کالا باغ ڈیم منصوبہ کواگرچہ
ماہرین شروع سے ہی انتہائی اہمیت کا حامل قراردیتے رہے ہیں لیکن گزشتہ چند
برسوں سے جب ملک میں جاری بدترین توانائی بحران نے صنعتوں کا بیڑا غرق
کردیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری اور خودکشیوں کی
تعداد میں بے پناہ اضافہ ہواہے ایسے میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر ملک کیلئے
زندگی اور موت کی حیثیت اختیارکرگئی ہے لیکن افسوس آج تک کسی سیاسی یا فوجی
حکومت نے اس میگاپروجیکٹ کی تعمیر کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں بلکہ جب
بھی اس کی تعمیر کا تذکرہ ہوا ایک مخصوص انڈیا نواز لابی اس کی بھرپور
مخالفت میں کود پڑی اس لابی نے کبھی تو اس ڈیم کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں
دیں تو کبھی اس ڈیم سے کئی شہروں کے ڈوبنے اور وسیع پیمانے پر انسانی جانوں
کے ضیاع اوراُن کے بے گھر ہونے کا بے بنیاد شوشہ چھوڑا اوریہ سلسلہ اب تک
جاری ہے حال ہی میں جب لاہور ہائیکورٹ نے جب stwcکے چیئرمین انجینئر سلیمان
خان سمیت 6دیگرافراد کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے دائر کی گئی
درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی حکومت کو کالاباغ ڈیم بنانے کا حکم دے
دیاتو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام جماعتیں عدلیہ کے احترام اور پاکستان
کے وسیع تر مفاد کیلئے اس فیصلے پر فوری عملدرآمد کیلئے ایک ہوجاتیں جب کہ
ہوا یہ کہ تقریباََ تمام جماعتیں اس کی مخالفت میں اکٹھی ہوگئیں ہیں ہاں
البتہ اب کی بار الفاظ کے چناؤ میں خاصی احتیاط برتی گئی ہے اور کھل کر اس
کی مخالفت کرنے کی بجائے تمام صوبوں کے مابین اتفاق رائے کی ناقابل عبور
شرط رکھ دی گئی ہے یعنی''نہ نوسومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی''لیکن اے
این پی اپنی کھلی مخالفت یہاں بھی چھپا نہ سکی اور اس کے سربراہ
اسفندیارولی کی جانب سے یہ بیان سامنے آگیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے بھی
کالاباغ دیم کی تعمیر کا فیصلہ سنایا تو ہم اسے بھی قبول نہیں کریں گے اور
یہ کہ کالاباغ ڈیم کی حمائت کرنیوالے پاکستان یا کالاباغ ڈیم میں سے کسی
ایک کا انتخاب کرلیں اسی طرح سندھ بچاؤ کمیٹی کے مرکزی رہنما سیدجلال محمود
شاہ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا
حکم نہیں دے سکتی کیوں کہ یہ ایک خالصتاََسیاسی و تکنیکی معاملہ ہے تو اس
پر عرض یہ ہے کہ تکنیکی طور پرتو یہ ایک شاندار منصوبہ ہے جس کی گواہی تمام
ملکی اور عالمی ماہرین دے چکے ہیں کہ اس کی تعمیر سے نہ تو کوئی نقصان ہوگا
بلکہ یہ منصوبہ ملک کیلئے ترقی و خوشحالی کی راہیں کھول دے گا کسی اور
مسئلہ کی طرف نہیں اگر ہم صرف توانائی بحران ہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس
کی تعمیر کرلیں تو اس سے پیدا ہونیوالی 4500میگاواٹ انتہائی سستی بجلی عوام
کے کئی دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے اورجہاں تک اس کے سیاسی مسئلہ ہونے کا
دعویٰ ہے تو میرے خیال میں یہ بالکل ایک غلط تاثر ہے بلکہ ہمارا خیال ہے کہ
اس طرح کے قومی و اجتماعی مفاد کے منصوبوں کو سیاسی،صوبائی یا لسانی
عصبیتوں یا نقطہ نظر سے دیکھنا ہی ان کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا
ہے اور یہی کچھ کالا باغ ڈیم کے معاملے پر بھی ہوا ہے مجھے یقین ہے کہ اگر
