انسانی جان کتنی قیمتی ہے اور
انسانی حرمت کیا معنی رکھتی ہے، قرآن حکیم نے دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کر دی
ہے
“جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کر دیا۔“
مراد یہ کہ بے گناہ انسانوں کا قتل کوئی بھی کرے، یہ ایک ایسا گھناؤنا جرم
ہے کہ کوئی اور جرم اس کی سنگینی کو نہیں پہنچتا۔ اگر مقتولین کی تعداد دو
چار نہیں، دس بیس بھی نہیں، سینکڑوںور ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں میں ہو
تو معاملہ اور بھی نازک اور سنگین ہو جاتا ہے۔ اس معاملے کی وضاحت 1971 میں
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے المیے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں قتل وغارت
کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی جا رہی ہے۔ یہ اعداد و
شمار دروغ گوئی کی آخری حدود سے بھی متجاوز ہیں اور یہ سلسلہ بڑے دھڑلے سے
گزشتہ 63 برسوں سے جاری ہے۔ آئیے حقائق کی روشنی میں اس صورتِ حال کا تجزیہ
کرتے ہیں۔ یک طرفہ پروپیگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے: مشرقی پاکستان کی
علیحدگی کے عمل (16 دسمبر 1971) کے ساتھ ہی اوپر تلے مختلف اعداد و شمار
فضا میں گردش کرنے لگے مثال کے طور پر: “مشرقی پاکستان سے ایک کروڑ بنگالی
بھارت میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں، ان کی گزر بسر بڑی اذیت ناک
ہے، انہیں دنیا بھر سے امداد کی ضرورت ہے۔“
“پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالی مار دئیے ہیں۔“
“10 لاکھ، نہیں 20 لاکھ، نہیں 30 لاکھ، یہ بھی نہیں 50 لاکھ مار دئیے ہیں
بلکہ 50 لاکھ سے بھی زیادہ مار دئیے ہیں دو لاکھ سے زیادہ عورتوں کو زنا
بالجبر کا نشانہ بنایا گیا۔“ 3 لاکھ نہیں ساڑھے تین لاکھ بنگالی عورتوں سے
زیادتی کی گئی۔“
8 جنوری 1972 کو پاکستان توڑنے کی سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمٰن نے
پاکستان سے رہائی پا کر لندن پہنچتے ہی دعوی کیا:
“ بنگلہ دیش میں 10 لاکھ انسان مارے گئے۔“ (دی ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف لندن،
ٹائمز آف انڈیا دہلی، پاکستان ٹائمز لاہور 9 جنوری 1972)
لیکن لندن سے براستہ دہلی، ڈھاکہ جاتے ہوئے شیخ مجیب کے “فہم“ اور
“معلومات“ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا، اور 10 جنوری کو ڈھاکا کی سرزمین
چھونے کے بعد موصوف نے کہا:
“35 لاکھ بنگالی مارے گئے ہیں۔“
کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے 35 لاکھ کے عدد میں ذرا کمی کر کے:
“30 لاکھ مارے گئے اور 3 لاکھ عورتوں سے بالجبر زیادتی کی گئی“
کے عدد پر جم جانا مناسب سمجھا اور پھر یہی موقف نجی، عوامی اور بین
الاقوامی سطح پر دہرانا وظیفہ زندگی بنا لیا۔ معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو
انٹرویو دیتے ہوئے جسے 18 جنوری 1972 کو نیویارک ٹیلی وژن نے ٹیلی کاسٹ کیا
تھا، اس میں بھی شیخ مجیب نے 30 لاکھ افراد کے قتل کا دعوی کیا تھا، اس سے
ایک روز قبل ٹائم میگزین کو انٹرویو میں مجیب نے بتایا تھا:
“آج اگر ہٹلر ہوتا تو اپنی کارکردگی پر شرم سار ہوتا۔“(17 جنوری 1972)
اور پھر 30 لاکھ کا عدد ایک قومی نغمے یا بنگالی لوک گیتوں کا حصہ بن گیا،
جس کا دہرانا ہرکس و ناکس نے اپنے اوپر لازم کر لیا۔
اس تجزیے کے لئے ہمارا بیشتر انحصار خود بنگلہ دیش کے تحقیق کاروں اور
مغربی صحافیوں کی رپورٹوں پر مبنی ہے۔ یہ تحقیق کار اگرچہ پاکستان کے حامی
نہیں ہیں، مگر اس پروپیگنڈے پر بحث کے دوران میں وہ اپنے نتیجہ فکر کو ضرور
قلم بند کرتے ہیں۔ پہلے اس منظر کو دیکھیے:
مشہور اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی (Oriana Fallaci) لکھتی ہے:“ میں
مجیب کے گھر فروری 1972 میں انٹرویو کرنے پہنچی، وہاں برآمدے میں 50 افراد
کھڑے تھے۔ میں نے کہا: اندر اطلاع کیجیے۔ میری اس درخواست کے جواب میں وہاں
کھڑے ایک آدمی نے نہایت غصیلے بلکہ خوف ناک انداز میں غراتے ہوئے کہا: “
