کیا یہ حقیقت صد فیصد درست نہیں
کہ زہنی خلجان نے ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسی پستی کا نشانہ
بنایا ہے کہ ہم زلت بے حسی اور بے شرمی کی وادیوں میں روز بروز لڑکھتے
جارہے ہیں۔ ہم اپنی تذلیل پر نہ تو آواز حق بلند کرنے کی ہمت رکھتے ہیں اور
نہ ہی ہمیں قومی و ملی سطح پر اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کا شعور
ہے۔لگتا ہے کہ ہم زلت کے پاتال کو چھو چکے ہیں۔ راقم الحروف کے زہن کے صفحہ
قرطاس پر محولہ بالہ نقشہ اس وقت ابھرا جب سقوط ڈھاکہ کی 42 ویںشام غریباں
کا ماتم کرتے ہوئے وزیرخارجہ حناربانی کھر کے دورہ بنگلہ دیش اور ppp حکومت
کی 5سالہ مدت سے معلق خبری تراشوں پر نظر اٹکی۔22 نومبر کو اسلام آباد میں
ڈی ایٹ کانفرنس منعقد ہوئی۔وزیرخارجہ حنا ربانی کھر بہ نفس نفیس کانفرنس کا
دعوت نامہ لیکر ڈھاکہ پہنچیں اور بنگالی وزیرخارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس
میں بنگلہ دیش کو برادر اسلامی ملک کہہ کر نیک تمناؤں کا اظہار کیا مگر دکھ
تو یہ ہے کہ بنگالی فارن منسٹر دیپو مونی بھپر گئی اور عالمی میڈیا کی
چکاچوند میں مطالبہ داغ دیا کہ پاکستان1971 میں بنگالیوں پر توڑے جانیوالے
مظالم پر معافی مانگے تب دعوتی کارڈ اور برادرانہ تعلقات کی بابت فیصلہ کیا
جائیگا۔ ڈیگال کی بائیوگرافی میں یہ فکر آموز جملہ ساری صورتحال کی سچائی
کو اموخٹة کرتا ہے۔ ڈیگال لکھتا ہے کہ بد نصیب ہے وہ قوم جو اپنی زوال
پزیری کے انحطاط اور بے حسی کے پختہ یقین کے باوجود نہ تو متفکر دکھائی
دیتی ہیں اور نہ ہی زلت کی پست ترین قبرسے باہر نکلنے کی جدوجہد پر آمادہ
خاطر ہوتی ہیں۔ ایسی ریاستوں اقوام اور معاشروں کا انجام بھی وہی ہوتا ہے
جو سقوط ڈھاکہ کی شکل میں تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوا کرتا ہے۔
بنگالی وزیرخارجہ کے طرز عمل پر لازم ہوچکا ہے کہ اہل قلم اصل حقائق کو
اشکار کریں۔پاکستانی فورسز پر بنگالیوں کی نسل کشی کا الزام لگایا جاتا ہے
مگر تاریخ کا سچ تو یہ ہے کہ بھارتی ایجنسی را عوامی لیگ کے لشکر اور مکتی
باہنی کے دہشت گردوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا تاکہ روئے ارض کی سب
سے بڑی نظریاتی مملکت کا شیرازہ بکھیرا جائے۔ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کی
اصل حقیقت یہ ہے کہ شیخ مجیب نے1940 میں جرمنی کے ہاتھوں فرانس کی شکست کی
طرز پر بھارت کے ساتھ معاملات طئے کررکھے تھے۔ اندرا گاندھی نے27 مارچ1971
میں لوک سبھا کو آگاہ کیا کہ بنگال کے متعلق بروقت اور برق رفتار فیصلے کئے
جائیں گے بروقت فیصلوں کو دانش مندی کے ساتھ کارآمد نہ بنایا جائے تو پھر
کامیابی کے ثمرات ناکامی کے کانٹوں میں بدل جاتے ہیں۔A.K سبرانیم بھارت کے
تجربہ کار ترین دفاعی ماہر رہے ہیں۔ ستر کی دہائی میں وہ انڈین دفاعی
پالیسی میکر ادارے انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک سٹڈیز کے گرو تھے۔لوک سبھا میں
اندرا گاندھی کے خطاب کے فوری بعد اے کے سبرانیم نے ہرژہ سرائی کی کہ بھارت
کا مفاد پاکستان کی شکست و ریخت میں پنہاں ہے۔ بھارتی سرکار اور افواج کو
اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ فطرت ایسے گولڈن چانس روزبروز ودیعت
نہیں کرتی۔ انڈین ایجنسیوں را نے موساد سی آئی اے کی معاونت سے مخصوص وقت
پر بنگال پر شب خون مارنے کا پلان وضع کرچکی تھی۔ اے کے سبرانیم اور دیگر
دفاعی ماہرین مارچ اور اپریل میں بنگالیوں کی آزادی پر زور دے رہے تھے مگر
یہ تجویز مسترد ہوگئی۔انڈین میجر جنرلDK PLATTE اپنی کتابthe lighting
campaign میں لکھتے ہیں۔ انڈین آرمی چیف نے انکار کردیا۔انڈین آرمی پچاس
ارب روپے خرچ کرکے تنظیم نو کے عمل سے گزر رہی تھی جس کی مدت میں ابھی کئی
ماہ باقی تھے۔اے کے سبرانیم کی کتاب لبریشن وار میں درج ہے کہ بھارت کو
خدشہ تھا کہ چین پاکستان کی امداد کرسکتا ہے۔ بھارت نے چینی فیکٹر کے توڑ
کے لئے ماسکو کی حمایت کی یقین دہانی حاصل کی۔ بھارت اور روس کے مابین9
اگست کو معاہدہ ہوگیا۔ عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی خاطر پناہ گزینوں
اور مہاجرین کی حالت زار کو اچھالا گیا۔ بھارتی میڈیا وار نے اپنا جادو
جگایا کہ دونوں سپرپاورز سوویت یونین اور امریکہ انڈیا کی ہمنوا بن
گئیں۔پرو انڈین فوجی و جنگی ماہرanthony نے اپنی کتابHOPE OF BANGLADESH
میں پاکستان پر بنگالیوں کی نسل کشی کی بہتان تراشی کا حقیقی راز افشا
کردیا۔ مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے مسلح جتھوں نے تقسیم ہند کے وقت
پاکستان کو اپنا ملک بنالینے اور ہجرت کرنے والے ہزاروں مسلم خاندانوں
کو1971 میں انتہائی سفاکی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ باغیوں نے سفاک قسم کے
ہتھیار اور نیزے بنوارکھے تھے۔ قاتلوں نے ہزاروں زندہ انسانوں کی انکھیں
نکال لیں۔حاملہ عورتوں کے پیٹ میں نیزے گھونپ دئیے۔چٹاگانگ میں20 ہزار
لاوارث لاشیں ملیں۔ انتھونی لکھتے ہیں کہ مکتی باہنی کے ہاتھوں بڑی بے رحمی
سے قتل ہوجانیوالے مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ آزادی کے نام پر
شروع کی جانیوالی وحشیانہ خانہ جنگی کے میدان میں پاک فوج بھی کود پڑی جس
نے معاملے کو مذید سنگین بنادیا۔ انتھونی پاکستانی حکام سے حاصل کردہ اعداد
و شمار کی روشنی میں ہلاک شدگان کی اصل تعداد کا زائچہ بناتے ہیں کہ بنگلہ
دیش کی آزادی طرفین کے اڑھائی لاکھ افراد کو ہیبت ناک موت کا تحفہ دے گئی۔
حناربانی کھر کو کوسنے دینے والی بنگالی وزیرخارجہ اور بنگلہ حکومت کو
چاہیے کہ بنگالیوں پر جبر و ستم کی آہ و بکا کرنے سے پہلے انہیں اپنی
گریباں میں جھانکنا چاہیے اگر وہ آج بھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو غور سے
دیکھیں تو وہاں پاکستان سے عقیدت رکھنے والے لاکھوں نان بنگالی مسلمانوں کے
خون کے لوتھڑے منجمد حالت میں موجود ہیں جو اپنی بے گناہی کا نوحہ پڑھتے
رہتے ہیں۔ آخر بے گناہوں کے خون کو انصاف کون دیگا؟ ادھر ہم ادھر تم کی خود
ساختہ اخباری سرخی کی آڑ میں جغادڑی دانشور اور دانش و بنیش سے عاری سیاست
دان پی پی پی پر سقوط ڈھاکہ کی زمہ داری ڈالتے ہیں مگر اس میں کوئی صداقت
نہیں۔1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کو مشرقی جبکہ پی پی پی کو مغربی
