رحمٰن ملک کا دورہ دہلی و اجمیرشریف

پاکستان کے وزیر داخلہ جناب رحمٰن ملک کا تین روزہ دورہ ہند (جمعہ 13دسمبر تا اتوار 16دسمبر)صحافتی اور سیاسی حلقوں میں خاصی گرمی پیدا کرگیا۔ان کے آنے سے پہلے ، ان کے قیام کے دوران اور ان کے جانے کے بعد جو بحثیں میڈیا میں آئےں ، جو خیالات سیاسی سطح پر ظاہر کئے گئے اور جو ردعمل سامنے آئے،ٍ ان سے اگر کوئی محتاط نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اصل مسئلہ حافظ سعید کا ہے جس کے بارے میں یہ وثوق سے کہا جاتا ہے کہ 26/11 کا دہشت گرد حملہ دراصل اسی کی کیا دھرا ہے۔ ایسا ہر شخص، چاہے وہ کوئی حافظ ہو یا مودی ہو، یقینا سزا کا مستحق ہے ،جو بے قصور افراد کے خون ناحق کا ذمہ دار ہو۔ انصاف کا تقاضا پورا ہونا چاہئے اور اس کا مطالبہ کرنے کا ہم کو پورا پورا حق ہے۔ہم ہر سطح پر اس حق کا پرزور استعمال کر بھی رہے ہیں، مگر لاحاصل۔

اس مرتبہ ہوا یہ ہے ہندستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی پاکستانی وزیر داخلہ نے ممبئی دہشت گرد حملے کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں اور بابری مسجد سانحہ کا بھی ذکر کردیا۔ انہوں نے دہلی ہوائی آڈے پر پہنچتے ہی کہا: ”ہم نہیں چاہتے کہ پھر کوئی 9/11 (ممبئی دہشت گردحملہ) ہو، کوئی سمجھوتہ ایکسپریس ہویا کوئی بابری مسجد جیسا معاملہ ہو اور ہم مل کر صرف ہندستان اور پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں قیام امن کےلئے کام کرسکتے ہیں۔“ اس کی جو وضاحت انہوں نے بعد میں کی وہ اپنی جگہ مگر شاید پاکستان سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے مطالبہ کرنے والوں کو وہ کہنا چاہتے تھے:
اتنی نا بڑھا پاکی دامن کی حکایت
دامن کو زرا دیکھ ، زرا بند قبا دیکھ

ہم رحمٰن ملک کے موقف کے موئد ہرگز نہیں۔ انصاف کے تقاضو ں کے تعلق سے کسی کا دامن کتنا ہی آلودہ کیوں نہ ہو، پاکستان کا قیام ’لا الہ الااللہ ‘ کے نعروں کے ساتھ ہوا تھا، دنیا چاہے جو کچھ کرتی ر ہے مگر پاکستان کو کچھ لحاظ اس بات کا کرنا چاہئے کہ اس کے نام کے ساتھ ”اسلامی“ جڑا ہوا ہے۔ قتل کے مجرم کے اگر پوری دنیا میں آزاد گھومتے رہتے ہوں، تو یہ اس کا جواز نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میںبھی ویسا ہی ہوتا رہے۔ پاکستان نے اب یہ تسلیم کرلیا ہے کہ 26/11 کی سازش سرزمین پاکستان پر رچی گئی، وہیں اس کی تیاری ہوئی اور اسی ملک کے باشندوں نے حملے میں حصہ بھی لیا، پھربھی مجرموں کے پیچھے پڑنے سے حکومت پاکستان گریز کی راہ اختیار کررہی ہے، آخر کیوں؟

ہمارے اس مطالبے کا دوسرا پہلو پر بھی غورطلب ہے۔دوسروں سے انصاف کے تقاضے پورا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہمارے سیاست دانوں اور سرکاری اہل کاروں کو اپنے نظام حکومت سے بھی یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ ان بدقماشوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو گزشتہ چھ دہائیوں سے اپنے ہی ملک کے ہزاروں افراد کی ہلاکت ، آبرو ریزی اور املاک کی تباہی کے خطاکار ہیں۔اگر ہم خودانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کوتاہیوں کے مرتکب ہیں تو یقینا دوسروں سے ہمارے مطالبوں میں وہ زور اور اثرپیدا نہیں ہوگا، جو ہم چاہتے ہیں۔اگر ہم امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کی روش اختیار کرنا چاہتے ہیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ دنیا اس کو قبول کرلے۔ اگر ہم خود کوتاہیوں کے بار گراں سے دبے ہوئے ہیں تو کچھ شرم خود بھی محسوس کرنی چاہئے۔ سنت کوی کبیر داس نے کیا خوب کہا ہے:
برا جو دیکھن میں چلا، برا نہ ملیا کوئے
جو من کھوجا آپنا، مجھ سے برا نہ کوئی
اور (غالباً) نشور واحدی کا ایک شعر جو کچھ اس طرح ہے:
جب بھی تنقید کسی پر کیا کیجئے
آئینہ سامنے رکھ لیا کیجئے

