ایف ڈی آئی کسان کے حق میں مفید ہوسکتا ہے لیکن․․․

دنیا میں جوبھی معاہدے کئے جاتے ہیں وہ ’لو اور دو ‘ کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس معاہدے سے صرف اس کا نقصان ہوا ہے البتہ لو اور دو کے تناسب میں فرق ہوسکتا ہے۔ یہ اس پر منحصر کرتاہے کہ بات چیت یااس معاہدے پر کس کا دبدبہ زیادہ رہا۔کون مجبور ہوکرمعاہدہ کر رہا ہے ۔ مجبور ہوکر معاہدے کرنے والا یقینا خسارے میں ہوتا ہے لیکن فوری طور پر اسے راحت ملتی ہے گرچہ طویل عرصہ کے بعد اس کے منفی اثرات نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ خاص کر یہ معاہدہ اگر مغربی ممالک کریں تو اس میں خسارے کی زیادہ گنجائش ہوتی ہے کیوں کہ مغربی ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اس کے لئے وہ کسی انسانی اصول کو اپنے پاس پھٹکنے تک نہیں دیتے۔ان کے معاہدے پر نظر ڈالیں تو اس میں بہت کم توازن نظر آئے گا نفع کا پہلو ہمیشہ اس کے حق میں جاتا دکھائے دیتاہے۔ وہ کبھی بھی دانشورانہ املاک کو کسی کے حوالے نہیں کرتے۔ اگر وہ دس ڈالر کسی ملک میں خرچ کرتے ہیں اس سے کئی گنا کمانا چاہتے ہیں لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جن سے انہیں دوسرے ملکوں سے ممتاز کرتی ہیں اور وہ ہے ان کا معاملات میں صاف ستھرا ہونا۔ اسی صفت نے انہیں پوری دنیامیں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا ہے۔پہلے یہ صفت مسلما نوں میں ہوا کرتی تھی لیکن اس وقت مسلمان اس معاملے میں تحت الثری میں ہیں اور نہ جانے بداخلاقی اور بدمعاملگی کے معاملے میں کہاں تک جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ممالک میں مغربی ممالک کی مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں اور اس کے بارے میں یہ بھی طے ہوتا ہے کہ وہ معیاری ہوگا۔ جب کہ دیسی تحریک کو ہوا دینے والے دیسی صنعت کو اس بات پر کبھی آمادہ نہیں کرسکے کہ وہ اپنے مصنوعات کو معیاری، مناسب قیمت اور مناسب پیمائش کے مطابق بنائیں۔ ہندوستانی کمپنیوں کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک پیسہ کمانا اصل مقصد ہوتا ہے خواہ خراب اور گھٹیا سامان بیچ کر ہی کیوں نہ کمایا جائے۔ ہندوستان میں اسے کبھی بھی غلط نہیں سمجھا گیا۔اخبارات میں یہ سرخیاں ہمیشہ زینت بنتی ہیں کہ دوائیاں صرفہ سے بہت مہنگی بیچی جارہی ہیں۔ مثلاً دو روپے کی دوائی ۲۵ روپے میں فروخت کی جاتی ہے اس میں بھی یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ جو دوائیاں فروخت کی جارہی ہیں وہ اصلی ہی ہیں۔ کیوں کہ نقلی دوائیاں کا جال بہت پھیلا ہوا ہے اور کروڑوں لوگ ہر سال نقلی دوائیوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ حکومت نے کبھی بھی اس سمت میں مثبت قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اسے روکنے کی کوشش کی ۔ حکومت نے مکمل طور پر عوام کو بازار کے حوالے کردیا ہے اور خصوصاَ ان بنیوں کے جو انسانی کھال تک کھینچ لینے میں یقین رکھتے ہیں۔ کم از کم باہر کے ملکوں کی مصنوعات میں یہ بات نہیں ہوگی کہ یہ گھٹیا ہے۔ راست غیر ملکی سرمایہ کاری یعنی ایف ڈی آئی کے بارے میں کافی دنوں سے ملک میں ہنگامہ برپا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں جس طرح ہر چیز کے دو پہلو ہیں اس کے دو پہلو ہیں ایک مثبت ہے دوسرا منفی۔یہ حکومت اور یہاں کی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے اسے مثبت کردار اداکرنے پر مجبور کرتی ہے یا منفی کردار ادا کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیتی ہے۔ یہ دنیا ایک گاؤں کی طرح ہے اور کسی بھی حکومت کے لئے بہت دنوں تک ایسا کرنے سے روکنا مشکل ہوگا اگر بی جے پی کی حکومت ہوتی وہ ا س کب ایف ڈی آئی نافذ کرچکی ہوتی وہ تو ملک کی ساری چیزوں کو ہی بیچ رہی تھی یہ تو اچھا ہوا ہندوستانی عوام نے اسے اقتدار سے باہر کردیا ورنہ کیا کیا چیزبیچ ڈالتی۔

بہت دنوں سے اس کا شور ہے کہ ایف ڈی آئی میں ۵۱ فیصد سرمایہ کاری سے ہندوستانی مصنوعات اور خصوصاَ ملک کا خردہ سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔ یہ جہاں بھی گیا ہے وہاں پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں، خردہ اور کرانہ دکانیں بند ہوجائیں گی۔ اسی طرح کی آواز اس وقت اٹھی جب ملک میں اس طرح کے اسٹور کھلنے شروع ہوئے تھے اور ریلائنس ریفریش کے بارے میں بھی یہی کہا جارہا تھا کہ ریڑھی اور پٹری پر سبزی بیچنے والے بھوکے مر جائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ریڑھی پٹری والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو اہے۔ والمارٹ کے بارے میں بھی یہی کہا جارہاہے کہ خردہ سیکٹر اس سے تباہ ہوجائے گا ۔ اس پر مزید بات کرنے سے پہلے والمارٹ کیا ہے ؟اس کے بارے میں تھوڑا جان لینا ضروری ہے۔ سیم والٹن نے ۱۹۶۲ میں امریکہ کے بینٹون ویلی ارکنساس میں ۹۵ فیصد کے سرمایہ سے خردہ اسٹور قائم کیا تھا۔ ویسے تو انہوں نے ۱۹۲۵ میں بینٹون ویلی میں ایک دکان خریدی تھی جسے انہوں نے والٹن ۵ اینڈ ۱۰ کا نام دیا تھا۔ بھر باضابطہ انہوں نے ۱۹۶۲ میں والمارٹ کی بنیاد رکھی۔ ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۹ میں اسے کارپوریٹ کی حیثیت دے دی گئی۔ اس طرح کے اسٹور شروع کرنے پیچھے سیم والٹن کی یہ سوچ تھی کہ ایک ہی چھت کے نیچے ضرورت کا سار ا سامان مل جائے۔ یہی سوچ والمارٹ کی بنیاد ڈالنے کی محرک بنی۔ ۲۰۱۱ تک والمارٹ کے دنیا بڑے ممالک سمیت ۱۵ ممالک میں ۸۹۷۰ اسٹور تھے۔ ہندوستان میں والمارٹ کے اسٹور ہیں اس وقت ۵۱ فیصد کا معاملہ نہیں ہے۔ والمارٹ ہندوستان میں پنجاب، کرناٹک، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش، اترپردیش، مہاراشٹر سمیت کئی ریاستوں میں کام کر رہا ہے۔ اس کے چیرمین ایس رابسن والٹن ہیں جب کہ صدر اور سی ای و مائک ڈیوک ہیں۔ اس کا ریوینیو ۹۵۰ء۴۴۶ بلین ڈالرہے۔ نیٹ انکم ۶۹۹ء۱۵ بلین ڈالرہے اور اس کے مجموعی اثاثے ۴۰۶ء۱۹۳ بلین ڈالرہے۔ والمارٹ کے مالکان والٹن خاندان ہیں۔ ۲۰۱۱ تک اس میں ۲۲ لاکھ افراد کام کر رہے تھے۔ خردہ سیکٹر میں روزگار فراہم کرنے والا سب سے بڑا سیکٹر ہے۔ اس کا ہیڈکوارٹر امریکہ کے صوبہ ارکنساس میں بینون ویلی میں ہے۔ہندوستان میں سب سے پہلا اسٹور انہوں نے تین سال قبل پنجاب کے امرتسر میں کھولا تھا۔ حیدرآباد میں یہ اسٹور اس وقت صرف ممبران کے لئے ہی ہے۔ عوامی طور پر اس وقت کھولا جائے گا جب کہ۵۱ فیصد کے راست سرمایہ کاری کے نئے معاہدے والمارٹ اپنا اسٹور کھولے گا۔