انتظار کرو“۔ میں انتظار میں بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹہ، دو گھنٹے، تین گھنٹے،
چار گھنٹے گزرے، حتٰی کے رات کے 8 بج گئے۔ پھر ساڑھے 8 بجے یہ کرشمہ رونما
ہوا مجھے مجیب کے کمرے میں جانے کی اجازت ملی، جہاں ایک آرام دہ صوفہ اور
دو کرسیاں پڑی تھیں۔ مجیب نہایت بے ڈھنگے انداز میں ٹانگیں پسارے صوفے پر
قابض تھا اور باقی کرسیوں پر، دو موٹے وزیر دھنسے ہوئے تھے۔ میں داخل ہوئی
تو نہ کسی نے کوئی سلام کیا اور نہ میری آمد کا نوٹس لیا۔ میں حیران گُم
سُم کھڑی تھی کہ اچانک مجیب نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: “ بیٹھ جاؤ“۔
میں اسی کے صوفے کے ایک بازو کے ساتھ دبک کر بیٹھ گئی اور تیزی سے اپنے ٹیپ
ریکارڈر کو متحرک کرنے لگی، لیکن ابھی میں نے بٹن دبایا بھی نہیں تھا کہ
مجیب نے گرج دار آواز میں مجھ سے کہا: “ جلدی کرو، میرے پاس وقت نہیں ہے۔
ہاں، پاکستانیوں نے 30 لاکھ بنگالیوں کو مارا ہے اور یہی سچ ہے۔ میں حیران
تھی کہ وہ کس طرح 30 لاکھ انسانوں کے مارے جانے کے اعداد و شمار تک پہنچا
ہے؟ میں نے کہا: “ جناب وزیر اعظم۔۔۔۔“ مگر وہ کوئی بات سننے کے بجائے پھر
گرج دار آواز میں دھاڑنے لگا: “ انہوں نے ہماری عورتیں اپنے شوہروں کے
سامنے ماری ہیں۔ شوہر، بیٹیوں اور بیویوں کے سامنے مارے ہیں۔۔۔۔ دادا اور
نانا اپنے پوتوں، نواسوں کے سامنے، چچیاں، چچوں کے سامنے۔۔۔۔۔“ میں نے
فوراََ کہا: “ جناب وزیر اعظم۔۔۔۔۔ میں چاہوں گی۔۔۔۔“ مگر مجیب نے میری بات
مکمل ہونے سے قبل اسی بپھرے انداز میں اپنے وزیروں کی طرف رُخ کرتے ہوئے
کہا: “ اس کو سنو، یہ کیا چاہتی ہے؟ تمہیں کوئی حق نہیں چاہنے کا، سمجھی،
جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے۔“ ( آریانا فلاسی، لا یورپیا روم، 24 فروری
1972 بحوالہ ڈاکٹر عبدالمومن چودھری Behind the Myth of three Million 30
لاکھ کی کہانی کے پیچھے، الہلال پبلشرز لندن صفحہ 6، 7)
آئیے دیکھتے ہیں کہ اعداد و شمار کا یہ اتار چڑھاؤ کس طرح وجود میں* آیا؟
7 جنوری 1972 کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI) نے بنگلہ دیش کے نئے وزیرِ
اطلاعات و نشریات شیخ عبدالعزیز کے حوالے سے کلکتے میں اعلان کیا:
“10 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔“
اسد چودھری کی نظم رپورٹ 1971 ان تمام واقعات و حوادث کی تفصیل پر مبنی
قرار دی جانے لگی، جس میں دعویٰ کیا گیا: “ ہم کو آزادی کے لئے 10 لاکھ
شہیدوں کا لہو دینا اور 40 ہزار عورتوں کی عزت قربان کرنا پڑی۔“
30 لاکھ کی کہانی کے پیچھے کے مطابق: “ سابق بھارتی سپہ سالار جنرل مانک شا
کے نزدیک : “مجیب کے نزدیک 30 لاکھ اور مشرقی محاذ کے کمانڈر جنرل جگجیت
سنگھ اروڑا کے مطابق: “ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے 10 لاکھ
افراد کو مارا، لیکن جہاں تک شیخ مجیب کے اس دعوی کا تعلق ہے کہ 30 لاکھ
مارے گئے، ایک ناممکن سی بات ہے، مجیب منتظم کی بجائے ایک شورش پسند (ایجی
ٹیٹر) انسان تھا، جس نے ظلم کی داستان کو بڑھاوا دینے کے لئے 30 لاکھ کا
دعویٰ کیا، حالانکہ مجیب کا یہ دعویٰ نا ممکن سی بات ہے کیونکہ پاکستانی
فوج کو بیک وقت ملک کے اندر اور ملک کی سرحدوں پر لڑنا پڑ رہا تھا۔“(
لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا، Remimiscences of Bangladesh War، وڈیو
انٹرویو، ماس کمیونیکیشن سنٹر، جامعہ ملیہ دہلی 1994)۔
اس سے قبل بنگلہ دیش کی تخلیق کے ایک اہم کردار میجر جنرل ڈی کے پیلٹ نے
بھی 10 لاکھ کا عدد دہرایا۔ حالانکہ اس کے لئے وہ کوئی تائیدی ثبوت پیش نہ
کر سکا۔ اس جنگ کے حوالے سے ان تینوں جرنیلوں یعنی مانک، اروڑا اور پیلٹ نے
صرف دو لفظوں کا سہارا لیا ہے: “ یہ ایک معروف بات ہے“ یا “جیسا کہ ہم
جانتے ہیں“۔ یا “ مجیب نے کہا“۔ اتنے اہم معاملے پر ایسی سہل انگاری پر
مبنی اسلوب اختیار کرنا بذاتِ خود غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور بددیانتی پر
