الیکٹریشن جاوید میرپور کا کوئی
بڑا آدمی نہیں جس کو پورا شہر جانتا ہو گا ایک عام دہاڑی دار مزدور آدمی ہے
دن کو محنت مزدوری کرکے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے اس کی
کوئی بڑی برادری یا قبیلہ بھی نہیں، کسی سیاسی جماعت سے وابستگی بھی نہیں ،میرپور
میں کوئی سرکاری آفیسر اس کا جاننے والا بھی نہیں ،کسی بڑے جاگیردار،سرمایہ
دار،صنعت کار،بزنس مین اور سیاست دان کا بیٹا بھی نہیں ہے اپنے باپ کی طرح
خود بھی ایک عام آدمی ہے یہ وہ عام آدمی ہے جو پورے پاکستان اور آزاد کشمیر
میں 90فیصد ہیں جن کے ٹیکسوں اور محنت مزدوری سے ہر آنے والی حکومت حکمرانی
کے مزے لیتی ہے یہ وہ عام آدمی ہے جن کی اپنی تو شناخت ایک عام شہری کے
علاوہ کوئی نہیںلیکن بحیثیت قوم پاکستانی کی شناخت اور پاکستان اس کی شناخت
بنا ہوا ہے اور بس!!!!!دن کو دیگر امور نبٹا کر دفتر کی طرف جانے والی
سیڑھیوں کی طرف رخ کرنے والا تھا کہ میرے کانوں میں ایک جانی پہچانی آواز
گونجی ،ممتاز صاحب۔۔۔۔میں نے مڑ کر دیکھا تو سامنے آنے والا چہرہ میرے دماغ
میں موجودہ دیگر چہروں سے بالکل مختلف اور نیاتھا میں نے عرض کیا حکم جناب۔۔۔۔تو
یہ جو ان آدمی کہنے لگا میں آپ کو جانتا ہوں اور کہنے لگا فلاں عرصے میں آپ
کے دفتر میں الیکٹرک کا کام کیا تھا جاوید ہوں میں نے اس کو پہچاننے سے
بالکل انکار کردیا کیونکہ4ماہ سے قبل والا جاوید آج کے جاوید سے بالکل
مختلف تھا آج کے جاوید کی زبان الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی تھی آج کے جاوید
کے قدم مسافت کا ساتھ نہیں دے رہے تھے آج کے جاوید کے چہرے پر مستقبل کی
متوقع کامیابی کی خوشی کم اور موت کے خوف کی گرفت زیادہ نمایاں تھی آج کے
جاوید کے ہاتھوں میں مزدوری کے اوازوں کے بجائے کسی ڈاکٹرکے ہاتھوں لکھے
ہوئے نسخے کا ٹکڑا تھا اور پھر کاغذکا ٹکڑا بھی مالی حالت بہتر نہ ہونے کے
باعث غیر محفوظ تھا اور ایسی حالت کی وجہ پوچھی تو اس4ماہ قبل کے انتہائی
خوش لباس اور چاند جیسے چہرے والے بے بس جاوید نے اپنی آپ بیتی سنا دی
تقریباً ساڑھے3ماہ قبل مجھے بائیں طرف کے بڑے دانت کی تکلیف ہوئی تو بہت
پریشان سا ہو گیا اورہر چیز سامنے ہونے کے باوجود کچھ کھانے کو جی نہ
کرتاتکلیف کی شدت میں اضافے کے بعد میں نے اپنا پرائیویٹ علاج کرنے کا
فیصلہ کیا کہ زیادہ پیسے دینے سے میرا علاج بہتر ہوجائے گا اور تکلیف سے
نجات مل جائے گی بالآخر میرپور میں کافی عرصہ سے قائم لندن ڈینٹل کلینک پر
جاکر میں نے اپنی تکلیف بتائی اور متعلقہ ڈاکٹر نے اپنے کلینک کے اندر
موجود اپنے اوزاروں سے میرا دانت نکال دیا اور ادویات لکھ دی میں انتہائی
خوش تھا کہ میں انشاللہ عنقریب تندرست ہو کر حسب معمول بچوں کی روزی کما
سکوں گا کیونکہ آج کل کے دور میں والدین اور بچوں سمیت 4بچوں کی کفالت کرنا
صرف ایک کفیل کے بس کی بات نہیں لیکن مجھے کیا علم تھا کہ آپ میری چند
لمحوں کی خوشی زندگی بھر کا روگ بن جائی گی دانت کا علاج میری زندگی کے
چراغ کو گل کرنے کا کام کرے گا کہنے لگا دانت نکلوانے کے بعد ہر گزرنے والا
دن میرے جسم کو کمزور بنانے لگا مجھے تشویش ہوئی تو ایک اورڈاکٹر کو چیک
کروایاتو انہوں نے مجھے خون ٹیسٹ کروانے کیلئے لکھ دیا خون ٹیسٹ رپورٹ جب
نے میں ڈاکٹر کو دکھائی تو انہوں نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیاکہ آپ نے کسی
کلینک سے دانت نہیں نکلوائے میں نے جواب ہاں میں دیا تو ڈاکٹر صاحب فرمانے
لگے کہ جس کلینک سے آپ نے دانت نکلوایا ہے اس کے اوزار ہپاٹائٹس کے جراثیم
سے پاک نہیں تھے جس کی وجہ سے آپ کے جسم کے اندر بھی ہپاٹائٹس کے جراثیم
داخل ہو چکے ہیں میں نے یہ انکشاف سنا تھا کہ مجھ پر چند لمحوں کیلئے سکتہ
طاری ہو گیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ آخر میرا قصور کیا تھا ؟میرے
بچوں ،میرے والدین کا کیا بنے گا؟آخریہ ظلم مجھ سے کیوں کیا گیا ؟کیوں مجھے
موت کی وادی کی طرف دھکیلا گیا؟ ڈاکٹر نے مجھے حوصلہ دیا اور علاج کروانے
کی ہدایات کی جاوید نے بتایا کہ اب تک 72ٹیکے لگوا چکا ہوں لیکن فرق نہیں
پڑ رہا آخری ٹیکے ایسے باقی ہیں جن کی قیمت3لاکھ روپے ہے جس سے میری جان بچ
سکتی ہے لیکن میرے حالت یہ ہے کہ میرے پاس ایک وقت کی روٹی کیلئے بھی پیسے
نہیں اس جاوید کی کہانی نے میرے دل کے اندر غم وغصے کا طوفان برپا کر دیا
کہ آخر ان موت کے سوداگروں کیخلاف کاروئی کیوں نہیں ہو رہی ؟آزاد کشمیر
محکمہ صحت عامہ اور ضلعی انتظامیہ کے آفیسران میرپور کے علاوہ پورے آزاد
کشمیرکے اندر ڈینٹل کلینکس کے اوزاروں کے معیاراور صفائی کے انتظامات کو
چیک کیوں نہیںکر رہی ؟درحقیقت اس طرح کے ہونے والی اموات کا جس قدر ذمہ
دارڈینٹل کلینک کا مالک ہے اس سے کہیں گناہ ذمہ داری محکمہ صحت عامہ اور
ضلعی انتظامیہ پر بھی ہے میرے ذاتی رائے مطابق جاوید کے ساتھ ظلم کرنے والے
ڈاکٹر کیخلاف FIRدرج ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کے بعد کوئی بھی غریب اور عام
آدمی ڈاکٹروں کی اس غفلت کا شکار نہ ہوسکے- |