مسائل ترقی یافتہ٬ وسائل ترقی پذیر

آج کا انسان سوچوں کے سمندر میں ڈوبتا ‘ہچکولے کھاتا سطح پر آنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے لیکن ہر بار غوطہ کھا کر ہی رہ جاتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایسی سوچ یاتغیر‘ اسے سوچنے پر مجبور کررہا ہے۔ان سوچوں ،خیالوں اور مسائل میں ڈوبا یہ’’ مشینی ‘‘انسان اپنے اخراجات کو پورا کرنے میں اتنا مگن ہو چکا ہے کہ اسے اپنے بچوں کی آواز تک دور سے آتی محسوس ہوتی ہے لیکن یکدم دھماکے کی خبر اسے ان سوچوں سے بیدار کر دیتی ہے۔

خودکش دھماکوں،مہنگائی،لوڈشیڈنگ اور کرپٹ حکمرانوں کی عادی یہ قوم ہر بار یہی نعرہ لگاتی ہے کہ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘لیکن حالات گرگٹ کی طرح یکسر تبدیل ہو رہے ہیں اگر یہی حال ملک وقوم کا رہا تو ہم یہ بھی کہیں گے کہ’’ کیا ہم زندہ قوم ہیں؟‘‘۔اِن65سالوں میں اقوام ِعالم نے جدید کو جدَّت میں بدل ڈالا ہیجب کہ ہم نے عےّاش حکمران اور مقتدر طبقے کو نعمت ِخداوندی سمجھ کرخود کے مسائل کو’’ترقی یافتہ‘‘کرلیاہے۔ہم نے حکمران طبقے کی سحر انگیز تقاریر اور ٹھاٹھیں مارتے مجمع کو پاکستانی قوم کی قسمت بدلنے کا اختیار سمجھ لیا لیکن حق بات تو یہ ہے کہ یہ سب ایک ’’وطیرہ‘‘تھا،’’ڈھونگ‘‘ تھا۔

پاکستان کے مقتدر طبقے نے دین ِاسلام کو ایک ڈھال ،فرمانِ قائد ؒ کووقت کی ضرورت اور تصور ِاقبال ؒکو ہندوؤں اور انگریزوں سے چھٹکارے کے طور پر استعمال کیالیکن اُن کے افکار کو اپنانے کی ذرا برابر بھی کوشش نہیں کی ‘جو حالات آج ملک ِپاکستان کے ہیں ایسے کبھی نہ تھے۔وطنِ پاکستان کا ہر صوبہ شورش اور دنگے فساد کا مرقع بنا ہوا ہے۔خیبر تا کراچی‘جو کبھی سیاحوں کے مراکز تھے ‘آج ملک کا ایک حصہ ڈرون طیاروں کی گھن گرج بلند کرتا ہے تو دوسرا شدت پسندوں اور عسکریت پسندوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ امریکی جنگ کو اپنی جنگ کہنے والے ان سامراجی آقاؤں نے ڈالروں کے عوض پاکستانی قوم کے گلے میں دہشت گردی کا طوق ڈال دیا ہے اور دوسری طرف یہ نام نہاد آقا لندن،نیویارک اور بڑے بڑے محلوں میں آرام فرماتیہیں جب کہ عوام کی بنیادی ضروریات تو کجا ،اُن کے لیے صلہ رحمی کا جذبہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

قارئین! پاکستانی قوم نے ہر برے اور آڑے وقت میں محبت،یگانگت اور اخوت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ محبت بھرا جذبہ ورحم دلی صرف اپنوں تک ہی محدود نہیں رہیبَل کہ دوسروں کے لیے بھی باآوازبلندمدد و صدا کی پکار کی گئی ‘لیکن آج افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ (سامراجی طاقتوں) امریکہ،برطانیہ،جرمنی،فرانس اور ڈنمارک وغیرہ نے حتیٰ کہ چین نے بھی اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو بچانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کِیا‘صرف ڈالروں کی امداد سے حکمرانوں کے منہ بند کر دیے گئے۔اس امداد کے باوجود عوام ‘مسائل میں ترقی یافتہ اور وسائل میں ترقی پزیر ہوتے جارہے ہیں۔بارہا مختلف اخبارات کے کالم نگاروں اور صحافیوں نے عوام کے مسائل بیان کِیے ہیں لیکن ان مسائل پر وقتی طور پر توجہ دی جاتی ہے اور بعد میں وہی پرانا حال۔

