کالا فوبیا اور ملکی مفاد

کچھ عرصہ تک یہاں سُنا کہ تعلیم تعلیم اور بس تعلیم ۔پھر یہ سن کر دل ِ داغ دار میں خوشی کا ساماں ہوا کہ ملک کی 70فیصد آبادی خواندہ ہے۔سوچا کہ یہ بیچارے بھی اپنا مقام پیدا کر سکیں گے۔پھر اچانک ایوانِ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ایسے شواہد کہ وہاں سوٹیڈ بوٹیڈ ممبران جعلی ڈگری کے حامل ہیں نے تعلیمی و تعمیری جذبہ سے مطر دل کو ہلا کر رکھ دیا۔خیر حسب عادت اِس سین کو دیکھتے رہے اور آخر جرم ثابت ہو گیا۔لوگ نااہل ہو ئے اور شاید موجود بھی ہوں جو بہت وسیع اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔وہاں سے نظر ہٹی تو ایوانوں میں پاکستان اور اِس اسکی عوام کے ساتھ وفا کا عہد مصمم کی گردان سنانے والوں کی دہری شہریت رکھنے پر نظر آن آٹکی۔اُف پھر تب سے ابھی تک اِن کے بارے میں بہت سُنااور دیکھا۔ خیر چلیں ذرا نقطہ تبدیل کرتے ہیں۔غریب کا بیٹا ساری عمر پڑھے مگر رہتا کلرک ہی ہے ،پرائمری ٹیچر ہی ہے اگر نہیں تو اِس سے ذرا دو پوائنٹ اپ گریڈ ہو جائے گا۔مگر اُس کے لیے اچھی پوسٹ کی خواہش جرم کبیرا کی حثییت رکھتی ہے۔جناب عالی مقام سچ بتا رہا ہوں ہوتا ہے ایسا۔کوشش کریں اگر آپ کا دھیان اِس طرف نہیں دھیان دیں تو بے پایاں ثبوت دہلیز پر آن ملیں گئے۔آج سے کئی سال پہلے ایسے مسائل اور حکومتی سیاہ کاریاں بتانا مشکل تھا جب صحافت کے تالے نہ کھلے تھے۔ہاں مگر تب بھی ہم اِسی جنون کے تحت آواز بلند کرتے رہے مگر تب آواز اسطرح کونے کونے تک نہیں پہنچتی تھی ۔وقت کے ساتھ ہم جیسوں کو پلیٹ فارم ملا کچھ ہم نے محنت کی ،کچھ ایسے راست گو صحافتی اداروں نے کوشش کی اور کچھ عوام نے ہمارا معیار بلند کرنے کے ساتھ ہمیں پزیزائی بھی دی تو نوبت یہاں تک آئی کہ سچ گوئی اور صاف وپاک صحافت پٹری پہ چل پڑی اجارہ داری کا مکمل خاتمہ عمل میں آیا۔تو بات ہو رہی تھی کہ جس کی یہاں پسلی نہ ہو وُہ منظورنظر نہیں ہوتا۔منظور نظر وُہ ہوتا ہے جو اگر میٹرک یا انٹر پاس بھی ہو توکیپٹن آف پاکستان انٹر نیشنل ائر لائن بن جاتا ہے۔پھر اِس بات میں ٹوسٹ دیکھئے کہ نظام ِ ایڈمنسٹریشن ایسا ہے کہ انٹر پاس کیپٹن صاحب موجودہ و سابقہ صدرور و وزاراءکے طیارے اڑاتے پھرتے ہیں۔پھر طیاروں کے میزبانوں کا حال بھی واہ جی واہ ہی ہے 500کی ڈگریاں بھی بوگس ثابت ہوئی ہیں۔ویسے کیا بات ہے اِس نظام کی ۔اگر ذرا ایک یہ نقطہ بھی ذہن میں لایا جائے کہ انٹر پاس تو انٹر پاس ہی ہوتا ہے وُہ ڈاکٹر یا انجینئر یا پائلیٹ نہیں بن جاتا ۔تو یہ جو پاکستان میں طیاروں کے خوف ناک حادثے ہوئے ہیں کیا پتہ اُن کے اڑانے والے بھی کہیں اِنہیں میں سے ایک نہ ہوں ۔ہاں یہ مت سوچیں کہ احتساب اپنا منہ کھولے گا اور جعلی ادارے کو جسکا جرم ثابت ہواکو اپنے اندر ڈال لے گا۔یہ نصیب مقدر کی کھیلیں ہیں۔تو اگر کیپٹن ٹولہ ہی فیک نکلا تو پھر ملک کے باقی اداروں کے بارے میں کیا ذہن بنایا جائے کہ کیا وہاں بھی اعلی سطح سے لیکر نیچے تک یہ عنصرِ جعلبازی موجود ہوگا۔عجیب مذاق ہے اِس قوم کے ساتھ۔