اِحتساب پھر اِنتخاب

ان دنوں ملک عزیزمیں عام انتخابات کی آمدآمد ہے لیکن ان کے بروقت انعقاد بارے سیاسی پنڈت اورسیاسی پارٹیاں زیادہ پرامید نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود سیاسی سرگرمیاں ،صف بندیاں اورایک دوسرے کیخلاف تندوتیز بیان بازیاں جاری ہیں ۔مختلف سیاسی اتحاد بنانے اورسیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے ایک وقت میںکئی کئی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔انتخابات کا ہونا یانہ ہوناایک معمہ بناہوا ہے،سٹے بازاس بات پرجوا تک لگارہے ہیں۔ مختلف قیاس آرائیاں محوگردش ہیں کیونکہ اس وقت اوران حالات میں الیکشن ہوناکچھ پارٹیوں کوسوٹ نہیں کرتا،جواپنے سیاسی مستقبل بارے کافی بدگمان اوراپنے گرتے ہوئے گراف سے بیحد پریشان ہیںاورانہیں مطلوبہ اکثریت نہ ملنے کاڈر ہے۔کچھ الیکشن سے پہلے پہلے اپنے منصوبوں کی تکمیل کے خواہاں ہیں اوراس کیلئے انہیں مزید وقت درکار ہے ۔تاہم ان خدشات کاایک سبب پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی اورعدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمدچودھری کی اپنے اپنے عہدوں پرموجودگی بھی ہے کیونکہ ان کے مطابق اگر دونوں چیف صاحبان کے ہوتے ہوئے عبوری حکومت معرض وجود میں آئی اوراس نے کسی امتیاز کے بغیرسب کا بے رحم احتساب شروع کردیا توپھران میں سے کوئی بھی قانون کی گرفت سے نہیں بچے گا، اس صورت میں قومی لٹیروں کی چمڑی بچے گی اورنہ دمڑی بچے گی ۔اوراگراحتساب شروع ہوگیا توپھر بات بہت دورتک چلی جائے گی اورپھرانتخابات عبوری حکومت کی مرضی کے مطابق ملتوی بھی ہوسکتے ہیں لہٰذا کچھ مقتدر جمہوری قوتوں کے درمیان اس امکان پرباامرمجبوری یانظریہ ضرورت کے تحت خاموش اتفاق ہوگیا ہے اوروہ ازخود انتخابات کوتقریبا ً ایک برس کیلئے آگے لے جا نے کی خواہاںہیں تاکہ اس وقت تک دونوں چیف ریٹائرڈہوچکے ہوں گے اور عبوری حکومت مقررہ آئینی معیاد کے اندراندرشفاف انتخابات کے انعقاداورسلجھے ہوئے اندازسے انتقال اقتدار کی پابندہوگی،یہ انسانی سوچ ہے مگر قدرت کی کیا مرضی ہے یہ وقت آنے پر معلوم ہوجائے گا۔

میں سمجھتا ہوں احتساب کے بغیر بار بارانتخاب کی مشق فضول ہے کیونکہ ہمارے سیاستدان ووٹرز کواپنامحتسب قراردیتے ہیں اوروہ ووٹرزکے سواکسی کواپنے احتساب کاحق دینے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔حالانکہ ہمارے سیاسی اورپارلیمانی نظام میں بیچارے ووٹرکی کوئی حیثیت یا وقعت نہیں ہے ۔ووٹرز کوہردوچاربرس بعدضرورت کے وقت یاضرورت کے تحت بے زبان جانوروں کی طرح زبردستی گاڑیوں میں بھر کرپولنگ سٹیشن تک لے جایا جاتاہے اورووٹ کی پرچی پرمہرلگانے کے بعد انہیں ان کے حال پرچھوڑدیا جاتا ہے۔