عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز
پاکستانی ادیب ،دانش ور ،محقق،ماہر لسانیات ،ماہر تعلیم ،ماہر ابلاغیات اور
پشتو زبان و ادب کے عظیم رجحان ساز تخلیق کار پروفیسر ڈاکٹر محمد اعظم اعظم
نے دائمی ترک رفاقت کی ۔علم و ادب اور فنون لطیفہ کا وہ آفتاب جہاں تاب جو
21دسمبر 1940کوچارسدہ کے نواحی علاقے راجر (صوبہ خیبر پختون خوا۔پاکستان)سے
طلوع ہوا ،پوری دنیا کواپنی ضیا پاشیوں سے منور کرنے ،سفاک ظلمتوں کو کافور
کرنے اور ادب میں جمود اور مہیب سناٹوں کا خاتمہ کرنے کے بعد 16نومبر
2012کو حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث غروب ہو گیا۔ان کے آبائی قصبے راجر کی
زمین نے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ان کی وفات سے پشتو زبان و ادب
کے ارتقا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے انھوں نے گزشتہ پانچ عشروں میں
پشتو زبان و ادب کے فروغ کے لیے جو گراں قدرخدمات انجام دیں وہ تاریخ ادب
کے اوراق میں آب زر سے لکھی جائیں گی ۔ان کی الم ناک وفات کی خبر سن کر ہر
مکتبہ فکر کے لوگوںنے اپنے جذبات حزیں کااظہار کیاہے ۔
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
پروفیسر ڈاکٹر محمد اعظم اعظم کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا
۔پاکستان کے علمی و ادبی حلقے ان کے خاندان کی ان نامور ہستیوں کی خدمات سے
اچھی طرح واقف ہیں جنھوں نے اپنے خون دل سے پاکستانی تہذیب و ثقافت کے تحفظ
کواپنا نصب العین بنایااور پوری دنیامیں ملک کا نام روشن کیا۔وہ زمانہ طالب
علمی ہی سے تخلیق ادب کی طرف مائل تھے۔اسلامیہ کالج پشاور کے ادبی مجلے ”
خیبر“ کے وہ مدیر منتخب ہوئے ۔وہ اجمل خٹک اور امیر حمزہ خان شنواری کی
شاعری سے بہت متاثر تھے۔ان کا کہنا تھاکہ ان ترقی پسند شعرا کی ا نسان
دوستی نے ان کے فکر نظر کو مہمیز کیا ہے اور اس طرح وہ اپنا ما فی الضمر
بیان کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتے ۔اسلامیہ کالج پشاور میں اپنے
زمانہ طالب علمی کی حسین یادیں ان کی زندگی کا بہت بڑا اثاثہ تھیں ۔وہ اس
مادر علمی کو ایک وادیءجمیل سے تعبیر کرتے اور اس کا نام بہ صد احترام لیتے
تھے ۔ادب ،موسیقی اور فنون لطیفہ سے ان کی دلچسپی کاآغاز یہیں سے ہوا ۔وہ
پشتو موسیقی کے دلدادہ تھے ۔وہ ستار بجالیتے اور خود مسحور کن دھنیں مرتب
کرتے ان کو ترنم سے غزل پڑھنے میں ملکہ حاصل تھا۔نعت خوانی میں انھوں نے
کئی انعامات حاصل کیے ۔پشاور میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پشتو زبان
و ادب کی تحقیق کی طرف مائل ہوئے اور پشاور یونیورسٹی سے پشتوادب میں پی
ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان تھا:(The art of
characterization in Pushto literature)۔ 1963 میں انھوں نے اپنی عملی
زندگی کا آغازتاریخی اسلامیہ کالج پشاور سے کیا ،ان کا تقرر بہ حیثیت
لیکچرر پشتو ہوا ۔اس کے بعد وہ پشاور یونیورسٹی میں ڈین آف اورینٹل
لینگویجز مقرر ہوئے اور انھوں نے چیر مین شعبہ پشتو کی حیثیت سے بھی خدمات
