ عالم ہے کہ فرات کے کنارے گھوڑوں اورگدھوں کیلئے آزاداورکشادہ ہیں لیکن دوش رسول کاسوار،جوانان جنت کاسردار،مسافر کرب وبلا ،مظلوم نینوا،اپنے قبیلے کے ساتھ پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم ہے ۔اہل بیت کے خیموں سے العطش العطش کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ۔ننھے بچے پیاس کی شدت سے نڈھال ہوئے جارہے ہیں لیکن یذیدکاحکم ہے کہ امام حسین ؑ اوراس کے اہل بیت تک فرات کے پانی کی ایک بوند بھی نہ پہنچنے پائے ۔

وہ دیکھو ! حضرت عباس ؓ علمدار مشکیزہ کندھوں پرڈالے کس جرات وپامردی سے لڑتے بھڑتے فرات کے کنارے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے کہ پیاسے بچوں کابلکنادیکھا نہیں جاتا ۔۔۔۔مشکیزہ بھرلیا ہے ،چونکہ خود بھی پیاسے ہیں چاہا کہ پیاس بجھالی جائے لیکن یہ کیا اپنے چُلّومیں پانی بھرکرپھرکیوں اچھال دیا ۔۔۔۔ہاں وفاداری ،صبرواستقامت اوررفاقت کی پاسداری پیاس کی شدت پرغالب آگئی ہے ۔۔۔۔حضرت امام حسین ؑ پیاسے ہیں ،ان کے بچے پیاسے ہیں ،پردہ دار بیبیاں پیاسی ہیں ،حضرت سکینہ ؓ پیاسی ہیں ،بیمار حضرت عابدؓ پیاسے ہیں ،زہرائے ثانی حضرت زینبؓ کے لخت جگر حضرت عونؓ اورحضرت محمدؓ پیاسے ہیں،ایسے میں حضرت عباس ؓ کے حلق سے یہ چُلّوبھرپانی کس طرح اترسکتا ہے ۔بھرکراچھال دیا اورمشکیزہ سنبھال ،عَلَم تھامے ،خیمہ گاہ سادات کی طرف روانہ ہوگئے ۔دشمن نے یلغار کی ،گھمسان کارن پڑگیا ہے ۔وہ دیکھو حضرت عباس ؓ کادایاں بازوکٹ کردورجاپڑا ہے ،لیجئے ان کابایا ں بازوبھی کاٹ دیا گیا ،مشکیزہ تیروں سے چھلنی ہوگیا ہے ،دانتوں میں تھاماہوا عَلَم بھی گراجارہا ہے ۔اس سے پہلے کہ امام حسین ؑ بھائی کی مددکوپہنچیں ،صدق وصفاکایہ پیکر حق رفاقت اداکرکے جام شہادت نوش کرگیا ۔خیموں سے اب بھی تسبیح وتہلیل کی صدائیں بلندہورہی ہیں۔نقصان جان ومال اورہلاکت اولاد اوراقارب کی تفسیر جونواسہ رسول نے میدان کربلا کے سینے پرتحریر کی ،اس کی مثال کون پیش کرسکتا ہے ۔

