بے یقینی کی کیفیت

عام انتخابات قریب ہیں۔ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کے لیے انتظامی پہلوﺅں کو سلجھارہی ہے۔ نگراں حکومت کے لیے ناموں پر غور ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں۔ اسمبلیاں تحلیل ہو تے ہی ملک بھر میں جلسے جلوس شروع ہو جائیں گے۔ سیاسی قائدین اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کریں گے۔ امیدوار حلقہ انتخاب میں عوام سے قریب تر ہوںگے اور وہی ووٹ کا مطالبہ ہوگا جو ہر انتخاباتِ زمانہ میں عوام سے ہو تا رہا ہے۔

الیکشن کی تیاریاں کس انداز سے جاری ہیں اور امیدوار کیا رویے اختیار کریں گے؟ یہ ذکر کرنا مقصود نہیں۔ یہاں اس کیفیت کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں جو نفرت اور انتہا پسندی کا موجب بنی ہے۔

بلوچستان کے ضلع تربت کا رہائشی طالب علم جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات میں زیر تعلیم ہے۔ ایک مجلس میں مِسنگ پرسنز (لاپتہ افراد) کے معاملے پر گفتگو شروع ہوئی۔ جواں سال طالب علم کا کہنا تھا کہ” بلوچ عوام بنیادی ضروریات سے محروم زندگی گزار رہے ہیں “اور مزید یہ کہ” سیکورٹی ادارے بھی ہمارے ساتھ امتیازی رویہ روا رکھتے ہیں“۔ انہوں نے بلوچستان کی پسماندگی سے لے کر بلوچوں کے ساتھ رو نما ہو نے والے زیادتیوں کے واقعات مفصل بیان کیے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک و قوم میں علیحدگی پسند نظریات کیسے پروان چڑھتے ہیں؟ یہ صورتحال صرف بلوچستان کی حد تک محدود نہیں بلکہ اندرونِ سندھ بھی یہی سوچ فروغ پا رہی ہے۔

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والا بی ڈی ایس ڈاکٹر کراچی کے ایک ڈینٹل کلینک میں فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ ملاقات کے دوران ملکی صورتحال پر گفتگو کر تے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ” وفاق سمیت ہر ادارہ سندھ کے ساتھ زےادتی کر رہا ہے۔ جو سہولتیں پنجاب میں میسر ہیں، اہلِ سندھ اُس سے محروم ہیں۔ سندھی عوام کو تحفظ اور حقوق سندھ کی ”آزادی“ سے ہی مل سکتے ہیں۔“

یہ پاکستان کے وہ صوبے ہیں جہاں علیحدگی پسند تحریکیں تقویت پا رہی ہیں۔ یہاں پسماندہ طبقات سے لے کر عقل و شعور کے حامل افراد بھی ان تحریکوں سے متاثر نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں علیحدگی پسند تحریکوں کے اثرات سرایت کر جانے پر حیرانگی کی ضرورت نہیں۔ یہ صورتحال ہم نے خود پیدا کی ہے۔ اس کی تمام ترذمہ داری ہم پر عائد ہو تی ہے۔

بلوچ عوام احساس محرومی کا شکار ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ریاست ہمیں حقوق دے۔ ہمیں بنیادی ضرورتِ زندگی فراہم کی جائیں۔ کیا حکومتیں اس لیے بنتی ہیں کہ کامیاب پارٹی کے نامزد ارکان پانچ سال تک عیش و عشرت کی زندگی گزاریں؟ وزراءسہولتوں سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد حکومتی مدت کے اختتام پر یہ کہہ کر فارغ ہوجاتے ہیں کہ ہمیں کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ حزب اختلاف کی تنفید کا جواب دینے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن انہیں فرصت نہیں ملتی کہ بلوچستان کی پسماندگی پر غور کیا جائے۔

بلوچ عوام کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے، سوئی گیس کی ضروریات پورے ملک میں بلوچستان سے پوری کی جارہی ہیں لیکن وہاں گیس، بجلی، پانی کمیاب ہیں، تعلیم اور علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان ہے۔ ذرائع آمدورفت کے لیے سڑکیں ناپید ہیں، سیکورٹی اداروں پر بلوچ عوام کی طرف سے عدم اعتماد پایا جاتا ہے۔

ادھر اہلِ سندھ دریائی پانی پر تحفظات کا شکار ہیں، احساس کمتری نے صوبے کے عوام کو علیحدگی پسند تحریکوں کی طرف مائل کرلیا ہے۔ لوگوں میں قوت برداشت کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے، صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اپنے علاقوں میں کسی غیر قوم یا صوبے کے فرد کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ان حالات سے ملک دشمن بیرونی ایجنسیاں بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں، وہ علیحدگی پسندوں کو ہینڈل کر کے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔

یہ غور طلب پہلو ہے، ہمارے قومی رہنما اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں، پارٹی بازی کی سیاست ملک و قوم کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں، بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے۔ ہم قوم اور پارٹی کی بنیاد پر تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر علیحدہ صوبوں کے مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ملک میں انقلاب برپا کرنے کے دعویدار اگر ان مسائل پر توجہ مرکوز نہیں کر تے تو سینکڑوں جلسے کریں اور لاکھوں ووٹ مانگیں لیکن ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ملک میں بے یقینی کی کیفیت برقرار رہے گی۔ اضطراب و مایوسی کی فضا کو اعتماد و یقین میں بدلنے کی ضرورت ہے۔
Farooq E Azam
About the Author: Farooq E Azam Read More Articles by Farooq E Azam: 1317 Articles with 1028511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.