شیخ الاسلام کا تضادات سے بھرپور استدلالی خطاب۔ ۔ ۔

 عجب ہے تیری سیاست ،عجب ہے تیرا نظام ۔ ۔ ۔ ۔ حسین سے بھی مراسم ، یزید کو بھی سلام

انتخابات کا التوا یا کسی دیرینہ خواہش کی تکمیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایجنڈا کیا ہے

تیئس دسمبر کوحضرت شیخ الاسلام کینیڈا کے برف زاروں سے لاہور کے مرغزاروں میں تشریف لا کر جلسہ عام کر چکے ہیں،خود شیخ الاسلام اورمنہاجین کے دعوؤں کے مطابق شرکاءجلسہ کی تعداد بیس لاکھ تھی،جبکہ الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا سمیت خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کچھ اور ہی کہانی سنارہی ہے،میڈیا نے شرکاءکی تعداد ایک لاکھ سے دو لاکھ اور خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار تھی،بہرحال اِس میں کچھ شک نہیں کہ میڈیا پراربوں روپئے کی اشتہاری مہم،تعارفی کالمز،پے درپے پلانٹڈ انٹرویوز اور شاہراہوں،گلی کوچوں میں آویزاں لاتعداد بینرز کے بعد شرکاءجلسہ کی تعداد زیادہ تھی،مگر اتنی بھی نہیں کہ اُسے بیس لاکھ قرار دیا جاسکے،اِس حوالے سے ہم فیس بک کی ایک دلچسپ پوسٹ جسے ”طاہرالقادری کی کرامت سے تشبہہ دی گئی ہے“ کا تذکرہ ضرور کرناچاہیں گے،پوسٹ کے مطابق میدان عرفات اور منیٰ کے بالترتیب چودہ اشارعہ اور ساڑھے پندرہ کلومیٹر ایریا کے اندر حج کے دوران 35 لاکھ حجاج سماسکتے ہیں لیکن مینار پاکستان کے تین کلومیڑ ایریا میں بیس لاکھ منہاجی سما گئے۔“یہ حضرت شیخ الاسلام کی کرامت نہیں تو اور کیا ہے۔

ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ” پیر خود نہیں اڑتا بلکہ مرید اڑاتے ہیں۔“ لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں،شیخ الاسلام کی بزرگی سے ایسا ممکن ہے،قارئین محترم! یہ تو چند جملہ معترضہ تھے، اصل بات یہ ہے کہ محترم طاہر القادری صاحب طویل عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہیں،وہ قوم کو بے یارومددگار چھوڑ کر نہ صرف پاکستان سے چلے گئے بلکہ وہاں کی شہریت بھی لے لی،ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف بھی اٹھا لیا،اِس وقت موصوف پاکستانی نہیں کینیڈین شہری ہیں،اب جبکہ الیکشن سر پر کھڑے ہیں تو شیخ الاسلام کو اچانک وطن کی یاد ستائی،تشریف لائے اور حکم دیا” ناہنجارو تین ہفتوں میں سب ٹھیک کر دو،ورنہ میں اپنے لشکریوں کے ساتھ آ رہا ہوں۔“اورہماری کم نصیبی دیکھئے کہ کینیڈا کا ایک شہری ہمیں تین ہفتوں کا الٹی میٹم دے رہا ہے کہ” انسان بن جاؤ ورنہ میں اپنی ایک عدد بغل بچہ مجلس مشاورت کو پارلیمنٹ کا نام دے کر تمہاری تقدیر کے فیصلے کروں گا۔“باالفاظ دیگر ایک اور غیر ملکی پاکستان کی سیاست اور معاملات میں دخل دے رہا ہے،حضرت سے قبل ایک برطانوی شہری بھی 20 سال سے یہی کام کر رہے ہیں،لیکن طاہر القادری نے یہ منصب ابھی نیا نیا سنبھالا ہے،آپ کو یاد ہوگا،بات بھی زیادہ پرانی نہیں جب 12 اکتوبر1999 میں پرویز مشرف نامی’ ’مردحق“ نے انقلاب نو کا پرچم لہراکرجمہوریت پر کاری وار کیا تھا اور ایک نیک وپاکباز ”سیاست“ کی بنیاد ڈالی تھی تو حضرت شیخ الاسلام پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی تھی،اُس وقت محترم نے قوم کو بتایا تھا کہ وہ جس مسیحا کی راہ دیکھ رہی ہے،وہ مسیحا”پرویز مشرف“کی شکل میں آچکاہے اورجب ہماری تاریخ کے سب سے شرمناک ریفرنڈم کا ڈنکا بجا تو موصوف اِس والہانہ پن کے ساتھ دوڑ میں شامل ہوئے کہ باقی سب منہ دیکھتے ہی رہ گئے اور جناب مشرف کے سایہ _شفقت تلے2002 کے انتخابات میں قومی اسمبلی جا پہنچے،نا جانے یہ کس سرگوشی کا اثر تھا یا کسی خواب کی بشارت یا پھر کوئی غیبی اشارہ تھا کہ حضرت کے دل میں وزارت عظمیٰ کا چراغ جگمگانے لگا،مگر کیا کریں کہ مسلم لیگ (ق) پیا کو بھا گئی،یوں آرزؤ دیرینہ کی ناکامی اور وزارت عظمیٰ کے خواب بکھرنے سے دل برداشتہ ہوکر حضرت اپنے مردحق اور نجات دہندہ سے ہی نہیں اسمبلی سے بھی بیراز ہو گئے اور دو سال بعد ایک ضخیم مسودے کی صورت میں”سیاست پر لاکھ لعنت“ بھیج کر استعفیٰ دے کرپاکستان کی سیاست و معاملات سے دست بردار ہو گئے ۔

اور حضرت اہل پاکستان سے لاتعلق ہوکر کینیڈا کے گوشہ عافیت میں جا بیٹھے،اِس دوران انہوں نے یہاں کی سیاست،نظام حکومت اور مسائل کی چکی میں پستی عوام کے مسائل کے حوالے سے مکمل لاتعلقی اختیار کیے رکھی،اب اچانک انہیں احساس ہوا کہ ریاست کا وجود خطرے میں ہے،ظالمانہ نظام نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے، تبدیلی کا وقت آن پہنچاہے،چنانچہ وہ ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ “کا نعرہ لگاتے ہوئے 21 دسمبر کو پاکستان تشریف لے آئے،عین ممکن ہے کہ زور شور سے موصوف کی اچانک آمد کے پس پردہ کسی خواب،بشارت یاکسی غیبی اشارے کا ہاتھ کارفرما ہو،مگریوں اُن کی اچانک واپسی مادی فکر رکھنے والوں کے ذہن میں شکوک وشبہات پیدا کر رہی ہے جو کہ بلا جواز بھی نہیں ہے۔23دسمبر کو جلسہ عام سے پہلے موصوف نے اپنے متعدد انٹرویوز اور اخباری بیانات میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ 23دسمبر کو مینار پاکستان کے جلسہ عام میں ملک بچانے کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے اور ریاست بچانے کیلئے سیاست کو طویل عرصے کیلئے کسی گہری قبر میں دفن کر دیں گے،مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا،اپنی پونے دو گھنٹے کی تقریر (جس میں شرکاءجلسہ کی عصر اور مغرب کی نمازیں ضائع ہوئیں اور بقول شیخ الاسلام انہوں نے عصر کی نماز جلسہ گاہ میں آنے سے قبل گھر پر ادا کی،جبکہ تین بجکر پانچ منٹ پر جب انہوں اپنی تقریر کا آغاز کیا تو لاہور میں عصر کا وقت شروع بھی نہیں ہوا تھا) میں انہوں جو باتیں کیں،اُس میں ایسے کسی لائحہ عمل کا اعلان شامل نہیں تھا،عوام کیلئے اُن کی باتیں نہ تو نئی تھیں اور نہ ہی چونکا دینے والی،سب زیادہ حیرت انگیزبات یہ تھی کہ زندگی بھر ”مصطفوی انقلاب “ کا پیغام دینے والے اِس داعی نے اپنی پوری تقریر میں اُس انقلاب کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔

کہتے ہیں کہ جناب طاہر القادری شیخ الاسلام ہی نہیں،علامہ، ڈاکٹر،پروفیسر،مدبر،مفکر،فقیہ اورصاحبِ کشف و کرامات بزرگ بھی ہیں، لہٰذا یقینا انہیں علم ہوگا کہ قومی اصلاح کا عمل ارتقائی ہوتا ہے،جو طویل، کٹھن اور صبرآزما جدوجہد کے بعد ہی وقوع پزیر ہوتا ہے،مگر انہوں نے اِس عمل کیلئے حکومت کو صرف تین ہفتوں کی مہلت دی جو کہ ناممکن اَمر ہے،لہٰذااِس ساری واردات کا حاصل یہی سوال ٹہرتاہے کہ حضرت شیخ الاسلام کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔؟وہ کیا چاہتے ہیں اور کیوں عرصہ دراز کے بعد پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کرنے کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔؟اِن سوالات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ شیخ الاسلام کا جلسہ بلاشبہ غیر معمولی تھا لیکن کیا جلسوں کی بنیاد پر امور ریاست طے پاتے ہیں۔؟جلسہ کتنا ہی کامیاب کیوں نہ ہو جائے لیکن کیا وہ انتخابات کا متبادل بن سکتا ہے؟ کیا مریدین اور وابستگان کے ہجوم کو پارلیمنٹ کا نام دیاجا سکتا ہے؟اگر شیخ الاسلام کو مقبولیت کا اتنا ہی خمار ہے تو انتخابات میں آئیں،الیکشن لڑیں،جیتیں،حکومت بنائیں اور اپنے چالیس لاکھ ووٹرز کی مدد سے نظام حکومت بدل ڈالیں،یقین جانئے ملک میں اُسی روز انقلاب آ جائے گا،مگر شیخ الاسلام کے اندازواطوار بتاتے ہیںوہ بہت جلدی میں ہیں،شاید انہیں خوش فہمی ہوگئی ہے کہ جب وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے تو حکومت اُن کے قدموں میں ڈال دی جائے گی۔؟جبکہ ہمارا ماننا ہے کہ ایک جلسے کی بنیاد پر ملک کا سیاسی نظام تہہ و بالا کر دینے کی خواہش اتنی پر اسرار تو ہے کہ شیخ الاسلام جیسی معتبر شخصیت کو بھی جلسے میں اپنی گفتگو سے پہلے خدا کی قسم اٹھا نا پڑی کہ اُن کے پیچھے کسی ایجنسی کا ہاتھ نہیں،کسی بیرونی ایجنڈے کے تحت وہ پاکستان نہیں آئے اور نہ ہی کسی نے انہیں فنڈنگ کی ہے ۔

