اسرائیل اپنے آپ کو دنیا کی
دسویں فوجی قوت سمجھتا ہے اور اس حیثیت سے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا گھمنڈ
اس کے پراگندہ ذہن میں سمایا ہوا ہے لیکن فلسطینی میزائلوں نے آٹھ روزہ
جنگ کے دوران صہیونی فوج کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ۔ہوا یوں کہ اسرائیل
کے مقبول عبرانی چینل ۲ کا ایک نامہ نگار براہِ راست خبر رسانی کرتے
ہوئےاپنے عقب میں نصب آئرن ڈوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی دفاعی صلاحیت
کے گن گارہا تھا اسی دوران خطرے کے سائرن بج اٹھے اور اگلے لمحے آئرن ڈوم
بیٹری سے راکٹ شکن میزائل فائر ہوا لیکن شومئی قسمت وہ فلسطینی راکٹ کو فضا
میں روکنے کے بجائے زمین بوس ہو گیا اور یہ مناظر یکلخت سارے عالم میں
ہوگئے۔صہیونی نامہ نگار نے اس مضحکہ خیز صورتحال میں اپنی خجالت مٹانے کے
لئے اس ناکامی کو تکنیکی خرابی کا نام دے دیا۔ جو کچھ آئرن ڈوم کے ساتھ اس
وقت ہوا وہی معاملہ اسرائیل کی حالیہ مہم کے ساتھ بھی ہوا کہ گئے تو تھے
نماز بخشوانے اوپر سے روزے گلے پڑ گئے۔
اسرائیل کی فوجی مہم کے تین مقاصد تھے ۔ اول تو اپنی فوجی برتری کا سکہ
جمانا جوآ ہنی گنبدکے بجائے روئی گالہ نظر آئی بلکہ اس کے برعکس حماس نے
تل ابیب اور یروشلم تک پہنچ کر اپنا بول بالا کردیا ۔ دوسرا مقصد تھا حماس
کی حربی طاقت کا خاتمہ کرنا تھاجس میں وہ بھی وہ بری طرح ناکام رہا اس لئے
کہ آخری دن بھی حماس نے ۴۰ راکٹ داغے اس سے قبل منگل کو۲۰۰ گولے پھینکے
اور اس میں سے صرف پچاس کو اسرائیل روکنے میں کامیاب ہوسکا۔اس سےثابت ہوگیا
کہ کروڈوں کی لاگت سے تیار کئے جانے والے آہنی گنبد(آئرن ڈوم) میں اب بھی
بے شمار سوراخ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ پانچ
یہودیوں کی ہلاکت کے علاوہ ۱۲۰ لوگ ان حملوں سے زخمی ہوئےاور جو مالی نقصان
ہوا سو ہوا ۔جنگ سے قبل یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ کامیابی کی شرح۹۰ فیصد ہے
ابتدائے جنگ میں بتایا گیا صرف ۵۴ فیصد اور اواخر میں اعتراف کیا گیا کہ یہ
صرف ۲۵ فیصد ہے گویا دشمنوں کی ہوا اکھاڑنے والوں کی اپنی ہوا اکھڑ گئی
۔تیسرا مقصدفلسطینیوں کے حوصلے پست کرنا تھالیکن جس پامردی اور استقامت کا
مظاہرہ غزہ کے عوام نے کیا اس سے مغربی کنارے میں رہنے والے عافیت پسند
فلسطینیوں کے حوصلے بھی بلند ہو گئے ہیں اوریہ ثابت ہو گیا کہ ؎
یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
نہ ٹک سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں
یہودی ساری دنیا میں اپنی زر پرستی اور کنجوسی کیلئے مشہور ہیں۔ غزہ پر
اسرائیل کی جنگ کے باعث فلسطینیوں کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان تو ہوا
لیکن یہ جنگ خود صہیونی ریاست کی معاشی تباہی کا بھی موجب بنی۔ اسرائیل کے
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غزہ جنگ کی وجہ سے ملکی معیشت کو یومیہ
چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہو ا۔رپورٹس کے مطابق ان میں سے نصف رقم
فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کے دفاع کے لیے نصب کردہ میزائل شیلڈ پر خرچ ہوئی
۔مجموعی طور پر ان کی تنصیب میں ۲۰۰ ملین ڈالرخرچ ہوئے ہیں جبکہ القسام
بریگیڈ کے مقامی سطح پر تیارکردہ راکٹوں پر تقریباً سو ڈالر کی لاگت آتی