مبنی انداز ہے۔بقول ڈاکٹر عبدالمومن چودھری:
“ دراصل 30 لاکھ کے افسانے کو وضع کرنے کے پیچھے روزنامہ پوربودیش ڈھاکا کے
مدیر احتشام حیدر چودھری اور اشتراکی روس کے سرکاری اخبار روزنامہ پراودا
ماسکو کا نمائندہ متعینہ دہلی، صاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔ پوربو دیش میں
احتشام حیدر نے 22 دسمبر 1971 کو اداریہ “ یحیٰی کو پھانسی دو“ میں لکھا: “
پاکستانی فوج نے 30 لاکھ بنگالی اور 200 دانشور مارے“۔ جبکہ اسی اخبار نے
صرف ایک روز قبل یعنی 21 دسمبر 1971 کو آٹھ کالم پر مشتمل ایک فیچر، جسے
سرخ رنگ کی سرخیوں سے مزین کیا گیا تھا، میں یہ عنوان جمایا تھا: “ بنگال
کے کتنے لوگ مارے گئے؟“ اور فیچر میں یہ بحث کی گئی: “ بگال میں ہر جگہ یہ
سوال پوچھا جا رہا ہے کتنے لوگ قتل ہوئے، 10، 20، 30، 40 یا 50 لاکھ؟ کسی
کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ لوگوں کو اس کا جواب چاہیے اور ہمیں اس
سوال کا جواب دینا ہوا گا۔“(پوربودیش 21 دسمبر 1971)
پھر ایک ہی رات گزرنے کے بعد وہ جواب کی “ تلاش و تحقیق“ مکمل کر لیتا ہے
اور اگلے روز یہی اخبار جواب دیتا ہے: “ 30 لاکھ سے کم نہیں“(22 دسمبر
1971)۔ پھر اسی خبر کو پراودا کا خصوصی نمائندہ دہلی، اپنے مرکز ماسکو
بھیجتا ہے۔ جہاں خبر اس طرح شائع ہوتی ہے: “ 30 لاکھ سے زیادہ“۔ اور پھر
پراوادا کے حوالے سے 5 جنوری 1971 کو ڈھاکا اور دہلی کے اخباروں پر خبر
شائع کی جاتی ہے: “ 30 لاکھ سے زیادہ بنگالیوں اور 800 بنگالی دانشوروں کو
مارا گیا۔“ یوں 15 روز میں، اور افراتفری کے عالم میں دو صحافی ایک افسانہ
تراشنے میں پوری طرح کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پھر 10 جنوری 1972 کو شیخ مجیب نے
ڈھاکا ائرپورٹ پر اترتے وقت پورے طمطراق سے یہ اعلان کر دیا: “ پاکستانیوں
کے ہاتھوں 35 لاکھ بنگالی مارے گئے 3 لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی
گئی“۔ جوہری کا نام بنگلہ دیش کے مشہور صحافی کی حیثیت سے تسلیم شدہ
ہے۔انہوں نے اپنی بنگلہ کتاب “The Riddle of Thirty Lakh “۔ (30 لاکھ کا
معمہ ڈھاکا 1994) میں لکھا ہے:
“یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ آٹھ ماہ اور 12 روز کی ایک گوریلا جنگ میں 30
لاکھ انسان مارے جائیں۔ اور یہ بات بھی وہم و گمان سے کوسوں دور ہے کہ اس
دوران دو لاکھ سے زیادہ عورتوں سے بالجبر زیادتی کی گئی ہو۔ میں نے ملک کے
مختلف اضلاع کے 500 افراد کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا ہے: “ آپ کے
خاندان کے دور و نزدیک میں، یا آپ کے جاننے والوں میں یا پھر آپ کے گاؤں
محلے میں، کسی پاکستانی فوجی نے جنسی بے حُرمتی کی ہو تو ایسا کوئی واقعہ
بتا سکتے ہیں؟“۔ ان میں سے ہر فرد نے کہا: “نہیں“۔ ممکن ہے وہ اپنے خاندان
کے بارے میں ایسی بات بتاتے وقت شرماتے ہوں، مگر گاؤں، محلے کے بارے میں
گواہی دینے میں کسی فرد کے لئے کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا تھا۔ البتہ چند
بدکاروں کے ہاتھوں ایسے واقعات ہوئے، مگر ان چند کو پھیلا کر 2 لاکھ بنا
دینا کیسے ممکن ہوا ہے؟ پھر ملک بھر سے ان اعداد و شمار کو صرف ایک ہفتے
میں فیصلہ کن شکل دینا کیسے ممکن ہوا؟ کس نے یہ سروے کیا؟“ ( 30 لاکھ کا
معمہ ڈھاکا صفحہ 41)۔
ولیم ڈرومنڈ (William Drummond)، نمائندہ خصوصی رازنامہ گارڈین لندن رقم
طراز ہے: “ 30 لاکھ افراد کا قتل ایک غیر حقیقی داستان سرائی ہے، جسے دنیا
بھر کے اخبارات میں اچھالا گیا۔ میں نے بنگلہ دیش کے بہت سے دورے کیے۔ اس
دوران بے شمار لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے، سینکڑوں دیہات کا سفر کرنے اور
اوپر سے نچلی سطح تک حکومتی اہل کاروں سے تبادلہ خیال کرنے بعد اس نتیجے پر
پہنچا ہوں کہ 30 لاکھ افراد کے قتل کی بات ایک انتہا درجہ کی مبالغہ آمیزی
ہے۔“(گارڈین، 6 جون 1972)۔
ایک اور صحافی پیٹر گل نمائندہ خصوصی روزنامہ ٹیلی گراف، لندن (16 اپریل
1973) نے لکھا ہے: “ شیخ مجیب کا یہ دعویٰ کہ 30 لاکھ بنگالی افراد مارے
