ضمنی الیکشن اور جمہوریت کا انتقام

پنجاب میں ضمنی الیکشن مکمل ہو گئے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چھ سمیت کل آٹھ نشستوں سے سات پر مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار کامیاب ہوئے اور اس الیکشن میں انہوں نے 2008کی نسبت اپنے مد مقابل حریفوں کو بہتر مارجن سے شکست دی۔ یقینا یہ جیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں اور کارکنوں کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی حسب توقع ہر جگہ ہاری۔ اُس کی پچھلے سالوں کی حکومتی کارکردگی جس قدر مایوس کن تھی۔ مہنگائی، بے روز گاری، دہشت گردی، امن و امان کی بگڑتی صورت حال ۔ حدسے زیادہ لوڈ شیڈنگ۔ یہ ہار ان سب چیزوں کا فطری نتیجہ تھی۔ شاید بے نظیر نے سچ کہا تھا ”جمہوریت بہترین انتقام ہے “ ۔ اس انتقام کی ابتدا ہو گئی ہے۔ آنے والے الیکشن کے نتائج جمہوریت کے بہترین انتقام ہونے پر تصدیق کی مہر ثبت کر دیں گے۔

میں نے الیکشنز کو بہت سے قریب سے دیکھا ہے۔ پانچ چھ دفعہ مختلف امیدواروں کے ساتھ الیکشن ایجنٹ کے طو رپر بھی کام کیا ہے۔ عام الیکشن اور ضمنی الیکشن کے مزاج میں تھوڑا بہت نہیں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ ضمنی الیکشن میں برسراقتدار پارٹی کا ٹکٹ ملنا 90فیصد تک کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ عملی طو رپر ہمارے منتخب نمائندوں کا قانون سازی سے تو کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اُنہیں اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے۔ تھانے اور کچہری اُن کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں جیت کر وہ یہ رکاوٹ دور کر لیتے ہیں۔ لوگوں کو بھی تھانے کچہری اور پٹواری سے زےادہ غرض ہوتی ہے۔ جس کے لیے حکومتی نمائندے زیادہ موزوں سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے لوگ وقتی طو رپر لوگ ان کو ووٹ دیتے ہیں۔ پولیس کا اصول ہی “تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو “ ہوتا ہے۔ چنانچہ اہل اقتدار کو خوش کرنے کے لیے وہ ان کے لیے ہر کام کر گزرتی ہے یا غلط کاموں میں سرکاری امیدواروں کی مدد گار ہوتی ہے اور الیکشن میں اُن کی بھر پور مدد کرتی ہے۔

ریٹرنگ آفسیر بھی ضمنی الیکشن میں انصاف کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک الیکشن میں مجھے اطلاع ملی کہ خواتین کے ایک پولنگ سٹیشن پر مردو ںکا قبضہ ہے اور جعلی ووٹ بھگتائے جا رہے ہیں۔ میں فوراً وہاں پہنچا مگر اپنی بے بسی دیکھ کر ریٹرنگ آفیسر جو ایک بٹ صاحب تھے کو فون کیا کہ جناب میں فلاں پولنگ سٹیشن پر موجود ہوں۔ مسلح افراد اس پولنگ سٹیشن پر قبضہ کئے ہیں۔ جعلی ووٹ ڈالے جا رہے ہیں اور مجھے پولنگ سٹیشن پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ بٹ صاحب نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جیسے انداز میں جواب دیا ۔ ”ووٹ تو پڑ رہے ہیں جیسے بھی ہیں کچھ ٹرن اوور تو نظر آئے گا۔ مسلح افراد کا کچھ کر لیتے ہیں ”۔ مگر مجھے الیکشن ایجنٹ ہونے کے باوجود پولنگ سٹیشن کے اندر تو کیا قریب بھی جانے نہیں دیا جا رہا ۔ جواب ملا ”خواتین کا پولنگ سٹیشن ہے آپ نے ضرور جانا ہے “۔ اور فون بند ہو گیا۔

تحریک انصاف نے بحیثیت پارٹی اس الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ مگر اس میں شامل چند رہنما اپنی ذاتی حیثیت میں الیکشن لڑے۔ گو اُن کی پوزیشن اچھی تھی مگر آخری نتائج میں وہ ہار گئے۔ جو بہت فطری تھا۔ اس لیے کہ تحریک انصاف کے تمام دوسرے لیڈر حتیٰ کہ مقامی قیادت بھی اپنے اُمیدوار کی حمایت میں حرکت میں نہیں آئی اور لا تعلق رہی ۔ تحریک انصاف کا یہ طرز عمل سمجھ سے بالا تر ہے۔ اب ضرورت ہے کہ عوام سے سیاسی رابطے کا کوئی موقع بھی ضائع نہ کیا جائے او راگر سنجیدگی سے ان ضمنی انتخابات کو لیا جاتا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تحریک انصاف کو بدرجا بہتر پذیرائی ملتی اور مسلم لیگ (ن) کو اس طرح کھلی جیت میسر نہ آتی۔

عوام خصوصاً نوجوانوں نے تحریک انصاف سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کی ہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں روایتی سیاسی پارٹیوں کے ستاے ہوئے لوگ انقلاب کے متلاشی ہیں اور آنے والے الیکشن میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔ جس طرح1970میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کو انتہائی نامساعد حالات اور بغیر وسائل کے لوگوں نے ووٹ دیئے تھے اور روایتی پارٹیوں کو مسترد کر دیا تھا کچھ ایسی ہی صورتحال ان الیکشن میں بھی ہو گی۔ اور یہ انقلاب کوئی بھی موجودہ سیاست دان اپنی کوششوں کے باوجودروک نہیں سکے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو جائے مگر جس طرح 1970 کا انقلاب بھی بے فائدہ رہا اب بھی آنے والا انقلاب اگر تحریک انصاف اور عمران خان لانے میں کامیاب ہو گئے تو شاید عام آدمی کے لیے بے فائدہ ہی رہے۔

یونان کے عظیم مفکر اور فلسفی ارسطو (322-384ق م ) کے مطابق ۔ مکمل انقلاب ، نامکمل انقلاب، خونی انقلاب ، شخصی انقلاب ، غیر شخصی انقلاب ،طبقاتی انقلاب اور بے مقصد انقلاب۔ اصل میں انقلاب کی عام قسمیں ہیں اور کسی بھی معاشرے کے عمومی ، سماجی اور سیاسی نظام کے بنیادی ڈھانچے کے علاوہ اُس کے اساسی اصولوں میں تبدیلی مکمل انقلاب کہلاتی ہے۔ نامکمل انقلاب کی صورت میں یا تو صرف سیاسی نظام کے بنیادی اصولوں کو تبدیل کیا جاتا ہے یا پھر معاشی اور معاشرتی نظام کے بنیادی ڈھانچے یا صرف حکومت کو تبدیل کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں موجودہ حالات میں جو انقلاب بھی آیا وہ ایک نا مکمل انقلاب ہی ہو گیا۔ ہو سکتا ہے کہ اُس سے لوگوں کی سوچ میں کچھ تبدیلی آئے اور وہ ایک بہتر مستقبل کی نوید ہو مگر وقتی طور پر عوام کی حالات اور ملک کے حالات بدلنے کے کچھ آثار نہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500672 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More