ہے۔ مزاحمت کاروں کے پاس سب سے مہنگا راکٹ گراڈ ہے جو تقریبا گیارہ سو
ڈالرمیں تیار ہوتا ہے جبکہ اسرائیل کو انہیں تباہ کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر
خرچ کرنا پڑ تے ہیں۔ غزہ میں حماس کے خلاف تازہ جنگ میں اسرائیل نے چالیس
ہزار ریزرو فوج طلب کر رکھی تھی جس پر یومیہ فوج کو سات لاکھ ساٹھ ہزار
ڈالر پھونکنا پڑ رہے تھے۔ اس کے علاوہ ڈرون دیگرجنگی جہاز پر فی گھنٹہ۱۵۰۰
ڈالر کے اخراجات ہیں۔ اس درمیان مصر نے ترکی سے عنقا نامی دس ڈرون طیارے
خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس بار ہمارا اسلحہ کسی دشمن کے کارخانے سے نہیں
بلکہ اپنے بھائی کے گھر سے آئیگااور کوئی بعید نہیں کہ اگلی جنگ میں
اسرائیل کا الفجر کے ساتھ عنقا سے بھی پالا پڑے۔
حماس کا اولین مقصد اپنی فوج کو مجتمع رکھنا تھا تاکہ وہ حملوں کا سلسلہ
جاری رکھ سکیں اور ایسا ہی ہوا گوکہ اسرائیل کی جانب سے ۱۵۰۰ حملے ہوئے
لیکن حماس نے بھی ۱۴۰۰ راکٹ داغے گئے ۔عوام کا حوصلہ بھی بلند رکھا گیا اور
جنوبی اسرائیل سے جس طرح یہودی بھاگ کھڑے ہوئے ویسا منظر غزہ میں نظر نہیں
آیا۔ اسرائیل کے بری حملے کی دھمکی کے باوجودلوگ اپنی جگہ جمے رہے انہوں
نے ماضی کی طرح اس بار صحرائے سینا کی جانب کوچ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا
۔حماس نے جنگ بندی کی جو شرائط لگائی تھیں وہ سب کی سب تسلیم کی گئیں اول
تو چونکہ جنگ کی ابتدا اسرائیل کی جانب سےہوئی ہے اس لئے وہی جنگ بندی کی
تعمیل شروع کرے ۔بمباری اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بند ہو اور سب سے اہم غزہ
کی ناکہ بندی کا خاتمہ ہو۔ صہیونی ریاست غزہ کے شہریوں کی دوسرے علاقوں میں
آمد ورفت اور باہمی تجارتی سرگرمیوں پر پابندیاں ختم کرے ۔ اسرائیل کو
بالآخر اس شرط کے آگے بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے اور یہی اس جنگ میں فلسطینیوں
کی سب سے اہم کامیابی ہے۔ اس عظیم فتح کو حاصل کرنے کیلئے غزہ کے جیالوں
نے۱۶۴ شہداء کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
جنگ بندی کے بعد فلسطین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔حکومت نے جمعرات
کوعوامی تعطیل کا اعلان کیا تاکہ لوگ فتح کا جشن اور شہیدوں کے گھر جاکر
تعزیت کر سکیں۔ غزہ اور مغربی کنارے کی عوام نے جنگ بندی کو مجاہدین کی فتح
قرار دیتے ہوئے مزاحمت کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔ادھر شکست خوردہ
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو نے بھی جنگ بندی کے معاہدے کو امریکی
صدر براک اوباما سے مشاورت کے بعدتسلیم کرنے کااعلان کیا اور کہا کہ ہم
مصری سفارتکاری کو ایک اور موقع دے رہے ہیں ۔ نتن یاہو کے انداز سے ایسا
محسوس ہو رہا تھا گویا وہ کوئی زہر کا گھونٹ پی رہا ہے اس لئے کہ جن شرائط
کو قبول کرنے پر وہ مجبور ہوا ہے اس کے چلتے آئندہ انتخاب میں اس کی
کامیابی کے امکانات مفقود ہوگئے ہیں ۔ کہاں تو ۶ کروڈ کی آبادی والے ایران
سے جنگ کا خواب اور کہاں ۱۶ لاکھ کی آبادی والی محصور ریاست غزہ کے ذریعہ
چٹائی گئی دھول ایسے ذلیل و خوار رہنما کو اسرائیلی دوبارہ منتخب کرنے کی
حماقت نہیں کریں گے ۔ اسرائیل حزب اختلاف کے رہنما شاؤل مفاذ نے تسلیم کیا