مسائل میں’’ ترقی یافتہ ‘‘اور وسائل میں’’ ترقی پزیر‘‘ یہ قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک ملکی و ملّی وقومی سطح پر متحد ہونے کے ساتھ ساتھ خود مختاری کا تحفظ نہیں کرتی۔حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘حق اور سچ کی آواز بلند کرنا چاہیے۔پاکستان کے ترقی یافتہ حکمران طبقے نے ہمیشہ بیرون ِملک سے آنے والی امداد پر نظر جمائی رکھیں،جِس کا نقصان بیروزگاری،معاشی بحران اور نام نہاد دہشت گردی کی صورت میں اٹھانا پڑاکیوں کہ جب کسی کو بیٹھے بٹھائے امداد مل رہی ہو تو وہ انسان کا ہل اور سست ہو جاتا ہے۔اسی طرح جب بیٹھے بٹھائے امداد مل گئی توپاکستان کے بڑے بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں نے عوام کی فلاح کے لیے نئی انڈسٹری لگانے کو ترجیح دینے کی بجائے پرانی انڈسٹری پرناصِرف اکتفا کیا بل کہ مزدوروں کا خون پسینہ پینے میں ہی عافیت جانی اور اِس کانقصان غربت اور افلاس سے پسی ہوئیبے روزگارعوام اور محنت کش طبقے کو اٹھانا پڑا۔ محنت کش طبقے بشمول دفاتر میں کام کرنے والاکلیریکل سٹاف اس سے متاثر ہوا اور ان کے مسائل میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوئی جب کہ باقی ماندہ وسائل ’’کھوکھاتے‘‘ ہونے لگے۔جب ترقی کا پہیہ جام ہونے لگا تو لوگ بے روزگار ہوئے کیوں کہ سرمایہ دارہو یا صنعت کار کسی نے بھی معاشی بحران کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے اور اپنے منافع کو وہیں Fixرکھنے کے لیے محنت کش طبقے کے سر سے خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فیکٹری مالکان نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی بجائے کم تنخواہ میں زیادہ کام لینے کو ترجیح دی اور نئی بھرتیاں ختم کر دیں۔آخرکار سفید پوش طبقے کے سر سے کی گئی کمائی نے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو تو فائدہ پہنچایا لیکنغریب کے مسائل میں ترقی ہوتی گئی۔

مسائل میں ترقی کی دوسری اہم وجہ ’’جنگ‘‘ رہی‘جس میں رہی سہی کسر اس جملے نے پوری کردی کہ ’’یہ ہماری جنگ ہے‘‘۔اس جنگ کی بدولت بیرونی سرمایہکاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب برتنا شروع کردیا اور نئی انڈسٹری لگانے سے پس وپیش کرنے لگے۔بے روزگاری مزید بڑھنے لگی۔جب بے روز گاری کا پودا تناور درخت کی صورت اختیار کر گیا تو امن و امان کو جھٹکا لگا۔وارداتیں شروع ہونے لگیں۔لاء اینڈ آرڈر کی صورت بگڑنے لگی‘پھر عام آدمی سے لے کر حکمران طبقے تک کے مسائل ترقی یافتہ ہو گئے۔کسی کو روزگار کا مسئلہ،کسی کونظام سنبھالنے کا مسئلہ۔آخرکار ان تما م ترقی یافتہ مسائل سے ’’ناانصافی‘‘ کے پودے نے جنم لیا اور اس ناانصافی نے پاکستان میں ’’شِدّت پسند‘‘ کے نام سے پروان چڑھنا شروع کردیا۔انجام چاہے کچھ بھی ہو ہر شخص کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہونے کے باعث‘وسائل ترقی پزیر ہوتے چلے گئے۔لوگوں کی جمع پونجی ان مسائل کو حل کرنے میں صَرف ہونے لگی،کوئی ڈیپریشن کا شکار،کسی کو دفتر کی ٹینشن تو کسی کو اپنے عہدے بچانے کی۔ہمہ وقت اتنے مسائل بڑھ گئے کہ دوبارہ حکمران ‘امداد کے حصول کی تگ ودو کرنے لگے اور آخرکار یہ سائیکل ایک مرتبہ پھررواں دواں ہو گیا۔

قارئین! یہ جھلک صِرف اور صِرف صفحات کالے کرنے کے لیے نہیں ہے بل کہ آج عوام سمیت حکمران اور مقتدر طبقے کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔آج عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔آج فنی تعلیم،نصابی تعلیم کے فروغ کی ضرورت ہے۔کسی دن کو کسی کے نام سے منسوب کرنے یاکسی کرنسی نوٹ کو سکّے میں تبدیل کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔یہ ’’ترقی یافتہ‘‘مسائل اُس وقت حل ہوں گے جب پاکستان کا بچہ بچہ مل کر ان کے خلاف عملی اقدامات کرے گا۔
Rehman Mehmood Khan
About the Author: Rehman Mehmood Khan Read More Articles by Rehman Mehmood Khan: 38 Articles with 39356 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.