گئے ایک ایسی مبالغہ آمیز کہانی ہے، جس میں نقصان کو 20 فیصد زیادہ، بلکہ
50، 60 فی صد تک بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے“۔
عبدالمیمن ضلع نواکھالی کے معروف سیاسی راہنما، 1971 میں قومی اسمبلی کے
منتخب رکن اور شیخ مجیب الرحمٰن کے طویل عرصے تک قریبی دوست رہے ہیں۔ انہوں
نے 1990 میں یحیٰی مرزا کو انٹرویو میں بتایا: “ بنگلہ دیش کی پہلی دستور
ساز اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ ضلع
نواکھالی کے طول و عرض میں، پولیس اسٹیشنوں اور یونین کونسلوں میں گھوم پھر
کر بڑی باریک بینی سے 1971 کے مقتولین کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔
جن کے مطابق ضلع نواکھالی میں 7 ہزار سے کم افراد مارے گئے اور اگر متحدہ
پاکستان کے حامی مقتول رضاکاروں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے
7 ہزار سے ہرگز زیادہ نہیں بنتی۔ یاد رہے کہ 1971 میں بنگلہ دیش کے اضلاع
کی تعداد 19 تھی۔ اور تمام اضلاع اس جنگ سے برابر کی سطح پر متاثر نہیں
ہوئے تھے، جب کہ نواکھالی وہ ضلع تھا جو جنگ سے بہت زیادہ متاثر اضلاع میں
شمار ہوتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اگر ضلع نواکھالی سے جمع کردہ اعداد و شمار
کو پیشِ نظر رکھیں اور تمام اضلاع میں مقتولین کی تعداد کا اوسط نکالیں تو
اس کے باوجود یہ تعداد 1 لاکھ 25 ہزار سے ہرگز زیادہ نہیں ہو سکتی۔“(بحوالہ
30 لاکھ کا معمہ، از جوہری، صفحہ 49،4۔
بنگلہ دیش کے محقق پروفیسر نعیم مہیمن نے اپنے مقالے Accelerated Media and
1971 میں اس پر بحث کی ہے: “ 30 لاکھ کے اس عدد کو بنگلہ دیش کی سرکاری
تاریخ میں تقدیس اور ایمان کا درجہ حاصل ہو گیا۔ یوں برسوں سے اس تعداد کو
کسی بھی دائرہ تحقیق میں اعتراض اور تجزیاتی چیلنج سے یک سر آزاد سمجھ لیا
گیا۔ البتہ حالیہ زمانے کے تجزیہ کاروں نے دلیل دی ہے کہ پاکستانی فوج کے
لئے ان سات مہینوں کے عرصے میں 30 لاکھ انسانوں کو قتل کرنا قطعی طور پر
ناممکن ہے۔اگر یوں انسانوں کو مارنا مقصود ہوتا تو اس کے لئے باقاعدہ کوئی
لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ مثال کے طور پر جرمنی کے آمر فیوہرر ہٹلر نے
مبینہ طور پر اپنی پوری قوت سے 60 لاکھ یہودیوں کو 6 برسوں میں مارا، اور
اس کے لئے باقاعدہ قتل گاہیں بنائی گئیں۔ گیس چیمبرز اور لانے لے جانے کے
لئے سڑکوں کے جال سے استفادہ کیا گیا۔ مگر پاکستان کے حوالے سے ہمیں کہیں
بھی ایسا پروگرام دکھائی نہیں دیتااور نہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان
میں نسل کشی (ethnic cleansing) کا کوئی منصوبہ تشکیل دیا۔ اس لئے ان چند
مہینوں میں، مشینی قتل گاہوں، نسل کشی کے کیمپوں کی عدم موجودگی میں 30
لاکھ انسانوں کو مارنا، ناممکن ہے۔“(Accelerated Media and 1971 صفحہ 10،
اس مقالے کا ایک حصہ۔ Economic & Political Weekly، ممبئی، 26 جنوری 2008
میں بھی شائع ہوا)۔
یاد رہے 1971 میں مشرقی پاکستان کی آبادی 6 کروڑ 97 لاکھ 74 ہزار نفوس پر
مشتمل تھی۔ جہاں 68 ہزار 3 سو 85 دیہات اور 4 ہزار 4 سو 72 یونین کونسلیں
تھیں۔ جیسے ہی 30 لاکھ کا نمبر فضا میں اچھالا گیا تو متعدد آزاد ذرائع نے
اپنی تحقیقی کاوشوں سے ثابت کیا کہ یہ اعداد و شمار سخت مبالغہ آمیز
ہیں۔۔۔۔۔۔ ضلع جیسور، کلکتہ کی جانب، مشرقی پاکستان کا ایک سرحدی ضلع ہے۔
اس کے معروف سماجی راہنما خوندکر ابوالخیر بتاتے ہیں: “ہمارے پورے ضلع سے
20، 25 سے زیادہ افراد، فرار ہو کر بھارت نہیں گئے۔ خود میرے گاؤں اور اور
مضافات کے دیہات میں پاکستانی فوج سے کہیں ایک جگہ بھی لڑائی کے واقعے اور
کسی قسم کے قتل وغارت کی نوبت نہیں آئی۔“ (30 لاکھ کی کہانی کے پیچھے صفحہ
20)۔
پھر شیخ مجیب نے 29 جنوری 1972 کو سرکاری سطح پر ایک 12 رکنی تحقیقاتی
کمیٹی تشکیل دی، جس کے سربراہ عبدالرحیم، ڈی آئی جی پولیس تھے۔ جب کہ ارکان
کمیٹی میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کے لیڈر اور