بلاشبہ محترم طاہر القادری ایک اچھے اورقادر الکلام مقرر ہیں،مگر مثالیت پسندی میں وہ بہت دور نکل جاتے ہیں،فرماتے ہیں کہ قطعی شفاف انتخابات کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کو سرمایہ داری کی لعنتوں سے پاک کیا جائے، ہر آدمی کو انصاف میسر ہو، کرپشن کی جڑ کاٹ دی جائے وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی معاشرہ برائیوں سے پاک ہو جائے اور اُس میں ہر طرف نیکیوں کا چلن ہو تو پھر اُس نظام کی ضرورت ہی کیا رہ جائے گی جو انتخابات کی صورت میں وجود میں آتا ہے، کیا وہ معاشرہ خود اپنے لیے ایک موزوں سیاسی نظام وضع نہیں کرسکتا۔؟ جناب شیخ الاسلام صاحب سے یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ جب موجودہ حکومت آپ کے نزدیک قابل اعتماد نہیں اور اپوزیشن بھی اِس قابل نہیں کہ زمام اقتدار اُس کے ہاتھ میں دی جا سکے تو عبوری نگران حکومت کتنی غیر معینہ مدت کے لیے ہمارے سروں پر مسلط رہے گی..... اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اُس کا مینڈیٹ کون دے گا،محترم شیخ الاسلام کے اس مطالبے کہ فوج اور عدلیہ کو بھی نگران حکومت میں شامل کیا جائے،بہت سے شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے ، کیا اُس سے ”نجات دہندگی“ کا وہ دور ایک بار پھرلوٹ نہیں آئے گا جس کا طوق گردن سے اتارنے کے لیے قوم مسلسل جدوجہد کرتی چلی آ رہی ہے، جناب شیخ الاسلام صاحب نے مناظرانہ انداز میں بار بار دستور پاکستان کے اوراق سے مختلف شقوں کے حوالے دیئے مگر یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ نگران عبوری حکومت کے تقرر کے اختیار میں فوج،عدلیہ اور نمائندگی سے محروم سیاسی جماعتوں کو کس آئینی شق کے تحت شامل کیا جائے؟ کیا اُن کا یہ مطالبہ جمہوریت اور دستوریت کے سراسر منافی نہیں ہے۔؟

محترم شیخ الاسلام نے آئین کی رو سے ثابت کیا ہے کہ ایک حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد 90 دن کے اندر نئے انتخابات کرانا ضروری نہیں،انتخابی عمل کو آئینی بنانے کے لیے خواہ جتنے وقت کی ضرو رت ہو لیا جائے،یعنی یہ وقت برسوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے، کیونکہ انتخابی عمل کو آئینی بنانے کے لیے انہوں نے جو شرائط پیش کی ہیں،وہ چند سالوں میں شاید ہی پوری ہوسکیں،محترم شیخ الاسلام کی تقریر سے محسوس ہوتا ہے کہ اُن کا ایجنڈا” انتخابات منسوخ یا ملتوی “کرانا ہے،تاہم انہوں نے اپنے اصل عزائم کی پروہ پوشی کرتے ہوئے یہ بات کسی اور ڈھنگ سے کہی،لیکن مطلب صاف،واضح اور عیاں تھا کہ اِسے انتخابات ملتوی کرانے کا ایجنڈا ہی کہا اور کیا سمجھا جائے گا،مزید فرماتے ہیں ” جب تک ملک میں آئین کے تحت نظام قائم نہیں ہوتا،انتخابات بھی آئینی نہیں ہو سکتے،لیکن اگر اِس کے باوجود انتخابات کرائے جائیں تو یہ انتخابات غیر آئینی ہوں گے اور ہم اُس کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔“ انہوں نے کہا کہ انتخابات شفاف ہونے چاہئیں، آئین کی شق 63,62 پر عمل کیا جائے اور حکومت انتخابات سے قبل اپنا نظام درست کرے،جس کیلئے انہوں نے حکومت کو صرف 10 جنوری تک کی مہلت دی،18 دن میں اُن کا مطلوبہ نظام نافذ نہ ہوا تو شیخ الاسلام نے اسلام آباد کے محاصرے کی دھمکی دیدی،اُن کا کہنا ہے کہ 14 جنوری کو 40 لاکھ عوام اسلام آباد میں جمع ہوں گے جسے انہوں نے عوام کی پارلیمنٹ کا نام دیا،ہمارا ماننا ہے کہ ان کے مطالبات خواہ کتنے ہی اہم اور ضروری کیوں نہ ہوں لیکن صرف 18 دن میں جو مطلوبہ تبدیلی وہ چاہتے ہیں نہیں آسکتی۔