ذراقدم آگے بڑھائیے ،میدان کارزارکارنگ بھی قابل دیدہے جہاں ہرطرف خون شہیداں بکھراپڑاہے ۔بے برگ وگیاہ صحرا اس گل پاشی سے رشک چمن بناہواہے گویاجگہ جگہ لالہ صحرائی اُمڈپڑے ہیں ۔اے خاک ِ کربلا ! اپنی اِس سُرخروئی پرنازکرکہ تُو خونِ مقدس کی امین بنی ۔نواسہ رسول کے غیوراورنڈرجانثاروں نے تیرے سینے پرتاریخ کے انمٹ نقوش بناڈالے ہیں ۔حبیب بن طاہرؓ ،حُر بن یزید،بربربن حصین ،عبداللہ بن الکلبی ،مسلم بن عوسجہ ،زہیر بن القین ،حظلہ بن اسعد کے لاشے جراتوں اورعظمتوں کی کہانیاں کہہ رہے ہیں۔یہ محترم خاتون اُم وہب کاجسدخاکی بھی اِدھر پڑا ہے ،جواپنے شہید شوہرعبداللہ بن الکلبی کے چہرے سے گردصاف کررہی تھیں کہ کسی شقی القلب کی تلوار نے انہیں وہیں کاٹ کرڈھیر کردیا۔ٹھہر اے چشم فلک مجھے ان شہیدوں کوہدیہ عقیدت اورسلام شوق پیش کرنے دے ،میرے پاﺅں ڈگمگا رہے ہیں ،مجھ میں ابھی آگے بڑھنے کی طاقت ہے اورنہ کسی دلخراش منظر کودیکھنے کی تاب۔تُونے اِس دھرتی پرلاکھوں قافلے لٹتے دیکھے ہوں گے ،لاکھوں مظلوم قتل ہوتے دیکھے ہوں گے ۔شایداسی لئے تیری آنکھیں پتھر ہوچکی ہیں کہ ان سے اشک جاری نہیں ہوتے ۔لیکن بتاتوسہی ۔۔۔تونے کسی کو جرا ت وپامردی سے آگے بڑھ کر موت کویوں گلے لگاتے دیکھا َ؟کسی نے یوں رسم وفانبھائی ؟اوریوں حق رفاقت اداکیا؟کسی نے یوں بے سروسامانی میں ،بھوک اورپیاس کی شدت کے باوجودایسی جرات اورشجاعت کامظاہرہ کیا ؟اِدھرگنتی کے چندنفوس ہیں ،اُدھرہزاروں کالشکر!

آوازآئی ۔یہیں مت ٹھہرجانا! سینے کوتھام کرقدم ذراآگے بڑھا ،وہ دیکھ کچھ دورایک لاشہ پڑا ہے ۔سب سے الگ تھلگ ۔۔۔۔اسے پہچاننے کی کوشش کر!مگراس کا سرتن سے کاٹ لیا گیا ہے اورلاشے کوگھوڑوں کی تاپوں سے یوں رونداگیا ہے کہ پہچان مشکل ہے ۔ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ ٹوٹ کرخمیدہ ہوچکی ہیں ۔جسم سے لباس نوچ کردہکتی ریت پرنیم برہنہ ڈال دیاگیا ہے ۔لیکن دیکھو۔۔۔۔۔۔اس تمام تربرہنگی اوربیچارگی کے باوجود لاشے سے ایک عظمت ،عصمت اورحشمت پھوٹی پڑتی ہے ۔یہ باوقاراوربارعب جسدخاکی یقیناکسی شہزادے کاہے ،کسی سردارکاہے ۔سنوسنو!یہ کیسی آوازہے صحراﺅں کی وسعتوں اورخاموشی کوچیرتی ہوئی خلاﺅں میں ابھررہی ہے ،جس نے کربلا کی فضاﺅں میں ارتعاش پیداکردیا ہے ،پرندے بھی سہم گئے ہیں اور ہوابھی تھم گئی ہے ۔دھوپ کی رنگت زردپڑگئی ہے ۔غورسے سنواوراس کے ایک ایک لفظ کوذہن میں محفوظ کرلوکہ مستقبل کامورخ ان الفاظ سے تاریخ کوکچھ نئے عنوان دے گا۔لوگو!میرا حسب نسب یادکرو۔سوچومیںکون ہوں ،پھراپنے اپنے گریبان میں منہ ڈالواوراپنے ضمیرکامحاسبہ کرو!خوب غورکرو،کیا تمہارے لئے میراقتل کرناورمیری حرمت کارشتہ توڑنارواہے؟کیا میں تمہارے آقااوراللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر محمد کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کابیٹا اورآپ کے غم زادحضرت علی ؓکابیٹانہیں ہوں؟کیا سیّد الشہداءحضرت حمزہ ؓ میرے باپ کے چچا نہیں تھے ۔۔۔۔۔آپ احباب کووقت ملے توپوری کتاب ضرورپڑھئے گا۔یقینا آپ کے اندر ایک روح پرورکیفیت پیداہوگی ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.