دنیابھر میں پارلیمنٹ یاکانگرس
کیلئے ہونے والے جنرل الیکشن کی تیاریاں امیدوار تقریبا سارا سال جاری
رکھتے ہیں اور اپنے حلقہ کی عوام کے دکھ درد و خوشی میں شامل ہوتے نظر آتے
ہیں۔ جس سے عوام کو احساس ہوتا ہے کہ یہ واقعی ہی ہماری نمائندگی اعلٰی
ایوانوںمیں کر سکتے ہیں۔ اور جب عوامی نمائیندے عوام سے ہوتے ہیںتو ان کی
رہائش عوام کے ہجوم کے پاس ہی ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے وہ اپنے حلقہ کی عوام
کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے دن رات کوشاں نظر آتے ہیں۔اس کی کوشش ہوتی ہے
کہ وہ اپنے علاقہ میں امن وامان کی فضا قائم رکھے جس کیلئے وہ بہترین
انسپکٹر پولیس کی تعیناتی کیلئے اپنے صوبے کے حکمران کو درخواست دیتا ہے ۔اس
کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صحت کی جدید و ترقی یافتہ سہولتوں سے فائدہ حاصل
کرسکئے اس مقصدکے حصول کیلئے وہ اپنے علاقہ میں بہترین ہسپتال کا قیام عمل
میں لاتا ہے اور وہاں پر اعلٰی تعلیم یافتہ ۔۔قابل۔۔رحم دل۔۔ہمدرد۔۔مخلض
ڈاکٹروں کی تعیناتی کیلئے کوشاںنظر آتا ہے۔کیونکہ رحم دل ڈاکٹر ہی مریض کی
تکلیف کو سمجھ سکتا ہے اور اس کے علاج پر توجہ دیتا ہے ناکہ مریض کی جیبوں
پر۔
ترقی یافتہ ممالک وترقی یافتہ سوچ کے حامل ملکوں میں عوامی نمائیندے اپنے
بچوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم ڈلواتے ہیں تاکہ وہ عوام میں رہ کر عوام
کی ترجمانی کی تربیت حاصل کرسکئے اور عوام کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھئے
۔اب ظاہری بات ہے جب حلقہ کے لیڈر کی اولاد سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل
کرئے گئی تو اساتذہ بھی وقت پر سکول حاضر ہونگے اور اعلیٰ تربیت کے حامل
اساتذہ ہی سرکاری سکو لوں میں تعینات ہونگے۔قارئین دوسرے کالم نگاروں کی
طرح میں بھی پاکستان کو ترقی پذیر ملک تصور کرتا چلاآرہا ہو ۔کیونکہ
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں سوائے لاہور کے کسی بھی شہر کی حالت
زار دیکھ کر دل خون کے آنسوںرونے لگتا ہے کہ ہم قیام پاکستان سے کن سیاست
دانوں کے گلوں میں اپنی نمائندگی کا ہار پہناتے چلے آرہے ہیں ۔
یہاں اگر ہسپتال ہے تو ڈاکٹر نہیں اور اگر خوش قسمتی سے ڈاکٹرمیسر آجائے تو
ادوایات میسر نہیں آتی اور اگر ادوایات میسر آجائے تو لیبارٹری موجود نہیں
ہوتی اور اگر لیبارٹری بھی بن جائے تو لیب کا سامان غائب ہو جاتا ہے اور
اگر لیب کا سامان بھی مل جائے تو بجلی چلی جاتی ہے اور اگر بجلی کی سہولت
حاصل کرنے کے لیے جنریٹر میسر آ جائے تو پٹرول نہیں ملتا۔
یہی حال سرکاری سکولوں کا ہے جہاں سکول ہے وہاں اساتذہ نہیں اور جہاں
اساتذہ ہے وہاں کلاس روم نہیں اور جہاں کلاس روم ہے وہاں میزکرسی نہیں اور
جہاں میز کرسی موجود ہے وہاں کتابیں موجود نہیں۔ جہاں کتابیں ہے وہاں
گراﺅنڈ نہیں، جہاںگراﺅنڈ ہے وہاں کھیلیں نہیں ہوتی۔
قارئین اگر غیر جانبداری سے تجربہ کیا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ پاکستان کی
بدحال کرپشن کا ذمہ دار ہمارے حلقہ کے نمائندے ہیں جو صرف الیکشن سے
دویاتین ماہ پہلے ایک کرایہ کی کھوٹھی لے کر عوام کی نمائندگی کا دعویٰ
کرنے چلے آتے ہیں اور منتخب ہوتے ہی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ واپس لاہور یا
اسلام آبادکے پوش علاقوں میں واقع اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔اب ان کو کیا
فکر کہ ان کے حلقہ کی عوام کن مسائل کا شکار ہے اور وہ دن رات اللہ کے حضور
کیا دعائیں کرتے ہیں۔بس حکمرانوں کو اتنا پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے بچے ملک کے
بہترین سکولوں ،کالجوں،یونیورسیٹوںوٹیوشن سنٹروں پر تعلیم حاصل کرئے۔جہاں
سے پڑھنے کے بعد وہ امریکہ وبرطانیہ کے انگریزوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے قباحت
محسوس نہ کرئے۔
یہی حال صحت کا ہوتا ہے۔حکمرانوں کے بچے وفیملی عام طور پر پاکستان میں
علاج کروانا پسند نہیں کرتے اور اگر ان کو مجبوری میں چیک آپ کروانا پر
جائے تو وہ پاکستان کے بہترین پرائیوٹ ہسپتال کا انتخاب کرتے نظر آتے ہیں ۔
اگر آپ ان کا لائف سٹائل دیکھے جو امریکہ۔۔برطانیہ۔۔
آسٹریلیا۔۔جاپان۔۔کینیڈا۔۔یورپ سے ہمارے اوپر حکمرانی کرنے آتے ہیںتو آپ
حیران و پریشان ہوجائے گئے ۔ کہ یہ کس طرح کرپشن کی کمائی سے بیرون ملک عیش
وعشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔
راقم سپریم کورٹ آف پاکستان کو سلام پیش کرتاہے جنہوں نے ہمارے سروں سے
بیرونی ملک سے امپورٹیڈسیاست دانوں سے نجات ڈالوائی،اور اب ہمیں اپنے حلقہ
سے تو نہیں بلکہ اپنے ملک کے شہری ضرور ملے گئے جو ہمارے ملک کی لوٹی ہوئی
رقم ہمارے ملک میں ہی صرف کر دیا کرئے گئے ۔اس طرح پاکستان کاتنزلی کی طرف
اپنے سفر کی رفتار آہستہ ہوجائے گئی۔
قارئین اگر ہم پاکستان میں ترقی کی منازل طے کرنا چایتے ہیں اور اپنے ملک
سے کرپشن کے ناسور کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں چاہے آئیندہ آنے والے تمام
الیکشن میں صرف اس آدمی کو ووٹ دے جو مستقلی طور پر ہمارے شہر میں رہتا
ہواور باآسانی میسر ہو۔تاکہ اس کے آگے جا کر اپنے شہر کی ترقی کا رونا رویا
جا سکئے۔چلے سارے نہیں کچھ مطالبات توضرورمان لیے جائے گئے ۔ |