اسلام آباد میں ہونے والی آٹھویں
ڈی ایٹ کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف چودھری نثار نے کہا کہ
یہ کانفرنس ناکام ہوئی اور پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔
چودھری صاحب کے باقی بیانات کی طرح یہ بیان بھی ماننے کو جی نہیں چاہتا ہے
کیونکہ ملکی حالات کے تناظر میں اس کانفرنس کے انعقاد کو دیکھا جائے تو
ایسی کانفرنس کے جس میں نہ صرف غیر ملکی اعلیٰ وفود نے شرکت کی بلکہ چھے
صدور نے بھی شرکت کی جو اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔بہر حال اس
کانفرنس کی ناکامی سے ملک کی کیا جگ ہنسائی ہونی نااہل اور وراثتی حکمرانوں
کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی پہلے ہی اتنی جگ ہنسائی ہو چکی ہے کہ عزت بے
عزتی کے الفاظ آپس میں ضم ہو چکے ہیں ۔لیکن پھر بھی کبھی کبھی کوئی ایسا
سانحہ رونما ہوتا کہ جگ ہنسائی محسوس ہوتی ہے۔ایک خبر پڑھ کر ایسا ہی محسوس
ہوا ۔بی بی سی کے مطابق:موبائیل بند ، بجلی بند ، بازار بند ، راستے
بندلیکن دھماکے بند نہیں ہورہے۔
بی بی سی کی طرف سے جاری ہونے والے اس بیان پر نہ صرف ملک کی جگ ہنسائی
ہوئی بلکہ نااہل حکمرانوں کی اندازحکمرانیت کا پول پوری دنیا کے سامنے
کھلا۔مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ کس منہ سے جمہوریت کی کامیابی کا
گیت ملکی و غیر ملکی فورم پرگاتے ہیں ؟ یہ کونسی جمہوریت کی کامیابی ہے کہ
جس میں جمہور کو نہ کھانے کےلئے دو وقت کی روٹی میسر ہے نہ پہننے کو ڈھنگ
کا کپڑا، نہ رہنے کےلئے مکان، نہ جان و مال کا تحفظ، نہ روزگار،نہ بجلی، نہ
پانی ، نہ گیس ۔اگر جمہوریت ان بیماریوں کا نام ہے تو پھر جمہوریت سے اللہ
سبھی کوبچائے ۔
ایک زمانہ تھا کہ جب موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی لگائی جاتی تھی
توعوام کو حالات کی پیچیدگی کا اندازہ ہوتا تھا جس پر حکمران شرمندگی محسوس
کرتے تھے اس سے پہلے دفعہ 144کا نفاذ ہوا کرتا تھا جو ملک کے پانچ یا زیادہ
سے زیادہ دس شہروں میں ہوتا تھاجس کے بارے میں حکمران صرف انہی شہروں میں
اعلان کرتے تھے جہاں یہ نفاذ ہوا کرتا تھا کیونکہ پورے ملک میں ڈھنڈورا
پیٹنے سے نہ صرف حکومت پر انگلیاں اٹھتی تھی بلکہ ملک خداداد کی دنیا میں
جگ ہنسائی بھی ہوتی تھی جس کا اندازہ اس وقت کے حکمرانوں کو خوب تھالیکن
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں حکمرانوں میں ورائٹیز آنا شروع ہو گئیں وہاں
پابندیوں میں بھی اقسام کی تعداد روز افزوں بڑھنے لگی ۔ڈبل سواری ، پانچ سے
زائد افراد کے اجتماع ، مساجد میں لاﺅڈ سپیکرز، شر انگیز اشتہارات و
تقاریر،رات گئے تک فنکشنز، ملازمتی کارڈز کا اجراءوغیرہ کی پابندیاں اب قصہ
پارینہ بن چکی ہیں کیونکہ اب حکمرانوں کو عوام پر دھونسنے کےلئے ایک نئی
پابندی مل گئی ہے جس کی پہلی کامیاب قسط عوام نے عید الفطر پر دیکھ لی تھی
اور ےہ سلسلہ اب ایسا شروع ہے کہ دو تین گھنٹوں سے دنوں تک یہ پابندی طوالت
اختیار کر چکی ہے دنوں سے مہینوں تک کب ہو گی یا نئی ورائٹی کونسی آتی ہے
یہ وقت آنے پرہی پتہ لگے گا۔
موبائیل فون بندش کے بعد سیکورٹی کی وجہ سے عوام پر لگائی جانے والی
پابندیوں میں ایک اور پابندی کا اضافہ ہو گیا ہے ۔تازہ ترین اطلاعات کے