ووٹرکوووٹ کی پرچی پرمہرلگاتے ہوئے چندسیکنڈ کاوقت لگتا ہے جبکہ منتخب ہونیوالے نمائندے کوپورے پانچ برس مل جاتے ہیں اوروہ اپنے ووٹرزکے مقدرکامالک ومختاربن جاتا ہے۔ووٹرکبھی حکمرانوں ، سیاستدانوں اورامیدواروں کااحتساب نہیں کرسکتا کیونکہ ہرووٹرایک اکائی ہے اوراکائیوں کی کوئی حیثیت اورطاقت نہیں ہوتی۔ جو ووٹرز اپنے منتخب نمائندوں سے اپنا حق مانگ سکتے یاچھین نہیںسکتے وہ ان سرمایہ داروں ،سرداروں اوروڈیروں کااحتساب کس طرح کرسکتے ہیں۔جوووٹراپنے حکمرانوں کوآنکھ اٹھاکردیکھ نہیں سکتا وہ اس کاہاتھ ان کے گریبان یاان کی گردن تک کس طرح جاسکتاہے ۔بیچاراووٹرتواپنے محلے کے مسائل یعنی گلی کے سولنگ اورسیوریج کیلئے اپناووٹ پانچ برس کیلئے گروی رکھ دیتا ہے ،ایسا کرتے کرتے کئی برس بیت گئے مگراس مغرب برانڈجمہوری نظام میںعام آدمی کی حالت زارنہیں بدلی تاہم ان سیاستدانوں کوہرکوئی جانتا ہے جومحض چندبرسوں میں محلے سے محلات میں منتقل ہوگئے ۔جس وقت تک عام لوگ یاووٹراکائیوں میں بٹے رہے وہ ان سرمایہ داروں کے ہاتھوں استعمال بھی ہوں گے اوران کااستحصال بھی ہوگا مگرجس روزانہیں اپنے ووٹ کی اوراپنے زوربازوکی طاقت کااندازہ ہوگیا اس دن تاج وتخت ان کی ٹھوکر پرہوں گے ۔عوام کواقتدارمیں شراکت کیلئے،اپنے مفادات اوراپنے بنیادی حقوق کی حفاظت کیلئے شخصیت پرستی ،پارٹی ازم اوربرادری ازم کی سیاست کاسدباب کرناہوگا ۔

ہرسیاسی پارٹی کا اپنااپنامخصوص ایجنڈا ہے لیکن سبھی کاہدف صرف ''جھنڈا''ہے۔نوے فیصد سیاستدان وزیراعظم بننے کے خواہاں ہیں مگرکسی کے پاس قومی بحرانوں سے نجات کاتسلی بخش اورقابل اعتماد روڈمیپ اورٹائم فریم نہیں ہے ۔جس ملک میں روزانہ کی بنیاد پرپندرہ سے بیس ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہووہاں کوئی احتساب کی بات نہیں کررہا ہرکوئی فوری اورشفاف الیکشن کاخواہاں ہے۔سیاستدان ملک وقوم کی حالت زاردیکھنے کی بجائے اپنی نگاہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی پرجمائے ہوئے ہیں ۔اس ملک کوانتخاب سے زیادہ کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔احتساب کے بغیر انتخابات ہوئے توپاکستان میںکرپشن کلچر فروغ پائے گا ،جعلی ڈگری ہولڈر ،مقامی بنکوںکاپیسہ قرض کی صورت میں ہڑپ اورہضم کرنیوالے اورٹیکس نادہندہ پھر اسمبلیوں میں آجائینگے۔ اسمبلیوں میں جانے کے خواہشمند خواتین وحضرات سے دوہری شہریت کی طرح ان کی ڈگریوں یعنی تعلیمی قابلیت کے بارے میں بھی تحریری حلف نامہ لیا جائے اور جس کسی کی جعلی ڈگری کی بنیادپراسمبلی رکنیت ختم کی گئی تھی اسے دوبارہ زندگی بھرکیلئے الیکشن کااہل قرارنہ دیا جائے ۔پچھلی چاردہائیوں میں جوبھی برسراقتدارآیا اس نے اس بدنصیب ملک کے وسائل میں نقب لگائی اورلوٹ کھسوٹ کامال بیرون ملک منتقل کرتارہا جس کے نتیجہ میں پاکستان کی معیشت کادھڑن تختہ ہوتااوراس کے بیرونی قرض کاحجم بڑھتارہا ۔