کہ اس موقع پر جنگ بندی میں حماس کا پلہ بھاری ہے ۔ ان کی مزاحمت مضبوط
ہوئی ہے اور ہم کمزور پڑے ہیں۔
جنگ بندی سے قبل نہایت دلچسپ حالات رونما ہورہے تھے ۔ دس اسلامی ممالک کے
وزراء تمام تر خطرات کے باوجودغزہ کی عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کاا
ظہارکرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے تھے جبکہ اسرائیل کی جانب اس کی حلیفوں میں
سے کسی نےرخ نہیں کیا تھا ۔ یوروپی ممالک اسرائیل کو دفاع کا حق ہے کا نعرہ
لگا نے پر اکتفا کرنے کے بجائےغزہ میں شہری ہلاکتوں کی مذمت بھی کررہے تھے
۔ اس صورتحال میں جنگ بندی کی ساری تفصیلات طہ ہوجانے کے بعد امریکی خارجہ
سکریٹری ہیلری کلنٹن اپنے دیرینہ رفیق کو پرسہ دینے کی غرض سےتل اببیب
پہنچیں اوراپنی مکمل حمایت کا اعلان کیا ۔ا س بیچ دو اور واقعات رونما ہوئے
۔ جنگ بندی کےاعلان سے چند گھنٹے قبل تل ابیب کی ایک بس میں دھماکے کے
نتیجے میں سترہ یہودی زخمی ہو گئے۔۲۰۰۶ کے بعد اسرائیل کے اندر پہلا حملہ
تھا۔ اسرائیل نے اسےعام شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملہ قرار دیا لیکن
اسرائیل جہاں فوجی تعلیم لازمی ہے اورکسی بھی شخص کو جنگ کیلئے طلب کیا
جاسکتا ہے یہ حملہ نہتے شہریوں پرنہیں بلکہ متوقع فوجیوں پر تھا ۔اسرائیل
کے اس الزام نے غزہ میں اس کی بمباری کو آپ سے آپ دہشت گردی کے زمرے میں
ڈال دیا جہاں مہلوکین کی بڑی تعداد عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے ۔اس کے
ردعمل میں اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملوں میں تیزی پیدا کردی ۔تشدد کی اس
لہرنےجنگ بندی کے امکانات بظاہرمعدوم ہوگئے تھےلیکن بس پریہ حملہ چونکہ
ممکنہ طورپر مغربی کنارے سے ہوا تھا اس لئے صہیونی دہشت زدہ ہوکرلامحالہ
جنگ بندی کیلئے آمادہ ہوگئے۔ حماس نے اس کی ذمہ داری تو قبول نہیں کی مگر
اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیلی بربریت کا فطری ردعمل ہے ۔ چونکہ
عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں
کررہی ہے اس لئےفلسطینی تنظیمیں اپنے عوام کے تحفظ کی خاطر سارے ذرائع
اختیار کریں گے ۔ بقول مظفر حنفی ؎
چاہتا يہ ہوں کہ دنيا ظلم کو پہچان جائے
خواہ اس کرب و بلا کے معرکے ميں جان جائے
اس واقعہ سے قبل دارالحکومت تل ابیب میں ایک یہودی نے امریکی سفارت خانے کے
ایک سکیورٹی محافظ کو چاقو گھونپ دیا ہے جبکہ دوسرے محافظوں کی فائرنگ کے
بعد اس حملہ آور یہودی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کی عمر اکتالیس ہے اور
اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ مجرمانہ ریکارڈ کا حامل ہے۔ مشتبہ حملہ
آور منگل کو دن گیارہ بجے کے قریب امریکی سفارت خانے کی جانب چاقو اور خنجر
سے مسلح ہو کر آیا۔ اس نے ایک سکیورٹی گارڈ پر چاقو سے حملہ کردیا اور اس
کی ٹانگ پر زخم آئے ۔اس کے بعد محافظین نے حملہ آور پر فائرنگ کردی۔ترجمان
کے مطابق وہ عرب نہیں ہےاور تل ابیب کے جنوب میں واقع قصبے بیت یام رہتا
ہے۔ اس حملہ کی محرک بظاہریہودیوں کا امریکہ سے وابستہ توقعات کو پورا نہ
ہونا ہو سکتا ہے ۔ پولیس نے حملہ آور کو حراست میں لے لیااور تفتیش شروع
کردی جسے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر ہنوز صیغہ ٔراز میں رکھا گیا گیا ہے۔
