بلدیہ کراچی کا فائر فائٹنگ ڈپارٹمنٹ

بلدیہ کے علاقے میں اس سال ستمبر میں ہونےوالی آتشزدگی کے واقعہ کو صدیوں یاد رکھا جائے گا اس واقعہ میں 279 افراد جاں بحق ہوئے ۔ کسی فیکٹری میں آتش زدگی کا یہ پوری دنیا میں پہلا واقعہ تھا جس میں اس قدر جانی نقصان ہوا ۔ خیال تھا کہ اس سانحہ کے بعد ملک کے بڑے شہروں خصوصاََ کراچی میں آئندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیئے خصوصی اقدامات کیئے جائیں گے۔لیکن افسوس کہ اس قدر خوفناک آتشزدگی کے باوجود کوئی بھی خاص اقدامات نہیں کیئے جارہے ۔ کراچی جو صنعتی شہر کہلاتا ہے جہاں آگ لگنے کے نتیجے میںہر سال چار سو بلین روپے کا نقصان ہوتا ہے ، حکام اسی طرح اپنے معمولات میں مشغول ہیں جیسے بلدیہ کی فیکٹری میںآگ سے پہلے تھے۔

دنیا بھر میں آتشزدگی سمیت دیگر آفات سے نمٹنے کے لیئے خصوصی ادارے قائم ہیں۔لیکن ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں پرواقعات ہونے کے بعد حکمرانوں کے کان پر جوں رینگتی ہے تاہم اس بار یہ بھی نہیں ہورہا ۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ملک کا سب سے بڑا فائر فائٹنگ کا شعبہ قائم ہے ۔ سالانہ اربوں روپے کے اخراجات اور ہر سال کروڑوں روپے کی خریداری کے باوجود فائر ڈپارٹمنٹ بین الاقوامی معیارکے مطابق نہیں ہے ۔یہ ڈپارٹمنٹ کسی بھی بڑے حادثے پر فوری قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ یہ لازمی سروس کا شعبہ بھی کے ایم سی یا ملک کے دیگر شعبوں کی طرح چل رہا ہے ۔ جہاں کرپشن ، افسران کی لاپرواہی اور فائر مینوں کی نصف تنخواہوں یا سیاسی بنیادوں پر ڈیوٹی سے ” غیر حاضری “ معمول کی بات ہے۔

بین الاقوامی میعار کے مطابق ہر فائر اسٹیشن میں کم از کم تین فائر ٹینڈرز جو کہ اسٹینڈبائی ہو، ایک ایمبولینس ، اور تمام اسٹیشن وائرلیس اور ٹیلی فون لائینز کی سہولیات ہونی چاہئے۔

لیکن بدقسمتی سے کرپشن کے باعث، غفلت و لاپرواہی اور حکام کی عدم دلچسپی کے باعث کراچی کے بیشتر فائر اسٹیشنز وائرلیس کی ضروری سہولت اور تمام فائر اسٹیشنز ایمبولینس اورشہریوں کو ہنگامی بنیاد پر فرسٹ ایڈ فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔اگر چہ کے ایم سی شہر کی حدود میں نئے فائر اسٹیشن اور فائر پوسٹ کے قیام کے منصوبے پر بھی عمل کررہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کیٹل کالونی فائر اسٹیشن کی عمارت ہی موجود نہیں ہے یہ ایک کنٹینر میں قائم کیا گیا ہے اس کے پاس صرف ایک فائر ٹنیڈر ہے ، بلدیہ ٹاﺅن اور ماری پور فائر اسٹیشن کے پاس کوئی فائر ٹینڈر نہیں ہے ۔

فائر ڈپارٹمنٹ جو ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباََ ڈھائی ہزار افراد پر مشتمل ہے۔