ذلیل کیا جا رہا ہے یہاں پڑھے لکھے لائق و قابل افراد کو اور نا اہل افراد کے سر پر تاج سرداراہ سجایا جا رہا ہے ۔اہ ہو ۔۔عوام تو احمقوں کی جنت میں رہ رہی ہے جو صرف اپنے آپ کو قوستی رہتی ہے ۔اُن کا کیا ہو گا جو آج کی اِس صدی میں بھی چوہدریوں ،وڈھیروں ،راہنماؤں کے ہاتھ پہ آج بھی بیت کرتے ہیں اور اُن کے کہے کے مطابق اِس سر زمین پر نہ جائز کرنے میں دیر نہیں کرتے۔دور کی بات نہیں آجکل کالا باغ ڈیم سر پہ اُٹھائے گھوما جا رہا ہے۔اور بعض حلقوں کو تو کالا فوبیا ہی ہو گیا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ اخلاق کی چادر کو کیسے اِس ملک میں سرِعام پھاڑا جاتا ہے۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اِس ملک کی قراردایں پیش اور منظور کروانے والے کیسے اچھل اچھل کر سپیکرکی باسکٹ میں اپنا بال ڈالتے اور اپنی سیاسی پارٹی پر احسان کرتے ہیں۔سمجھ سے بالا تر یہ بات ہے کہ جب عوام روتی ہے کہ بجلی نہیں گیس نہیں پانی نہیں سیلاب ہے مہنگائی ہے بے روزگاری ہے تو جب عوامی فلاح کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے تو وُہ رونا چھوڑ کر اِس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔جیسا کہ کالا باغ ڈیم ۔گزشتہ دِنوں میں ڈیم کے خلاف کافی عوامی مظاہرے دیکھنے کو ملے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ وُہ کون لوگ ہیں کونسا اعلی طبقہ ہے جو ڈیم کے خلاف بینرز اُٹھائے بڑی بڑی زبانیں اور موٹی موٹی آوازوں اور تند آکھیوں کے ساتھ سڑکوں پہ نکل آئے۔ذرا جائزہ لیتے ہیں کیا یہ باشعور لوگ صحیح آواز اُٹھا رہے تھے ۔کالا باغ ڈیم بننے سے تین ہزارمیگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔منچھرجھیل اور سندھ کے علاقے آباد ہونگے اور جنوبی پنجاب اور سندھ کی کپاس ،گندم ،چاول کی فصلوں کی پیداوار میں20سے 25فیصد اضافہ ہو گا۔پھر سندھ ،بدین ٹھٹھہ اور دوسرے اضلاع میں 20لاکھ ایکٹر رقبہ سیراب ہو کر زیر کاشت آئے گا یہی نہیں خیبر پی کے ،ڈیرہ اسماعیل خان اور اِس کے ساتھ بنوں کی 8لاکھ ایکٹر رقبہ رونق پذیر ہوگا۔بلوچستان کا بھی7لاکھ ایکٹر رقبہ سیرابی پر کمند ڈالے گا۔جنوبی پنجاب اور سندھ میں فلڈ کنڑول ہوگا۔پھرلائیو سٹاک پیداوار 13سے بڑھ کر 20 فیصد ہو جائے گی اور پھر تیل کی بڑھتی ہوئی درآمدات جو12ارب ڈالر تک جا چکی ہے کم ہو کر تک آجائیں گی۔اشیائے خوردنی ،سبزیاں،اور پھلوں میں اضافہ ہو گا اور یہ سستی میسر آئیں گی۔کارخانے لگیں گے اور روزگار ملے گا۔جسکا کسی ایک علاقے یا صوبے کو نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔دُشمنوں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی پاک وطن کے اِس عروج کو دیکھ کر ۔اب جب اِس ڈیم کے اتنے زیادہ فائدے ہیں تو کوئی کیونکر بھی اِس کے خلاف ہو گااپنے محدود سے فائدے کے لیے بھی ۔پھر اگر ہوگا تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اِسے ڈیم سے نہیں پاکستان کی ترقی اور ملک ِارض پاک کے ساتھ بیر ہے۔یہاں ایک قومی اخبار کی سروے رپورٹ بھی کوٹ کرنا چاہوں گا کہ کالا باِغ ڈیم بننا چاہیے کہ نہیں ۔