ان واقعات نے جنگ بندی کے نفاذ میں یقیناً مثبت کردار ادا کیا ہے۔
ہیلری کلنٹن نے تل ابیب کے بعد راملاّ پہونچیں اور اپنے پٹھو محمود عباس سے
ملاقات کی جسے ان حالات نے پوری طرح حاشیہ پر پہنچا دیا تھا ۔ لوگ سلمان
خورشید کی طرح جو ہندوستان کا ایک مسلم وزیرخارجہ ہے یہ بھول ہی گئے تھے کہ
محمود عباس نام کا کوئی فلسطینی رہنما بھی پایا جاتا ہے اور نازک وقت میں
قوم کے کسی کام آسکتا ہے ۔ ساری دنیا کی نگاہیں جلاوطن رہنماخالد مشعل پر
لگی ہوئی تھیں جنھیں کل تک دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا ۔ راندۂ درگاہ
محمود عباس سے ملاقات کرکے ہیلری نے انہیں اقوام متحدہ میں فلسطین کیلئے
غیر رکن درجہ کی تجویز واپس لینے کیلئے کہا اور سمجھایا کہ ایسا کرنے سے
امن کی پیش ر فت رک جائیگی لیکن نام نہاد امن پسند محمود عباس نے اسے مسترد
کردیا اس لئے کہ اب اپنی ڈوبتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے اس کے پاس یہی ایک
سہارا ہے لیکن یہ محمود عباس کی غلط فہمی ہے کہ اس کے سہارے ان کی نیا پار
لگ جائیگی ۔ فلسطینی عوام یہ دیکھ چکے ہیں مغرب کے ان سہاروں کی حیثیت مکڑی
کے جال سے زیادہ نہیں ہے ۔ ایک ہوا کا جھونکا اسے اکھاڑ پھینکنے کیلئے کافی
ہوتا ہے ۔اسرائیلی اہلکار مغربی کنارے میں دندناتے پھرتے ہیں اور جب چاہتے
ہیں جسے چاہتے ہیں گرفتار کرکے لے جاتے ہیں جبکہ اسرائیل کی فوج اپنے سارے
لاؤلشکر کے ساتھ بھی غزہ میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرسکتی ۔اس لئے اگر
عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو حماس کی مانند دوسروں پر انحصار کرنے
کے بجائے اپنے آپ کو مضبوط بنانا پڑے گا اور یہ عیش پسند بدعنوان الفتح کی
قیادت کے بس کی بات نہیں ہے ۔
حماس کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہے اس لئے خالد مشعل نے عرب ممالک سے
فلسطینیوں کے فوجی معاونت کا مطالبہ کیا ہے۔ کتابِ الٰہی میں دشمنوں پر
اپنارعب قائم رکھنے کی خاطر جنگی گھوڑوں کو تیار رکھنے کی تلقین کا یہی
تقاضہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اس وقت ایک ایسے قومی سیاسی
پروگرام کی ضرورت ہے جو مزاحمت کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ گویا فلسطین کے
مسئلہ کا حل فی الحال مصالحت میں نہیں بلکہ مزاحمت میں مضمر ہے۔ انہوں نے
ذرائع ابلاغ کے سامنے اعتراف کیا کہ جنگ بندی معاہدے میں کامیاب ہونے کا یہ
مطلب نہیں ہےکہ فلسطینیوں کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں بلکہ
اسرائیل سے فائر بندی کے بعد اگلے مرحلے میں ہم قومی وحدت اور آپسی مصالحت
کا سفر شروع کریں گے لیکن میم اتحاد اور مصالحت کی بنیاد مسلح مزاحمت پر
ہونی ہوگی۔ یہی وہ مومنانہ فراست ہے جس سے باطل کے ایوانوں میں لرزہ طاری
ہوتا ہے ۔ انہوں نے یاددلایا کہ اسرائیل تمام تر جارحیت کے باوجود غزہ میں
مزاحمتی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنےمیں ناکام رہا ہے۔ اس سے یہ واضح ہو گیا
ہے کہ صہیونی ریاست میں فلسطینیوں کی قوت مزاحمت کو کچلنے کی صلاحیت نہیں
ہے۔ آٹھ روزہ جارحیت کے بعد اسرائیل کاہماری شرائط کو تسلیم کرنادشمن کی
شکست اور ہماری فتح ہے۔ اس اعلان کے وقت خالد مشعل کے ساتھ فلسطین کی عسکری
