سرکارِ دوعالم ﷺ کاارشادِ عالی
شان ہے کہ "ایک شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی
باتوں کو بلاتحقیق بیان کردے ۔"(مسلم شریف جلد اول صفحہ ۸)
ہمارے آقا علیہ الصلاۃ والتسلیم کے اس فرمانِ مبارک سے ہمیں یہ ہدایت مل
رہی ہے کہ ہم محض سنی سنائی باتوں پر اعتبار نہ کریں بل کہ اللہ تعالیٰ کے
بخشے ہوئے عقل و شعور کااستعمال کرتے ہوئے اس کی تحقیق کریں ۔ یہ حکم ان کے
لیے ہے جو اللہ و رسول جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں ۔
لیکن جن کا مقصدِ حیات اللہ و رسول جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں
کودور کرنا ہے انھیں قرآن و حدیث کی آیتوں سے کیامطلب ؟؟ وہ ہر جائز و
ناجائز حربوں کااستعمال کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی سعیِ نامشکور کرتے
رہتے ہیں۔ ایک مومن کو صراطِ مستقیم سے ہٹانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ
اللہ و رسول جل و علا وصلی اللہ علیہ وسلم اور صالحین کے دامن سے انھیں دور
کردیاجائے۔ آج اسلام دشمن طاقتیں یہی کررہی ہیں۔ نہ صرف آج بل کہ
ابتداےاسلام سے ہی دشمنانِ اسلام اللہ کی برگزیدہ شخصیتوں کے متعلق فضول
اور بے بنیاد الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ انبیا و مرسلین علیہم السلام کو
بھی ظالموں نے نہیں بخشا اور نبیوں اور رسولوں کے بعد بالخصوص ان معظم و
محترم ہستیوں پر بھی کیچڑ اچھالتے رہے جنھوں نے دین اسلام اور رسولِ کونین
ﷺ کے عشق کوعام کیا۔ اس زمانے میں بھی یہی کیاجارہا ہے ۔ مجدداسلام امام
احمدرضا بریلوی قدس سرہٗ کی شخصیت پر باطل اور بد عقیدہ فرقے ، اسلام دشمن
طاقتوں سے ساز باز کرکے ایسے ایسے الزامات عائد کرتے آرہے ہیں جنھیں سُن کر
تعجب بھی متعجب ہوتا ہوگا ۔ شکایت ان سے نہیں جوایسی مذموم حرکتیں کررہے
ہیں ۔ بل کہ گِلہ ان سےہے جو بِلاتحقیق بس سنی سنائی باتوں پر یقین کر
بیٹھتے ہیں ۔ اسلام دشمن طاقتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی چلی جارہی ہیں ۔
آج دیکھنے کو تو ہم کروڑوں ہیں لیکن ہمیں اندر ہی اندر کھوکھلاکرکے رکھ دیا
گیا ہے ۔ حقیقت میں جو دین مصطفیٰ ﷺ کے پاسبان ہیں ان سےمسلم قوم کو دور
کیا جارہا ہے اور جن کے دامن رسولِ پاک ﷺ کی توہین جیسے بھیانک ترین جرم سے
داغ دار ہیں ان کی عزت و عظمت لوگوں کےدلوں میں بٹھائی جارہی ہے ۔
آج قومِ مسلم کو نفسیاتی مریض بناکر رکھ دیا گیا ہے وہ محض سنی سنائی باتوں
پر اعتبار کرنے لگتی ہے۔ آج ماحول ایسا ہوگیاہے کہ ایک منظم سازش کے تحت
اللہ و رسول جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم کے وفاداروں پر من گھڑت اور بے
ہودہ الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
ہم اپنے اس مضمون میں رسولِ کونین ﷺ کے عاشق صادق مجدداسلام امام احمدرضا
پر باطل فرقوں کی طرف سے لگائے گئے اس الزام کا حقائق اور دلائل سے پوسٹ
مارٹم کریں گے کہ مرزا غلام عبدالقادر بیگ جنھوں نے امام احمد رضا کو
ابتدائی چند کتابیں پڑھائیں وہ جھوٹے مدعیِ نبوت غلام احمد قادیانی کذاب کے
بھائی نہ تھے، بلکہ اعلیٰ حضرت کے استاذِ محترم اور قادیانی کذاب کا بھائی
دو مختلف شخصیتیں تھیں۔ صرف نام کی مناسبت سے مخالفین نے پروپیگنڈہ شروع
کردیا کہ امام احمد رضا نے غلام احمد قادیانی کے بھائی سے تعلیم حاصل کی۔
اس طرح کی مذموم حرکتیں کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ شبِ ظلمتِ اعتراضات
چھٹتے وقت ہی کتنا لگتا ہے جب حقائق آشکار ہوجائیں گے تو ان کا چہرہ
اورزیادہ روشن و تابناک ہوجائے گا ان کا قد اور بلند ہوجائے گا اورہمارا
حسد، کینہ اوردروغ وتعصب کی بنیادوں پر قائم کیا ہوا قلعہ خود بخود تارِ
عنکبوت کی طرح بکھر کر رہ جائے گا ۔
آئیے سب سے پہلے امام احمد رضا کی ابتدائی چند کتابوں کے استاذ مرزاغلام
عبدالقادر بیگ کے متعلق مرزا عبدالوحید بیگ بریلوی سے رجوع ہوتے ہیں ۔ مرزا
عبدالوحید بیگ بریلوی اپنے دادا جان کے بارے میں ماہ نامہ حجاز جدید دہلی