انجام دیں ۔ڈاکٹر محمد اعظم اعظم ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے ۔عالمی کلاسیک
اور پاکستانی ادبیات پران کی گہری نظر تھی۔تدریس ادب میں انھوں نے اس قدر
مہارت حاصل کی کہ ہزاروں تشنگان علم اس سر چشمہ ءعلم سے سیراب ہوئے۔دنیا
بھر میں ان کے شاگر د موجود ہیں جن کو اس نابغہءروزگار معلم کی رہنمائی میں
ذرے سے آفتاب بننے کے مواقع نصیب ہوئے اور ان شاہین بچوں نے کندن بن کر
اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔20۔دسمبر 2000کو پروفیسر ڈاکٹر محمداعظم اعظم
اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہوگئے ۔ اگست
2006میںانھیں اکادمی ادبیات پاکستان ،پشاو رکاریجنل ڈائریکٹر مقرر کیاگیا
۔انھوں نے صوبہ خیبر پختون خوا میںفروغ ادب کے لیے سخت محنت کی ۔ان کی
کوششوں سے ادبی محفلوں کے انعقاد اور تخلیقی کام میں بہت پیش رفت ہوئی۔علمی
و ادبی تحقیق و تنقید میں انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا بھر پوراستعمال
کیا ۔ان کے تحقیقی کامرانیوں سے جمود کا خاتمہ ہوا ۔پروفیسر ڈاکٹر محمد
اعظم اعظم کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں جو اعزازات و ایوارڈ ملے ان
کی تفصیل حسب ذیل ہے :
(1) ۔آدم جی ایوارڈ 1963 ،(2)۔پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ 1965،(3)۔پاکستان
رائٹرز گلڈ ایوارڈ 1978، (4)۔پاکستان ٹیلی ویژن گولڈ میڈل برائے ڈرامہ
1989،(5)تمغہءامتیاز 1990
پروفیسر ڈاکٹر محمد اعظم اعظم ایک رجحان ساز ادیب تھے ۔انھوں نے اپنے
انفرادی اسلوب کے اعجاز سے اپنی تخلیقات کوقلب اور روح کی گہرائیوں میںاتر
جانے والی اثر آفرینی سے مزین کیا ۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے ان کی خدمات
کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا ۔ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے ان
کے پانچ سو سے زائد نغمات اور غزلیں نشر ہوئی جنھیں ریڈیو کے سامعین اور
ٹیلی ویژن کے ناظرین کی بے حد پذیرائی نصیب ہوئی ۔1974میں جب پشاور سے ٹیلی
ویژن کی نشریات کا آغاز ہوا تو پروفیسر ڈاکٹر محمد اعظم اعظم شروع ہی سے
ٹیلی ویژن کی نشریات میں معاون رہے ۔ان کا پہلا پشتو سیریل رکے لارے (گم
شدہ راستے )جب ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہوا تو اسے بے پناہ مقبولیت نصیب
ہوئی ۔وہ پشاور میں پشتو سٹیج ڈراموں کے بنیاد گزاروں میں شامل ہیں ۔ادب
اور فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے
دیکھا گیا ۔ان کا ڈرامہ ناموس پشتو اور اردو میں پیش کیا گیا۔اس ڈرامے کو
پوری دنیا میں پذیرائی ملی اور جو مقبولیت اس کے حصے میں آئی وہ اپنی مثال
آپ ہے ۔پشتو ڈراموںکے ارتقا کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گا ان کا نام اس کے
بنیاد گزاروں میں شامل ہو گا۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ انھوں
