پاکستان کا خدا حافظ ہے

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب پرویز مشرف کی نام نہاد حکومت کا ٹائیٹینک اپنے اقتدار کے آخری ہچکولے کھاتا ہوا کمر سے ٹوٹ کر دو حصّوں میں پاکستانی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے غرق ہونے جا رہا تھا جب آمریت کا نو سالہ طویل چاند گرہن اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا اور پاکستانی ریاست اور سیاست پر آمریت کی کالی رات کی نحوست کے بادل چھٹنے شروع ہو ئے چکے تھے اور آمرِ اعظم پرویز مشرف نے پاکستانی میڈیا کی بے پناہ تنقید ، وکلاءکی مزاحمتی تحریک ، سول سوسائٹی کی کھلی اور دبنگ لعن طعن، عا لمی طا قتوں کے بڑھتے ہوئے نفسیاتی و سامراجی دبا و کے ساتھ ساتھ پاک فوج کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے بعد پرویز مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے مستفی ہونے کا اعلان کیا تو پاکستانی عوام ، سول سوسائٹی اور میڈیا نے کسی قدر اطمینان کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی عہد کیا کہ جب تک مشرف کو اقتدار کے اعلی عہدے سے اٹھا کر بحرالکاہل میں غرق نہ کر لیں تب تک سکون سے نہ بیٹھیں گے۔

آج تک کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کی وردی اُتارنے میں محترمہ بےنظیر بھٹو کی جمہوری سوچ بھی تھی ۔ وہ نا صرف آٹھ سالہ خود ساختہ جلاوطنی سے بہت کچھ سیکھ چکی تھیں بلکہ میاں نواز شریف کے ساتھ معاہدہ میثاقِ جمہوریت کر کے پاکستانی عوام اور دُنیا کو یہ پیغام دے چکی تھیں کہ وہ پاکستان کے لئے اپنی جان تک کا نذرانہ دینے سے نہیں گبھرائیں گی جو کہ بعد میں انہوں نے ثابت بھی کر دیا ۔ بات ذرا دور نکل گئی اس موضوع پر کسی اور دن کھل کے بات کریں گے۔ بات اُس دور کی ہو رہی ہے جب کراچی سے لے کر پشاور تک سڑکوں پرخصوصاً صحافی، سیاسی راہنما و سیاسی ورکر ، وکلاءتنظیمیں اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ آمریت اور آمرِِ اعظم پرویز مشرف کے آمری پنجے و شکنجے سے ملک کو آزاد کرانے کے لئے سرپاءاحتجاج بنے بڑی مدت بعد ایک قوم نظر آئے تو مشرف کو وردی سمیت بیس مرتبہ صدر منتخب کرانے کے دعوے داروں سمیت خود مشرف کو اپنے اقتدار میں دراڑیں نظر آنے لگیں بلکہ اقتدار کی ٹوٹی ہوئی کشتی منجھدھار میں اُلٹے چکر لگاتی، ہچکولے لیتی اور ڈوبتی ہوئی نظر آنے لگی تو آمرِ اعظم نے پاکستانی عوام پر آخر کار ؛ ترس؛ کھاتے ہوئے وردی اُتار ہی دی اور آرمی کی ہائی کمان سٹک دینے کے بعد پھر اپنے گرد گھیرہ تنگ ہوتے دیکھ کر صدارت کے منصب سے استعفی دے کر آمرِ اعظم نے پاکستانی قوم پر جو احسانِ عظیم کیا تو قوم سے اپنے آخری خطاب میں مشرف کا آخری جملہ یہ تھا کہ ؛ پاکستان کا خُدا ہی حافظ؛ ۔

