یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے
کہ آج کل عدلیہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز کی راہ پر گامزن ہے اور بزعمِ
خویش اس زعمِ باطل میں مبتلا ہے کہ وہ آئین کے دفاع کا مقدس فریضہ سر انجام
دے رہی ہے۔عد لیہ اگر یہ سمجھ رہی تھی کہ ایک وزیرِ اعظم کو گھر بھیجنے کے
بعد یہ اپنے اسی عمل کو دوبارہ دہر الے گی تو وہ سخت غلطی پرتھی ۔ ماضی کے
عمل کو اسی انداز میں دہرانے کی ریاست متحمل نہیں ہو سکتی تھی اور شائد یہی
وجہ تھی کہ عدلیہ کو بھی درمیانی راہ تلاش کرنی پڑی کیونکہ اب فریقِ ثانی
اسی طرح کے طرزِ عمل کو برداشت اور قبول کرنے کےلئے تیار نہیں تھا ۔اس طرح
کی راہ سید یوسف رضاگیلانی کے مقدمے میں بھی لکالی جا سکتی تھی لیکن اس وقت
عدلیہ اپنی بالا دستی کے نشے میں اس قدر مخمور تھی کہ وہ کسی کی بھی بات
سننے کو تیار نہیں تھی ۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے بڑی دھائی دی لیکن عدلیہ نے
وہی کچھ کیا جو اس کے من میں تھا۔ وقت نے ثا بت کیا کہ بیرسٹر اعتزاز احسن
کا موقف درست تھا لیکن اسے ذاتی انا کی سولی پر چڑھا دیا گیاتھا اور سید
یوسف رضاگیلانی کو نا اہل قرار دے کر فارغ کر دیا گیاتھا۔ صدرِ پاکستان آصف
علی زرداری کے خلاف عدلیہ کی حا لیہ مورچہ بندی بھی بہت سے شکوک کو جنم دے
رہی ہے کیونکہ انھیں بھی کھڈے لائن لگانے کی سازش ہو رہی ہے۔ سازشیں تو آصف
علی زرداری کے خلاف بہت ہوئی ہیں لیکن وہ اپنی معاملہ فہمی اور ذہانت سے
ہربار بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تازہ وار سے
وہ کس طرح اپنے آپ کو بچاتے ہیں کیونکہ یہ وار بہت کاری اور مہلک ہے۔عدلیہ
کی پی پی پی کے ساتھ یہ آنکھ مچولی ابھی جاری تھی کہ عدالتِ عظمی نے ایم
کیو ایم کے قا ئد الطاف حسین کو توہینِ عدالت کے نو ٹس پر ۷ جنوری کو خود
عدالت میں حا ضر ہونے کا حکم سنا کر جلتی پر پٹرول چھڑک دیا ۔چار دنوں تک
عدلیہ کے اس فیصلے کے خلاف سندھ میں جس طرح کا احتجاج دیکھنے میں آیا اس نے
ریاست کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیالیکن عدلیہ پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہو
رہی بلکہ اپنی روش پر بڑی ڈھٹا ئی سے کھڑی ہے ۔کیا عدلیہ کو اس بات کا حق
حاصل ہے کہ وہ یہ اعلان کرتی پھرے کہ ہم کراچی کی حلقہ بندیاں اس انداز سے
کریں گئے کہ کسی ایک مخصوص جماعت کی اجارہ داری ختم ہو جائے؟ کیا عدلیہ کا
کام مخصوص سیاسی جماعتوںکے مینڈیٹ کا فیصلہ کرنا رہ گیا ہے؟عدلیہ تو غیر
جانبدار ہوتی ہے اور سب کو ایک آنکھ سے دیکھتی ہے لیکن ایم کیو ایم کے خلاف
اس کی تازہ یلغار اس کی غیر جانبداری کو مشکوک بنا رہی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں
کا حکم دینا عدالت کا ا ختیار ہے لیکن کسی مخصوص جماعت کے خلاف ذاتی عناد
کا اظہار کرنے کا اختیار عدلیہ کے پاس نہیں ہے۔ایم کیو ایم کے اندازِ سیاست
سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس بات کی اجازت کسی کو نہیں دی
جا سکتی کہ وہ ایم کیو ایم کو آئینی حق سے محروم کر کے ا ن کی عوامی
مقبولیت پر ڈا کہ ڈالنے کے حربے استعمال کرے ۔ایم کیو ایم کے اندازِ سیاست
سے آپ ضرور اختلاف کریں لیکن انھیں دیوار کے ساتھ لگا کر ان کے مینڈیٹ کو
قتل کرنے کا حکم تو صادر نہ فرمائیں۔اگر کراچی کے لوگ ایم کیو ایم پر
اعتماد کرتے ہیں تو اس سے کسی کے پیٹ میںبل نہیں پڑنے چائیں ۔جمہوریت میں
عوام کا ووٹ ہی کسی کی مقبولیت کا پیمانہ ہوا کرتا ہے لہذا دوسری جما عتوں
کو بھی عوامی حمائت حاصل کرنے کی راہ اپنانی چائیے تا کہ ایم کیو ایم کی
مقبولیت میں کمی آجائے۔عدالتی احکامات سے ان کی مقبولیت کو نقصان پہنچانے
کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی ہو نی چائیے کیونکہ اس طرح کی کوششوں کے بڑے