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تجربہ کار ارکان شامل تھے۔ سرکاری گزٹ میں
اس کمیٹی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ کمیٹی کے ذمے یہ کام تھا کہ: “ وہ
مقتولین اور املاک کے نقصان کا جائزہ لے اور شرپسندوں کی نشاندہی کرے۔“
ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا کہ مذکورہ کمیٹی: “ اپنی رپورٹ 30 اپریل 1972
تک لازماََ پیش کرے، اور اس مقصد کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے“۔
عبدالرحیم انکوائری کمیٹی نے بڑی تن دہی سے کام کیا، ایک ایک یونین کونسل
اور ایک ایک پولیس اسٹیشن سے رابطہ کر کے کوائف جمع کیے، اور انفرادی
گواہیوں کو بھی قلم بند کیا۔ روزنامہ گارڈین لندن کا نمائندہ خصوصی ولیم
ڈرومنڈ جو مستقل طور پر ڈھاکا میں مقیم تھا، بیان کرتا: “ مارچ کے تیسرے
ہفتے تک انکوائری کمیٹی کے سامنے 2 ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہو
سکیں کہ : انہیں پاکستانی افواج نے مارا تھا۔“(روزنامہ گارڈین لندن، 6 جون
1972)۔ تاہم جب تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ مکمل کی تو معلوم ہوا کہ پورے
بنگلہ دیش میں اس ساڑھے 8 ماہ کی بغاوت، خانہ جنگی، بلوے، لوٹ مار اور
گوریلا جنگ میں 56 ہزار 7 سو 63 افراد کے قتل کے ثبوت فراہم کیے جا سکے
ہیں۔ بقول ولیم ڈرومنڈ: “ جونہی انکوائری کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ وزیرِ
اعظم کو پیش کی تو جلد مشتعل ہو جانے والا جذباتی مجیب آپے سے باہر ہو گیا
اور اس نے رپورٹ پکڑ کر فرش پر دے ماری اور غصے میں چلانے لگا: “ میں نے 30
لاکھ کہے ہیں 30 لاکھ۔ تم لوگوں نے یہ کیا رپورٹ مرتب کی ہے؟ یہ رپورٹ اپنے
پاس رکھو جو میں نے کہہ دیا ہے، بس وہی سچ ہے۔“( گارڈین لندن 6 جون 1972)۔
بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں وزارتِ خزانہ کے بیان کے مطابق یہی نمائندہ آگے
چل کر رقم طراز ہے کہ : “ مجیب نے مقتولین کی مدد کے لئے 2 ہزار ٹکہ فی کس
کا جو اعلان کیا تھا، اس کے حصول کے لئے 72 ہزار افراد نے درخواستیں جمع
کرائیں، جن میں 50 ہزار مقتولین کے لئے رقم حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا،
اور ان درخواستوں میں متعدد جعلی درخواستیں بھی شامل تھیں“۔ (گارڈین، لندن
6 جون 1972)۔
یہ بھی امر پیشِ نظر رہے کہ عوامی لیگ کی پروپیگنڈا مشین کے مطابق: “ بھارت
میں بناہ گزین بنگالیوں میں سے لاکھوں افراد بھوک اور بیماری سے مارے گئے۔“
اس طرح جن افراد نے مذکورہ بالا دعوے کے ساتھ رقوم وصول کیں، ان میں بہت سے
وہ لوگ بھی شامل تھے جو بھارتی کیمپوں میں مارے گئے تھے۔“(عبدالغفار
چودھری، مضمون: ‘ہمیں ہمت سے سچ کا مقابلہ کرنا چاہیے‘، روزنامہ جنپد،
ڈھاکا 20 مئی 1973، بحوالہ 30 لاکھ کی کہانی کے پیچھے صفحہ 30،29)۔
شیخ مجیب نے جھوٹ کی جو آلودگی پھیلائی تھی، وہ ذہنوں کو مسموم کرتی رہی۔
پھر 15 جون 1993 کو بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں کرنل اکبر حسین (جو جنرل ضیا
الرحمٰن اور خالدہ ضیا کی حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے) نے یہ کہہ کر بحث
کو دوبارہ زندہ کر دیا کہ: “ عوامی لیگ نے 30 لاکھ مقتولینِ آزادی کا
افسانہ گھڑا، جبکہ حقیقت اس کے صرف 10 فیصد کے قریب ہے۔“ اس پر عوامی لیگ
کے ایک رکن اسمبلی عبدالصمد آزاد نے اسمبلی میں جواب دیا: “ یہ بات ہم نے
اپنے لیڈر شیخ مجیب سے سنی ہے اور اسے ہی ہم درست سمجھتے ہیں۔“ پھر ہندو
رکن اسمبلی شدھن گھشوشیکر نے چیلنج کرتے ہوئے سوال اٹھایا: “ اکبر حسین
اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں۔“ تب وزیر اکبر حسین نے کہا: “ بنگلہ دیش حکومت
بننے کے بعد حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جس جس گھرانے کا کوئی فرد بھی جنگ
میں مارا گیا ہے یا لاپتہ ہوا ہے، وہ گھرانہ متعلقہ فرد کا نام پتہ بتا کر
2 ہزار ٹکے بطور امداد وصول کرے۔ اس اپیل کے جواب میں بنگلہ دیش بھر سے صرف