والمارٹ یا ایف ڈی آئی کے بارے گزشتہ چھ ماہ سے ایک ہنگامہ بپا ہے ۔ ہر لیڈر اور پارٹی اپنے اپنے حساب سے اس کی تشریح کر رہی ہے اور کسانوں کی دہائی دے کرخردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی کی سخت مخالفت کر نے پر کمربستہ ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں والمارٹ کے مخالفین کی شکست ہوچکی ہے ۔ اب اخلاقی طور پر انہیں اس کے خلاف آواز نہیں اٹھانا چاہئے لیکن یہ ہندوستان ہے یہاں ہر کام سیاسی فائدے کے لئے کیا جاتا ہے ملکی فائدے کے لئے نہیں۔ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کا بھی یہی حال ہے وہ صرف الیکشن میں ہونے والے سیاسی فائدے کو دیکھتی ہیں کہ کس مسئلے سے انہیں کتنا فائد ہ ہوگا وہ اقتدار کے کتنے قریب پہنچیں گی۔ کسانوں کے لئے پریشانیاں پیدا ہوجائیں گی جبکہ حکومت کا دعوی ہے کہ اس سے کسانوں کو مناسب قیمت ملے گی اور اپنا سامان بیچنے کے لئے انہیں دربدر بھٹکنا نہیں پڑے گا۔ یہ دونوں باتیں صحیح ہوسکتی ہیں یا دونوں باتیں غلط ہوسکتی ہیں اگر حکومت کی نگرانی رہی ہے کسانوں کو بہت فائدہ ہوگا اور اگر حکومت نے لاپروائی برتی ہے اور ہندوستانی ذہن نے کام کیا تو یقینا کسانوں اور صارفین کو نقصان پہنچے گا۔ ہندوستان میں اب بھی ۷۰ (سترّ) فیصد لوگوں کی گزروبسر کاشتکاری پر منحصر ہے اور غیر منظم سیکٹر میں ۹۰ فیصد لوگ زراعت سے ہی منسلک ہیں۔ اسی لئے زراعت کو ہندوستان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن اس ریڑھ کی ہڈیوں کا کس طرح استحصال ہوتا ہے آج تک کوئی بھی ان کو اس استحصال سے چھٹکارا نہیں دلا سکا۔ کسانوں کا کس طرح استحصال ہوتا ہے اسے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ کسانوں کو جب بیج اور کھاد کی ضرورت پڑتی ہے تو بنیے انہیں سرکاری قیمتوں سے زیادہ میں فروخت کرتے ہیں جس کی وجہ سے اناج کی لاگت بڑھ جاتی ہے لیکن جب یہی کسان اپنا اناج بنیوں کو فروخت کرتا ہے تو یہ بنیے سرکاری قیمت بہت کم یا آدھی قیمت سے سے بھی کم میں خریدتا ہے ۔ بہت سے کسانوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ سرکاری قیمت کیا ہے۔یہ بنیے سرکاری خرید مراکز پر کسان بن کر کسانوں سے انتہائی کم قیمت پر خریدا گیا اناج فروخت کرتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ بنیے جب اپنا سامان فروخت کرتے ہیں تو سرکاری قیمت سے دوگنے یا تین گنے میں فروخت کرتے ہیں لیکن خریدنا ہوتا ہے تو سرکاری قیمت سے آدھی یا اس سے بھی کم میں خریدتے ہیں۔ قومی سطح سے لیکر بلاک سطح کے لیڈروں کویہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس طرح کسانوں کا استحصال کیا جارہا ہے لیکن کوئی بھی سامنے نہیں آتا کیوں کہ ان لیڈروں کو الیکشن کے وقت یہ بنیے موٹی رقم دیتے ہیں۔ والمارٹ کسانوں سے راست اناج خریدیں گے جس سے کسانوں کو مناسب قیمت ملے گی۔

والمارٹ کی آمد سے دراصل بنیوں کا بنا ہوا مکڑی کا جالا ٹوٹے گا۔ جو ٹیکس چوری، ملاوٹی اشیاء اور گھٹیا سامان زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں ا ور یہی بنیے فرقہ پرستوں اور مسلم دشمن طاقتوں کے سب سے بڑے فائننسر ہیں۔ فسادات اور مابعد فسادات یہی لوگ فسادیوں کو پوری طرح تحفظ فراہم کرتے ہیں اوردباؤ ڈالنے کے لئے اپنے بازار تک بند کردیتے ہیں تاکہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکے۔ بی جے پی اور اس طرح کی فرقہ پرست پارٹیوں کو خوراک ان ہی لوگوں سے ملتی ہے۔ بی جے پی نے حالانکہ ۲۰۰۴ کے پارلیمانی انتخابات میں اپنے انتخابی منشور میں ایف ڈی آئی کے موضوع کو شامل کیا تھا لیکن جیسے زمین میں تارے نظر آئے گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدل لیا۔ اس کے علاوہ والمارٹ ہندوستان میں رنگ داری اور ہفتہ وصولی سلسلہ کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا کیوں کہ کوئی بھی آج کسی علاقے میں کوئی کام کرنا چاہتا ہے یہاں تک کوئی اسکول کھولنا چاہتا ہے تو علاقے کے غنڈے خواہ وہ ایم پی یا ایم ایل اے ہویا اس کے رنگروٹ رنگداری وصول کرنے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں جس کی وجہ بہت علاقے میں کوئی فیکٹری نہیں لگ پاتی اور نہ ہی کوئی بڑا اسٹور کھل سکا لیکن والمارٹ سے اس طرح کی ہمت نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ اس کی آمد سے جہاں بازار میں مسابقت بڑھے گی وہیں پر مصنوعات اور صارفین کے درمیان میں پنپنے والی دلالی کی زنجیر کو بھی توڑنے میں مدد مل جائے گی کیونکہ ابھی تک کسان کو کم قیمت پر اپنی پیداوار فروخت کرنی پڑتی ہے اور بچولیئے اور دلال موٹا مال کما کر عیش کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ صارفین کوعمدہ سامان ملے اور ان کے پاس متبادل بھی ہوں گے۔ جہاں تک مقامی پرچون اور کرانہ کی دوکان کا تعلق ہے تواس پر بہت فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ جو اس کے صارف ہیں وہ کسی مال یا کسی والمارٹ کی طرف رخ نہیں کریں گے بلکہ وہ مقامی سطح پر ہی اپنا سامان خریدیں گے۔ایف ڈی آئی پر ملک میں جس طرح کا ماحول بنایا گیا اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ضرورت اس بات تھی کہ ایف ڈی آئی کے ضابطے اور قوانین عوام کے حق میں بنائے جاتے ہیں اور اس میں کسانوں کے مفاد کا سختی سے دفاع کیا جاتا۔ حکومت نے صرف چنندہ اور بڑے شہروں میں ہی والمارٹ کو اسٹور کھولنے کی اجازت دی گئی ہے اور وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اسے کسانوں کے حق میں بہتر قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات ریاست کے دائرہ اختیار میں دی گئی ہے کہ وہ اپنے یہاں والمارٹ کو اسٹور کھولنے دیں یا نہ دیں۔ کانگریس نے اگر غلطی کی ہے تو بی جے پی یا دیگر پارٹیوں کی حکومت والی ریاستیں والمارٹ کو اپنے یہاں اسٹور کھولنے کی اجازت نہ دیں۔

والمارٹ آجائے یا کوئی اور بہت بڑا فرق نہیں پڑے گا توپھر اتنا واویلا کیوں ہے اور پریشانی کہاں ہے ۔ پریشانی دراصل اسے آزاد چھوڑ دینے میں ہے ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان چیزوں پر نظر رکھے اور اس کے حکومت کے باقاعدہ محکمہ بھی ہے جن کی ذمہ داری ان چیزوں پر نظر رکھنے کی ہے لیکن بدعنوان سسٹم میں ایسا کچھ نہیں ہوپاتا۔پیپسی پر سخت کی جاتی ہے تو وہ اپنے مشروبات کا معیار بلند کرنے کے ساتھ قیمت بھی کم کردیتا ہے لیکن جیسے ہی حکومت آنکھ بند کرلیتی ہے پیپسی اپنی پرانی روش پر چلنے لگ جاتا ہے۔ اس کی تہہ میں ہندوستانی ذہنیت ہی کام کرتی ہے وہ مالکان کو مشورہ دیتے ہیں کہ ہندوستان کچھ گھٹیا فروخت کیا جائے کوئی کہنے والا نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی کہنے والا ہونا چاہئے اور والمارٹ یا ہندوستان میں جتنے بھی اسٹور ہیں خواہ وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی اس پر سخت نگاہ رکھی جائے۔ اس کی قیمت ، معیار، وزن اور پیمائش پر گہری نظر رکھی جائے اور بار بار اسے چیک کیا جائے تو کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ غلط کام کرسکے۔
Abid Anwer
About the Author: Abid Anwer Read More Articles by Abid Anwer: 132 Articles with 87292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.