تمام سیاسی جماعتیں اس منصوبے کو اگر صرف تکنیکی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس
کی مخالفت کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئے گی۔ اور جہاں تک اسفندیارولی کے اس
بیان کا تعلق ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا حکم
دیا تو تسلیم نہیں کریں گے تو انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ کالا باغ ڈیم
کی تعمیر کا حکم دے کر لاہور ہائیکورٹ نے کوئی نیا حکم نہیں دیا بلکہ اس نے
تو 1991ءاور 1998ءمیں مشترکہ مفادات کونسل کے اُن فیصلوں پر ہی عمل درآمد
کا حکم دیا ہے جن پر تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے دستخط موجود ہیں اور جن
کی وفاقی کابینہ نے منظوری بھی دی ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس فیصلے
پر اے این پی کے رہنما خان عبدالولی خان نے بھی مسرت کا اظہارکیاتھا ۔پاکستان
ایک زرعی ملک ہے اور دنیا میں بہترین نہری نظام کا حامل بھی ہے لیکن اس کے
باوجود پانی اور غذائی اجناس کی کمی کا شکار ہے کیوں کہ ہم نے تربیلا اور
منگلا کے بعد کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا اور کالا باغ ڈیم کے حوالے سے جو
چیز تاریخ میں سب سے افسوسناک ہے وہ یہ ہے کہ اس منصوبے کا ابتدائی ہوم ورک
پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں شروع ہوا لیکن آج
ایک بار پھر پیپلزپارٹی ہی کی حکومت ہے جو آئے روز بھٹو کے مشن پر چلنے کا
اعادہ تو کرتی ہے لیکن جب کالاباغ ڈیم کا نام آتا ہے تو اس کو دریائے سندھ
میں دفن کرنے کی بات کرتی نظرآتی ہے حالاں کہ 2008ءمیں جب پیپلز پارٹی کی
حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا اگر اسی وقت ہی اس پر کام شروع کردیا جاتا تو
نہ صرف یہ بھٹو کے مشن کی تکمیل ہوتی بلکہ عوام بھی اندھیروں سے نکل کر
خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجاتی لیکن حکومت میں شامل بعض راجوں و مہاراجوں
کو شائد بھٹو کے مشن سے زیادہ ''کمشن''عزیز تھا اسی لئے قوم کو مزید
اندھیرے میں رکھتے ہوئے رینٹل پاور منصوبے کا راگ اس توتر سے الاپا گیا کہ
جیسے یہ پروجیکٹ ہی پاکستان کو بچاسکتا ہے لیکن بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ
جس نے رینٹل پاور منصوبے کی مدمیں ہونیوالی 456ارب روپے کی ہوشربا کرپشن کو
بے نقاب کرکے قوم کو مزید لوٹ مارسے بچالیا رینٹل پاور پروجیکٹ پر سپریم
کورٹ کا تاریخی فیصلہ صاف بتا رہاہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے پس پردہ
اصل حقائق کیا ہیں ۔اس کے علاوہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں بھارتی کوششوں
کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس کا اثرونفوز بدقسمتی سے ہمارے ہر شعبہ
ہائے زندگی میں بڑھتا جارہاہے جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی
ابتدائی مخالف آواز صوبہ سرحد(خیبرپختونخواہ) سے اٹھی لیکن آج سندھ اور
بلوچستان بھی اس آواز میں شامل ہوگئے ہیں کالا باغ ڈیم کے خلاف اس شوروغل
میں فقط شہباز شریف کی آواز سنائی دی کہ ہم سب کو عدالت کا فیصلہ تسلیم
کرنا چاہئے لیکن پھر الیکشن کے قریب ہونے کی نزاکت اور اپنے ووٹ بنک کے
متاثر ہونے کے خوف کے باعث میاں نوازشریف نے بھی ''اتفاق رائے''کا ڈول ڈال
دیا ہے ۔قوم سوچ رہی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے ذاتی مفادات کیلئے تو
ایک ہوجاتی ہیں لیکن اس اجتماعی مفاد کے اس عظیم منصوبہ کیلئے کیوں اکھٹی
نہیں ہورہیں ؟ |