اکیسویں صدی کا ہولوکاسٹ اور مفتی اعظم

دنیا بھر میں افغانستان سے برما تک اور کابل سے غزہ تک یہود و ہنود نے مسلمانوں پر قیامت صغری مسلط کررکھی ہے۔ امت مسلمہ کی بے حمیتی تساہل پرستی اور مغرب نوازی کے کارن مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ دکھ تو یہ ہے کہ پچھلے دو مہینوں میں اسرائیل نے غزہ میں اور برما کے فرعون آمروں نے ہزاروں مسلمانوں کو پھڑکا دیا۔یہود و ہنود نے نائین الیون کے بعد کابل لیبیا بغداد فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کے مقدس زرغونی خون سے روئے ارض کی تاریخ کے ہزاروں ایسے خونیں باب رقم کئے کہ خود تاریخ بھی خون کے آنسو بہانے لگی۔ مسلمانوں کو روزانہ ازیت ناک خبروں کے ڈرون میزائل تلے مرنا پڑتا ہے۔ دکھ تو یہ بھی ہے کہ امریکہ اسرائیل اور انکے خونخوار ساتھیوں کے علاوہ مسلمان خود ایک دوسرے کو زبح کررہے ہیں کبھی تحریک طالبان پاکستان کے بم دھماکوں میں لاشوں کی چیخیں دل کو لرزا دیتی ہیں اور کبھی شام میں باغیوں اور بشار الاسد کے رجال کاروں کے کارنامے ہمیں بے شرمی کے قبرستان میں درگور کردیتے ہیں۔ ابھی غزہ کی جنگ بندی فائنل نہیں ہوئی تھی کہ برمی مسلمانوں کی دلدوز چیخیں کانوں میں ایٹم بم بن کر پھٹنے لگیں۔ امریکی صدر اوبامہ کی جیت پر مسلم ریاستوں میں خیر سگالی کے گیت گائے گئے۔ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کی 80 ٪سے زائد ابادی نے اوبامہ کو ووٹ دئیے۔ اوبامہ نے مسلم دنیا کے تشکر کی بجائے الٹا ہمارے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا۔ غزہ میں ایک طرف اسرائیلی سورما غزہ کے معصوم بچوں پر موت کے جراثیمی ہتھیار برسائے جارہے تھے تو اوبامہ دوسری طرف جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے سیرسپاٹوں میں برمن ڈکٹیٹرز کے ساتھ جام ٹکرانے میں مصروف تھے۔ اوبامہ نے دوسری ٹرم کا صدارتی ہما پہنا تو فوری بعد اسیان اجلاس میں شرکت کی اور ساتھ ہی برما تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کاولولہ انگیز دورہ کیا۔ ہومین رائٹس کمیشن میڈیا اور دیگر تنظیموں نے اوبامہ کی برما امد پر شدید احتجاج کیا کیونکہ برما ڈکٹیٹڑشپ کی جبریت میں ڈوبا ہوا وہ خطہ ہے جہاں مسلم اقلیتوں کو چن چن کر ہلاک کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلنا آمریت کے پجاریوں کا من پسند مشغلہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپرپاور کے انصاف کش سربراہ بے کس و ناکس مسلمانوں کے قتل عام پر اسیان اجلاس میں برمن دیوتاوں کو تنقید کا نشانہ بناتے۔ اقلیتوں کے خلاف سنگین جرائم کی روشنی میں عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرنے کی حمایت کرتے مگر اوبامہ نے نہ تو برمن جرنیلی صدر کی مسلمانوں پر مسلط استبدادیت پر دوحرف بھیجے اور نہ ہی قتل عام کی مذمت کی۔ اوبامہ نے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق مجذوب مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے کے پندو نصائح کی تبلیغ شروع کردی۔ اس پر طرہ یہ کہ اوبامہ نے آمریت بازوں کی خود ساختہ اصلاحات کو جمہوریت سے تشبیہہ دیکر جمہوریت کا خون کیا۔ اگر انسانیت کے نام نہاد عالمی گرگے اور سپرپاور کے جگے قاتلوں کی پشت پناہی پر کمر کس لیں توپھر برما کے روہنگیائی مسلمان انصاف کی توقع کہاں سے اور کیسے کرسکتے ہیں؟ برما میں مسلمانوں کا ہولوکاسٹ ہورہا ہے۔برما میں ہٹلر کے ہولوکاسٹ کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ہٹلر نے پچھلی صدی میں یہودیوں کی نسل کشی کی تھی جبکہ اکیسویں صدی میں ہولوکاسٹ کا ایوارڈ برمن صدر کو جاتا ہے۔ ایسی سطوت چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہوگی کہ کس بیدردی کے ساتھ بچوں عورتوں اور ضعیف العمر مسلمانوں کے سر قلم کئے گئے بستیوں کو خاکستر کرکے صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔ امریکہ اور اسکی لونڈی یو این او نے12 سالوں سے برما پر کئی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں مگر اوبامہ نے بیک جنبش قلم ساری پابندیوں کو ختم کرکے ایک طرف امریت کو دوام بخشا ۔دنیا کا کوئی باضمیر انسان اوبامہ کے اقدامات کو داد تحسین نہیں دے سکتا۔ مئی میں برمن صوبے راکھین میں بدھووں نے حکومتی سرپرستی میں روہنگیائی مسلمانوں کا قتل عام شروع کیاتو حکومتی قاتلوں نے خون ریزی سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور ان فسادات کو مسلمانوں کی دہشت گردی اور گروہی افراط و تفریط سے جوڑ ا۔ آمریت کے کارپردازان کی اس میڈیا وار کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں اس وقت ٹوٹ گئی جب ہیومن رائٹس واچ نے سٹیلائٹ فلم میں سارے سربستہ رازوں کا پردہ فاش کیا۔ فلم کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے انسانیت سوزمظالم کی براہ راست نگرانی برمن فورسز نے کی۔ہیومن رائٹس نے انکشاف کیا کہ سکیورٹی فورس نے مغربی ریاست راکھین میں مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کررکھی ہے۔ ہومن رائٹس واچ کی ڈاکو منٹری فلم میں تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں جن میں روہنگیا کے تین دیہاتوں میں مسلمانوں کے قتل عام اور گھروں بستیوں اور مسلمانوں کی املاک کو تباہ و برباد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے ڈرائکٹر بریڈ ایڈم نے پریس کانفرنس میں صف ماتم باندھا کہ برمی افواج نے روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کا گھناوئنا فعل انجام دیا۔ ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے سرخیلfull roberts نے تھائی لینڈ میں55 صفحات پر مشتعمل رپورٹ ریلیز کی ہے کہ برمن صدر سابق ارمی چیف تھین سین کی رگوں میں مسلمانوں سے نفرت و تعصب کی اگ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ موصوف صدر ڈھٹائی کے ساتھ برملا ٹرٹراہٹ کرتے رہے ہیں کہ شورش زدہ علاقوں میں امن کی خاطر مسلمانوں کو یا توملک بدر کردیا جائے یا انہیں مہاجر کیمپوں کے زندان میں ڈال دیا جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنی رپورٹ میں تھین سین کی منافرت بھری سوچ کو لمحہ فکریہ قرار دیا۔ تجزیہ نگار اور دفاعی ماہرین امریکی صدر کے پہلے دورے کو اہمیت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اوبامہ کے پہلے دور میں وائٹ ہاوس کی خارجہ پالیسی کی توجہ کا مرکز مڈل ایسٹ اور افغانستان تھے مگر اوبامہ کے دورے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ سارے ایشیا کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ امریکی صدر کے مشیر قومی سلامتی تھامس ای ڈونکین نے کہا تھا کہ شمالی مشرقی ایشیا میں کافی سرمایہ کاری ہو چکی ہے اب ہم اسیان اور جنوبی ایشیا کی جانب توجہ دیں گے۔ نوبل انعام یافتہ ان سان سوچی نے برما میں جمہوریت کے احیا کی خاطر طویل قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کیا۔کم و بیش تمام مسلم ریاستوں نے سوان اچی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا بلکہ اسے جمہوریت کی چمپین کا نام تک دیا مگر افسوس تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیدار انکل سام کے ساتھ ساتھ چمپین نے بھی مسلمانوں کی خون ریزی کو فراموش کردیا۔ برما کل تک انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کے کارن عالمی سطح پر ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا رہا۔برما کے فوجی حکمران ہمیشہ کڑی تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔امریکی صدر نے جہاں برمن صدر کو بھائی بنا کر امریت کو نئی جہت عطا کردی وہاں اوبامہ نے آمروں کو کھلی چھوٹ دے دی کہ مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ امت مسلمہ برمن مسلمانوں کی نسل کشی پر ہوش کے ناخن لے۔ مسلم حکمرانوں کو انکل سام کے عزائم کا تجزیہ کرناچاہیے۔ امریکہ دراصل مشرق وسطی سے لیکر پاکستان اور ایران سے لیکر غزہ تک شیعہ سنی تضادات گروہ بندی نسلی منافرت کو ہوا دیکر نہ صرف ایران و پاکستان کی ایٹمی طاقتوں کو ختم کرنے کے درپے ہے بلکہ امریکی اور یہودی یک جان ہوکر مسلمانوں کے کبھی نہ ختم ہونے والے معدنی زخائر تیل و گیس کو ہغم کرنے کے قاتلانہ منصوبوں کو عملی شکل دینے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کی شام غریباں کا ہاٹ ایشو ملت اسلامیہ کے سرکردہ رہنماوں او آئی سی اور57 مسلم بادشاہوں کو دعوت فکر و عمل دے رہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو متحد و متفق ہوکر برما کشمیر غزہ کابل کے بے سائباں اور آمریت رسیدہ مسلمان بھائیوں کے قاتلوں کا ہاتھ روکنا چاہیے۔ سعودی مفتی اعظم کا بروقت انتباہ قابل غور و فکر ہے۔ مسلمانوں کو جب بھی ہزیمت اور زلت کا سامنا ہوا تو یہ اپنوں کی غداری بے وفائی اور یہود و ہنود کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی کامیابیوں کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ اس صورتحال میں مسلمان نہ تو اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں بچاؤ کی تدابیر پر غور کیا جاتا ہے۔ دشمنان اسلام کی سازشوں اور بدصورت عزائم کا بروقت تدارک نہیں کیا جاتا یوں مسلمان ہر دور میں یہود و ہنود کے دام ہمرنگ زمین جال میں پھنس جاتے ہیں۔ مفتی اعظم نے یوم عاشور پر پر سوز صدا بلند کی کہ مسلمان باہمی اختلافات سے باز رہیں۔ انہوں نے مڈل ایسٹ میں بدامنی کا الزام ایران کے سر تھوپنے کی امریکی خبر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر دہشت گردی کی طومار غلط ہے۔یہود و ہنود ایسی شرانگیزی پھیلا کر خلیجی ریاستوں کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم خطے کے عوام دشمنوں کی پیروی مت کریں۔ کیا خانہ کعبہ کے سجادہ نشین مفتی اعظم کے بروقت انتباہ اور اہ و بکا کی پیروی اسلامی دینی تہذیبی نقطہ نظر اور فرامین خدا کی روشنی میں مسلم حکمرانوں کے لئے لازم نہیں؟ ،۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140635 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.