نے صوبہ خیبر پختون خوا میں پشتو ڈرامے کی جو خشت اول رکھی وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ اسی کی اساس پر پشتو ڈرامے کا قصر عالی شان تعمیر ہوا ۔ انھوں نے
پشتو ادب کی اسی درخشاں رو ایت کو پروان چڑھایا جس کی داغ بیل اپنے عہد کے
عظیم ادیبوں نے ڈالی ۔ان میں غنی خان ،حمزہ بابا،اجمل خٹک اور قلندر مو مند
شامل تھے ۔ وہ ایک نظریاتی ادیب تھے اور انھوں نے ترقی پسند تحریک سے گہرے
اثرات قبو ل کیے تھے ۔پاکستانی اہل قلم سے انھیں یہ توقع تھی کہ وہ قارئین
ادب کو مثبت شعورو آگہی سے متمتع کریں ۔انھوں نے تخیل اور شعور کے امتزاج
سے اپنے اسلوب میں عصری آگہی کی وہ شان پیدا کی کہ قارئین ادب کے دلوں میں
ایک ولولہءتازہ پیدا ہو گیا۔وہ تخلیق ادب میں نئے تجربات کے پر جوش حامی
تھے۔ ان کے تخلیقی ادب پاروں میں نئے تجربات ،حقیقی جذبات ،قلبی احساسات
اور مشاہدات و تاثرات ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیںجو قاری کے قلب و
نظر کو مسخر کرلیتا ہے ۔ حرف صداقت لکھنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔وہ
دیانت داری سے یہ محسوس کرتے تھے کہ سماجی اورمعاشرتی زندگی میں حر ف صداقت
کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں مسلسل شکست دل کے
باعث وہ بے حسی ہے کہ لوگ مصلحت کے تحت حرف صداقت لکھنے کی روش ترک کر چکے
ہیں ۔ان حالات میں زیرک اورجری تخلیق کار حریت ضمیر سے جینے کی روش اپناتے
ہیں ۔پروفیسر ڈاکٹر محمد اعظم اعظم نے زندگی بھر حریت فکر و عمل کو شعار
بنائے رکھا ۔ان کی تخلیقی تحریریں زندہ ،توانا اور جاندار اسلوب کی آئینہ
دارہیں ۔یہ اسلوب حرف صداقت کی اساس پر استوار ہے ۔ان کی زندگی میں شائستگی
،اخلاص اوراخلاق کا بلند معیار نظر آتا ہے ۔ان کی شگفتہ مزاجی ان کی شخصیت
کوباغ و بہار بنا دیتی تھی ۔ان کی گل افشانیءگفتار پتھروں سے بھی اپنی
تاثیر کا لوہا منو الیتی تھی ۔
تخلیق فن کے لمحوں میں انھوں نے اپنے خیالات،احساسات اورجذبات کو نہایت
موثر انداز میں پیرایہءاظہار عطا کیا ہے ۔وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو
اپنے فکر و فن کی اساس بناتے ہیں ۔اس عالم آب و گل کی وسعت میں وہ اپنی دور
بین نگاہوں سے آنے والے دور کی ہلکی سی تصویر دیکھ لیتے ہیں ۔ وہ ایام کا
مرکب نہیں بل کہ ایام کے راکب تھے ۔ معاشرتی زندگی میں رونما ہونے والے
ارتعاشات ، مادی مسائل اور نشیب و فراز افراد کی سوچ پر دور رس اثرات مرتب
کرتے ہیں ۔زندگی کی بو قلمونی اپنی اصلیت کے اعتبار سے ایک صد رنگی کیفیت
کو سامنے لاتی ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر محمد اعظم اعظم نے اپنی تخلیقی تحریروں
میں زندگی کی حقیقی تصویر پیش کی ہے ۔انھیں زندگی کے موسم جس صورت میں
دکھائی دئیے بالکل اسی صور ت میں انھوں نے ان تمام موسموں کو قاری کی نذر
کر دیا۔وہ جانتے تھے کہ سب موسموں کا تعلق قلبی احساس کے ساتھ ہو ا کرتا ہے
۔گزشتہ نصف صدی میں پاکستانی ادبیات بالخصوص پشتوادب کو متعد د نئی جہتوں
سے واسطہ پڑا ہے ۔صوبہ خیبر پختون خوا میں گزشتہ نصف صدی کے دوران میں