اُس وقت پرویز مشرف کے اِس جملے پر میرے سمیت پوری قوم ناصرف حیران ہوئی بلکہ سبھی یہی سمجھے کہ یہ ہر آمر کی طرح آمرانہ سوچ ہی ہے کہ وہ ہی اِس مُلک کو چلا رہا تھا اور اُس کے بغیر اِس مُلک کی باگ ڈور اور حکومتی معاملات کوئی بھی نہیں سنبھال سکتا۔ اُس کے بغیر اِس مُلک پر ناصرف مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے بلکہ اُس نے جو آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا وہ زمین پر دھڑم سے گِر جائے گا اور یہ مُلک اور اِس مُلکِ خُدا داد میں بسنے والی بیچاری مہنگائی اور افلاس کے ہاتھوں سِسکتی ہوئی بے بس عوام ناصرف تباہ و برباد ہو جائے گی بلکہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اُ س کے ؛ سُہانے دورِحُکومت ؛ کو یاد کرے گی شاید یہی غلط فہمی ہوتی ہو گی ہر دور کے جابر آمر کی ۔

آج سوچتا ہوں کہ جس مُلک میں نوکری کے لئے آنے والا بےروزگار اُسی عمارت کو آگ لگنے پر جان بچانے کی خاطر آٹھویں منزل کی کھڑکی پر پندرہ منٹ لٹکا رہے اور بے حس معاشرے کے بے حس لوگ بجائے اُسکی جان بچانے کے اُسے موت کے منہ میں گرتا دیکھنے کے انتظار کرتے ہوں، جہاں ملالہ جیسی معصوم کم عمر بچی کو صرف اِس لئے گولیاں مار دی جاتی ہیں کہ اُسکا گُناہ تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم کی خاطر آواز بلند کرنا ہو، جہاں حق بات کرنے والے ا یماندار اور نڈر صحافیوں پر قاتِلانہ حملے کئے جاتے ہوں اور کئی صحافیوں کو فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید کر کے اُن کے بچوں کو یتیم کر دیا جاتا ہو، جہاں عوام محسن کُش ہو، جہاں چار پانچ سالہ بچیاں درندگی کا نشانہ بنتی ہوں، جہاں حوا کی بیٹی کی عزت بھری پنچائت میں تار تار ہوتی ہو، جہاں چویس گھنٹوں میں بائیس گھنٹے بجلی بند رہتی ہو، جہاں گیس سٹیشنوں پر گیس کے حصول کے لئے عوام کو میلوں لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتطار میں کھڑا ہونا پڑے، جہاں عبادت گاہوں میں بمب دھماکے ہوتے ہوں ، جہاں مذہب ور فرقہ واریت کے نام پر سرِعام قتل و غارت کا بازار گرم ہو، جہاں قومی لیڈروں کو پھانسیوں پر لٹکانے اور گولیوں کا نشانہ بنانے کی روش عام ہو، جہاں حق بات کرنے والے کو منصور کی طرح سولی پر چڑھایا جاتا ہو، جہاں آئین توڑنے والوں کو گارڈ آف آنر دیا جاتا ہو، جہاں قانون توڑنے والوں کو تھانوں اور عدالتوں میں وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہو، جہاں عام شہری کی عزت محفوظ نہ ہو اور چوروں، لٹیروں اور ڈاکووں کا راج ہو، جہاں دن رات ما ئیں اپنے جوان بیٹوں کی لاشوں پر بین کرتی اور بوڑھے باپ اپنے بڑھاپے کے واحد سہاروں کی لاشیں اپنے کمزور، بوڑھے اور لرزتے ہوئے کندھوں پر اُٹھاتے ہوں ، جس مُلک میں زندہ تو ایک طرف مرنے کے بعد دفنائی جانے والی کفن پوش خواتین کی عزتیں بھی محفوط نہ ہوں ، جس ُملک میں مُسلمان ہی دوسرے مُسلمان کا گلا کاٹ رہے ہوں ، جہاں عورتیں معاشی حالات اور افلاس کے ہاتھوں تنگ عصمت فروشی کر کے اپنے کنبے کی کفالت پر مجبور ہوں، جس مُلک میںدرد کی گولی سے زیادہ بندوق کی گولی سستی ہو، جس مُلک میں غربت و بیروزگاری سے تنگ نوجوان مینارِ پاکستان سے جان کی بازی لگاتے ہوں تو پھر واقعی اِس مُلک کا خُدا ہی حافظ ہے۔
Sarfraz Awan
About the Author: Sarfraz Awan Read More Articles by Sarfraz Awan: 14 Articles with 10806 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.