پاکستان میں اکثریت ملی۔ مجیب الرحمن اپنے غدارانہ چھ نکات کے ساتھ اقتدار
کے سنگھاسن پر جلوہ افروز ہونے کا خواہاں تھا۔بھٹو 6 نکات کا نقاد تھا۔چھ
نکات میں غداری اور میر جعفری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔جنرل رانی ہر صورت
میں صدر مملکت بننے کی سازشیں کررہا تھا۔ جنوری 1971 میں غیر یقینی اور
آلودہ سیاسی ماحول میںبھٹو اور مجیب ملاقات ہوئی۔بنگالیوں نے بھٹو کا پرجوش
استقبال کیا۔بھٹو مجیب بھائی بھائی کے پر شگاف نعروں نے ڈھاکہ کی فضاؤں کو
چیر کر رکھ دیا۔دونوں کے مابین ایک مقالمہ ہوا۔
مجیب ۔کیا دنیا ایک سٹیج نہیں ہم اسکے فنکار ہیں؟
بھٹو۔ہاں جنہوں نے اچھی اداکاری کی وہ جیت گئے کمزور ایکٹنگ والے ہار گئے۔
۔ مگر الیکشن ایکٹنگ نہ تھے
بھٹو۔ہمارے کندھوں پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے۔
مجیب۔مجھے کہہ لینے دیں بھٹو مجھ سے زیادہ خوبصورت ہیں
بھٹو۔پھر میں بہتر سلوک کا مستحق ہوں
جنرل رانی نے3 مارچ1971 کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا مگر بھٹو نے
بائیکاٹ کردیا۔بھٹو نے کہا اگر اجلاس ہوا تو مجیب 6 نکات والہ آئین منظور
کروالے گا جو ہمیں منظور نہیں اگر 120 دنوں میں آئین نہ بن سکا تو اسمبلی
تحلیل ہوجائے گی۔28 فروری کو بھٹو نے پارٹی کنونشن میں اعلان کیا کہ ملک کی
سلامتی کی خاطر مجیب کے تین نکات کو تسلیم کرتے ہیں۔بھٹو نے کہا مجیب میرا
بڑا بھائی ہے۔ بھٹو نے مجیب کے لئے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا سندھی قول سنایا
جس کا اردو ترجمہ یہ ہے۔میں اپنی معشوق کے پاس جاؤنگااسکے پیر چھولونگا
معافی مانگوں گا۔اسے منانے کا ہر جتن کرونگا۔ ادھر مجیب نے عوامی بغاوت کا
اعلان کردیا۔سقوط کے امکانات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئے ۔3 دسمبر کو بھارت
نے مشرقی حصے پر حملہ کردیا۔8 دسمبر کو بھٹو نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں
شرکت کی اور عالمی برادری کو بیانگ دہل بتایا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے
چاہے ہزار سال جنگ کرنی پڑے ہم بھارت سے قبضہ واگزار کروائیں گے۔بھٹو نے
جنرل یحیی پر زور دیا بھارت پر حملہ کردو اور مشرقی پاکستان میں مزاحمت کو
زیادہ سے زیادہ طول دو۔12 دسمبر کو unoمیں بھٹو نے بھارتی فارن منسٹر سورن
سنگھ کو مخاطب کیا۔ سورن سنگھ بنگال ہمارا ہے وہ پاکستان کا حصہ ہے ہم
بھارت سے لڑیں گے مریں گے اور سنہری بنگال واپس لیں گے۔12 دسمبر کو ٹائیگر
نے ہاہاکار مچائی کہ بھارتی ٹینک میری لاش سے گزر کر ڈھاکہ آئیں گے مگر یہی
ٹائیگر جان بچانے کے عوض سرنڈر پر راضی ہوگیا۔16 دسمبر کو ٹائیگر نے پلٹن
میدان میں شرمناک شکست تسلیم کر۔بھٹو نے سلامتی کونسل میں آخری شعلہ بیانی
کی میں امید کرتا ہوں کہ عالمی طاقتیں مجھے معاف کریں گی میں رات کے آخری
پہر کو آپ سے مخاطب ہوں۔سپرپاور نے ہم پر اپنیsuper willصاد کردی ہے۔unoمیں
روسی سفیر ہنس رہا ہے مگر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ میں یہاں سے
جارہا ہوں۔ کیا محولہ بالہ تاریخی واقعات کے کسی نکتے سے سقوط ڈھاکہ کی ذمہ
داری بھٹو یا پی پی پی پر ڈالی جاسکتی ہے؟ |