حالات نے جو رخ اختیار کیاہے اس کا واضح پرتو ان کی تحریروں میںدکھائی دیتا
ہے ۔ان کی شاعری ،افسانوں ،ڈراموں اور مضامین میں اس علاقے کی تہذیبی
،ثقافتی اور معاشرتی اقدار کے بارے میں نہایت خلوص،دیانت داری اور درد مندی
کے ساتھ اظہار خیال کیا گیاہے ۔وطن کی محبت ان کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے
اور ان کے جسم اور روح سے ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے کہ اے نگار وطن تو سلامت
رہے ۔ ان کی وقیع تصانیف سے پشتو ادب کی ثروت جو اضافہ ہوا اس کا ہر سطح پر
اعتراف کیاگیا۔اپنی زندگی میں انھیں جو عزت و تکریم اور پذیرائی نصیب ہوئی
اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔ان کی گیارہ تصانیف منصہءشہو د پر
آئیں۔ان کی جدت طبع ،جذبوں کی صداقت ،فکر و خیال کی بالیدگی ،تجربات و
مشاہدات کی ہمہ گیری اور شعور کی پختگی نے ان کے اسلوب کو سحر نگار بنادیا
ہے ۔ ۔ان بلند پایہ تصانیف کو قارئین کی طرف سے شرف پذیرائی نصیب ہوا۔ان کی
اہم تصانیف کی تفصیل درج ذیل ہے :
(1)پشتو افسانہ ،(2)تحقیق اور تنقید (3)پشتو ادب میں کردا رنگاری (4)لشے
(5)رحمان بابا(7) پختونی رومان،(9)عقیدت ،(10)کلونا (11)انداز ونہ
پروفیسر ڈاکٹر محمداعظم اعظم کی زندگی قناعت ،صبر ورضا ،استقامت ،توکل
،ایثار،انسانی ہمدردی اور خلوصو دردمندی کی اعلیٰ مثال تھی ۔وہ تخلیق ادب
کے وسیلے سے اپنی جبلی صفات کومنصہءشہود پر لانے کی سعی کرتے تھے ۔اپنی
جبلتوں کی تنظیم و تشکیل وہ اس انداز سے کرتے تھے کہ ہزار خوف میں بھی ان
کی زبان ان کے دل کی رفیق ہوتی تھی ۔ان کی داخلی کیفیات اور بیرونی رد عمل
میں کوئی تضاد نہ تھا۔ان کا ظاہر اور باطن یکساں تھا ۔وہ ہر حال میں راضی
بہ رضا رہتے اور نا مساعد حالات میں بھی کبھی حرف شکایت لب پرنہ لائے ۔وہ
اپنی ذہنی تسکین اورروحانی مسرت کے لیے تزکیہ نفس پر توجہ دیتے اور وہ
لائحہءعمل اختیار کرتے جوعملی زندگی میں قابل عمل بھی ہو اور اس ے راحت اور
تسکین قلب کی توقع بھی ہو ۔انھوں نے تخلیق ادب اور فنون لطیفہ کو ایک منضبط
انداز میں رو بہ عمل لانے پر اصرار کیا۔اپنے منفرد اسلوب میں انھوں نے
جمالیاتی اور اخلاقی اقدارکو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ان کی شخصیت کے تمام اوصاف
ان کی تخلیقات میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔وہ ایک صاحب طرز
تخلیق کار تھے ۔ان کے اچا نک اٹھ جانے سے روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو
گیا ہے ۔اب ان جیسا مخلص انسان کہاں ملے گا ؟عبرت سرائے دہر میں اب لٹی
محفلوں کی دھول اڑتی نظر آتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔
زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہو گی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے
ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پر نظر ڈالتا ہوں تو دل پر قیامت گزرجاتی ہے
۔میرے حلقہءاحباب میں کیسے کیسے عظیم لوگ تھے ۔ اجل کی مسموم ہوا نے میرے