تو 99فیصدکا نتیجہ ہاں مےں تھا کہ بننا چاہیے ۔تو پھر یہ کونسے وطن دوست تھے جو اِس کے خلاف سٹرکوں پہ آ نکلے ۔جی یہاں اِن لوگوں کا تعارف میں جہاں تک سمجھ پایا ہوں کروا دیتا ہوں کہ کہیں یہ وُہ لوگ تو نہیں جو وڈھیرں ،چوہدریوں اور سیاسی راہنماوں کے اشاروں پر ناچنے کا شوق عرصہ سے پورا کرتے ہیں جو بے شعور ہیں اور رہیں گے بھی۔جنہوں نے اپنی زیست کو انہیںوڈھیروں و سیاسی شعبدہ بازوں کو جہیزمیںدے دیا ہے نہ صرف اپنا بلکہ اپنی آل اولاد کا بھی۔پھر یہ وُہ ہیں جو اِیسے سیاسی خداوں کےساتھ رہنا اور اِن کی خدمت کو خودرای اور آبائی کسب قرار دیتے ہیں ۔اور یہ لوگ فخر کرتے ہیں اِس بات میں کہ ہم فلاں کے بندے ہیں یعنی آزاد ہو کہ بھی تا حیات اپنے نظریات عقائد احساسات کا محور ہم نے اُس انسان کو بنا دیا ہے۔اِس قدر کم عقلی کہ بے وقوفی کو شرم آتی ہو گی۔مگر ایسوں کی شرم رخصت ہو چکی ہے۔جنہیں اپنے حقوق و فرائض اپنے وقار کا علم نہیں جنہیں یہ ادراک نہیں کہ اللہ عزوج نے انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔تعلیم سے نابلد یہ لوگ کوئی بھی بےہودہ اور خلاف قانون کام کرنے سے بعض نہیں آتے ۔آخر تعلیم ہوتی تو شعور آتا تو جب تعلیم ہی نہ ہو گی تو کیپٹن بھی انٹر پاس ہونگے اور قانون بنانے والے بھی۔چلیں اگر انہیں کالا باغ ڈیم اتنا ہی دُکھتا ہے تو برائے مہربانی کوئی اور ڈیم ہی بنانے کے لیے متفق ہو جائیں ۔کم از کم ہمسایہ ملک بھارت کے برابر تو آ جائیں اِس مسلئے میں ۔ذرا غور کریں فائدہ ہم سب کا ہماری اولاد کا ہی ہوگا پاکستا ن کا نام ہی بلند ہو گا ۔بزرگوں کا خواب ہی پورا کر دیں ہم ۔یہاںڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا شعر زینتِ تحریر بنانا چاہتا ہوں کہ
”بھلا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
”ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا“

ہم نے بزرگوں کا دیا گنوا دیا ہے ۔پاکستان میں ماشااللہ پڑھا لکھا طبقہ بھی ہے جس کی ہمیں اور حوصلہ افزائی کر کے اُن کی خدمات کو لینا ہو گا اور اُن کا برپور خیال بھی رکھنا ہے تاکہ ہمارے یہ ثپوت بیرون ملک کیونکر جائیں۔یہاں مجھے انجینئر آغا وقار کا خیال ذہن میں آیا ہے جس نے پانی سے گاڑی چلانے کا کہا تھا۔جو اُس نے کیا بھی مگر پہلے تو ہمارے ایک وفاقی وزیر نے اُس کا کام دیکھ کر اُس پر سایہ شفقت کا ہاتھ رکھا مگر بعد ازاں وُہ ہاتھ بڑی بے دردی سے اُٹھا لیا گیا۔انجئینرآغا وقار نے گاڑی پانی سے چلائی بھی مگر حال یہ ہے کہ سیاست کھیل کی وجہ سے اُس انسان کو اور اِس کی وطن کی خدمت کے جذبے کو زنگ لگایا جا رہا ہے۔اعلی حکام اور وطن عزیز سے محبت کرنے والوں سے اپیل ہے کہ انجینئر آغاوقارکو پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرنے دیا جائے تاکہ یہ زوال کے بادل اِس پاک دھرتی سے چھٹ جائیں۔
usama khamis minhas
About the Author: usama khamis minhas Read More Articles by usama khamis minhas: 15 Articles with 10552 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.