بھیانک نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں لہذا ان سے اجتناب کیا جا نا ضروری ہے۔ہر
کھیل کے کچھ اصول ہو تے ہیں لہذاکھیل کو اس کے اصولوں کے مطابق ہی کھیلا جا
ئے تو بہتر ہے۔جب کھیلوں سے اصول مفقود ہو جاتے ہیں تو پھر بڑے مہلک نتائج
بر آمد ہوتے ہیں ۔ہم اسطرح کی بے اصولیوں سے پہلے ہی آدھا ملک گنوا چکے ہیں
لیکن پھر بھی بے اصولیوں سے باز نہیں آرہے ۔۔
اس وقت عدالتوں کے اندر لاکھوں مقدمات التوامیں پڑے ہوئے ہیں اور لوگ در
بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں لیکن عدالتیں ہیں کہ سیاست کی بساط سجا کر بیٹھی
ہو ئی ہیں ۔انصاف کا حصول دن بدن مشکل ہو تا جا رہا ہے جس کی وجہ سے موجودہ
عدلیہ پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو تا جا رہا ہے ۔کیا اسی لئے عدلیہ تحریک
چلائی گئی تھی کہ عدلیہ کسی مخصوص جماعت کے ساتھ مخاصمانہ رویوں کا اظہار
کرے اور نظامِ مملکت میں رخنہ اندازی کرکے انصاف کا خون کرے ۔اگر عدلیہ کے
کچھ ججز کو سیا ست کرنے کا شوق ہے تو وہ عدالتیں چھوڑ کر کوچہِ سیاست کا رخ
کریں اور عوام سے ووٹ لے کر اقتدار کی رہدا ریوں کے لئے اپنی قسمت آزمائیں
ممکن ہے کہ عوام ان کی خد مات کے سلسلے میں انھیں اپنے مینڈیٹ سے نواز دیں
اور پھر وہ آئین کے ساتھ جو سلوک روا رکھنا چا ہیں رکھیں کسی کو کوئی
اعتراض نہیں ہو گا لیکن اس وقت وہ آئین سے تجاوز کر کے خو د کو آئین سے بغا
وت کا مرتکب نہ ٹھہرائیں ۔عوامی عدالت بڑی بے رحم عدالت ہے اور اس میں بڑے
بڑوں کو چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ہے ۔اس کھیل میں عدلیہ کوبھی آٹے دال کا
بھاﺅ خود ہی معلوم ہو جائےگا کیونکہ سیاست اتنا سیدھا اور آسان کھیل نہیں
ہے جتنا دور سے نظر آتا ہے۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکنے سے
احتراز کیا جانا ضروری ہے ۔عدلیہ مخصوص ایجنڈے اور حکمتِ عملی پر فیصلے
کرنے لگ جائے تو پھر آئین و قانون ثا نوی حیثیت اختیار کر جا تے ہیں جو کہ
انصاف کے اصولوں کا خون ہو تا ہے۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو تو ہینِ
عدالت کا نوٹس جاری کرنا جمہوری نظام لپیٹنے کے مترادف ہے۔کچھ افراد ذاتی
عداوت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ انھیں یہ بھی ہوش نہیں رہتا کہ وہ کیا
کر رہے ہیں۔ جگ ہنسائی میں ہم بڑے ماہر ہیں اور ایسا کوئی موقعہ ہاتھ سے
نہیں جانے دیتے جس سے ہماری جگ ہنسائی میں کوئی کسر باقی رہ جائے۔ پوری
دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں وزیرِ اعظم کی رخصتی سپریم کورٹ کے
احکامات کی بدولت عمل میں آئی ہے۔ کیا پوری دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جہاں
پر عدالتیں اس طرح کی کاروا ئیاں ڈالتی ہیں ؟پاکستانی عدالتوں نے اب توہینِ
عدالت کا نیا نظریہ ایجاد کر لیا ہے اور اسی کی بنیاد پر پارلیمنٹ کو جو کہ
عوامی رائے کی حقیقی ترجمان ہو تی ہے اس کے بڑی بے رھمی سے لتے لے رہی
ہیں۔ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ اس طرح کی مہم جوئی کے خلاف
قانون سازی کرنے کی کوشش کرتی ہے تو عدلیہ آئین و قانون کی بالا دستی کے
نام پر ایسے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دے دیتی ہے۔
اس میں شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں کہ تخلیقِ پاکستان کا عظیم الشان
کارنامہ عوام کی بے بہا قربانیوں کی بدولت ظہور پذیر ہوا تھا۔فوج اور عدلیہ
کا پاکستان کے قیام میں کوئی کردار نہیں تھا ۔ پاکستان کی تخلیق ووٹ کی قوت
سے ظہور پذیر ہو ئی تھی۔ ووٹ عوامی رائے کا سب سے بڑا اظہار ہو تا ہے اور
عوام نے قائدِ اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہو ئے اپنے لئے علیحدہ وطن کے