سب چراغ دیکھ لیے اور یہ سب چراغ ایک ایک کر کے بجھتے چلے گئے ۔ پروفیسر
ڈاکٹر محمد اعظم اعظم کی محفل احباب میں ڈاکٹر صابر کلوروی ،غفار بابر
،محسن احسان ،خاطر غزنوی ،بشیر سیفی ،آفاق صدیقی، معین تابش ،خیر الدین
انصاری ،سمیع اللہ قریشی ،محسن بھوپالی ،محمد فیروز شاہ ،شبنم رومانی
،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض ،عر ش
صدیقی،نظیر صدیقی،محمد شیر افضل جعفری ،رام ریاض ،سید جعفر طاہر ،صابر
آفاقی ،عطا شاد ،غلام علی چین ،امیر اختر بھٹی اور سجاد بخاری جیسے رجحان
ساز ادیب شامل تھے ۔اب یہ سب حقائق خیال و خوا ب بن چکے ہیں ۔وہ جب ان احبا
ب کو یادکرتے توان کی آنکھیںپر نم ہو جاتیںاور وہ یہ شعر پڑھتے تھے :
ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ مرے حلقہ ءاحباب میں تھے
وہ زندگی کے روشن پہلوﺅں پر نظر رکھتے تھے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی
کی خاطر انھوں نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔وہ معاشرتی زندگی میں
امن و عافیت کے آرزومند تھے ۔انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ افراد معاشرہ
عفو در گزراور فراخ دلی سے عاری ہو رہے ہیں ۔اس کے مسموم اثرات نے ہر
شعبہءزندگی کواپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ معاشرتی زندگی میں
تشدد کی لہر کے باعث پورے نظام حکومت کی چولیں ہلنے لگی ہیں ۔وہ اخوت کا
بیان اور محبت کی زبان بن کر بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کی کوششوں میں
مصروف رہے ۔ان کی تخلیقی فعالیت ایک خاص قسم کی چارہ گری کی ایک صورت تھی
جس کو بروئے کار لا کر وہ معاشرتی زندگی کی اصلاح پر توجہ مرکوز رکھتے تھے
۔وہ سلطانیءجمہور کے پر جوش حامی تھے ۔ فرد کے ہاتھوں فرد کے استحصال
کوانھوں نے ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ
فاش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔تیشہءحرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنا
ان کا نصب العین رہا۔انھوں نے جو طرز فغاں ایجاد کی وہی اب معاشرے مین طرز
ادا کا روپ دھار چکی ہے ۔ان کی زندگی کے سب ساز قاری کواپنی گرفت میں لے
لیتے تھے ۔افسوس کہ اجل کے ہاتھوں نے دلکش دھنیں الاپنے والے اس ساز کو
ہمیشہ کے لیے توڑ دیا ۔سب جانتے ہیں کہ اس ساز سے جوسریلے اوررسیلے نغمے
پھوٹے وہ تا ابد دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ رہیں گے ۔یہ ساز اس قدر ہمہ گیر
اور پرتاثیرہیں کہ مستقبل میں بھی اس کی باز گشت سنائی دیتی رہے گی اور اس
کی سریلی لے سے متاثر ہوکر نئے تخلیق کارنئے ساز چھیڑیں گے جو کانوں میں رس
گھولتے رہیں گے ۔اللہ کریم پروفیسر ڈاکٹرمحمد اعظم اعظم کو جواررحمت میں
جگہ دے اور ان کی لحد پر آسمان شبنم افشانی کرے ۔ سیل زماں کے تھپیڑوں میں
رفاقتوں کے سب سلسلے بہہ گئے ہیں ۔ اس حیرت کے عالم میں اب ہم بھی کمر
باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
اسی نتیجے پہ پہنچتے ہیں سبھی آخر
حاصل سیر جہاں کچھ نہیں حیرانی ہے |