ہمارے سیاست دانوں کو یہ بات بری لگی کہ جب ذکر ممبئی دہشت گرد حملے کا ہورہا تھا توساتھ میں سمجھوتہ ایکسپریس اور بابری مسجد جیسے شرمناک اور دہشت گرد واقعات کا نام کیوں آگیا؟ خاص طورسے تکلیف بابری مسجد کے ذکر سے ہوئی اور گھما پھرا کر یہ بات کہی گئی کہ اس کا موازنہ کسی جرم کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا ؟نریندر مودی ، ارن جیٹلی اور جسونت سنگھ کا اس پر پھڑک اٹھنا سمجھ میں آتا ہے۔ سنگھی نظریہ برداروں کی نگاہوں میں بابری مسجد کا انہدام دراصل کوئی جرم نہیں بلکہ’ قومی جذبات‘ کی تسکین کا وسیلہ ہے۔ چنانچہ یہ بات لوگوں کو اچھی نہیں لگی کہ بابری مسجد کے خطاکاروں کو سزا دلانے میں اس کی پہلو تہی پر کوئی انگلی اٹھائے، بھلے ہی اس واقعہ پر بیس برس گزرگئے ہوں ۔کیونکہ یہ ہمارا ”داخلی “اور ”قومی “معاملہ ہے۔بھلا رحمٰن ملک اس کو کیا سمجھیں؟

بابری مسجد کے خطاکار بھی چاہے اسی طرح آزاد کیوںگھوم رہے ہوں جس طرح پاکستان میں 26/11 کے خاطی گھوم رہے ہیں، لیکن یہ تو دنیا نے دیکھا ہے،بابری مسجد کے انہدام اور اس کے بعد کے سلسلہ واقعات میں ہماری نظر میں جو ’جرم‘ (ممبئی سلسلہ وار دھماکوں) کاہوا تھا اس کے مجرموںکو ہم دنیا بھر سے ڈھونڈ دھونڈ کر لے آئے تھے اور ان کو سزائیں بھی دلوادیں، رہے وہ لوگ جو مسجد کے انہدام کی سازش میں اور اس کے بعد مسلم کش ملک گیر فسادات میں ملّوث تھے ، توان کو کچھ لوگ بھلے ہی مجرم سمجھتے ہوں مگر’ قوم‘ کی نظروں میں تووہ’ ہیرو‘ ہیں، رہی چند لوگوں کے خلاف مقدموں وغیرہ کی کاروائی، تو اس کا تعلق صرف ووٹ بنک کی سیاست سے ہے۔ اس معاملے کے ساتھ جرم، سازش اور سزا جیسے الفاظ کبھی کبھی اقلیت کا ووٹ حاصل کرنے کےلئے جوڑدئے جاتے ہےں، ورنہ سفید کھدر کے اندر پوشیدہ بھگوا ضمیر اس خانہ ساز دہشت گردی کو خطاکب سمجھتا ہے ؟ہمارے ووٹ سے منتخب وزیر اعظم کی سرپرستی میںایک بڑا ” کلنک “ ہندستان کے کی دھرتی سے مٹادیا گیا ، جس کے بعد وہ سکون سے سوبھی گئے اور پھر جب ملک بھر میں فسادات ہوتے رہے تو ان کی زیر سرپرستی ساری انتظامیہ اونگھتی رہی۔ بھاجپاکو صرف اتنا کریڈت جاتا ہے کدال چلانے کےلئے بھیڑ اس نے جمع کی تھی، ورنہ اس ’کارنامے‘ کی بنیاد تو کانگریس نے ہی رکھی تھی۔ 23 دسمبر1949 کی رات میں جب مسجد کے صحن میںواقع چبوترے سے اٹھا کر مورتیاں مسجد کی محراب میں رکھی گئی تھیں ، اس وقت بھاجپا اور جن سنگھ کا تو نام و نشان بھی نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے یوپی کے وزیر اعلا گووند بلبھ پنت کو (جو بعدمیں مرکز میں وزیر داخلہ بنے اور ’بھارت رتن‘ ایوارڈ سے نوازے گئے) ایک خط لکھا تھا کہ اس سے ایک خطرناک روایت پڑ جائے گی، مورتیاں ہٹوادی جانی چاہیں۔ مگر فیض آباد کے ضلع کلکٹرمسٹرکے کے نائر کا حوصلہ دیکھئے ، انہوں نے یہ کہہ کر مورتیاں ہٹوادینے سے منع کردیا کہ ”ہوسکتا ہے یہ ایک غیر قانونی کام ہوا ہو، مگر اس تحریک کے پس پشت جو جذبہ اور بھاﺅناہے اس کو(قانون سے) کم نہیں سمجھنا چاہئے۔“ اور ہماری قومی قیادت نے اس دلیل پر خاموشی اختیارکرکے یہ نظیر قائم کردی تھی کہ آزاد ہندستان میںقانون کے تقاضوںسے زیادہ اہمیت جذبات اورخواہشات کو دی جائیگی۔ یہاں احتیاط کے طور پر ایک لفظ کا اضافہ اور کرلیجئے ۔اہمیت اکثریتی فرقہ کے جذبات کی ہوگی۔ رہے اقلیت کے جذبات اور احساسات تو تاریخ گواہ ہے ہر اس حکومت نے جو خود ان کے ووٹ سے قائم ہوئی ، ان کو پامال کرنے میں ہی لطف پایا ہے۔ ہمیں اب اس حقیت کو سمجھ کر اپنی حکمت عملی طے کرنی ہوگی اور اس میں اکثریتی فرقے سے کسی محاذ آزائی، حقارت اور عناد کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ خطاکار عوام نہیں ، سیاسی طبقہ ہے ۔ ہم کو ایک ایسی فضا بنانی ہوگی جس میں اکثریتی طبقہ ان ذیادتیوں کے خلاف ہمارے کاز کی تائید کرے اور یہ اسی وقت ہوگا جب ہم کمزور اور محروم طبقوں کو سینے سے لگائیں گے۔ بات میں بات نکلی تو کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم ذکر رحمٰن ملک کے دورہ ہند کا کررہے تھے۔