3 لاکھ افراد نے نام درج کرائے۔ اگر وہ 30 لاکھ ہوتے تو لازماََ وہ بھی نام
درج کراتے، مگر ایسا نہیں ہوا، باقی 27 لاکھ کہاں گئے؟“۔ جب یہ جواب ملا تو
پورے ایوان پہ خاموشی چھا گئی۔“( بنگلہ دیش قومی اسمبلی کی روداد 16،15 جون
1993 بحوالہ 30 لاکھ کی کہانی کے پیچھے صفحہ 5)۔
مجیب حکومت سقوطِ مشرقی پاکستان کے فوراََ بعد نقصان، اموات اور جرائم کے
ذمہ داران کے تعین کے لئے پوری طرح سرگرمِ عمل ہو گئی۔ یوں 22 دسمبر 1971
کو کلکتہ سے مجیب کی جلاوطن حکومت نے اعلان کر دیا تھا: “ جن خواتین کے
ساتھ پاکستانی فوجیوں نے زیادتی (ریپ) کی ہے وہ بنگالی ہیروئنیں ہیں۔ پھر
مجیب کی آمد پر جنوری 1972 میں ڈھاکا میں ایک بہت بڑا بنگالی ہیروینز
کمپلیکس، قائم کر دیا گیا، جس کا سربراہ مجیب کے رشتہ دار جہانگیر حیدر کو
مقرر کیا گیا۔ اس کمپلیکس کے لئے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے
بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کرٹ والڈ ہایم
نے “ہیروینز کمپلیکس“ کا دورہ بھی کیا، لیکن یہ کمپلیکس ایک روز کے لئے بھی
آباد نہ ہو سکا۔ کتنی بنگالی ہیروئنیں یہاں رجسٹرڈ ہوئیں؟ آج تک کسی کو یہ
عدد معلوم نہ ہو سکا۔ کیونکہ اس باب میں دعوے کے لئے کوئی قابلِ ذکر ثبوت
فراہم نہ ہو سکا۔ یوں خجالت میں چند ماہ بعد یہ منصوبہ اور کمپلیکس اچانک
ختم کر دیا گیا۔“(30 لاکھ کی کہانی کے پیچھے صفحہ 30،25)۔
ازاں بعد تحریکِ آزادی ہند کے معروف راہنما اور بنگالی نزاد سبھاش چندرابوس
کی بھتیجی پروفیسر ڈاکٹر شرمیلا بوس(بھارتی بنگالی اور ہاورڈ یونیورسٹی سے
پی ایچ ڈی) نے جون 2005 میں اپنے تحقیقی مقالے Problem of Using Women as
Weapons in Recounting the Bangladesh War “بنگلہ دیش کی جنگ میں عورتوں کا
بطور ہتھیار“ میں لکھا ہے: “ ہمیں سچ بتانا چاہیے اور سچ یہ ہے کہ پاکستانی
افواج پر بنگالی عورتوں کی اس پیمانے پر بے حرمتی کا الزام مبالغہ آمیز حد
تک بے بنیاد ہے۔ پاکستانی فوج نے ایک منظم قوت کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام
دی جس میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔ میں نے وسیع
پیمانے پر انٹرویو، مکالموں اور تحقیق سے یہی بات دیکھی ہے کہ پاکستانی فوج
نے عورتوں کو یکسر نظر انداز کر کے، صرف مقابلہ کرنے والے جوانوں کو نشانہ
بنایا۔“ اس پر روزنامہ ڈیلی ٹائمز لاہور نے 2 جولائی 2005 کو اپنے اداریے
New Impartial Evidence نے غیر جانب دارانہ ثبوت میں لکھا: “ پرفیسر شرمیلا
بوس نے چشم دید گواہوں کی گواہی اور گہرے تحقیقی کام کی بنیاد پر برسوں سے
لگنے والے اس الزام کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے بنگالی عورتوں کو بالجبر
زیادتی کا نشانہ بنایا۔“
یہاں ایک مرتبہ پھر اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی کے مکالمے سے راہنمائی
لیتے ہیں، جس نے اپریل 1972 میں (تب) صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا
انٹرویو لیا، جو اس کی کتاب Interwiew With History میں شامل ہے۔ فلاسی کے
جواب میں بھٹو نے کہا: “ مجیب الرحمٰن ایک پیدائشی جھوٹا شخص ہے۔ یہ اس کے
بیمار ذہن پر ہے کہ وہ کب کیا بات کر دے، مثلاََ وہ یہ کہتا ہے کہ اس قتلِ
عام میں 30 لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ وہ پاگل ہے، وہ سب لوگ پاگل ہیں۔ بشمول
اخبارات کے جو اس کی بات کو دہراتے ہیں کہ 30 لاکھ لوگ مارے گئے، 30 لاکھ
لوگ قتل ہو گئے۔ بھارتیوں نے کہا تھا کہ 10 لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ شیخ
مجیب نے پہلے 10 کو 20 کیا اور پھر 30 لاکھ بنا دیا۔ وہ تو طوفان سے مرنے
والے لوگوں کی تعداد بھی اسی طریقے سے ضرب تقسیم کر کے بڑھاتا رہتا تھا۔
بھارتی صحافیوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 60 سے 70 ہزار تھی، جبکہ کچھ
مشنری لوگوں کے مطابق 30 ہزار لوگ مارے گئے تھے، اور جہاں تک میری اطلاعات
ہیں تقریباََ 50 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ کیونکہ 50 ہزار اور 30 لاکھ لوگوں