خواب کو سچ کر دکھایا تھا،عوامی طاقت ے اپنا سکہ جمایا تھا اور غیر جمہور ی
قوتوں کو شکست سے ہمکنار کر کے عوامی قوت کو فخر و ناز عطا کیا تھا۔
جمہوریت میں رائے ہی سب سے مقدم تصور کی جاتی ہے اور پارلیمنٹ اسی عوامی
رائے کی نما ئندگی کرتی ہے اور اپنے شہریوں کے لئے قانون سازی کا فریضہ سر
انجام دیتی ہے ۔کوئی ادارہ چاہے وہ جتنا بھی مقدس اور مضبوط ہو عوامی
نمائندگی کا دعوی نہیں کر سکتا کیونکہ اسے عوام منتخب نہیں کرتے۔ فوج ، بیو
وکریسی،عدالتیں،پولیس اور دوسرے سارے انتظامی ادارے پارلیمنٹ(عوامی
نمائندوں) کے احکامات پر عمل کرنے کے پابند بھی ہو تے ہیں اور اسے جواب دہ
بھی ہو تے ہیں لیکن حیران کن امر یہی ہے کہ پاکستان میں عدلیہ پارلیمنٹ کی
بالا دستی کو قبول کرنے سے انکار کر رہی ہے اور عوامی نمائندگی کی پہچان
وزیرِ اعظم کوان کے عہدے سے بر طرف کرنے کے بعد بھی انھیں یہ احساس تک نہیں
ہو رہا کہ ان سے کتنی بڑی غلطی سر زد ہو گئی ہے ۔ پاکستان میں پارلیمنٹ کا
تقدس جسطرح سے پامال ہوا ہے اس نے جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو بہت
زیادہ مایوس کیا ہے۔عدالتوں کی پیٹھ ٹھونکنے والوں کی ملک میں کمی نہیں ہیں
حا لانکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہیں کیونکہ کسی بھی ملک میں
پارلیمنٹ سب سے بالا دست ادارہ ہو تا ہے اور اس کی قانون سازی کے حق کو
کوئی بھی سلب نہیں کر سکتا۔ایسے جمہوریت دشمن افراد کا چونکہ موجودہ حکومت
کی ہر حال میں مخالفت کرنا مقصود ہے لہذا وہ عدالتوں کو ہلا شیری دے کر ان
کی پشت پناہی کر رہے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کے خلاف اپنی مہم جوئی میں
تندی پیدا کریں اور موجودہ حکومت کو غیر آئینی اقدامات کے الزامات کے تحت
فارغ کر کے امورِ سلطنت ان کے حوالے کریں۔اس طرح کے خواب پہلے بھی دیکھے
گئے تھے اور ان خواب دیکھنے والوں کا جو حشر ہوا تھا وہ بھی سب کے علم میں
ہے۔ایسے سارے کردار عبرت کی علامت بنے ہو ئے ہیں اور کوئی ان کا نام لینا
بھی گوارہ نہیں کرتا۔ سید سجادحسین شاہ کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ جی ہاں
وہی سید سجاد حسین شاہ جھنوں نے و زیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف سے 1998
میں پھڈے بازی کی تھی اور ایسی منہ کی کھائی تھی کہ انھیں آج تک کہیں پر
بھی جائے پناہ نہیں مل سکی۔سردار فاروق ا حمد لغاری اس فتنے کے سرخیل تھے
اور ذاتی اقتدار کے خواب دیکھ رہے تھے۔ سید سجاد حسین شاہ ان کے چکمے کا
شکار ہو گئے تھے اور اقتدار کے جھولے لینے کے فریب میں آگئے تھے۔منتخب وزیرِ
اعظم کے خلاف ان کی چیرہ دستیاں اب تاریخ کا حصہ ہیں جسے ہر جمہوریت پسند
شخص نے ہوسِ اقتدار کا نام دے کر ٹھکرادیا ہے۔کیا موجو دہ عدلیہ بھی اسی
راہ پر گامزن ہے ایک انتہائی اہم سوال کی شکل میں ہمارے سامنے کھڑا ہے؟ ہر
وہ شخص جو ذاتی حواہشات کی تکمیل کی خاطرآئین و قانون سے کھلواڑ کرتا ہے
اسے رسوا ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ صدرِ مملکت آصف علی زرداری پر بحثیتِ
سربراہِ مملکت یہ یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالا دستی
کےلئے اپنا کردار ادا کریں۔ عدلیہ ایک نئے شب خون کی راہیں کشادہ کر رہی ہے
اور حالات کو اس نہج پر لے جا رہی ہے جہاں پر طالع آزماﺅں کو گل کھلانے کے
مواقع میسر آ سکیں لہذا انھیں جرات مندانہ فیصلے کرنے ہو ں گئے اور پار
لیمنٹ کو ایک نئے شب خون سے بچانا ہو گا ۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی ہو
گی اور عدلیہ کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بنا نا ہو گا تاکہ عدلیہ اپنی
حدود میں رہے اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔۔ ۔۔ |