کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے
سے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آتے ہی ملکی سیاست میںبھونچال آ گیا ہے۔ہمیشہ
کی طرح مختلف طبقات کی طرف سے اس کے حق اور مخالفت میں دلائل کے انبار
لگائے جا رہے ہیں اور حسب سابق اسمبلیوں میں قرار دادیں لائی جا رہی ہیں۔اس
ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے طاقتور دلائل توپہلے ہی موجود ہیں اور اس کی
افادیت پر بھی کوئی دو رائے نہیں مگر اس کی مخالفت کرنے والے ایک ہی راگ
الاپ رہے ہیں قومی اتفاق رائے کے بغیر اس کی تعمیر ممکن نہیں۔ بہت کم لوگ
اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے
سے قومی اتفاق رائے کا حامل ایک معاہدہ آب اکیس سال قبل وجود میں آ چکا
ہے۔21مارچ 1991کو تمام صوبوں اور مرکز کے درمیان معاہدہ آب طے پایا تھا جس
کے پیرا گراف 6میں مشترکہ مفادات کونسل نے مستقبل کی زرعی صروریات اور
توانائی کے مسائل کے حل کے لئے مرکزی حکومت کو غیر مشروط اور کلی اختیاردیا
تھا کہ وہ دریائے سندھ اور دیگر تمام دریاﺅں پر جب اورجہاں چاہے پانی ذخیرہ
کرنے کے لئے ڈیم بنا سکتی ہے بشرطیکہ وہ جگہ ڈیم بنانے کے لئے موزوں
ہو۔مشترکہ مفادات کونسل آئین کی شق 153کے تحت قائم شدہ ادارہ ہے جس کی
اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے فیصلے کو سپریم کورٹ
میں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔اتنے معتبر ادارے کے پلیٹ فارم سے وجود میں
آنے والے جامع معاہدہ آب کو قومی اتفاق رائے کا شاہکار تصور کیا جانا
چاہئے۔
یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے تین صوبوں
کی اسمبلیوں نے جو قرار دادیں پاس کر رکھی ہیں ان کو کس کھاتے میں شمار کیا
جائے۔ سابق صوبہ سرحداور موجودہ خیبر پختونخواہ اسمبلی نے 20اپریل 1988کو
قراردادکے ذریعے وفاقی حکومت کو اس ڈیم کی تعمیر کے مضمرات سے آگاہ کیا گیا
تھا۔1991کے معاہدہ آب سے تین سال قبل منظور کی جانے والی قرارداد مشترکہ
مفادات کونسل کے پلیٹ فارم سے قومی اتفاق رائے کے حامل معاہدے کو وجود میں
آنے سے نہ روک سکی چہ جائیکہ سندھ اسمبلی کی 14جون 1994اور بلوچستان اسمبلی
کی 6اکتوبر1994کی قرارداد ،جو معاہدہ آب کے وجود میں آنے سے تین سال بعد
منظور کی گئی تھیں، مشترکہ مفادات کونسل (جس میں تمام صوبوں کے وزرائے
اعلیٰ شامل ہوتے ہیں)کو مذکورہ معاہدہ پر دستخط سے نہ روک سکیں اور نہ ہی
موجودہ اسمبلیوں میں پیش کی جانے والی قراردادیںاور ڈیم مخالف لوگوں کا شور
وغوغا اس کی تعمیر میں سد راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ویسے بھی کونسل آف کامن
انٹرسٹ، جو پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے، میں سارے صوبوں کی موجودگی اس معاہدہ آب
کو پورے ملک کے لئے قابل قبول بناتی ہے کمی صرف پختہ سیاسی عزم کی ہے۔
حکمران ہمیشہ سیاسی مصلحتوں کے اسیر رہے ہیں جس کی وجہ سے قومی نوعیت کے
کئی اہم فیصلے صحیح نہیں کئے گئے یا پھر عرصہ طویل سے التوا کا شکار
ہیں۔صدر آصف علی زرداری اگر چاہتے تو عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مذاکرات
میں صوبے کا نام تبدیل کرنے اور ان کے دیگر مطالبات تسلیم کرنے کے عوض اس
ڈیم کی تعمیر کے متعلق ان سے کمٹمنٹ کر سکتے تھے۔سندھ اور بلوچستان میں تو
ان کی جماعت قوی الجثہ ہونے کے باعث اتفاق رائے کے معاملے سے خوش اسلوبی سے
نمٹ سکتی تھی مگر بات پھر ان کی سیاسی مجبوریوں پر آ کر ختم ہوتی ہے۔ انہی
سیاسی مجبوریوں اورلیلائے اقتدار کی زلفوں کا اسیر ہونے کی وجہ سے سیاسی آج
وہ لوگ بھی دوسری بولیاں بول رہے ہیں جو کچھ عرصہ قبل اس عدیم النظیر
منصوبے کی افادیت کے گن گایا کرتے تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی
کے سینئر رہنمامخدوم امین فہیم، مولانا فضل الرحمن، سابق وزرائے اعلیٰ خیبر
پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان تسلیم کر چکے ہیں کہ ڈیم کی تعمیر شجر ممنوعہ