اس عملے کا 40فیصد ڈیوٹی سے غائب رہتا ہے ۔ان میں سیاسی بنیادوں پر ڈیوٹی نہیں کرنے کی رعایت حاصل کرنے والے اور اوورٹائم الاﺅنس اپنے اسٹیشن افسر کو بطور رشوت ادا کرکے ڈیوٹی سے مثتثنیٰ کی رعایت حاصل کرنے والے بھی شامل ہیں۔

کے ایم سی کے قابل اعتماد ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ” سیاسی آلودگی“ کا شکار کے ایم سی میں سیاسی جماعت کے کارکن ڈیوٹی ادا نہ کرنا حق سمجھتے ہیں ۔جس کی وجہ صرف یہ کہ جس سیاسی جماعت کا ادارے پر غلبہ ہے اس کے خلاف کوئی بھی کچھ کہنے اور کرنے سے گریز کرتا ہے۔اس جماعت کے ہاتھوں جس طرح شہری اپنے آپ کو یرغمال سمجھتے ہیں اسی طرح کے ایم سی کے حکام بھی اپنے آپ کو اس کے سامنے بے بس محسوس کرتے ہیں۔حالانکہ ڈاکٹر فاروق ستار کے میئر رہنے کے دوران اس طرح کی صورتحال نہیں تھی اور نہ ہی عملہ اس قدر بڑی تعداد میں ڈیوٹی سے غائب رہتا تھا جتنا اب رہتا ہے۔ جبکہ عبدالستار افغانی مرحوم کی مئیرشپ میں اور نعمت اللہ خاں کے سٹی ناظم رہنے کے دوران بھی ملازمین کو اس طرح کی کوئی غیر قانونی سہولیات حاصل نہیں تھی۔کے ایم سی کے اندر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ فائر برگیڈ ڈپارٹمنٹ میں ہر ایک ملازم کا وورٹائم فکس ہے ۔ روزانہ چار گھنٹے ہر فائر مین، ڈرائیور ، لیڈنگ فائر مین کواوورٹائم دیا جاتا ہے چاہے وہ ڈیوٹی ادا کرے یا نا کرے ۔جبکہ فائر آفیسر اور اسٹیشن آفیسرز بھی روزانہ 12گھنٹے کے حساب سے سرکار سے اوورٹائم وصول کرتے ہیں۔متعد د ایسے فائر مین اور لیڈنگ فائرمین ہیں جو اوورٹائم کی رقم اسٹشن افسر کو ادا کرکے ڈیوٹی نہ کرنے کی سہولت حاصل کرلیتے ہیں۔

فائر برگیڈ کے ایک افسر نے بتایا کہ فائر اسٹیشنوں کے لیئے ایمبولینس اور بعض دیگر مقاصد کے لیئے 20 ہائی روف سوزوکیاں خریدی گئیں تھیں ،یہ گاڑیاں سٹی ناظم مصطفےٰ کمال کے دور میں خریدی گئیں اور اسی دور میں سٹی گورنمنٹ کی سیاسی شخصیات کے حوالے کردیں گئیںتھیں لیکن سٹی حکومت کے ختم ہونے کے بعد بھی یہ فائر ڈپارٹمنٹ کو نہیں مل سکی۔کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کے کروڑوں روپے کی یہ گاڑیاں اب کہاں ہیں؟

فائر برگیڈ ڈپارٹمنٹ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس کے ہر اسٹیشن کے فائر ٹینڈر کے لیئے ڈیزل شاہرا ہ فیصل پر قائم ایک ہی پمپ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر اسٹیشن کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی میل کا فاصلہ طے کرکے ڈیز ل گاڑیوں میں بھروایاجاتا ہے جس سے اضافی ڈیزل خرچ بھی ہوتا ہے۔اگر ہر اسٹیشن پر ڈیزل پہنچانے کا انتظام کیا جائے تو اضافی اخراجات سے بچا جاسکتا ہے۔

ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ گلشن اقبال فائر اسٹیشن اور چار فائر چوکیاں مختلف فلائی اوورز کے نیچے قائم کی گئیں جو بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہیں ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ فائر برگیڈ میں ایک ایسا قابل افسر بھی موجود ہے جس نے امریکہ سے ہنگامی آفات سے نمٹنے کی خصوصی تربیت حاصل کی ہے یہ پورے پاکستان سے چھٹا اور سندھ سے اکلوتا امریکی تربیت کا حامل افسر ہے لیکن اسے ملیر فائر اسٹیشن میں سب فائر آفیسر کی حیثیت سے تعینات کرکے اس کی قابلیت اور صلاحیت کا مذاق اڑایا جارہا ہے ۔مذکورہ افسر کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اسے محدود کردیا گیاہے۔سنیارٹی کے باوجود اسے اگلے عہدے پر ترقی دینے سے بھی گریز کیا جارہا ہے جبکہ 1997اور اس کے بعد تقرر پانے والے متعد د افسران کو سیاسی بنیادوں پر ترقیاں دی جاچکی ہیں۔یہ بات امریکہ اور عالمی اداروں کے لیئے بھی فکر انگیز ہے کہ ان کے مالی تعاون سے تربیت حاصل کرنے والے افسران سے کسی قسم کا فائدہ پاکستان میں نہیں اٹھایا جارہا۔

بلدیہ عظمٰی کے ۲۲ فائر اسٹیشن میں سے لانڈھی اور سنٹرل دو ایسے فائر اسٹیشنز ہیں جہاں پرقوائد کے خلاف گریڈ 17کے باالترتیب دو اور تین اسٹیشن افسر تعینات ہیں حالانکہ کئی اسٹیشنز ایسے بھی ہیں جہاں سب فائر آفیسرز اسٹیشن آفیسرز کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گریڈ 17کے اسٹیشن آفیسرز کی ادارے میں کمی ہے۔جبکہ جہاں ایک سے زائد ایک سے زائد اسٹیشن افسر تعینات ہیں یہ تمام سہولیات حاصل کرنے کے باوجود ڈیوٹی سے مثتثنٰی ہیں ۔

ہولناک اطلاع یہ بھی ہے کہ بعض اسٹیشنوں سے غیر قانونی طور پرفائر ٹینڈرز سے ڈیزل نکال کر فروخت کیا جاتا ہے۔اس طرح ان فائر اسٹیشنز پر ”پیٹرول پمپ “کی غیر اصو لی اور غیر قانونی سہولت بھی دستیاب ہے۔

دو کروڑ کی آبادی اور سینکڑوں ہائی رائز بلڈنگز ہونے کے باوجود تمام کے ایم سی فائر ڈپارٹمنٹ کے پاس49 فائر ٹینڈرزاور تین اسنارکل ہیں جن میں سے ایک اسنار کل اور 22 فائر ٹینڈرز خراب ہیں۔باقی کی حالت کیا ہے یہ معلوم کرنا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں آبادی کے لحاظ سے دو سوفائر اسٹیشنز ، چارسو فائرٹینڈرز اوردیگر وہیکل کی ضرورت ہے ۔جبکہ دوسری طرف تربیت یافتہ قابل فائر مینز اور فائر آفیسرز کی بھی ادارے کوضرورت ہے۔

ایڈمنسٹریڑ کے ایم سی محمد حسین سید جو اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں،راقم سے بھی ان کے دوستانہ تعلقات ہیں، دوستی اپنی جگہ اور صحافت اپنی جگہ۔میرے لیئے اہم بات یہ ہے کہ محمد حسین سید نامعلوم وجوہ کی بناءپر فائر برگیڈ ڈپارٹمنٹ کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے میں تاحال ناکام نظر آرہے ہیں۔شائد یہ کام ان کے اکیلے کا نہیں بلکہ پوری حکومت کا ہے، حکومت کی توجہ کے لیئے یہ کالم حاضر ہے اب دیکھتے ہیں کہ حکومت اس پر کیا ایکشن لیتی ہے۔؟ لیتی بھی ہے یا نہیں؟ .
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165914 views I'm Journalist. .. View More