کے شمارہ اکتوبر 1988ء کے صفحہ 67اور 68پر رقم طراز ہیں :" مولانا مرزا
عبدالقادر بیگ بریلوی کی ولادتِ مبارکہ یکم محرمالحرام 1243ھ بمطابق 25
جولائی 1827ء کو ہوئی ، آپ متقی ، پرہیزگار اور مشہور و معروف عالم تھے۔
آپ بریلی میں رہنے کے علاوہ کچھ دنوں امرتلہ لین کلکتہ میں مقیم رہے آپ کی
وفات یکم محرم الحرام 1336ھ بمطابق 28 اکتوبر 1917ء میں 90 سال کی عمر میں
ہوئی آپ حسین باغ محلہ باقر گنج بریلی میں مدفون ہیں۔"
بنا کسی تبصرے کے اب آئیے قادیانی کذاب کے بھائی مرزا غلام قادر بیگ کے
متعلق شعبۂ تاریخِ احمدیہ ربوہ(پاکستان ) کے پروفیسر دوست محمد شاہد کے
ایک مکتوب سے جان کاری حاصل کرتے ہیں جو23دسمبر 1983ء کو پروفیسر محمد
مسعود احمد مجددی نقش بندی کے توسط سے مولانا عبدالحکیم شرف قادری کو ملا
اور ہندوپاک کے مختلف رسائل و جرائد اور کتابوں میں بھی شائع ہوا۔ پروفیسر
محمد مسعود احمد مجددی نقش بندی صاحب کومعلومات فراہم کرتے ہوئے پروفیسر
دوست محمد شاہد لکھتے ہیں : " بڑے بھائی غلام قادر صاحب قادیان کے معزول
تھانیدار تھے، آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعواے مسیحیت(1891ء/1309ھ)
سے 8 سال قبل 1883ء میں انتقال کیا ۔ آپ خود یا آپ کے بھائی بانس بریلی ،
راے بریلی یا کلکتہ میں مقیم نہیں رہے۔"
پروفیسر دوست محمد شاہد کے علاوہ معروف مورخ ابوالقاسم رفیق دلاوری اپنی
کتاب"رئیس قادیان" کی پہلی جلد کے صفحہ 11اور 14پر لکھتے ہیں کہ : " مرزاے
قادیانی کا بھائی مرزا غلام قادر بیگ دنیا نگر قادیان کا معزول تھانیدار
تھا ۔ جو پچپن برس کی عمر میں فوت ہوا۔ جب کہ امام احمدرضا کے بچپن کے چند
کتابوں کے استاذ مرزا غلام قادر بیگ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ پہلے بریلی میں
رہے پھر کلکتہ گئے اور بریلی سے بذریعۂ استفتا رابطہ قائم رکھتے تھے۔"
ابوالقاسم رفیق دلاوری کے ساتھ ساتھ آئیے مزید جان کاری حاصل کرنے کے لیے
اعلیٰ حضرت کے سوانح نگار مولانا سیدظفرالدین بہاری ملک العلماءسے بھی ہم
رجوع ہوتے ہیں ۔ ملک العلماءمولانا سیدظفرالدین بہاری اس بارے میں معلومات
فراہم کرتے ہوئے "حیاتِ اعلیٰ حضرت" کی پہلی جلد کے صفحہ 32پر رقم طراز ہیں
:" میں نے مرزا صاحب مرحوم و مغفور کو دیکھا تھا، گورا چٹا رنگ تقریباً اسی
سال داڑھی ، سر کے بال ایک ایک کرکے سفید ، عمامہ باندھے رہتے جب کبھی
اعلیٰ حضرت کے پاس تشریف لاتے اعلیٰ حضرت بہت ہی عزت وتکریم کے ساتھ پیش
آتے ، ایک زمانہ میں جناب مرزا صاحب کا قیام کلکتہ امرتلہ لین میں تھا وہاں
سے اکثر سوالاتِ جواب طلب بھیجا کرتے ۔ فتاویٰ میں اکثر استفتا ان کے ہیں
انھیں کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے رسالۂ مبارکہ "تجلی الیقین
بان نبینا سید المرسلین" (1877ء/1305ھ) تحریر فرمایا تھا۔"
قارئین کرام! ان تمام تاریخی حقائق و شواہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے غور
کیجیے آپ کو خود بخود یقین ہوجائے گا کہ مرزا غلام احمدقادیانی کذاب کا
بھائی اور مجدداسلام امام احمدرضا کے استاذ دو الگ الگ شخصیتیں ہیں ۔
قادیانی کذاب کا بھائی 55برس کی عمر میں فوت ہوا جبکہ اعلیٰ حضرت کے استاذ
80 برس کی عمر میں بھی حیات تھے۔ وہ 1883ء میں فوت ہوا جب کہ اعلیٰ حضرت کے
استاذ اس کے بعد بھی 34 سال زندہ رہے اور 1917ء میں انتقال فرمایا ۔
قادیانی کذاب کا بھائی کبھی بانس بریلی ، راے بریلی اور کلکتہ میں مقیم
نہیں رہا جب کہ اعلیٰ حضرت کے استاذ نے بریلی میں اعلیٰ حضرت کو ابتدائی
کتابیں پڑھائیں اور کلکتہ میں بھی قیام فرمایا اس کے بعد پھر بریلی شریف
تشریف لائے اور بریلی ہی میں مدفون ہیں۔
ان تمام تاریخی حقائق و شواہد کے بعد یہ کہنے کا کوئی جواز ہی نہیں کہ
مجدداسلام امام احمد رضا کے استاذ مرزا غلام احمدقادیانی کذاب کے بڑے بھائی
تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نفس کی شرارت سے محفوظ فرمائے اور حق قبول کرنے کی
توفیق عطا فرمائے(آمین بجاہ النبی الامین ﷺ) |