نہیں ہے مگر یہ قومی اتفاق رائے سے بننا چاہئے۔ موجودہ گورنر پنجاب لطیف
کھوسہ نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ زراعت اور توانائی کی ضروریات کو
پورا کرنے کے لئے کالا باغ ڈیم بننا چاہئے۔اس وقت جب یہ سطور سپرد قرطاس کی
جا رہی ہیں مولانا فضل الرحمن کا تازہ بیان آیا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی
کالا باغ ڈیم پر واویلا بند کرے جبکہ پیپلز پارٹی کے معتوب رہنما سینیٹر
بابر اعوان نے بھی کہا ہے کہ وہ آئندہ چند روز میں پنجاب کا مقدمہ لڑنے کے
لئے چھتیس شہروں میں جا کر بار ایسوسی ایشنز سے اٹھارویں ترمیم کے تناظر
میں خطاب کریں گے اور پنجاب کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اب یہ وفاق کی ذمہ
داری ہے کہ وہ 1991کے معاہدہ آب کے ذریعے پیدا ہونے والے اتفاق رائے کے
تناظر میں قومی نوعیت کے حامل اس منصوبے پر کام شروع کرائے۔اگر وفاق اس
حوالے سے مصلحتوں کا شکار ہے تو عدالت عظمیٰ ازخود کارروائی کر کے تمام
صوبوں کو اپنے تحفظات پیش کرنے کا کہہ سکتی ہے ۔ عدالت تمام فریقوں کو سننے
کے بعد جو بھی فیصلہ دے وہ سب کے لئے قابل قبول ہونا چاہئے کیونکہ سپریم
کورٹ اس وقت قومی مفادات کے تحفظ کے استعارے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
کچھ عرصہ قبل انہی صفحات پر کالا باغ ڈیم کی تعمیراورپاکستان کو زراعت اور
توانائی کے شعبوں میں خود کفالت کی منزل تک پہنچانے سے متعلق تفصیل سے عرض
کیا تھا۔ ان باتوں کو دہرانا مناسب نہیں اور نہ ہی اے این پی کے سینئر
رہنما ،بزرگ سیاستدان مرحوم اجمل خٹک سے اس موضوع پرہونے والی بحث کی تفصیل
میں جانا ضروری ہے البتہ قومی نوعیت کے حامل اس منصوبے سے متعلق پائی جانے
والی کنفیوژن اور صوبوں کے تحفظات کے خاتمے سے متعلق کچھ باتیں مکرر عرض
ہیں۔خیبرپختونخواہ کے لوگوں کا نوشہرہ کے ڈوبنے کا خدشہ بے بنیاد ہے کیونکہ
ڈیزائن کے مطابق کالا باغ ڈیم کی اونچائی 915فٹ مقرر کی گئی ہے جبکہ ضلع
نوشہرہ سطح سمندرسے 940فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ
کالا باغ ڈیم کا پانی اکوڑہ خٹک تک محدود رہے گا یوں نوشہرہ کے ڈوبنے کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سندھی قوم پرستوں کے خدشات بھی بے بنیاد ہیں کہ
پنجاب اس سے نہریں نکال کر سارا پانی ہڑپ کر جائے گا اور سندھ دھرتی بنجر
ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے وہ ہزاروں ملین ایکڑ فٹ
بارشی اور پہاڑوں پر برف پگھلنے سے آنے والاپانی ذخیرہ کیا جا سکے گاجو
سمندر میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اس ذخیرہ شدہ پانی سے سب سے زیادہ صوبہ
سندھ کی آٹھ لاکھ ایکڑ، بلوچستان کی پانچ لاکھ دس ہزار ایکڑ، صوبہ خیبر
پختونخواہ کی چار لاکھ چالیس ہزار ایکڑ اور پنجاب کی چھ لاکھ اسی ہزار ایکڑ
اضافی زمین زیر کاشت آئے گی جس سے ملک زرعی انقلاب کے دور میں داخل ہو جائے
گا۔ اگر یہ منصوبہ تعمیر کے مراحل میں داخل نہیں ہوتا تو آنے والے دور میں
ملک شدید ترین آبی بحران سے دوچار ہو سکتا ہے اور ویسے بھی جنوبی ایشیائی
ممالک کو آپس میں پانی کی تقسیم کے تنازعات میں الجھے ہونے کے باعث پانی کی
خوفناک کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ بات طویل عرصے سے سنائی دی جا رہی
ہے کہ آنے والے دور میں جنگیں پانی کے حصول کے لئے ہوا کریں گی ۔ پاکستان
تو ویسے بھی توانائی کے سنگین بحران سے گزر رہا ہے اور مستقبل قریب میں اس
کی شدت میںمزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔
دنیا ترقی کی شاہراہ پربگٹٹ دوڑ رہی ہے اور ہم ہیں کہ لایعنی اور چھوٹی
چھوٹی باتوں کو جواز بنا کراپنی ترقی کی راہیں مسدود کرتے چلے جا رہے
ہیں۔اگراب بھی ہماری قیادت نے حالات کی سنگینی کا ادراک نہ کیا تووہ وقت
دوڑ نہیں جب ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں- |