پاکستان میںبدعنوانی زوروں پرہونے کے باوجودہمارے ہاں ابھی ایمانداراوردیانتدارافراد کاقحط نہیںپڑا۔کوشش اورتلاش کی جائے تو یقینا کرپشن کی نجاست اورغلاظت سے پاک دامن کئی لوگ مل جائینگے ،انہیں پاکستان کوکرپشن کے کینسر سے پاک کرنے کا ٹاسک دیا جائے ۔بروقت اورموثراحتساب کویقینی بنانے کیلئے ایک جاندارمگرغیرجانبدارادارہ بنایاجائے جس کاکمانڈ اینڈ کنٹرول آزادعدلیہ کے پاس ہواورضابطہ اخلاق کے پابندمیڈیاکی احتساب سے متعلقہ مواداورمعلومات تک رسائی یقینی بنائی جائے۔وفاقی حکومت کامقررہ کردہ چیئرمین نیب یقینا اس معیاراورقوم کے اعتماد پرپورا نہیں اترسکتا۔ایوان صدرکانامزدچیئرمین نیب آئین وقانون کی پاسداری کرنے کی بجائے اپنے آقاﺅں کے ساتھ وفاداری کرتاہے اورماضی میں سیاسی بنیادوں پرمقررکئے جانیوالے نیب کے چیئرمین حضرات کی کارگزاری کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔نیب کے اختیارات کوایوان صدر کے پاورہاﺅس سے باآسانی کنٹرول کیا جاسکتا ہے جبکہ آزاد عدلیہ کے زیرانتظام احتساب کاادارہ ہرقسم کی سیاسی مداخلت سے پاک ہوگا۔نام نہادسیاسی یاجمہوری ادوار میں کسی سیاستدان کااحتساب نہیں ہوتاکیونکہ ایک چوردوسرے چورکااحتساب نہیں کرسکتا۔تاہم سیاسی ادوارمیںایک دوسرے سے انتقام ضرور لیا جاتا ہے جبکہ یہ انتقام ریاست ،معیشت یاجمہوریت کیلئے مفیدنہیں بلکہ مضر ہوتا ہے۔ٹی ٹاک شوزاورپریس کانفرنس میں سیاستدان ایک دوسرے کی بدعنوانی کابھانڈا پھوڑتے ہیں مگراس کے باوجود نیب ان میں سے کسی پرہاتھ نہیں ڈالتا ۔جمہوری سیاسی اورفوجی ادوارمیں حکومت کے حامیوں کی بدعنوانیوں سے چشم پوشی اختیار کی جاتی رہی جبکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کوخوب رگڑاگیا مگر جوکوئی سیاسی وفاداری تبدیل کرتا اسے چھوڑدیا جاتالہٰذا یہ سب کچھ عدلیہ کے ماتحت کام کرنیوالے احتساب کے ادارے میں نہیں دہرایا جاسکتا۔کسی بھی ریاست کی بقاءاورشہریوں کی بہبودکیلئے جمہوریت سے زیادہ معیشت اہم ہوتی ہے۔عوام جمہوریت کے بغیربھی زندہ رہ سکتے ہیں مگرمعاشی طورپرکمزورملک میں انسان زندہ درگورہوجاتے ہیںلہٰذا احتساب کے بغیر انتخاب سے عام آدمی کااحساس محرومی دورنہیں ہوگا۔قومی معیشت کی مضبوطی ،مادر وطن میںمعاشی سرگرمیوں کی بحالی اورعام آدمی کی خوشحالی کاراستہ انتخاب نہیں احتساب سے ہوکرجاتا ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 4 Articles with 2026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.