مسٹرملک کے دورے کا خاص ایجنڈا ویزا میں سہولتوں کے معاہدے کو جو ستمبر میں طے پایا تھا، نافذ کرنا تھا، جس کا نوٹی فیکیشن جاری ہوگیا۔ اب یہ سہولتیں 15جنوری سے دستیاب ہوجائیں گیں۔ ہرچند کہ یہ رعائتیں ضرورت سے کم ہیں، مگر ان کا خیر مقدم کیا جائے گیا۔ اس دوران ان کے بعض بیانات پر سیاست بھی کی گئی۔ مثلاً راجیہ سبھا میں بھاجپا لیڈر جسونت سنگھ نے مطالبہ کیا کہ دوطرفہ جامع مذاکرات کا سلسلہ فوراً بندکیا جائے۔ تاہم سابق خارجہ سیکریٹری کنول سبل نے کہا کہ مذاکرات جاری رکھنے پر غورہونا چاہئے۔ رائRAW کے سابق ڈائرکٹرمسٹر اے کے دولت نے مسٹر ملک کے ’قابل اعتراض‘ بیان کو نظرانداز کردینے کا مشورہ دیا۔ خود مسٹرملک نے کہا ہے کہ مذاکرات کے سلسلے پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان نے بھی کہا کہ مذاکرات جاری رہیں گے۔ ایک خاص بات یہ ہوئی مسٹر ملک نے پاکستان میں قید ہندستانی سرب جیت سنگھ کی بہن سے ملاقات کی اور ان کو اپنے ذاتی مہمان کی حیثیت سے پاکستان آنے کی دعوت دی۔ مگر افسوس کہ خیر سگالی کے اس قابل قدرمظاہرہ کا خاص ذکر میڈیامیں نہیںآیا۔ ایک خبر یہ آئی تھی کہ سرب جیت سنگھ کی رہائی کا اعلان پاکستان ایسے موقع پر کرنا چاہتا ہے جب وزیر اعظم ہند پاکستان میں موجود ہوں۔مسٹر ملک نے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو دورہ پاکستان کی دعوت کا اعادہ کیا ، مگر وہ ابھی تک تذبذب میں ہیں حالانکہ سفارتی حلقوں میں محسوس کیا جارہا ہے کہ ان کے دورہ پاکستان کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔

خوشی کی بات یہ ہے وزیر خارجہ سلمان خورشید کا ردعمل بڑامتوازن اورمثبت ہے۔ انہوں نے اس بات کوبجا طور پر اہمیت دی ہے کہ مسٹر ملک نے خود ہندستان آنے کی خواہش ظاہر کی تھی، وہ آئے اور اعلا سطح پر بات چیت کی اوریہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان (بیباکی کے ساتھ ) مذاکرات کوجاری رکھنا چاہتا ہے۔ انہوں نے اپنے دورہ پاکستان کے امکان سے بھی انکار نہیں کیا۔ بلکہ کہا کی تمام پڑوسیوں سے روابط بہتر کرنے کےلئے کام کریں گے۔ ادھر خود ہمارے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کم بولے۔جبکہ رحمٰن ملک برابر چہکتے مہکتے رہے۔یہ اچھا ہوا۔ شاید ان کے پیش نظر پاکستان کے عام انتخابات بھی رہے ہونگے۔ پارلیمنٹ میں مسٹر شندے نے انکشاف کیا کہ حافظ سعید کو جن معاملات میں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کئے جانے اور ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے رہا کئے جانے کا جودعوا رحمٰن ملک نے بار بار کیا وہ مبنی بر حقیقت نہیں۔ان مقدمات کی دستاویزات سے ظاہرہوتا ہے ان پر 26/11 کے معاملہ میں کوئی عدالتی کاروائی ہوئی ہی نہیں۔ امید ہے کہ رحمٰن ملک صاحب نے ’اپنی اس بے خبری ‘کو نوٹ کرلیا ہوگا اوران ثبوتوں کی بنیاد پر جو ہند نے فراہم کئے ہیں فوری کاروائی ہوگی۔ یہ سازش اگر ان کے بقول غیر سرکاری طور پر رچی گئی تو اس کی جانچ اور ذمہ داروں کی پکڑ کرنے میں مستعدی دکھائی جانی چاہئے۔ یہ بات اسی طرح دونوں ممالک کے مجموعی مفاد میں ہوگی جس طرح اجمل قصاب کی سزائے موت ۔

رہا جسونت سنگھ کا مطالبہ کہ مذاکرات بند کئے جائیں، تو ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا وہ اس مقصد کو پورا کیا جانا چاہئے جس کےلئے 26/11 کا حملہ ہوا تھا؟ ہمیں اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ خود ہماری ایجنسیاں سمجھوتہ ایکسپریس ، ممبئی حملے اور اس سے قبل بابری مسجد انہدام کی سازشوں کا سراغ لگانے یا سراغ مل جانے کے باوجوداس کی روک تھام میں ناکام رہی ہیں اور خود ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے کہ یہ ایجنسیوں کی ”ناکامی“ تھی یہ ”کچھ اور“ تھا۔ اس کے علاوہ اس ”ناکامی‘ ‘یا ”کچھ اور“ کےلئے ذمہ دار افراد کو سزا دلانے کا بھی کوئی عمل آج تک شروع نہیں ہوا ہے، ایسی صورت میں یہ توقع رکھنے میں ہمارے سیاست داں، صحافی اور دانشور کس حد تک حق بجانب ہیں کہ ہم خود اپنے گھر میں جو کچھ نہیں کرسکے، فوج کے رحم و کرم پر زندہ پڑوسی ملک کی کمزور حکومت وہ سب کچھ کرسکتی تھی مگر نہیں کیا؟

آخری بات: مسٹر رحمٰن ملک نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہوں پر بھی حاضری دی۔ ہم ان کی نیک دعاﺅں پر آمین کہتے ہیں مگر یاد رہے دعا وہی بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ہے جو صفائی قلب کے ساتھ کی جائے ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ کا قول ہے کہ دعا کی مقبولیت کےلئے ضروری ہے کہ خدا کا حق ادا کیا جائے، رسول کے طریقے کو اختیار کیا جائے ، ابلیس کی راہ پر نہ چلاجائے اور سب سے اہم یہ کہ دوسروں کے عیبوں کو تلاش کرنے کے بجائے خود اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھی جائے۔ (ختم)
Syyed Mansoor Agha
About the Author: Syyed Mansoor Agha Read More Articles by Syyed Mansoor Agha: 226 Articles with 180571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.