کے مرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔۔۔۔۔۔مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے پناہ
گزینوں کے بارے میں بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ یہ ایک
کروڑ لوگ تھے۔ انہوں نے جان بوجھ کر ایک کروڑ کا نمبر دیا، تاکہ اسے جواز
بنا کر مشرقی پاکستان پر حملہ کر سکے۔ لیکن جب ہم نے اقوامِ متحدہ سے کہا
کہ وہ بنگالی پناہ گزینوں کی تعداد چیک کر کے بتائے تو بھارت نے ہمارے
مطالبے کی شدید مخالفت کی۔ اب یہ بات کہ وہاں کتنی عورتوں کے ساتھ بالجبر
زیادتی کی گئی اور کتنی قتل ہوئیں؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہاں بہت
زیادتیاں ہوئیں تھیں۔ اس پورے عرصے میں اس طرح کی زیادتی کے صرف 4 کیس
رپورٹ ہوئے، اگر ان کو 10 سے ضرب دیں تو ان کیسوں کی تعداد 40 ہو جاتی ہے۔
پھر بھی ہم ان اعداد تک نہیں پہنچ سکتے جو مجیب اور اندرا گاندھی پوری دنیا
میں پھیلاتے تھے۔“(ایک سیاست کئی کہانیاں، میں مذکورہ انٹرویو کا ترجمہ از
رؤف کلاسرا صفحہ 362، 363)۔
ڈھاکا ہی سے نعیم مہیمن کے مطابق: “ 1971 میں بھارت جانے والے بنگالیوں کی
تعداد 12 لاکھ سے ایک کروڑ، بلکہ 2 کروڑ تک بیان کی جاتی رہی۔ پھر ایک فلم
ساز لیرلیون نے اس خود ساختہ کہانی پر فلم بنا کر انتہائی مبالغہ آمیزی کے
ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا“۔(مقالہ مذکورہ صفحہ 14)۔
واشنگٹن میں بنگلہ دیش کے سفیر شمشیر ایم چودھری نے کہا کہ: “ 1971 کی جنگ
کے حوالے سے ہمارے ہاں جو مبالغہ آمیز اعداد و شمار گردش کر رہے ہیں، ان
میں غلطی اور شرارت دونوں چیزوں کا عنصر شامل ہے۔ سچ کی تلاش اور الزام
تراشی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کی حکومتیں مل کر
ایک ایسا کمیشن مقرر کریں، جو اس المیے کے دوران پیدا شدہ حقائق کو ایک
رپورٹ کی صورت میں مرتب کرے“۔(روزنامہ ڈان، کراچی 7 جولائی 2005)۔
اولاََ یہ کہ جھوٹ گھڑ کر، کروڑوں انسانوں اور بیسیوں قوموں میں ملکِ
پاکستان کے بارے میں نفرت اور حقارت کی جو آگ سلگائی جا رہی ہے، جسے
افسانوی پٹرول چھڑک کر بڑے پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے، نتیجے میں پاکستان
اور اہلِ پاکستان کو اس نفرت کی قیمت دینا پڑتی ہے۔ ثانیاََ یہ کہ اس
مبالغہ آمیز طرزِ بیان نے بالخصوص ان لوگوں کو جو 1971 میں پاکستان کے لئے
سر بکف تھے، وہ پاکستانی “دلالی“ کے الزام اور اس پروپیگنڈے کی تپش میں خود
اور ان کی آئیندہ نسلیں جل رہی ہیں۔ اس طرح ان کے لئے اپنے مادرِ وطن میں
زندگی بسر کرنا ایک اذیت ناک تجربہ بنا دیا گیا ہے۔ ثالثاََ یہ کہ جھوٹ کے
بل بوتے پر جس تاریخ کو گھڑا اور پھر “حقیقت“ کے طور پر ذہنوں، نصابوں اور
کتابوں میں نقش کیا گیا ہے، ان کا نتیجہ ایک نہ ختم ہونے والی نفرت کی*صورت
میں سامنے آیا ہے۔ آج بنگلہ دیش کی مقتدر حکومت اور پالیسی ساز ادارے اسی
خانہ ساز نفرت میں اپنے اقدام کا جواز پاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ الفاظ فضا میں
تحلیل ہو کر تو نہیں رہ گئے۔ ان الفاظ نے اپنا ایک اثر دکھایا ہے، اور
بنگلہ دیش کی نئی نسل کے ذہن میں پاکستان اور مسلمان کی ایک تصویر بھی
بنائی ہے۔ ایسی تصویر جسے خود پاکستان کی لسانی قوم پرست تحریکیں پسند کرتی
ہیں اور ان کے سائے میں اپنی منزل دیکھتی ہیں۔
اسی تصویر کے خدوخال کو گہرا اور نمایا کرنے کے لئے بھارتی لابی، ہندو
کمیونٹی کی موثر قیادت اور وہ اشتراکی لابی سرگرم عمل رہی ہے، جسے پاکستان
کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بلکہ اس کے نزدیک سب خرابیوں کا مرکز پاکستان
ہی ہے۔ یہاں یہ امر بھی زیرِ بحث نہیں ہے کہ اس قتل وغارت کا کیا جواز تھا
اور کیا جواز نہیں تھا۔ اور یہ بھی جائزہ پیش نہیں کیا جا رہا کہ 25 اور 26
مارچ 1971 کی درمیانی شب شروع ہونے والے “آپریشن سرچ لائٹ“ کی کیا قانونی
حیثیت تھی۔ اسی طرح یہاں یہ جائزہ بھی پیش نہیں کیا جا رہا کہ یکم مارچ سے