ایسی صورت میں کیا پارلیمان کا گھیراﺅ کیا جائے گا۔؟ ارکان اسمبلی بقول شیخ الاسلام لٹیروں کو پارلیمان میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا،پرامن رہتے ہوئے یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے،صحیح جواب تو شیخ الاسلام ہی دے سکتے ہیں،مگر گمان یہی کیا جا رہاہے کہ اچانک ایسی مہم چلانا بغیر کسی بیرونی طاقت کی پشت پناہی کے ممکن نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ محترم شیخ الاسلام کے خطاب میں کئی تضادات تھے اوراُن کا استدلالی انداز بہت سے داخلی تضادات کا آئینہ دار ہے،وہ انتخابات کے لیے مثالی اصلاحات اور کڑی شرائط عائد کرتے ہیں مگر خود اِن شرائط پر پورا نہیں اترتے،اسی طرح سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر وہ انتخابی عمل میں خود کو شامل ہی نہیں کرنا چاہتے تو پھر وہ جیسی بھی اصطلاحات لے آئیں،اپنی قیادت سے عوام کو کس طرح فیض یاب کرسکیں گے۔؟دراصل شیخ الاسلام جو راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں،وہ ایک ایسا خواب ہے ،جس کی تعبیر موجودہ نظام کی تباہی اور اُس فوجی آمریت کی شکل میں نظر آتی ہے،جس کے کاندھوں پر سواری کرکے حضرت شیخ الاسلام وزات عظمیٰ کی دیرینہ منزل تک پہنچناچاہتے ہیں، حیرت انگیز بات ہے کہ شیخ الاسلام نے ایک ایسے وقت میں انتخابی نظام کی تبدیلی کا راگ الاپاہے جبکہ پہلے ہی بہت کچھ بد ل چکا ہے،ملک میں ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن موجود ہے،جس کی پشت پر آزاد عدلیہ کھڑی ہے،ووٹر لسٹیں صاف شفاف بنائی جارہی ہیں،جہاں حلقہ بندیوں میں دھاندلی کی شکایات تھیں،انہیں ٹھیک کرنے کا حکم جاری ہوچکا ہے،فوج اِس وقت بالکل غیر جانب دار ہے،لہٰذاا نتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے،ایسے حالات میں شیخ الاسلام اور کیا چاہتے ہیں؟ سمجھ میں نا آنے والی کوئی بات نہیں۔

اِس وقت پاکستان کا سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور قابل ذکر سیاسی قائدین اس بات پر متفق ہیں کہ بروقت انتخابات کے سوا کوئی چارہ کار نہیں،یہی آئین اور پاکستان کے وسیع تر مفادات کا تقاضا ہے، کیاا ِس قومی اتفاق رائے میں شیخ الاسلام اور اُن کی حمایت کنندگان کو رخنہ ڈالنے کی اجازت دی جا سکتی۔؟ہمارا ماننا ہے کہ یہ وقت اِس قسم کے مسائل میں ا_لجھنے اورنئے پنڈورا بکس کھولنے کا نہیں ہے ، وطن عزیر کو سیاسی بے یقینی،بد امنی اور معاشی انحطاط نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے،لہٰذا پاکستان کی وحدت و سا لمیت کا تقاضا یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کی راہ میں منفی تعبیرات و توجیہات کے کانٹے بچھانے کے بجائے لوگوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی جائے،انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہی اِس ملک کے اصل مالک ہیں اور اپنے ووٹ کی طاقت اور درست استعمال سے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں،لہٰذا عوام کے اِس بڑھتے ہوئے سیاسی شعور کے راستے میں اب کسی رکاوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے،وہ دن دور نہیں جب عوامی شعور اور تبدیلی کی خواہش کا یہ سیلاب بہت کچھ بہا لے جائے گا،لیکن اِس کے لئے اگر کسی غیر جمہوری اور ماروائے آئین حل کی راہ دکھائی گئی تو ملک ایک بار پھر کسی طالع آزماء کی آمریت کا شکار ہوکر جمہوری عمل سے دور جاسکتا ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357806 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More