تنظیم اسلامی جہاد کے مرکزی رہنما رمضان شلح بھی موجود تھے جنھوں نے اعلان
کیا کہ وہ جنگ بندی سمجھوتے کی پابندی اسی وقت تک کریں گے جب تک اسرائیل اس
کا پابندہو گا۔ اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں ہمیں
جوابی کارروائی کا حق ہو گا۔بقول فراز ؎
جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا
بلا سے شہر میں میرا لہو بہا سو بہا
شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز
میں زندگی سے نبرد آزما رہا سو رہا
نتن یاہو نے ہیلری کلنٹن سے کہا کہ بینڈ ایڈ کے ذریعہ اگر مسئلہ حل کرنے کی
کوشش جائیگی تو ایک نئے تشدد کا دور پھر شروع ہو جائیگا اس لئے طویل المدتی
حل ضروری ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طویل المدتی حل کیا ہے ؟ اس سوال
کا جواب عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی نے غزہ کے اپنے یکجہتی دورے سے قبل
دیا ۔ انہوں نے کہاعرب اور اسلامی دنیا کا اصل مسئلہ نا جنگ معاہدہ یاکشت
خون کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے سارے دوست ممالک کو چاہئے کہ اسرائیل کے
غاصبانہ قبضہ کے خاتمے پر توجہ دیں ۔ یقیناً یہی اصل مسئلہ ہے اور اس پر
حماس کے سربراہ خالد مشعل نے قطر کے امیر، ترکی کے وزیر اعظم اور مصر کے
صدر کے درمیان چار فریقی مذاکرات بھی ضرور گفتگو کی ہوگی۔
ایک طرف جہاں مصر کے عوام اور دیگرمسلم وزرائے خارجہ اپنے مظلوم بھائیوں کے
ساتھ شانہ بشانہ کھڑے نظر آرہے تھے وہیں دوسری جانب امریکی یہودی اسرائیل
سے فرار ہونے کا منصوبہ بنا رہے تھے ۔ ایک خبر کے مطابق امریکا نے بڑھتی
ہوئی فلسطین ۔ اسرائیل کشیدگی کے باعث اپنے شہریوں کو علاقے سے بہ حفاظت
نکالنے کے لئے تین جنگی بحری جہاز اسرائیل روانہ کر دیے تھے۔ 'سی این این'
نے وزارت دفاع پینٹاگون کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل سے امریکی شہریوں
کے فوری انخلاء کا امکان نہیں ہے البتہ بحری جہازوں کی روانگی احتیاطی
نوعیت کی ہے۔پینٹاگون نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ یہ جنگی جہازکشیدگی میں
اضافے کی صورت میں تل ابیب کو فوجی مدد دیں گے۔ اس کے مطابق ان بحری جہازوں
کی روانگی کا مقصد صرف امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔اسی کے ساتھ
اسرائیل میں موجود امریکی باشندوں کو محتاط رہنے اور کشیدگی کی صورت میں
ملک چھوڑنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی تھیں۔اس خبر میں ایک تو اسرائیلی اور
امریکی شہریوں کی تخصیص اور انہیں اسرائیل سے نکالنے کی تیاری قرآنِ مجید
میں بیان کردہ یہودیوں کی موت سے خوف کھانے والی نفسیات کی غماز ہے اور
مسلمانوں کا جذبہ جہادغزوۂ احزاب کے اس منظر کی یاد دلاتا ہے کہ ؎
اور سچے مومنوں (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو
دیکھا تو پکار اٹھے کہ ‘‘یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے
وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی‘‘ اِس واقعہ نے
اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ایمان لانے والوں میں
ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان
میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے
اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔(الاحزاب) |