25 مارچ 1971 تک کتنے ہزار غیر بنگالی، پنجابی، پٹھان پاکستانیوں، خصوصاِِ
بہار سے ہجرت کر کے آنے والے عام غریب مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں پر
کیا بیتی؟(صرف ایک مثال ملاحظہ کیجیے):
“3 اور 4 مارچ کی درمیانی شب چٹاگانگ کی فیروز شاہ کالونی کو جہاں اردو
بولنے والے رہتے تھے اسے عوامی لیگ کے کارکنوں نے چاروں طرف سے گھیر کر 700
گھروں کو آگ لگا دی۔ جو عورتیں اور بچے آگ سے بچنے کے لئے باہر نکلے ان کو
گولی مار دی جاتی۔ اس طرح صرف ایک جگہ پر لگ بھگ و ہزار افراد کو زندہ جلا
کر مارا گیا۔“
اور آپریشن کے ایک ہفتے بعد وہ مسلسل مقامی مسلح افراد اور بھارتی شرپسندوں
کے کس کس ظلم کا نشانہ بنائے گئے؟ ملاحظہ کیجئے:
“مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالی بُری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں اور وہ
بنگالیوں کے انتقام کا نشانہ ہیں۔“(روزنامہ سٹیٹسمین، نئی دہلی 4 اپریل
1971)۔
مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ غیر بنگالیوں کے گھروں کا جلایا، ان کے مردوں
اور عورتوں کو مارا، اور ان کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ میمن سنگھ کی صرف
ایک مسجد میں 1500 ایسی غیر بنگالی عورتوں نے پناہ لی، جن کے شوہروں کو
ذبحہ کر کے مار دیا گیا۔“(سیلون ڈیلی نیوز، کولمبو 15 مئی 1971)۔
پھر سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ان غیر بنگالی اور ان کے ساتھ “متحدہ
پاکستان“ پر یقین رکھنے والے بنگالی شہریوں پر کیا گزری؟ دنیا بھر کے
اخبارات ان مظلوموں کی چیخ و پکار اور خون سے لکھی مظلومیت کی گواہی پیش
کرتے رہے، مگر ان کی تائیدو ہمدردی میں کہیں سے نحیف سی آواز بھی نہیں
ابھری، کہیں کوئی پتہ تک نہیں ہلا۔ یاد رہے آرمی آپریشن کے بعد غیر بنگالی
پاکستانیوں کو عوامی لیگ اور بھارتی پشت پناہی سے تیار کردہ مکتی باہنی( جس
کا موثر آپریشنل حصہ بھارتی فوج پر مشتمل تھا) کو پاکستانی فوج اور غیر
بنگالیوں کے قتلِ عام کے لئے اذن مل گیا، جس نے 16 دسمبر سے پہلے اور پھر
بعد میں خون کی ہولی کھیلی۔ اور ساتھ ہی 1972 کے دستورِ بنگلہ دیش میں یہ
تحفظ بھی لے لیا کہ اس آزادی کی تحریک میں حصہ لیتے وقت آزادی کے سپاہیوں
نے جو کچھ بھی کیا ہے، اسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ گویا ان کے ہر
قسم کے قتل و غارت گری کے جرائم کو دستوری تحفظ اور عام معافی دے دی گئی۔
یوں اگر یہ کہا جائے کہ مشرقی پاکستان میں حقیقی معنوں میں قتل عام عوامی
لیگ ہی نے کیا تو اسے مبالغہ آمیزی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا یکم مارچ 1971 کے بعد ہزاروں کی تعداد میں غیر بنگالیوں
کا قتلِ عام بھلا دینے والی بات تھی؟ اور کیا اس خون کا جواب لینے والا اس
دنیا میں کوئی نہیں؟ کیا پاکستان کے تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں کی یہ
ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ پاکستان توڑنے، پاکستانیوں کو مارنے اور پاکستان
کو بدترین الزامات کا نشانہ بنانے والے اقدامات کا معروضی اور تحقیقی انداز
سے جائزہ لیں؟
اگر یہ سمجھ کر چپ سادھ لی جائے کہ الزام فلاں پر لگ رہا ہے تو وہی بھگتے،
ایسا بے رُخی پر مبنی رویہ اختیار کرنا کم ازکم تحقیقی اداروں کے شایانِ
شان نہیں ہو سکتا۔ آج پاکستان کے حوالے سے انتہا درجے کا منفی پروپیگنڈا
پورے بنگلہ دیش کے وجود میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے۔ جماعتِ اسلامی،
مسلم لیگ، پاکستان جمہوری پارٹی، اور نظامِ اسلام پارٹی کے وہ لوگ جو متحدہ
پاکستان چاہتے تھے اور جائز طور پر، ایک پاکستان‘ چاہتے تھے، آج وہی لوگ اس
نفرت کی آگ میں جلائے جا رہے ہیں۔ اگر ریاست اور ریاست کے اداروں کا یہی
رویہ رہا تو مستقبل میں خود پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لئے نکلتے وقت
لوگ کیا سوچیں گے؟
نہیں لڑتا ہے مومن نام و عزو جاہ کی خاطر
جہادِ مردِ مومن ہے فقط اللہ کی خاطر |