مطابق ملک خداداد کے ایک علاقے میں سیکورٹی کے پیش نظر مرد حضرات پرشال اور
لانگ کوٹ پہننے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے ۔اس پابندی کے بارے میں سن کر
پہلے تو آنکھیں چندھیاگئیں اور اخبار والوں کو دعائیں دی کہ انہوں نے یہ
خبر ایک ایسے کونے میں لگائی جس پر عموماً کم افراد ہی توجہ دیتے ہیں ورنہ
یہ خبر تھوڑی سی بھی واضح ہو جاتی تو سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی اور ایک
بار پھر پاکستان کی خوب جگ ہنسائی ہوتی ۔
غالباً یہ پابندی انڈین و انگلش فلمیں دیکھ کر لگائی گئی کہ جس میں ولن
عموماً لمبا کوٹ پہنتا ہے اوراپنے لمبے کوٹ کی اندرونی جیبوں سے مسلسل
اسلحہ نکال کر ہیروکا بھرکس نکال دیتا ہے اسی طرح کئی فلموں میں ولن شال
اوڑھ کر کسی تہوار میں شرکت کرتا ہے اور اپنی شال کے نیچے سے اسلحہ نکال کر
تہوارمیں شریک لوگوں کے خلاف استعمال کرتا ہے مگر اس کے بعد ہیرواس ولن کو
مار ہی دیتا ہے ۔دونوں طریقوں میں ولن ماراہی جاتا ہے اور جیت ہیرو کی ہی
ہوتی ہے۔لیکن یہ سب فلموں میں ہی ہوتا ہے اس سے حقیقت کا کوئی تعلق نہیں ۔
جیسے ہیرو کا ولن کے مدمقابل آنا ایک فلمی کہانی ہے تو لمبے کوٹ اور شال
میں ولن کاآنا بھی تو فلمی کہانی ہی ہے پھر کیوں حکومت نے یک طرفہ فیصلہ کر
کے لمبے کوٹ اور شال پر پابندی لگا دی ؟غالباً حکومت کو بخوبی علم ہے کہ
عوام فلموں سے منفی اثرات کو زیادہ اختیار کر لےتے ہیں جس سے معاشرے میں
برائیوں کا رجحان زیادہ ہوتا جا رہا ہے مگر اس طرح ولن کے آلہ کار پر
پابندی لگانے سے برائیاں کم تو کبھی نہیں ہوں گی بلکہ معاشرے میں زیادہ
سرایت کر ے گی یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب برائی کو جڑ سے اکھاڑا جائے ۔اندھی
تقلید کو دیکھتے ہوئے یہ قول یاد آجاتاہے جو آج سے بہت سال پہلے بھارت کی
اطالوی بہوسونیا گاندھی نے پاک بھارت کشیدگی پر کہا تھا کہ بھارتیوں کو
پاکستانیوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے پاکستانیوں کےلئے ہماری فلمیں اور رقص و
سرور ہی لے ڈوبے گا۔
آج میں سیکورٹی کے پیش نظر عوام پرلگائی جانے والی پابندیوں کو دیکھتا ہوں
اور ساتھ ساتھ اس پروٹوکول کو دیکھتا ہو ں جو وزیروں ، مشیروں اور انکی آل
اولاد کو دیا جاتا ہے تو مجھے یہ قصہ بہت شدت سے یاد آتا ہے:”ایک دفعہ امیر
المومنین حضرت عمر فاروقؓکسی کام سے جارہے تھے۔ ایک سیاح کوپتہ چلا کہ وہ
مسلمانوں کے امیر ہیں تو وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوابھاگا بھاگا آپ ؓ کے
پاس پہنچا اور پوچھا: آپ مسلمانوں کے امیر ہیں ؟جس پرآپ ؓ نے جواب دیا میں
مسلمانوں کا امیر نہیں انکا محافظ ہو ں ۔سیاح نے پوچھا آپ اپنے ساتھ حفاظتی
دستہ کیوں نہیں رکھتے ؟؟ تو آپ ؓ نے جواب دیا کہ عوام کا یہ کام نہیں کہ وہ
میری حفاظت کریں یہ تو میرا کام ہے کہ میں انکی حفاظت کروں “
یہ قصہ ذہن میں گردش کرتا ہے تو خیال آتا ہے کہ ہمیں کیوں ایسے امیر نہ ملے
جو اپنی نہیں ہماری حفاظت کرتے جو آزاد پھرتے جن کے پروٹوکول کے لئے تیس
چالیس گاڑیا ں نہ ہوتیں جن کےلئے ٹریفک گھنٹوں ساکت نہ رہتی ۔یہ خواہش میں
دل و دماغ میں تب انگڑائیاں لیتی ہے کہ میرے آباﺅاجدا د نے قربانیاں ایسے
ہی ملک کےلئے دی تھی نہ کہ ایسا ملک کہ جس میں سیکورٹی کے پیش نظر عوام کا
جینا دوبھر کر دیا جائے۔ |